وجود

... loading ...

وجود

کوئی توہوجوبات کرے

هفته 31 دسمبر 2016 کوئی توہوجوبات کرے

گزشتہ دنوں پاکستان کی وزارتِ تجارت کے وفد کی ایران روانگی ایک ماہ کے لیے موخر کر دی گئی۔ یہ اعلیٰ سطحی وفد ایران پر سے اقتصادی پابندیاں اٹھنے کے بعد پیدا ہونے والے مجوزہ باہمی تجارتی امکانات کو تلاش کرنے اور ایک ’’ترجیحی تجارت‘‘ کے معاہدے پرگفت و شنید کے لیے ایران روانہ ہوناتھا۔ وفد کی روانگی ایران کی طرف سے اس سرکاری اطلاع کے بعد موخر کی گئی کہ ایران پاکستان کے ساتھ گیس کی قیمتوں کے فروخت کے معاہدے پر نظر ثانی کے لیے کسی بھی قسم کی گفتگو سے انکار ی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ایران نے ایسا کیا ہو بلکہ اس سے قبل بھی اس معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد سے ایسا کرتا آرہا ہے، جب کہ پاکستان کی طرف سے اس بارے میں کوئی ٹھوس پالیسی عنقا ہے۔
یادش بخیرزرداری صاحب نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں جلدی جلدی میں جو فیصلے کیے تھے ان میں سے ایک ایران کے ساتھ گیس کی قیمت کے معاہدے پر دستخط کرنا بھی شامل تھا۔ جس طرح انہوں نے عدالت کی طرف سے بدعنوانی کے مجرم قرار دیے گئے شخص کو وفاقی محتسب مقرر کیا تو کچھ ایسا ہی فیصلہ انہوں نے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے حوالے سے بھی کیا۔ پاکستان کی طرف سے زرداری صاحب کی فرمائش پر اس معاہدے پر دستخط کرنے والے شوکت ترین، پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ سے ایک اور مقدمے میں بدعنوانی کے مجرم قرار دیے جا چکے ہیں، تو کیا ہمیں ایک ایسے مجرم کی طرف سے کسی بھی معاہدے پر دستخط کا احترام کر نا چاہیے؟ اس لیے بھی اس معاہدے پر نظر ثانی یا اس کا ابطال ضروری ہے جو جتنی جلدی کر لیا جائے مناسب ہو گا۔
دراصل اس معاہدے میں ایران سے گیس خریدنے کے لیے بارہ ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کی قیمت طے کی گئی اور اگر اس میں پائپ لائن کا کرایہ ڈال لیا جائے تو یہ قیمت چودہ ڈالر ہو جاتی ہے۔ ان قیمتوں کو اُس وقت ایندھن کی ’’عالمی باسکٹ‘‘ کے اسی فی صد پر طے کیا گیا تھااور یوں اگر تیل کی موجودہ قیمتوں کو بھی مدنظر رکھا جائے تو یہ قیمت آج کے دن دس ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو سے کسی طور کم نہیں پڑتی۔ ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں ایل این جی گیس کا سیلاب امڈا پڑا ہے اور وہ تین ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے دستیاب ہے، یہ معاہدہ تو پاکستان کے پورے ایندھن کے نظام کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دے گا اور اسے محض لوٹ مار ہی کہا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران اس لوٹ مار سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں اور اس کا اعتماد اس لیے بھی ہے کیوں کہ اسے معلوم ہے پاکستان کے حکومتی نظام میں موجود عناصر ، جن کی ساری ہمدردیاں پاکستان سے زیادہ ایران کے ساتھ ہیں، وہ اسے مدد کریں گے اور کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان عناصر نے اب تک اس پہلو کو زیر بحث ہی نہیں آنے دیا۔
ویسے بھی اس معاہدے پر دستخط ہم نے بھارت کی دیکھا دیکھی کیے تھے کیوں کہ اُس وقت بھارت جو پاک ایران بھارت (آئی پی آئی) گیس پائپ لائن معاہدے کا ایک فریق تھا اور اسے اسی پائپ لائن سے گیس بھی لینا تھا، اس نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر سالانہ کرایہ دینا تھا۔ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر کے دستخط کروا دیے گئے کہ بھارت سے پائپ لائن کا کرایہ لے کر ہم ایران کو ادا کریں گے اور یوں ہم پر گیس کی ان ہوشربا حد تک زیادہ قیمتوں کا مالیاتی اثر نہیں ہوگا۔ لیکن بھارت نے اس پھسڈی گاہک کی طرح جو دکان میں صرف قیمت پوچھنے آتا ہے، ایرانی گیس کی قیمت بڑھائی اور پھر اس معاہدے سے الگ ہو گیا۔ اب چوں کہ یہ معاہدہ سہ فریقی کی بجائے دو فریقی رہ گیا ہے تو ضروری ہے کہ اس پر نئے معروضی حالات کے مطابق پھر سے مذاکرات کیے جائیں، ایران اس سے بھاگ رہا ہے، حالاں کہ قیمتوں پر نظرثانی کی شق معاہدے کے اندر موجود ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جب خادم علی شاہ بخاری (کے اے ایس بی ) بینک اور اس سے جڑے مالیاتی اداروں پر بین الاقوامی اداروں کی طرف سے ،ایرانی سرمائے کو سفید کرنے کا الزام لگا اورا سٹیٹ بینک کو راتوں رات یہ مدعا غائب کرنے کے لیے یہ بینک اپنے قبضے میں لے کر محض ’’ایک روپے‘‘ کی نام نہاد قیمت پر بینک اسلامی کے سپرد کرنا پڑا تو اس وقت بھی ایران کے نائب وزیر خزانہ تشریف لائے تھے اور ایران کی طرف سے اس بینک میں رکھے گئے بائیس ارب روپے کی بہ حفاظت واپسی کی گزارش کی تھی۔ ہمارے وزیر خزانہ نے اس خواہش کا احترام کرتے ہوئے یہ رقم جس واسطے سے پاکستان لائی گئی تھی، اسی واسطے سے واپس بھجوادی تھی۔ حالاں کہ ایسے وقت میں ایرانی گیس کی قیمتوں پر نظر ثانی کے حوالے سے سودا بازی بھی کی جا سکتی تھی۔
اب ایک مرتبہ پھر ایرانی حکومت کو ہماری ضرورت پڑ گئی ہے۔ جہاں ایک طرف کرک (کے پی کے) کی آئل فیلڈ سے چوری ہونے والے تیل کی مالیت ستر ارب روپے سے زائد ہو چکی ہے(اور اس پر لگنے والے ٹیکسز اور دوسرے محاصل اس کے سوا ہیں) وہیں ایران سے تیل کے ا سمگلروں نے پاکستان کے اندر ایک آئل مارکیٹنگ کمپنی بھی خرید لی ہے اور ایران سے غیر قانونی اسمگل شدہ تیل کھلے عام نہیں بلکہ پٹرول پمپوں پر دھڑلے سے بک رہا ہے۔ کسٹمز انٹیلی جنس نے اس ادارے کا سراغ بھی لگا لیا ہے اور کوئی وقت جاتا تھا کہ اس ادارے کے ڈائریکٹرز کو پکڑ کر حوالہ زنداں کردیاجاتا، ایران کے ایک اور وزیر تشریف لائے اور گزارش کی کہ جیسے پاکستان اپنے ہمسایہ ایرا ن کی غیر قانونی اقتصادی اور مالیاتی سرگرمیوں کو پہلے نظر انداز کرتا رہا ہے ویسے کچھ اور عرصے کے لیے اس سے صرفِ نظر کر لے۔جیسے ہی ایران کے ساتھ تجارتی پابندیاں کھلیں گی تو پاکستان سے اربوں روپے کے خمس کی ترسیل کے ساتھ ساتھ اس تجارت کو قانونی ٹوپی پہنا لی جائے گی، کیوں کہ پاکستان کا کوئی والی وارث نہیں اس لیے امید ہے کہ اس گزارش کو بھی شرفِ بازیابی بخش دیا جائے گا اور وہ کمپنی اسی طرح ایرانی اسمگل شدہ تیل بیچ بیچ کر ہماری گاڑیوں کا بیڑا غرق کرتی رہے گی، ہم خواہ اپنے تیل کے جتنے مرضی رنگ بدل لیں۔
ایسے میں کیا ہی خوب ہوتا کہ ہم بھی ایران کے ساتھ اس گیس کی فروختگی کے معاہدے پر نظر ثانی کا معاملہ اٹھا لیتے۔ لیکن بوجوہ ایسا نہیں کیا جارہا، جو کہ ناقابلِ فہم بات ہے، کیا پتہ یہ چوری شدہ ٹیکس پاکستان میں دہشت گردی کی فنانسنگ کے لیے استعمال ہورہا ہو، ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟
کوئی تو ہو جو پاکستان کے مفادات کی بات کرے، کوئی تو ہو۔ آخر کو جمہوریت کے نام پر اس قوم پر مسلط گروہ کو کسی بات پر تو اسٹینڈ لینا چاہیے۔ کوئی تو ہو جو بلاول بھٹو زرداری جیسی مخلوق کو ایران سے گیس کی درآمد کی بات دہرانے پر شٹ اپ کال دے۔جس طرح موصوف کے والد نے پاکستان کے مفادات کا جنازہ نکالا ہے تو ہمیں تو پاکستان کے تین دریا بھارت کو بیچنے کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ کوئی تو ہو جو اس موضوع پر قومی اسمبلی میں کھڑا ہو کر اسی طرح کی دریدہ دہنی کرے جیسی سعودی عرب کے خلاف کی گئی تھی؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کے اس پائپ لائن منصوبے میں سے نکل جانے کے بعد ایران کو باہر کی راہ دکھا کر اس معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا جائے کیوں کہ سہ فریقی معاہدہ میں سے ایک فریق کے ـ’’ـمکر ‘‘جانے کے بعد یہ معاہدہ عملاً ختم ہو چکا ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب مذاکرات کی میز پر پاکستان کی طرف سے کوئی ’’پاکستانی‘‘ اس معاہدے پر مذاکرات کرنے بیٹھا ہو۔ جب تک ولایت فقیہہ کو ماننے والے پاکستان کی طرف سے مذاکرات کرتے رہیں گے، اس وقت تک پاکستان کے وسائل کی یہ لوٹ مار جاری رہے گی اور ہمارے مفادات کا جنازہ اسی طرح نکلتا رہے گا۔
٭٭


متعلقہ خبریں


ایران کی طرف سے اتحادیوں کو اسلحہ فراہم کرنے کا اعلان۔امریکا میں شدید تنقیدکا طوفان ایچ اے نقوی - بدھ 06 ستمبر 2017

اقوام متحدہ کے لیے امریکی سفیر نکی ہیلی نے گزشتہ روز ایک بیان میں ایران پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران نے فلسطینی عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کے ساتھ اپنے رابطے قائم کرکے اپنا اصل چہرہ دکھا دیا ہے اور بین الاقوامی کمیونیٹی کو لازماً اسے جواب دہ ٹہرانا چاہیے۔ دوسری جانب امر...

ایران کی طرف سے اتحادیوں کو اسلحہ فراہم کرنے کا اعلان۔امریکا میں شدید تنقیدکا طوفان

قطر ایران تعلقات کی بحالی پر سعودی عرب کی ناراضی ۔۔چہ معنی دارد شہلا حیات نقوی - جمعه 01 ستمبر 2017

قطر نے گزشتہ روز ایران سے سفارتی تعلقات مکمل طورپر بحال کرنے کا اعلان کیا ہے،اور اس اعلان کے ساتھ ہی دونوں ملکوں کے درمیان سفارتکاروں کاتبادلہ بھی کرلیاگیا ہے،قطر کی جانب سے ایران کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے اس اعلان سے سب سے زیادہ دھچکہ سعودی عرب کو پہنچاہے،کیونکہ قطر کے اس اعلا...

قطر ایران تعلقات کی بحالی پر سعودی عرب کی ناراضی ۔۔چہ معنی دارد

قطر بحران کا سب سے زیادہ فائدہ ایران کو ہوا وجود - هفته 15 جولائی 2017

امریکا، برطانیا اور کویت نے ایک دفعہ پھر خلیجِ فارس میں جاری سفارتی بحران کے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ جلد از جلد مذاکرات کے ذریعے اپنے اختلافات حل کریں۔ان تینوں ملکوں کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکی وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن اور برطانیا کے قومی سلامتی کے م...

قطر بحران کا سب سے زیادہ فائدہ ایران کو ہوا

دنیا بھر میں میزائلوں کی نئی دوڑ شروع ہوگئی! ایچ اے نقوی - بدھ 14 دسمبر 2016

بیلسٹک میزائلوں کی تعداد میں اضافے کیلئے کوشاں ممالک میں بھارت ، شمالی کوریا، اسرائیل، ایران اور پاکستان شامل ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شمالی کوریا کی جانب سے گزشتہ دنوں نئے بیلسٹک میزائلوں کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔شمالی کوریا نے دعویٰ کیاہے کہ اس کے ت...

دنیا بھر میں میزائلوں کی نئی دوڑ شروع ہوگئی!

مضامین
بھارت کیا چاہتا ہے؟؟ وجود جمعرات 01 مئی 2025
بھارت کیا چاہتا ہے؟؟

انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب وجود جمعرات 01 مئی 2025
انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب

پاکستان میں بھارتی دہشت گردی وجود جمعرات 01 مئی 2025
پاکستان میں بھارتی دہشت گردی

بھارت کی بین الاقوامی میڈیا میں سبکی وجود بدھ 30 اپریل 2025
بھارت کی بین الاقوامی میڈیا میں سبکی

مسئلہ بلوچستان پر سردار نواب بخش باروزئی کی فکر انگیز باتیں وجود بدھ 30 اپریل 2025
مسئلہ بلوچستان پر سردار نواب بخش باروزئی کی فکر انگیز باتیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر