وجود

... loading ...

وجود
وجود

خواتین کے ساتھ دھوکا

بدھ 15 مارچ 2017 خواتین کے ساتھ دھوکا

گزشتہ دنوں عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی مخصوص لابی نے پاکستان میں حقوق نسواں کے مقدمے کو اس انداز میں پیش کیا گویا ملک کا سب سے اہم مسئلہ یہی ہے اور یہ بھی کہ پاکستان میں سب کے حقوق محفوظ ہیں سوائے عورتوں کے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی مجبوری ہے کہ عورتوںکو گھر کی محفوظ چار دیواری سے نکال کر بازار کی زینت بنادیا جائے، خواہ اس مقصد کے لئے معاشرے کی بنیاد خاندان ہی کو کیوں نہ تباہ کرنا پڑ جائے ۔ کتنا عجیب لگتا ہے ان لوگوں کی زبانوں سے حقوق نسواں کا لیکچر سننا جو عورت کو انسانیت کے مرتبے سے نیچے گراتے اور اسے بازاری جنس بنا کر رکھنا چاہتے ہیں ۔ جن کے پاس عورت کی فطری مجبوریوں کے لیے بھی کوئی رعایت نہیں ۔ جو عورت کو برابری کا جھانسہ دے کر اسے خاندانی تحفظ اور عزت و احترم سے محروم کرنا چاہتے ہیں ۔
سرمایہ دارانہ نظام کے تحت کھربوں ڈالر کا بزنس عورت کے بل بوتے پر کیا جا رہا ہے ۔ میڈیا انڈسٹری ، فلم انڈسٹری ، کاسمیٹکس کا کاروبار ، اور فیشن انڈسٹری کے تمام رنگ وجود زن کے مرہون منت ہیں جبکہ شیونگ کریم سے لے کر موٹر سائیکل اور کار سمیت ہر چیز بیچنے کے لیے عورت کا استعمال کیا جا رہا ہے اسی لیے گھر کی چار دیواری میں اپنی فطری ذمہ داریاں ادا کرتی ہوئی عورت دنیا کی ہوس میں مبتلا سرمایہ دارانہ نظام کے علمبرداروں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بے رحم پرچھائی جہاں بھی عورت پر پڑی، وہاں خاندانی نظام تہہ و بالا ہو کر رہ گیا ۔ دلیل پروپیگنڈے کے گرد و غبار میں دھند لا جاتی ہے اور پروپیگنڈہ سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے کارگر ہتھیار بھی ہے اور پروپیگنڈے کے تیز رفتار ذرائع پر سرمایہ داری کی گرفت بھی سب سے زیادہ مضبوط ہے ۔
عورت اور مرد کے صنفی فرق کا کیا انسانی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ؟ جن معنوں میں حقوق نسواں کے علمبردار مرد وعورت کی برابری کے خواہشمند ہیں کیا وہ اس فرق کو مٹا سکتے ہیں ؟ اور کیا وہ نسل انسانی کی برقراری کے ذمہ دارتولیدی نظام کو برابری کے اپنے تصور سے ہم آہنگ کر سکتے ہیں ؟
اللہ کی بنائی ہوئی اس دنیا میں ہر شخص اپنی صلاحیتوں کے مطابق کردار ادا کرنے کے لیے آتا ہے ۔ صلاحیتوں کا فرق صرف مرد اور عورت کے درمیان نہیں بلکہ مرد ،مرد اور عورت ،عورت کے درمیان بھی پایا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے پھر ان کی ذمہ داریوں کا تعین ہوتا ہے ۔ کمزور مرد ایک طاقتور مرد کے جتنا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک سنت کا ذکر اس طرح فرمایاہے :
لا یکلف اللہ نفساً الا وسعھا ( البقرۃ :آخری آیت )
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں دیتا۔
گویا اللہ رب العالمین ہر نفس یعنی ہر انسان خواہ وہ مرد ہو یا عورت اس کی استعداد اور طاقت کو سب سے بہتر سمجھتا ہے اور وہی یہ بہتر فیصلہ کر سکتا ہے کہ کس پرذمہ داری کا کتنا بوجھ ڈالا جائے ۔اسی لیے اللہ کے نازل کردہ دین میں مردوں اور عورتوں کے لیے جو ہدایات دی گئی ہیں اسی میں انسانی معاشرے کی بہتری اور ترقی ہوسکتی ہے ۔ اللہ کے ہاں عزت مرد یا عورت ہونے کی وجہ سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کا معیار تقویٰ ، پرہیز گاری اور اعمال ہیں ۔ ان اکرمکم عند اللہ اتقٰکم ( سورۃ الحجرات آیت 13 ) ( ترجمہ ) ’’ بے شک تم میں زیادہ عزت والے اللہ کے ہاں وہ ہیں جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہیں ‘‘ ۔ اعمال کی قبولیت ہو یا دعائوں کی قبولیت اس میں اس بات کو قطعی اہمیت حاصل نہیں کہ کرنے والا مرد ہے یا عورت ۔ جنت میں داخلہ بھی اس بنیاد پر نہیں ملے گا مرد یا عورت جو بھی اچھے اعمال کرے گا وہ جنت میں جائے گا ۔
شریعت مطہرہ میں عورت کو اس کی ہر حیثیت میں قابل احترام مقام دیا گیا ہے ۔ عورت ماں ہو تو اس کے پیروں تلے جنت قرار دی گئی ، بیٹی ہو تو اس سے حسن سلوک کو جنت میں جانے کا ذریعہ بتایا گیا ۔ اللہ کے پیغمبر ﷺ نے اپنی وحی والی زبان سے اس انسان کو بہتر قرار دیا جو اپنی بیوی سے حسن سلوک کرتا ہے ۔ عورت بہن ، خالہ ، پھوپھی ہو یا نانی ، دادی ہو، ہر حیثیت میں اس کے احترام کو یقینی بنانے کے لیے شرعی احکامات بیان کیے گئے ۔
اسلامی تعلیمات پر ہمارے معاشرے میں جس حد تک بھی عمل کیا گیا، اس کا فائدہ ہی ملا ۔ دو دہائیاں پہلے تک ہمارے معاشرے میں خاندانی نظام اس قدر مستحکم اور مضبوط ہوا کرتا تھا کہ مغربی دنیا کے دانشور رشک کی نظر سے دیکھا کرتے تھے ۔ ہم مغربی تہذیب سے جتنا دور اور سرمایہ دارانہ نظام کے شکنجے سے جس قدر آزاد تھے، ہمارا خاندانی نظام اتنا ہی مضبوط تھا، مرد بھی پُر سکون تھے اور عورتوں میں بھی کسی قسم کی محرومی کا احساس نہ تھا۔ لیکن جب برعکس صورتحال ہوئی تو آج ہمارے اہل دانش بھی نوشتہ دیوار پڑ ھ رہے ہیں اور مستقبل کی تصویر دیکھ کر دکھی ہیں کہ ہمارا خاندانی نظام بھی تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے ۔ ہمارے مذہبی رہنما اور ہماری سیاسی قیادت اپنی اقدار، اپنی تہذیب اور اپنی ترجیحات کا دفاع نہیں کر سکی ۔ ماضی میں بزرگ، جنہیں گھر کی رونق اور باعث برکت سمجھا جاتا تھا آج گھر گھر میں ان کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا جا رہا ہے اور اب ہمارے ہاں بھی اولڈ ہائوسز کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے جبکہ ماضی میں ہم اولڈ ہومز کا تذکرہ کر کے مغربی معاشرے پر طنز کیا کرتے تھے ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی معاشرہ اخلاقی طور پر زوال پذیر ہو تو پھر کسی کے حقوق بھی محفوظ نہیں ہوتے، وطن عزیز کا اصل مسئلہ اخلاقی بحران ہے۔ اگر ہم واقعی ملک و قوم کی کوئی خدمت کرنا چاہتے ہیںتو ہمیں اخلاقی اصلاح کی تحریک برپا کرنا چاہیے ۔ محض حقوق نسواں کی بات کرنا چغلی کھاتا ہے کہ ہم دانستہ یا نادانستہ سفاک سرمایہ داری کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال ہو رہے ہیں ۔

سید عامر نجیب
٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر