وجود

... loading ...

وجود
وجود

حکومتیں اور سرکاری ادارے بھی جعلی خبریں پھیلاتے ہیں!

پیر 02 جنوری 2017 حکومتیں اور سرکاری ادارے بھی جعلی خبریں پھیلاتے ہیں!

2016 کی باقیات میں دیگر بہت سی چیزوں کے علاوہ جعلی یاجھوٹی خبروں کا بھی ایک سلسلہ شروع ہوا جو نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔یہ جعلی خبریں بالکل صحیح اور منطقی اعتبارسے بالکل درست معلوم اور محسوس ہوتی ہیں، اور دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان خبروں میں کسی بھی خبر کی بنیادی خوبیوں کو مدنظر رکھاجاتاہے یعنی یہ خبر کسی بھی طورپر ایسے ہی پھیلائی ہوئی افواہ یا کسی کی شرارت معلوم یا محسوس نہیں ہوتی،کہاجاتاہے کہ جھوٹی خبروں کاسلسلہ امریکا کے منچلے نوجوانوں نے امریکا کی اسٹاک مارکیٹوں میں ہلچل مچانے اور لوگوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے شروع کیاتھا اور اب یہ فن امریکاسے سفر کرتاہوا مواصلات کی تیز رفتاری سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے پاکستان جیسے ترقی پزیر ملکوں تک وسعت اختیار کرچکاہے۔ گلین گرین والڈ نے حال ہی میں یہ بھی انکشاف کیاہے کہ ان جعلی خبروں کے حوالے سے یہ اہم حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ عام طورپر ان جعلی خبروں کی شدت کے ساتھ تردید اور اس کی مذمت کرنے والے ہی عمومی طورپر جعلی خبریں پھیلانے میں شریک ہیں بلکہ پس پردہ اس میں ان ہی کارستانی ہوتی ہے۔
جعلی خبریں کیاہوتی ہیں اوران کو پھیلانے کے مقاصد کیاہیں اوراس کے معاشرے یا کسی ملک یا حکومت پر کیا اثرات رونما ہوتے ہیں، اس پر غور کیاجائے تو امریکاکے صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت سے متعلق امریکاسمیت پوری دنیا میں گردش کرنے والے الزامات سامنے آتے ہیں، یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ روسی ماہرین نے انتہائی چابکدستی کے ساتھ ٹرمپ کی مدمقابل ہلیری کلنٹن کے خلاف اورٹرمپ کے حق میں ایک مکروہ اور مجرمانہ مہم چلائی اور غلط اطلاعات اور مفروضوں کی اس مہم کو اس انداز میں عام لوگوں تک پہنچایاگیا کہ ہر ایک انھیں درست تسلیم کرنے پر مجبور ہوگیااور اس طرح پورا انتخابی منظر نامہ تبدیل ہوکر رہ گیا۔
دسمبر 2016 میں جعلی خبروں کے حوالے سے پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے کرائے گئے ایک سروے رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ 64 فیصد امریکی شہریوں نے یہ اعتراف کیاہے کہ جعلی اورمن گھڑت خبروں سے موجودہ حالات و واقعات اور مسائل کے حوالے سے شدید کنفیوژن پیدا ہوا۔جبکہ 23 فیصد لوگوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہ دانستہ یانادانستہ طورپر ان جعلی خبروں کو آگے بڑھانے اور پھیلانے میں شریک رہے ہیں۔
جعلی خبروں کے حوالے سے مچنے والے تمام شوروغوغا سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ فیس بک نے جوخود بھی دنیا کی ایک بڑی آبادی کیلئے خبروں کاایک بڑا ذریعہ ہے۔ اس طرح کی جعلی اور من گھڑت خبریں پھیلانے والوں کے خلاف کریک ڈائون کرنے اور ایسی جعلی اور من گھڑت خبروں کو آگے پھیلنے سے روکنے کے لیے اقدامات کا عندیہ دیاہے لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ جعلی خبروں کو پھیلنے سے روکنے کی کوششیں کتنی کامیاب اور کیسے کامیاب ہوسکتی ہیں جبکہ یہ الزامات بھی سامنے آچکے ہیں کہ خود امریکی اسٹیبلشمنٹ کامیڈیا بعض اوقات اس طرح کی خبریں پھیلانے میں ملوث بتایا جاتا ہے۔اگرچہ اس طرح کے واقعات کو اتفاقات تصور کرتے ہوئے نظر انداز کیاجاتاہے لیکن حقیقت یہ ہے اس طرح کی صحافت پوری طرح بر سر عمل ہے اسے راکٹ سائنس کانام دینا بھی درست نہیں ہوگا۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بڑے اخبارات کے اداریئے بھی سیاسی اور کاروباری اشرافیہ کے مفاد کے مطابق بلکہ بعض اوقات ان کے اشارے پر لکھے جانے لگے ہیں اور عام طورپر صحافی آزاد پریس کی آڑ میں اس اشرافیہ کے مائوتھ پیس یاترجمانی کافرض انجام دینے لگے ہیں۔جعلی خبروں کی اور بھی بہت سی مثالیں اور طریقے ہیں جن کی پشت پر مختلف عناصر کارفرما ہوتے ہیں،اور جو ایک مخصوص نظریئے ،فکر یا خیال کو معاشرے میں اس طرح عام کرنے کیلئے کام کررہے ہیں کہ ان کے پھیلائے ہوئے نظریئے ،فکر اور خیال کو درست تسلیم کرلیاجائے اس سلسلے میں اسرائیل کاحوالہ دیاجاسکتاہے جسے بڑی شدومد کے ساتھ جمہوریت کی روشن مثال ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
واشنگٹن کے ایک معروف ایڈیٹراینڈریو کاک برن نے حال ہی میں ہارپر میگزین کیلئے ایک مضمون لکھاہے جس میں دنیا میں جنگ وجدال کے نئے سلسلے کاحوالہ دیتے ہوئے لکھاہے کہ روس کے ساتھ مخاصمت کے نئے سلسلے کی وجہ سے اب امریکاکو اپنے جنگی اخراجات میں بے انتہا اضافہ کرنا پڑے گا ،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ روس کاجنگی بجٹ امریکا کے جنگی بجٹ کے 10 فیصد کے برابر بھی نہیں ہے اور روس کے فوجی وہ جدید اسلحہ استعمال کرنے کاسوچ بھی نہیں سکتے جو روس عالمی منڈی میں فروخت کیلئے پیش کرتاہے۔
اس مضمون میں امریکا کی فوجی صنعتوں کیلئے منافع کی ایک راہ نکالنے اور امریکی انتظامیہ کو اپنے جنگی اخراجات میں اضافے کے حوالے سے عوام کا ذہن تیار کرنے کی کوشش کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کے جنگی بجٹ میں اضافہ امریکی حکام کی ترجیحات میں اس وقت دوسرے نمبر پر ہے اور اولین ترجیح تو جنگی بجٹ کی تقسیم کے حوالے سے امریکا کی تینوں مسلح افواج کے درمیان جاری کشمکش یا لڑائی ہے،اور یہ بات واضح ہے کہ جنگی بجٹ میں جتنا زیادہ اضافہ ہوگا یہ لڑائی اتنی زیادہ شدت اختیار کرے گی۔
درج بالا حقائق سے ظاہرہوتاہے کہ جعلی خبریں پھیلانے میں صرف چند سرپھرے نوجوان ہی ملوث نہیں ہیں بلکہ یہ کام منظم انداز میں بعض بڑی طاقتوں کے ادارے بھی انجام دے رہے ہیں اور بعض اوقات اس مقصد کے حصول کیلئے دنیا کے معروف ترین اخبارات کے معتبر اور نامور صحافیوں کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں جو رقم کمانے یا تعلقات کو وسعت دینے کیلئے اس مکروہ عمل میں برضا ورغبت شریک ہوجاتے ہیں۔
جعلی خبروں کا ایک خطرناک پہلو یہ ہے کہ ہم نادانستہ طورپر یا حادثاتی طورپر مالی فائدے کے اس کھیل کا حصہ بن سکتے ہیں۔اسے روس کے مقابلے میں امریکا کی جنگی قوت اور جنگی اخراجات میں اضافے کے حوالے سے حال ہی میں شائع ہونے والے مضامین کا نتیجہ ہی قرار دیاجاسکتا ہے کہ امریکا کے صدر بارک اوبا نے اس بات پر زور دیاہے کہ امریکا کو اپنی ایٹمی صلاحیت میں توسیع اور اضافہ کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

بیلین فرنانڈز


متعلقہ خبریں


مضامین
سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔ وجود اتوار 12 مئی 2024
سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔

سینئر بزدار یا مریم نواز ؟ وجود اتوار 12 مئی 2024
سینئر بزدار یا مریم نواز ؟

عمران خان کا مستقبل وجود هفته 11 مئی 2024
عمران خان کا مستقبل

شہدائے بلوچستان وجود جمعرات 09 مئی 2024
شہدائے بلوچستان

امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں وجود جمعرات 09 مئی 2024
امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر