... loading ...
ولا میں رہتے ہوئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا، اس دوران اصغر کسی دوسری سائٹ پر چلا گیا تھا، ہمارے ساتھ علی منیب اور واجد رہ رہے تھے۔ ہمیں رہنے کے لیے ولا میں جو کمرہ ملا ہوا تھا وہ دو چھوٹے کمروں کا ایک پورشن تھا، ہم لوگوں نے اپنے کھانے پکانے کا انتظام بھی کرلیا تھا، منیب اچھا کک تھا اور ہم بھی اس سے کھانا پکانا سیکھ رہے تھے۔ روٹیوں کے لیے ہم نے ایک افغانی بھٹی دریافت کرلی تھی جہاں سے بڑی سی افغانی روٹیاں لے آتے تھے دو روٹیاں ہم چار افراد کیلیے کافی ہوتی تھیں۔ وقت اچھا گزر رہا تھا بس ایک چیز کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی ہم پاکستان کے حالات سے یکسر لاعلم تھے، نہ ٹی وی تھا نہ ہی کوئی پاکستانی اخبار ملتا تھا۔ موبائل فون عام نہیں ہوئے تھے جبکہ لینڈ لائن پر پاکستان کال بہت مہنگی پڑتی تھی اس لیے ہفتے پندرہ دن میں گھر کال کرلیتے تھے، تین منٹ کی کال بھی خاصی مہنگی تھی۔ اس کے لیے بھی پی سی او جانا پڑتا تھا، جہاں اپنی باری پر فون ملتا تھا۔ ہمارے کان فون پر جبکہ نگاہیں گھڑی پر لگی ہوتی تھیں، کوشش ہوتی تھی کہ دو منٹ پورا ہونے سے پہلے بات مختصر کرنی شروع کردی جائے اور دو منٹ پچاس سیکنڈ پر کال کاٹ دی جائے کیونکہ منٹ سے ایک سیکنڈ بھی اوپر ہونے کا مطلب تھا کہ اگلے پورے منٹ کے پیسے بھی چارج ہو جائیں گے۔ پی سی او والوں نے سسٹم ایسا بنایا ہوا تھا کہ اگر آپ نے کال کاٹنے میں ذرا سی دیر کی تو اگلا منٹ لگ جائے گا اور اس ایک منٹ بات کیے بغیر آپ کو اس کے پیسے دینا پڑیں گے۔ ایسے حالات میں گھر والوں سے بات ہوجائے وہ ہی بڑی بات تھی ، دوست احباب اور رشتہ داروں سے رابطہ اور تعلق رکھنا مشکل تر تھا۔ انٹر نیٹ رابطے کا آسان ذریعہ ہوسکتا تھا لیکن اس کے لیے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کنکشن ہونا ضروری تھا۔ کمپیوٹر لے بھی لیتے تو انٹرنیٹ کا کنکشن لینا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔ ہم نے ولا کے پرانے باسیوں سے علاقے میں کسی انٹر نیٹ کیفے کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ شارع نخیل پر ایک انٹرنیٹ کیفے ہے۔پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں تھی ،نہ ہی ہمارے پاس گاڑی تھی جس کی وجہ سے شارع نخیل پر انٹرنیٹ کیفے کھوجنے کا کام التوا کا شکار تھا۔ ایک دن کالج سے آنے کے بعد ہم نے ہمت پکڑی اور پیدل شارع نخیل پر چل پڑے ایک کلو میٹر سے زائد چلنے کے بعد انٹرنیٹ کیفے نظر آہی گیا۔ ایک دکان میں چار پانچ چھوٹے چھوٹے کیبن بنے ہوئے تھے۔ سب ہی بھرے ہوئے تھے، انٹرنیٹ استعمال کرنے والے سارے ہی مقامی عربی لڑکے تھے۔ کچھ دیر بعد ایک کیبن خالی ہوا تو ہمارا نمبر آیا۔ انٹرنیٹ بہت مہنگا تھا ایک گھنٹے کے بیس ریال۔ اس وقت پاکستان میں انٹرنیٹ کیفے پر چالیس سے پچاس روپے فی گھنٹہ چارج کیے جاتے تھے۔ سولہ روپے کا ایک ریال تھا اس طرح یہاں کے انٹرنیٹ کیفے میں ہمیں فی گھنٹہ تقریباً تین سو بیس روپے کا پڑ رہا تھا۔ انٹر نیٹ کی اسپیڈ بھی بہت کم تھی اور بہت ساری ویب سائٹس بند تھیں۔
ہم نے جلدی جلدی ای میل اکاونٹ چیک کیا، کچھ دوستوں کو مختصرمیل کی کچھ کی میل کے مختصرجواب دیے،جلدی جلدی ایک پاکستانی اخبار کا ویب ایڈیشن دیکھا، ایک گھنٹہ چند لمحوں میں گزر گیا۔ ہمارے لاگ آف کرتے کرتے دو تین منٹ اوپر ہو گئے۔ انٹرنیٹ کیفے پر بیٹھے نوجوان نے ہم سے پچیس ریال لے لیے، اس کا کہنا تھا ایک گھنٹے سے ایک منٹ بھی زائد ہونے پر پندرہ منٹ کے پیسے چارج کیے جاتے ہیں۔ ہم نے پیسے ادا کیے اور ولا کی راہ لی۔ ہمارے ایک گھنٹے کے انٹرنیٹ استعمال سے صرف اتنا ہوا تھا کہ کچھ دوستوں کی خیریت معلوم ہو گئی تھی اور ہم نے ارض وطن پاکستان کے حالات سے تھوڑی سی آگاہی حاصل کر لی تھی۔ بیرون ملک رہنے والے تارکین وطن ہزاروں میل دور ہوتے ہیں لیکن ان کا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ ہم نے انٹرنیٹ پر اخبار اس امید پر پڑھا تھا کہ شائد وطن عزیز کے حالات میں کوئی بہتری آگئی ہو۔ لیکن اخبار میں وہی خبریں تھیں جو ہم چھوڑ کر آئے تھے، ابتر معاشی حالات، دہشت گردی کے واقعات کا تسلسل، مہنگائی، بیروز گاری، معاشی ناہمواری اور سیاسی کھینچا تانی سب کچھ ویسا ہی تھا۔ ہم سوچ رہے تھے کہ ہمارے ملک کے حالات کب بدلیں گے پھر خیال آیا یہ تو خدا کا بنایا ہوا قانون ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
۔۔ جاری ہے
٭٭
ولا میں دوسرا مہینہ گزر رہا تھا، ہم نے اپنے کمرے کے لیے ٹی وی خرید لیا تھا لیکن اس پر صرف سعودی عرب کے دو لوکل چینل آتے تھے۔ ولا کی چھت پر کئی ڈش انٹینا لگے ہوئے تھے لیکن وہ بھارتیوں یا سری لنکنز نے لگائے ہوئے تھے اس لیے کسی پر پاکستانی ٹی وی چینلز نہیں آتے تھے۔ اس وقت سعودی عرب ...
علی اور منیب سوتے سے اٹھے تھے اس لیے انہیں چائے کی طلب ہو رہی تھی، ہم نے کہا چلو باہر چلتے ہیں نزدیک کوئی کیفے ٹیریا ہوگا، وہاں سے چائے پی لیں گے۔ علی نے بتایا کہ گزشتہ روز وہ اور منیب شام میں کچھ دیر کے لیے باہر نکلے تھے لیکن قریب میں کوئی کیفے ٹیریا نظر نہیں آیا۔ ہم نے کہا چل ...