وجود

... loading ...

وجود
وجود

نوشتہء دیوار

پیر 28 نومبر 2016 نوشتہء دیوار

وقت آگیا ہے کہ ہم اردو کی اس اصطلاح میں اب کشادگی پیدا کرکے اس میں اسٹریٹ آرٹ کو بھی شامل کرلیں۔پچھلے دنوں یہاں سندھ میں پی ٹی آئی کے ایک رکن اورنگزیب نے ایک تحریک شروع کی تھی۔ایک احتجاجی تحریک۔وہ اسٹینسل پر قائم علی شاہ جو اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے ان کی تصویر اور اس کے نیچے انگریزی میں Fix-itکے الفاظ جن کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ’’ اسے ٹھیک کرو‘‘ سے ایسا پیغام اس جگہ نقش کردیتے تھے جہاں یا تو گٹر کا ڈھکن غائب ہوتا یا جہاں کچرے کا ڈھیر لگا ہوتا تھا۔ان کی اس حرکت سے پہلے تو سندھ حکومت نالاں ہوئی اور جب اس تحریک کو میڈیا اچھالنے لگا اور خود اورنگ زیب صاحب بھی حد سے کچھ تجاوز کرنے لگے تو انہیں پابند سلاسل کردیا گیا۔ اب وہ باب گمنامی میں کہیں گم ہوگئے ہیں۔
ہمیں یہاں دکھائی دینے والے اس اسٹریٹ آرٹ سے شدید چڑ ہے جو اکثر دیواروں پر یا تو ٹرکوں والے آرٹ کے نمونے منقش کردیتا ہے یا کالے اسٹینسل سے بار بار دہرائے گئے مناظر سے دیواروں کو آلودہ کرتا ہے۔ہمارا خیال یہ ہے کہ اسٹریٹ آرٹ ایک گہرے نازک خیال کو فنکارانہ مشاقی سے کم سے کم انداز میں بیان کرے تو اسٹریٹ آرٹ کہلانے کا مستحق قرار پاتا ہے۔دنیا بھر میں اس کی کئی مثالیں مختلف دیواروں پر آویزاں دکھائی دیتی ہیں۔ان دیواروں پر اسے دو انداز سے پرکھا
جاتا ہے کہ یہ کیا عوام کو باخبر رکھنے کے لیے کسی قسم کا معصومانہ احتجاج ہے یا یہ سرمایہ کارانہ نظام کے خلاف عام آدمی کا ایک anti-capitalistاعلان جنگ ہے۔

air-strike

اس کے خالق فن کار ایک طرح سے خاموشی سے یہ پیغام بھی دے رہے ہوتے ہیں کہ کوئی فن پارہ اگر کسی میوزیم یا آرٹ گیلری میں نہیں سجایا گیا تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اس کی دنیائے مصوری میں کوئی اہمیت نہیں۔ اس کے مخالفین اسے شہری نوجوانوں کی ایک طرح کی بے راہ روی(vandalism)کا درجہ دیتے ہیں۔


اسٹریٹ آرٹ کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ترین نام برطانیہ کے آرٹسٹ Banksy کا ہے جنہیں سن2010 میں مشہور رسالے ٹائم میگزین نے دنیا بھر کے ان سو افراد کی فہرست میں شامل کیا تھا جنہیں اس وقتmost influential people قرار دیا تھا۔اس فہرست میں براک اوباما۔ایپل کے مالک اسٹیو جاب اور مشہور گلوکارہ لیڈی گاگا بھی شامل تھے۔بنکسی کو اسٹریٹ آرٹسٹ،فلم ساز، پینٹر، فعال (activist) اور ہمہ جہت محرک (provocateur) کا درجہ دیا گیا۔ بنکسی جنہیں گمنام رہنے کا بے حد شوق ہے اور بہت کم لوگ ان کی وجاہتی شناخت سے واقف ہیں انbbf3d5247fc76c2188f7ed3a7c5d99dfہوں نے اس موقعے پر اپنی جو تصویر شائع ہونے کے لیے فراہم کی اس میں وہ کاغذ کی ایک تھیلی
recyclable میٹریل کی بنی تھی۔یہ ان کا جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے خلاف احتجاج تھا،جن سے کاغذ اور دیگر اشیا بنائی جاتی ہیں۔ان کے آرٹ کے نمونے اب تو لاکھوں ڈالر میں فروخت ہوتے ہیں جنہیں دیگر فن کاروں نے یورپ اور امریکہ کی مختلف دیواروں پر اپنا خاموش احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے نقل کیا ہے۔ان کے بارے میں ایک فلم بھی بنی جس کا نام ہے Exit Through the Gift Shop ۔ یہ فلم آسکر ایوراڈ کے لیے بھی نامزد ہوئی تھی۔برطانیہ میں جب وہ محض ایک گمنام نوجوان تھے انہوں نے شہر برسٹل میں جب اپنی پہلی پینٹنگ ایک دیوار پر بنانے کی کوشش کی تو آزادیء اظہار کی اس مملکت میں پولیس انہیں پکڑنے آگئی اور انہوں نے بمشکل کچرے کے ایک ٹرک کے نیچے چھپ کر اپنی جان بچائی۔

wall-around-west-bank-israel

 

چند برسوں بعد جب حالات نارمل ہوئے تو انہوں نے چند فن کاروں کے ساتھ مل کر ایک سرنگ کو سفید رنگ کیا اور اپنے فن پارے تخلیق کیے اس دیکھنے پانچ ہزار افراد آئے۔یہ ان کا آرٹ کی مہنگی دنیا کے خلاف پہلا باقاعدہ احتجاج تھا۔ اس کی تخلیق پر بہت کم لاگت آئی تھی مگر اس نے دنیا بھر کے نو آموز جدہوجہد میں مصروف فن کاروں کو بہت حوصلہ افزائی فراہم کی۔بنکسی اپنے فن میں اسٹینسل کا استعمال کرتے ہیں۔ان میں سیاہ اسپرے پینٹ نمایاں ہوتا ہے۔
بنکسی کو اصل شہرت اس وقت ملی جب وہ اسرائیل کے شہر بیت اللحم گئے۔وہاں کی دیواروں پر انہوں نے نو ایسے فن پارے پینٹ کیے جس سے اسرایئل میں آگ لگ گئی اور اس کی روشنی سے انٹرنیٹ جگمگا اٹھا۔ان کی ایک تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ اسرائیل کو پیغام دے رہے ہیں کہ اگر فلسطینوں پر ظلم ہوگا تو وہ پھولوں کے گلدستے یقینا فوجیوں پر نہیں پھینکیں گے۔

israel
ان کا آخری فن پارہ جو بہت باعث نزاع بنا وہ ایک بچے کی تصویر تھی جو ایک جلتا ہوا ٹائر ہانکتا ہوا لے جارہا ہےjune-2016-banksy ۔یہ ایک اسکول کی دیوار کے باہر بنایا گیا تھا ۔اسکول کا ارادہ غریب بچوں کی فیس میں اضافے کا ارادہ تھا۔ وہ اسکول کی انتظامیہ کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ اس وجہ سے جو بچے تعلیم سے محروم
رہ جایئں گے، وہ احتجاج کی تحاریک کا حصہ بن جائیں گے۔اسی طرح کی ایک تصویر جس میں بچی ایک بم کو تھامے کھڑی ہے وہ ان کی اس مخالفت کا حصہ ہے جو انہوں نے برطانیہ کی عراق کی جنگ میں شمولیت پر کی تھی۔بنکسی ایک دن چپ چاپ سے امریکہ کے شہر نیویارک میں سڑک پر اسٹال لگا کر بیٹھ گئے۔سنٹرل پارک کے باہر بہت سے فن کا ر سڑک پر اپنے اسٹال لگا کر بیٹھتے ہیں کسی کو علم ہی نہ ہوا کہ دنیا کا مشہور آرٹسٹ بھی اپنا ٹھیہ سجائے بیٹھا ہے۔ایک فن کارہ سب سے مہنگا تھا، ساٹھ ہزار ڈالر کا۔ایک طالبہ کو بہت پسند آیا

child-hugging-bomb

 

۔ وہ معصومیت سے کہنے لگی کہ اسے ان کی گمنامی سے کوئی سروکار نہیں۔وہ کون ہیں یہ بھی اسے معلوم نہیں مگر تصویر وہ خریدنا چاہتی ہے۔اس کے پاس کل بیس ڈالر ہیں جو اس نے رات بھر کی ملازمت سے کمائے ہیں۔ وہ آج بھوکی رہ سکتی ہے اگر وہ یہ فن پارہ اس رقم میں فروخت کریں تو ان کی مہربانی ہوگی۔بنکسی نے اسے کہا وہ یہ رقم اپنے پاس رکھے،کھانا بھی ضرور کھائے اور تصویر مفت میں لے جائے۔بعد میں جب اسے یہ معلوم ہوا کہ وہ تو بنکسی کے فن پارے کے مالک بن گئی ہے تو اس نے اسے فروخت کرکے اپنی تعلیم مکمل کی۔ایسا ہی معاملہ ہندوستان کے مشہور بوہری آرٹسٹ مقبول فدا حسین (المعروف ایم۔ایف۔حسین جسے وہ مادھوری ڈکشٹ سے اپنے دلی لگائو کی وجہ سے مادھوری کا فین حسین بھی کہتے تھے) کے ساتھ بھی پیش آیا ، وہ بہت غریب تھے شہر الور کے ایک سرکاری اسکول میں پڑھتے تھے اور فلموں کے اشتہار پینٹ کرتے تھے۔انہوں نے اپنی دو درجن تصاویر کی ایک نمائش اسکول کے اس کمرے میں منعقد کی، جہاں سے وہ غربت کی وجہ سے تعلیم منقطع کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب ان کی تصویر کم از کم تیس ہزار ڈالر کی فروخت ہوتی تھی۔کلاس میں کل چوبیس بچے زیر تعلیم تھے۔بہت سے مالدار افراد ان تصاویر کی خریداری کے مشتاق تھے۔منتظمین پربہت دبائو تھا۔حسین صاحب نے نمائش کے آخری دن اپنی پسندیدہ تصویر کے پاس اس پر اپنی رائے ایک رجسٹر پر منقول کرکے کھڑے ہوجائیں۔انہوں نے یہ تصاویر ان ہی بچوں کو مفت میں دے دیں۔ان کی مالیت ان دنوں سات کروڑ بیس لاکھ روپے بنتی تھی۔no-future
اب آپ جان گئے ہوں گے کہ اسٹریٹ آرٹ اہل معاملہ سے ایک سوال پوچھتا ہے۔ان کی توجہ کسی بے حسی کی طرف دلاتا ہے۔امریکہ میں اب دیواروں پر بلااجازت لکھی جانے والیgraffiti اور متعلقہ افراد یا ادارے کی اجازت لے کر بنایا جانے آرٹ ایک دوسرے سے جدا کردیا گیا ہے۔پہلا ناپسندیدہ عمل Vandalism اور دوسرا آرٹ تصور کیا جاتا ہے۔پہلے کو وہ جرائم میں اضافے کا باعث سمجھتے ہیں اور اسے اب وہ the Broken Window Theory کا نام دیتے ہیں۔دوسرے نمونے میں اب کئی فن کار اپنی تصاویر بناتے ہیں، کہیں کہیں ڈیجٹل طور پر دور سے ایک خاص پیغام یا تصویر کسی اہم مقام پر پروجیکٹ کرتے ہیں۔

street-art-seth-globepainter-julien-malland-55__880

بعض مقامات پر وہ Street installations
بھی 3-D اشیا سے آویزاں کرتے ہیں۔
اس مضمون کو پڑھ کر ممکن ہے ہمارا نوشتہء دیوار بھی مرقعہء خیال آفرینی اور فن بن جائے،


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر