وجود

... loading ...

وجود
وجود

قوم کے لیے ۵فروری کاتحفہ ۔۔۔۔۔(پہلی قسط)

هفته 28 جنوری 2017 قوم کے لیے ۵فروری کاتحفہ ۔۔۔۔۔(پہلی قسط)

یقین مانئے کہ اس امر کا خدشہ تو شاید ذہن کے کسی نہاں خانے میں موجود تھا لیکن اس بات کی توقع قطعاً نہیں تھی کہ یہ اس قدر جلد ہو جائے گا۔ کیوں کہ اب بھی نوازشریف کے پاس کچھ ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو نظریہ پاکستان اور میاں محمد نواز شریف کے نظریاتی سپاہی باور کیے جاتے ہیں۔ اُن کی وزیراعظم کے پاس موجودگی سے ہمیں نجانے کیوں غلط فہمی تھی کہ شاید یہ معاملہ کسی ’’باوقار ‘‘طریقے سے حل ہو ۔لیکن وزیر اعظم کے مشیر کا جب خصوصی انٹرویو نو بجے والے خبرنامے میں چلا اور کسی بھی اخبار کے صفحہ تین پر دو کالمی خبر والی شخصیت کو اچھا ل کر فرنٹ پیج پر لایا گیا تو ہمارا ماتھا ٹھنکا۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ وزارتِ اطلاعات کی ایک خصوصی کمیٹی کی فرمائش پر (نظریہ پاکستان کے محافظ) وزیر اعظم نے عین اس وقت ملک میں بھارتی فلموں کی اجازت دی ہے جب قوم مظلوم کشمیریوں کے ساتھ یومِ یک جہتی منانے کے لیے کمر کس رہی ہے۔ یہ بات قابلِ ہضم نہیں کہ نظریہ پاکستان کے سپاہی اور اُن کے موجودہ باس میاں نوازشریف اس سے آگاہ نہیں ہوں گے کہ پانچ فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر منایا جانے لگا ہے کیوں کہ میاں نواز شریف نے پنجاب کے حکمران کے طور پر یہ دن منانے کی روایت (اپنی اُس وقت کی سیاسی حریف بے نظر بھٹو کو کشمیر فروش ثابت کرنے کے لیے) خود ہی ڈالی تھی، تو پھر کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس فیصلے میں چند دنوں کی تاخیر کر لی جاتی؟ لیکن وہ کیا ہے کہ آج کل بھارتی فلم ’رئیس ‘بڑا بزنس کر رہی ہے اور کوئی بھی تاخیر ایک بڑے میڈیا ٹائیکون کے لیے خسارے کا موجب ہو سکتی تھی، جنہوں نے اس فلم کی بکنگ کروا رکھی ہے۔
ہماری خوش فہمی کی وجہ یہ تھی کہ یہ پابندی سرے سے پاکستان نے تو لگائی ہی نہیں تھی کیوں کہ پاکستانی قوانین کے مطابق تویہاں کسی طور بھارتی فلم درآمد ہو ہی نہیں سکتی ۔ اس لیے پاکستانی سینما مالکان یا پھر کسی اور فریق کی کیا اوقات بچتی تھی؟ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں جو فلمیں آ کر نمائش کے لیے پیش ہو رہی ہیں وہ کیسے آ رہی تھیں؟ تو سیدھی سی بات ہے اس قانون کو موم کی ناک بنا لیا گیا تھا۔ بھارتی فلموں کے نمائش کنندگان کی طرف سے فلم کے آغاز میں دو یا تین سلائیڈز کا اضافہ کردیا جاتا ، یہ فلم دبئی میں فلاں فلاں ادارے نے بنائی ہے، اور فلاں ادارے کے پاس اس کے بین الاقوامی نمائش کے حقوق موجود ہیں اور یہ فلم وہ ادارہ پاکستان بھجوارہا ہے، تاہم اس کی ’’عکس بندی ‘‘بھارت میں کی گئی ہے۔ اور ہمارے ملک کا جلبِ زر کا مارا طبقہ اشرافیہ قانون کی اس موم کی ناک کو اپنے حق میں مروڑلیتا اوریوں یہ فلم حلال ہو کر براستہ دبئی پاکستان پہنچ جاتی۔
تو کیا میاں نواز شریف کا بھارتی فلموں کی درآمد پر پابندی ختم کرنے کا وہ حکم جو ان میڈیا ہاوسز نے ہم تک پہنچایا ہے، اس کے ذریعے کیا ملک کے مروجہ قوانین میں تبدیلی ہو گئی؟ لیکن وہ کیا ہے کہ قانون میں تبدیلی کے لیے تو ہم نے ایک پارلیمنٹ نہیں رکھی ہوئی یا پھر ہمارے ہاں مغل اعظم ثانی کا دور چل رہا ہے؟ جناب بیرسٹر ظفر اللہ خان جیسی نابغہ روزگار اور ااہل ِ علم شخصیت اس قانونی موشگافی پر قوم کی رہنمائی فرمائیں تو احسان ہو گا،اگرچہ قوم ان کے احسانوں کے بوجھ تلے پہلے ہی دبی ہوئی ہے ۔
ہم تو جناب پروفیسر ڈاکٹر احسن اقبال کی طرف سے اس بیان کے انتظار میں بھی ہیں کہ جب وہ فرمائیں کہ بھارتی فلموں کی درآمد سی پیک کا حصہ ہے جس سے خطے میں خوشحالی کے ندی نالے بہہ نکلیں گے۔ویسے درونِ خانہ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی فلموں پرپابندی ہماری طرف سے نہیں لگائی گئی تھی بلکہ بھارتی فلموں کے تیار کنندگان وبرآمد کنندگان کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے جن سنگھیوں نے ان کے دفاتر میں جا کر دھمکیاں دی تھیں کہ اگر ان کی فلمیں کسی بھی رستے سے جاکر پاکستان میں نمائش پزیر ہوئیں تووہ ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ اس پر بھارتی فلم برآمد کنندگان نے پاکستانیوں کو فلمیں دینے سے انکار کردیا کیوں کہ بی جے پی کم از کم ان کو بھارت کی ان ریاستوں میں تواپنی فلموں کی نمائش کرنے سے روک ہی سکتی تھی جہاں ان کی حکومت تھی۔ اور یوں وہ پورے بھارت کی منڈی سے محروم ہو سکتے تھے۔ ویسے بھی بھارت کے لیے پاکستان سو سے زائدممالک میں سے ایک منڈی ہے وہ محض ایک منڈی کے لیے اپنا کاروبار کیوں خراب کرتے، اس لیے پاکستان کو فلم بھیجنے سے بھارتیوں نے انکار کیا جب کہ ہم تو دیدہ و دل فرشِ راہ کیے بیٹھے تھے۔
بھارت کی طرف سے اس اعلانیہ پابندی کے جواب میں ہم نے بھی خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ان فلموں پر پابندی کا اعلان کردیا۔
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
فلموں کے کاروبار میں خرابی کا آغاز بھارت کی طرف سے کسی نہ کسی واقعے کو بہانہ بنا کر پاکستان کے بازو مروڑنے کی مہم سے شروع ہوا۔ جب بھارتی انتہاپسند حکومت نے کشمیر میں اپنے مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے پٹھان کوٹ ، سرجیکل ا سٹرائیک اور اوڑی واقعات کی ’نوٹنکیاں‘ شروع کی اور وہاں کام (کی بھیک مانگنے ) کے لیے جانے والے پاکستانی خواتین و حضرات اداکاراوں پر غیر اعلانیہ پابندی لگاکر ان پر حملے کی دھمکیاں دیں۔ویسے کام کی بھیک مانگنے جانے والے ان لوگوں کی ذہنی سطح کس قدر گھٹیا پست اور ذلیل ہے کہ ایک اداکار ’’عدنان صدیقی‘‘کے حوالے سے اخبار میں یہ خبر چھپی ہے کہ انہیں بھارت میںایک فلم میں اداکاری کے لیے جانے کا ویزہ ملنے پر انہیں ایسے مبارکبادیں مل رہی ہیں جیسے انہیں جنت کا ویزہ مل گیا ہو۔
لیکن ادھر ہماری جمہوری حکومت نے ہمیں یہ بتایا کہ یہ پابندی حکومتی سطح پر نہیں تھی، بلکہ سینما مالکان نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا تھا۔ تو پھر اگر سینما مالکان اپنی ہٹ پر قائم ہیں (جو تاحال ہیں )تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت سے درآمد ہونے والی فلمیں نمائش کے لیے کہاں پیش کی جائیں گی؟ اور ان فلموں کی درآمد کو کھلوانے کے لیے ملک کے تین بڑے میڈیا ہاؤسز کیوں تکلیف دہ درد میں مبتلا تھے؟اگر ذرا غور فرمائیں تواس وقت ملک میں فلموں کے درآمد کنندگان اور نمائش کنندگان تین بڑے گروہوں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں جن کی سربراہی پاکستان کے تین بڑے میڈیا ہاؤسز (جیو، ایکسپریس اور اے آر وائی) کر رہے ہیں۔ باقی درآمد کنندگان یا تو ان کے طفیلی ہیں، یا کمیشن ایجنٹس۔ جب بھی کوئی فلم درآمد ہو رہی ہوتی ہے یا اسے منگوایا جانا مقصود ہوتا ہے تو یہ میڈیا ہاؤسز اپنے اخبارات اور ٹی وی چینلز میں ایسی فلموں کے لیے ماحول بنانا شروع کر دیتے ہیں ، وہ ہر نیوز بلیٹن میں ان فلموں کی جھلکیاں دکھا کر عوام کا اشتیاق بڑھاتے ہیں اور سینما میں لگائی گئی ان فلموں کے ذریعے من کی مراد(سرمایہ) پاتے ہیں۔
فلموں کے نمائش کنندگان میں تین بڑے حصے دار ہیں ان میں سے ایک تو غیرروایتی سیٹھ جو حال ہی میں اس شعبے میں آئے ہیں (جن کا ذکر آئندہ سطور میں آئے گا) ، دوسرے مانڈی والاز (یعنی پیپلز پارٹی) اور تیسرے اپنے ڈی ایچ اے والے۔ لو کرلو گل۔ ملک کے طبقہ اشرافیہ کے تمام عناصرِ اربعہ تو اکٹھے ہو گئے تو باقی کیا بچا؟ پکچر ابھی باقی ہے دوست!!!!!! (باقی آئندہ)
٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر