وجود

... loading ...

وجود
وجود

لبنان ، ترکی اور اردن میں موجود پناہ گزینوں کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں

پیر 13 فروری 2017 لبنان ، ترکی اور اردن میں موجود پناہ گزینوں کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں

2016 ءکے اواخر میں شامی فوج روس کی مدد سے شام کے اہم شہر اور باغیوں کے گڑھ حلب سے باغیوں کوماربھگانے اور حلب پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئی،لیکن حلب سے باغیوں کے پسپا ہونے کے باوجود کم وبیش 48 لاکھ شامی پناہ گزین اب بھی تحفظ کے احساس کے ساتھ باوقار انداز میں زندگی گزارنے کے وسائل سے محروم ہیں۔شام میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کی کیفیت کی وجہ سے بڑی تعداد میں شامی عوام کو اپنی جان بچانے کے لیے اپنا گھر بار اور کاروبار چھوڑ کر مختلف ممالک میں نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا اس نقل مکانی کی وجہ سے اس وقت ایک اندازے کے مطابق ترکی میں رجسٹرڈ پناہ گزینوں کی تعداد 28 لاکھ ہے جبکہ لبنا ن میں بھی کم وبیش 10لاکھ اوراردن میں 6لاکھ56 ہزار شامی پناہ گزین موجود ہیںجبکہ مختلف یورپی ممالک نے بھی مجموعی طورپر 8 لاکھ84 ہزار 461 شامی پناہ گزینوں کو مختلف پناہ گزین کیمپوں میں پناہ دے رکھی ہے۔
بین الاقوامی میڈیا میں شام سے باغیوں کے فرار کی خبریں تو مسلسل آرہی ہےں لیکن باغیوں کے قبضے اور مسلسل جنگ کی کیفیت کی وجہ سے شام میں دربدر ہونے والے شہریوں کی حالت زار پر کوئی توجہ دینے کو تیار نظر نہیں آتا،میڈیا اس حوالے سے حقائق کو مجرمانہ طورپر چھپانے کی کوشش بھی کررہاہے اور میڈیا میں اس جنگ کی وجہ سے اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ جانے پر مجبور ہوجانے اور شام چھوڑ کر کہیں اور پناہ لینے کے لیے شہروں سے نکلنے سے روک دیے جانے والے شامی باشندوں کی حالت زارکی عکاسی کرنے سے بھی گریز کیاجارہاہے۔2016 ءتو گزر گیا اور 2017ءکے آغاز کو بھی اب ایک ماہ سے زیادہ ہوگیاہے لیکن ابھی تک شام کے ان لٹے پٹے اور شکستہ حال لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کامستقبل کیاہوگا؟
اعدادوشمار کے مطابق دسمبر2016ءتک کم وبیش 63 لاکھ شامی باشندے خود اپنے وطن میں بے گھر تھے، یعنی جنگ کی وجہ سے ان کے مکان کھنڈر بن چکے، ان کے کاروبار تباہ ہوچکے تھے اور وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر جابجا پناہ لیے ہوئے تھے اور فاقہ کشی جیسی کیفیت سے دوچار تھے۔جبکہ شام سے باہر دیگر ممالک میں پناہ لینے والے شامی پناہ گزین بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتے کیونکہ ان میں سے بیشتر کو مقامی آبادیوں کی جانب سے منافرت کاسامناہے، جبکہ اب ان کا اپنے گھروں کو واپس آنا بھی آسان نہیں ہے اس لیے کہ نہ تو ان کے پاس واپسی کے وسائل ہیں اور نہ ہی وطن واپسی پر ان کی آبادکاری اور بحالی کا کوئی انتظام اب تک دیکھنے میں آیاہے۔
جون2016ءمیں اردن نے شام سے ملنے والی اپنی سرحد مکمل طورپر بند کردی تھی اور شامی پناہ گزینوں کااردن میں داخلہ ناممکن ہوگیاتھا اردن کی حکومت نے سرحد بند کرنے کی وجہ اپنے ملک کی سلامتی کو درپیش خطرات قرار دیاتھا۔اردن کی جانب سے سرحد بند کیے جانے کی وجہ سے 75 ہزار سے زیادہ شامی باشندے اردن اور شام کی سرحد پر پھنس کررہ گئے تھے اور انہیں اس حالت میںرقبان اورحدالت کے کیمپوں میں کم وبیش 6 ماہ گزارنا پڑے تھے۔
اردن نے 2012ءکے اوائل میں ہی شام سے پناہ گزینوں کے اردن میں داخلے پر پابندی عائد کردی تھی۔اس پابندی کاشکار شام میں مقیم وہ فلسطینی باشندے تھے جن کے عزیز واقارب اردن میں موجود نہیں ہیں،اس کے علاوہ اردن میں داخلے کی مستند دستاویزات نہ رکھنے والوں کے لیے بھی اردن میں داخلہ ممنوع قرار پایاتھا،جس کے بعد اردن کے شمال مشرقی علاقے رقبان کے سرحدی شہر میں پناہ گزینوں کی خیمہ بستیاں آباد ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر سے ظاہرہوتاہے کہ رقبان میں 2014ءمیں ہی پناہ گزینوں کے90 کیمپ قائم ہوچکے تھے۔جبکہ ستمبر کے آخر تک ان کی تعداد 8ہزار295 ہوچکی تھی۔جبکہ جون سے اگست2016ءکے دوران صرف ایک مرتبہ ان کو امدادی سامان مہیا کیاگیاتھا۔
جہاں تک لبنان کا تعلق ہے تو یہ بات واضح ہے کہ اب شامی پناہ گزینوں کے لیے لبنان میں کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ لبنان میں صدارتی انتخاب میں مضبوط صدارتی امیدوار مائیکل اون نے برملا اس کا اظہار کردیاہے اور اپنی صدارتی انتخابی مہم کے دوران میں اپنی تقریروں میں براہ راست شامی پناہ گزینوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں متنبہ کیاہے کہ وہ لبنان سے اپنا بستر بوریا سمیٹنے کی تیاری کریں ،لبنان کے دوسرے رہنماﺅں نے بھی ان پناہ گزینوں کے لیے شام ہی میں محفوظ علاقے قائم کرنے کی تجاویز پیش کی ہیں۔جبکہ اس طرح کے زونز کے حوالے سے تاریخ بہت کربناک ہے کیونکہ اس طرح کے کیمپ ایک طرح کے انتہائی حساس جنگی اور فوجی کیمپ بن جاتے ہیں جنہیں کسی بھی اعتبار سے محفوظ قرار نہیں دیاجاسکتا۔
ترکی نے بھی شامی پناہ گزینوں کی یلغار کو روکنے کے لیے شام سے ملنے والی اپنی سرحد پر 2014ءمیں ہی دیوار تعمیر کرنا شروع کردی تھی اورشام سے ترکی میں داخل ہونے کے 19 راستوں میں سے 17 کو مکمل طورپر بند کردیاتھااور شامی پناہ گزینوں کو ترکی میں داخلے سے روکنے کے لیے باقاعدہ طاقت کااستعمال شروع کردیاتھا۔اگرچہ بین الاقوامی برادری لبنان، اردن اور ترکی میں موجود شامی پناہ گزینوں کو اپنے گزر بسر کے لیے کام کرنے، محنت مزدوری کرنے کاحق دینے کے لیے دباﺅ ڈال رہی ہے لیکن ان تینوں ملکوں کی حکومتیں اس پر تیار نظر نہیں آتیں۔ان کااستدلال یہ ہے کہ ان کے اپنے شہریوں میں بیروزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے ایسے میں وہ شامی پناہ گزینوں کو اپنے شہروں میں ملازمتوں کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں۔
اس صورتحال میں2017ءبھی شامی پناہ گزینوں کے لیے کسی خاص امید کامرکز ثابت ہوتانظر نہیں آتا اور ایسا معلوم ہوتاہے کہ شامی باشندوں کو اس وقت تک اسی طرح دربدری اور فاقہ کشی جیسی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑے گا جب تک کہ شام میں مکمل امن قائم نہیں ہوجاتااور شام کے تمام معاملات پر شام کی حکومت کی گرفت مضبوط بلکہ مضبوط تر نہیں ہوجاتی اور یہ کب ہوگا اس حوالے سے فی الوقت کوئی پیش گوئی کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔
٭٭٭
(بشکریہ خلیج ٹائمز؛۔ترجمہ ایچ اے نقوی)


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر