وجود

... loading ...

وجود
وجود

دیس بدر شہزادی آدم خوروں میں تُو آئی کیوں؟

منگل 27 دسمبر 2016 دیس بدر شہزادی آدم خوروں میں تُو آئی کیوں؟

قیام پاکستان کے بعد کم و بیش ساڑھے پانچ عشروں تک روشن دماغوں کے تخیل کی دودھیا لہریں صرف سولہ اکتوبر کو ہی راولپنڈی کے لیاقت باغ میں داخل ہوا کرتی تھیں لیکن 2007 ء کے دسمبر کی ستائیسویں شام کے ایک دل دوز خونی واقعے نے اس دن کو بھی تاریخ کا ورثہ قرار دے دیا ۔ شہیدِ ملت لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو کی شہادت گاہ کا درجہ اس تاریخی لیاقت باغ کو حاصل ہوا۔ اور اب ہمیشہ کے لیے اس کے سبز مخملی فرش پر پڑنے والی روشنی کی کرنیں دونوں شہیدوں کی خوشبو کو مہکاتی رہیں گی ۔ شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان بابائے قوم حضرت قائد اعظم ؒ کے اُس ہراول دستے کا نکھار تھے جن کی وراثت صداقت ، دیانت اور امانت ٹھہری ۔۔۔ جبکہ بے نظیر بھٹو شہید ہماری سیاسی تاریخ میں جمہوری رویوں کے تسلسل کا استعارہ ہیں ۔۔۔۔۔!
راولپنڈی کے لیاقت باغ میں بے رحم قاتلوں کا نشانہ بننے والی بے نظیر بھٹو پاکستان میں جمہوری جدو جہد اور اسٹبلشمنٹ کے شکنجے سے آزاد سیاست کی علمبردار تھیں ۔ پیپلز پارٹی میں ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اسٹبلشمنٹ کا مقابلہ بے نظیر بھٹو کے علاوہ کسی نے نہیں کیا اور نہ ہی یہ ان کے علاوہ اُن کی پارٹی میں کسی دوسرے کے بس کی بات تھی ،پیپلز پارٹی کی موجودہ سیاست نے تو یہ سب کچھ عملی طور پر ثابت بھی کردیا ہے ۔ پیپلز پارٹی میں اب بے نظیر کا قد ہے اور نہ ان جیسا کوئی سراپا جرأت۔۔۔ اور سوچ تو بہت دور کی بات ہے ۔
جیالوں اور عوام نے بے نظیر کو دو مرتبہ اپنی محبتوں کے ساتھ رُخصت کیا ۔ پہلی مرتبہ 21 دسمبر1987 ء کو انہیں ان کے آبائی گھر 70 کلفٹن سے 225 ای آئی لائنز کراچی کی جانب رُخصت کیا گیا تھا ۔ اُس روز بھٹو خاندان کے آبائی نکاح خواں محمد احمد بھٹو نے انہیں شریعتِ محمدی کے مطابق آصف علی زرداری کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک کیا ۔گرین لہنگے اور پنک ڈوپٹے میں ملبوس بے نظیر بھٹو جب بوسکی شلوار قمیص اور بوسکی پٹکے میں ملبوس آصف علی زرداری کے ساتھ رخصت ہو رہی تھیں تو ان کا سر اپنے شفیق باپ کے ہاتھوں کے لمس سے محروم تھا ۔ چھوٹا بھائی گوگل ( شاہنواز بھٹو) شدت کے ساتھ انہیں یاد آرہا تھا ،اس جواں سال کی یاد انہیں بہت رُلا رہی تھی ۔ شاہنواز بھٹو کی میت کو دو سال پہلے ہی دیارِ غیر سے لا کر انہوں نے اپنی سرزمین کی مٹی کے سپرد کیا تھا ۔ دوسرا بھائی مرتضیٰ بھٹو شام کے دارالحکومت دمشق میں بے بسی کا مجسمہ بنا بیٹھا تھا ۔ سنگین نوعیت کے بہت سے مقدمات اور جنرل ضیاء الحق مرحوم کا اقتداراس کی وطن آمد کی راہ میں حائل تھے ۔ بیگم نصرت بھٹو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی بڑی بیوہ، شیریں امیر بیگم بہن صنم بھٹو ، خالائیں بہجت ہریری ، صفیہ صابونچی ، خالا زاد بہنیں ، بھٹو مرحوم کی بہنیں اور ان کی اولادیں ، بے نظیر بھٹو کی سہیلیاں بھٹو مرحوم کے ذاتی دوست ڈاکٹر ظفر خان نیاز ی ان کی بیٹی یاسمین نیازی اور خاندان کی چند خواتین انہیں رُخصت کر رہی تھیں ۔ انتہائی سادگی کے ساتھ شادی کی تمام رسومات اور مراحل طے ہوئے ۔۔ کارکن اور جیالے دخترِ مشرق اور اپنی بہن کو رُخصت کرنے کے لیے کلفٹن پل سے70 کلفٹن سے 225 ای آئی لائنز کراچی تک کے راستوں پر جمع تھے ۔ بھٹو خاندان کی طرف سے شادی کا اصل استقبالیہ ککری گراؤنڈ میں دیا گیا تھا ۔ جہاں ہزاروں کارکن موجود تھے ،اس موقع پر جذبات سے مغلوب ہو کر بے نظیر بھٹو نے دلہنوں کی روایات توڑتے ہوئے کارکنوں سے باقاعدہ خطاب کیا ۔ وہ انتہائی جذباتی انداز میں کہتی سنائی دیں کہ ’’ یہ نہ سمجھنا کہ بے نظیر شادی کے بعد آپ سے الگ ہو جائے گی ،آپ کی بہن آپ کے درمیان رہے گی۔ اس خوشی کے موقع پر ہر بیٹی کو اپنا باپ یاد آتا ہے ۔ میرے بھائی بھی اس موقع پر ساتھ نہیں ہیں ۔لیکن مجھے یہ کمی آپ لوگوں کی محبت کے باعث محسوس نہیں ہو رہی ہے ۔ میں آپ کا کن الفاظ میں شکریہ ادا کروں ۔ آپ نے مجھے کتنی محبت دی ہے ،میں اس کا قرض ادا نہیں کر سکتی ،میں اپنا مشن جاری رکھوں گی ‘‘۔
بے نظیر نے اپنا عہد آخری دم تک نبھایا ۔ بھٹو خاندان اور جمہوریت کے خلاف پھنکارتی سازشوں میں وہ ایک چٹان کی طرح ڈتی رہیں ۔ وہ ایک بڑے زمیندار ، متمول گھرانے کی بیٹی ہونے کے باوجود بے کس و بے بس تھی لیکن پھانسی گھاٹ پر جھول کر ابد کا جام پینے والے بھٹو کا ورثہ اُس کے پاس تھا ۔ جس کے سہارے وہ سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہیں ۔ اُس کی یہ جدوجہد وفاق کی مضبوطی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں وطن واپس آئیں تو سانحہ کارساز میں شہید ہونے والے اپنے کارکنوں کے تابوتوں کو کندھا دیتے اور ان کے وارثوں کو گلے لگالگا کر نڈھال ہو رہی تھیں کہ لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک سانحہ کے دوران خالقِ حقیقی سے جا ملیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس مرتبہ کی ان کی رخصتی کا مرحلہ انتہائی دلدوز تھا ۔ ان کی والدہ نصرت بھٹو بیمار تھیں۔ باپ بھائیوں کا خلا تو پہلے ہی تھا ۔ البتہ بلاول بھٹو ، بختاور اور آصفہ بھٹو کے ناتواں کاندھے اپنی شہید ماں کے تابوت کو سنبھالے ہوئے تھے ۔ ان تینوں کی شریانوں میں بھٹوز کی شہادت کے ورثے کی سُرخی داخل ہو چُکی تھی ۔ آصف علی زرداری بے نظیر بھٹو کے وارثوں کے سر پرست قرار پائے ۔۔۔۔۔۔ اس المناک سانحے کے بعد انتخابات ہوئے، عوام نے پاکستان پیپلز پارٹی کو اکثریت دلا کر شہید سے سے اپنے عہد کا ایفا ء کیا ۔بے نظیر بھٹو کے بعد کی اس پیپلز پارٹی نے پانچ سال اقتدار میں گزار دیے۔ آصف علی زرداری نے مفاہمت کے نام پر بھٹوز کی سیاست سے کمٹمنٹ اور قربانیوں کی پیوستگی کو معدوم کر دیا۔پنجاب کے وہ چوہدری برادران جن کے کبھی بھی بھٹوز یا پیپلز پارٹی سے تعلقات مناسب نہ رہے، وہ اور پیپلز پارٹی کی قیادت ایک دوسرے سے سانسیں مانگ کر جیتے نظر آئے ۔ پیپلز پارٹی کے اس دور میں بھٹوز کے نظریے سے دست برادری کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ چوہدری پرویز الہی نائب وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہے ۔ آصف علی زرداری پانچ سال تک ملک کے صدر اور پیپلز پارٹی حکمران رہی لیکن بے نظیر کے قاتلوں کو سزا نہ مل سکی ۔۔۔۔۔۔۔ پارٹی پر مضبوط گرفت رکھنے والے آصف علی زرداری کے اندازِ سیاست نے بھٹوز کے طرزِ سیاست کو مفاہمت کی اوڑھنی اوڑا دی ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ سندھ اور پنجاب کی پارٹی قیادت کے درمیان بھی خلا پیداہو چُکا ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری گلا پھاڑنے کے باوجود پارٹی کی سانسیں بحال کرنے میں کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔ ایسے میں بے نظیر بھٹو کے یومِ شہادت پر سید نصیر شاہ مرحوم کے اشعار زیست کے لمحوں کی بے قراری میں مزید اضافہ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ
دیس بدر شہزادی آدم خوروں میں تُو آئی کیوں؟
بول، کہ وحشی صحرا میں پیغامِ بہاراں لائی کیوں؟
چلنے لگا ہے تیرا قبیلہ کیوں شبیر کی راہوںپر
درسِِِ خودی مظلوم کو دینا طنز ہے عالی جاہوں پر
یاد نہیں وہ جبر کہ جب اک منصف کے لب ہلتے تھے
تب بچے تیری اُنگلی تھامے قیدی باپ سے ملتے تھے
امن کا پرچم لے کے دیوی تُو کیا کرنے آئی تھی ؟
درندوں کی اِس بستی میں کیوں تُو مرنے آئی تھی ؟
دیوی تُونے اپنے خوں سے روشن پھول بکھیرے کیوں؟
راتوں کے تاریک نگر میں آئیں سانجھ سویرے کیوں؟
اندھوں کے اندھیر نگر میں سورج لے کے آئی کیوں؟
اتنی راہ گُم کردہ ہوئی تھی تیری وہ دانائی کیوں؟
آج بھی ہیں پامال جیالے کل بھی تھے پامال وہی
سادہ دل سے صید وہی اور صیادوں کے جال وہی
( سید نصیر شاہ)
٭٭


متعلقہ خبریں


تین حاکم ،کئی کہانیاں محمد اقبال دیوان - جمعه 07 اپریل 2017

ظفرالطاف مرکزی حکومت میں ڈپٹی سیکرٹری کیبنٹ تھے ۔ضیاالحق کی کیبنٹ کی کارروائیاں اور ان کا ریکارڈ رکھنا ان کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔کابینہ کے اجلاس سے لوٹتے تو بہت مایوس دکھائی دیتے تھے۔حکومت نے نیاز نائیک کی جگہ پر اکائونٹس گروپ کی گلزار بانو کو سب سے اہم عہدے پر سیکرٹری کیبنٹ ...

تین حاکم ،کئی کہانیاں

مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر