وجود

... loading ...

وجود
وجود

پرویز رشید کی رخصتی

بدھ 09 نومبر 2016 پرویز رشید کی رخصتی

شائد بہت ہی کم لوگوں کو علم ہے کہ دھیمے مزاج اور بظاہر نرم خو جناب پرویز رشید کی ن لیگ میں کیا حیثیت ہے؟ان کی میاں محمد نواز شریف کے دوسرے دورِ وزارت عظمیٰ سے شروع ہونے والی ذہنی ہم آہنگی اور قربت اب قربت کے مرحلے سے بہت ہی آگے تک پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے میاں محمد نواز شریف کا اعتماد بہت حد تک تب بھی جیت لیاتھا جب وہ مشرف کی مارشل لاء کے ابتدائی دنوں میں لاہور ہائی کورٹ میں گھسیٹے اور اٹھا کر پولیس وین میں پٹخے گئے جب میاں نواز شریف کا اپنا سایہ بھی ان کے ساتھ کھڑا ہونے کو تیار نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس عرصے میں ہر دوسرے دن حسین نواز صاحب کی (پہلی اور اُس وقت تک واحد) بیگم صاحبہ ہمارے اُس وقت کے دفتر کے براہِ راست لینڈ لائن نمبر پرفون کرکے اپنی اور اپنے (اُس وقت کے) شیرخوار بچے کی بپتا سنایا کرتی تھیں اور ملتمس ہوتیں کہ ان کی داستان اخبار کی زینت بن جائے لیکن ہماری تمام تر ذاتی کوشش کے باوجود یہ خبر خال ہی اس اخبار کے کسی کونے کھدرے میں جگہ لے پاتی تھی حالاں کہ وہ اخبار اُس وقت بھی ان کا ’اپنا اخبار‘ سمجھا جاتا تھا، اور شائد اسی اپنا ہونے کے ناطے آج بھی سب سے زیادہ سرکاری اشتہارات کا حق دار گردانا جاتا ہے۔
جناب پرویز رشید صاحب کی مشرف آمریت کے خلاف جدوجہد اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ان کی حالت زار انہیں میاں نواز شریف کے اس قدرقریب لے گئی کہ وہ میاں صاحب کی آنکھیں ، کان اور دماغ ہو گئے۔ اس قربت کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ راجہ ظفرالحق ، مخدوم جاوید ہاشمی اور بہت سے وہ لوگ ن لیگ کے ہاں نامعتبر ٹھہرے جو میاں صاحب کی غیر موجودگی میں مشرفی آمریت کے خلاف مزاحمت کرتے اور اس مزاحمت کی قیمت ادا کرتے رہے۔اور تو اور کلثوم آپی کے ہمقدم باہر نکلنے اور فوجی آمریت کو للکارنے والے ، جنہوں نے اُس وقت کی پنجاب پولیس کے ہاتھوں ’گدڑ کُٹ‘ کھائی تھی، لیکن ان کی گاڑی کے اسٹیرنگ سے دستبرادر ہونے سے انکاری ہو گئے تھے، آپ کو آج ن لیگ کی صفوں میں نظر نہیں آتے۔
پرویز رشید صاحب کو اس اعلیٰ اور ارفع مقام تک پہنچانے میں ان کے اُن ’’ہم پیالہ‘‘ صحافیوں کا بھی بہت عمل دخل ہے جنہوں نے پرویزی تشدد کے نتیجے میں امریکا میں پرویز رشید کے ہونے والے نفسیاتی علاج کے دوران میاں صاحب کو پرویز رشید پر ہونے والے مظالم کو کئی کروڑ سے ضرب دے کر سنایااور میاں صاحب ’’پرویزی قربانیوں ‘‘کے اس طرح قائل ہوئے کہ ان کے لیے اپنے گھر کے علاوہ دل کے دروازے بھی کھول دیے۔
یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف نے اقتدار میں واپس آتے ہی انہیں اپنی حکومت کا ترجمان قرار دے ڈالا۔ مارشل لاء لگتے وقت پرویز رشید صاحب بڑی مشکل سے چیئرمین پی ٹی وی ہی بن پائے تھے لیکن اب کی بار پوری وزارتِ اطلاعات و نشریات کا ہما ان کے سرپر بیٹھا کہ بہت سے دیگر وزارتوں میں ان کا عمل دخل ان وزارتوں کے انچارج وزرا سے بھی زیادہ تھا۔ انہوں نے اپنے مظالم کی داستانیں بیان کرنے والے ان ’’’پھپھے کٹنی ‘‘ٹائپ صحافیوں کے ’منہ موتیوں‘ سے بھردیے اور یہ تو آپ کے علم میں ہو گا کہ اس وقت پی ٹی وی کے پے رول پر 132 ایسے اینکرز نما صحافی بھی ہیں جن میں سے غالب اکثریت پی ٹی وی پر توکوئی پروگرام نہیں کرتی ، لیکن مبینہ طور پر تین سے دس لاکھ روپے تک تنخواہ ان کو ہر ماہ باقاعدگی سے قومی خزانے سے ادا کردی جاتی ہے۔
یہی بات ہم نے جب ایک لیگی دوست کو بتائی اور عرض کیا کہ مشرف آمریت کے خلاف اگر لاہور میں پرویز رشید نکلا تھا تو کراچی میں مشاہداللہ خان نکلا تھا، دونوں کا کیا حشر ہوا؟ کیا جی او آر میں اُس واقعے میں جس میں کلثوم آپا نے خود کو گاڑی میں بند کیا تھا، اُس وقت گاڑی کا ڈرائیور جو ’سمندری ‘سے ایم این اے بھی تھا، وہ کہاں ہوتا ہے آج کل؟ یہ بات تو میاں نواز شریف کی شدید قسم کی طوطا چشمی کی نشاندہی کرتا ہے تو وہ پہلے تو اپنا ہم سے بھی بڑا پیٹ پکڑ کر زور زور سے ہنستے رہے پھر بولے آپ نے خواتین کی مخصوص نشستوں پر جیتنے والوں کی فہرست ملاحظہ کی ہے ؟ ان میں ان سب قربانی دینے والوں کی بہو بیٹیاں ہی شامل ہیں۔ پرویز رشید کے بعد وزارتِ اطلاعات کس کی بیٹی اور بہو کے ہاں گئی ہے؟ ذرا چیک تو کرو؟ عرض کیا تو پھر ان کی قربانی کیوں مانگی گئی؟ تو فرمانے لگے قربانی تو سب سے عزیز چیز کی ہی مانگی جاتی ہے ناں؟ اور ہم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
پہلے پارلیمنٹ جناب پرویز رشید صاحب کی مدافعت میں سامنے آ گئی ہے اور پیپلز ارٹی کے سینیٹ چیئرمین جناب رضا ربانی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جس طرح فوجی کا احتساب فوجی قانون کے تحت اور جج کا احتساب عدلیہ کے قوانین کے تحت کیا جاتا ہے تو پھرہم بھی اپنے معزز ممبر پر لگنے والے الزام کا جائزہ اور سزا خود ہی تجویز کریں گے۔ اس کے بعد جناب نثار علی خان رو بہ عمل آئے اور جنابِ پرویز کو معصوم قرار دے ڈالااور کہا کہ ان سے کسی پوچھ گچھ اور تحقیق کی کیا ضرورت؟
ہمیں پرویز رشید کے نظریات سے شدید اختلاف تھا اور رہے گا لیکن جس جوانمردی سے انہوں نے مشرف کے مظالم کا سامنا کیا ، اُس کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہے۔ وہ اس کے نتیجے میں جس قدر ذہنی کوفت اور اذیت سے گزرے، اس کو سوچ کر ہی بندہ کانپ جاتا ہے۔ ہم ان کی جوانمردی کے عینی شاہد رہے ہیں اس لیے تما م تر اختلافات کے باوجود ان کے احترام کا ایک سمندر ہے جو دل میں موجزن ہے۔وہ جس بہادری اور دیدہ دلیری سے تمام سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کرآل پاکستان موسیقی کانفرنس میں غزل سرا اپنی بیٹی کی پرفارمنس پر داد دینے پہنچے اور اپنے موبائل سے اس کی ریکارڈنگ کرتے رہے، یہ ان ہی کا حوصلہ تھا ۔ وہ ہمارے لیے اس حوالے سے بھی قیمتی ہیں کہ وہ اپنے نظریات پر جم کر کھڑے ہیں اور انہوں نے اپنے بعض ماتحتوں کی طرح اپنے نظریات سے رجوع نہیں کیا ، اور اسلام کے پھٹے پر دہریت کا سودا بیچنا شروع نہیں کیا۔ کیوں کہ ان کے بعض ماتحتوں نے یہ تک کہہ ڈالا ہے کہ ’’ابا جی کے ماڈل ٹاون کی ایک مسجد میں خطبہ جمعہ دینے والی بات تو بس برسبیلِ تذکرہ ہو گئی تھی ورنہ ایسی ویسی کوئی بات نہیں تھی اور میں اپنے ایسے کسی ابّے کو نہیں جانتا‘‘۔
ان سے تمام تر اختلاف کے باوجود ہم خود کو ان کے ساتھ دلیل والوں کے مورچے میں ہی ڈٹا ہوا پاتے ہیں اور شائد یہی ہمارے معاشرے کا حسن بھی ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی اقتدار کے ایوانوں میں واپسی ’شرطیہ نئے پرنٹوں ‘‘ کے ساتھ ہو گی اور وہ نئے جذبے کے ساتھ رو بہ عمل ہوں گے۔ جب کہ ہمارا یہ گمان ہے کہ ان کی واپسی ایک بہت ہی موثر کردار میں ہو بھی چکی ہے۔
ہماری ذاتی اطلاع کے مطابق بول ٹی وی کا ہواؤں کے دوش پر بکھر جانا بھی ان کی ایک ناکامی اور وزارت کے معاملات پر ان کی ڈھیلی پڑتی گرفت کو سمجھا جب کہ میاں صاحب کافی عرصے سے مشاہد حسین سید کو ان کی جگہ لانے کے لیے ذہن بنا چکے تھے۔ وہ تو بعض لیگی حضرات آڑے آ گئے اور شاہ صاحب کی ن لیگ میں آمد مؤخر ٹھہری۔ کیوں کہ جس دن سندھ ہائی کورٹ سے بول ٹی وی کا لائسنس بحال ہوا تو اس فیصلے کی خبر سننے کے بعد وہ فون پر کسی کو (خلافِ طبیعت ) باقاعدہ ڈانٹ رہے تھے کہ کیا ہائی کورٹ کے بعد کوئی عدالت نہیں ہوتی؟ اس فیصلے کے خلاف اپیل میں کس نے جانا تھا؟ دوسری طرف سے جب کوئی جواز پیش کیا گیا تو انہوں نے مزید غصے سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے ناں کہ اس کا فیصلہ کہاں پر ہوا تھاتو پھر ایسی سُستی کی وجہ کی سمجھ نہیں آتی۔ اپنی وزارت کے آخری دنوں میں وہ اس بات کو یقینی بنانے میں سرگرم تھے کہ کسی طرح بول ٹی وی کو پھر سے بولنے سے محروم کر دیا جائے، کہ وزارت سے محروم کر دیے گئے۔
تا ہم جو کچھ بھی ہے ان کی وزارت سے اس انداز میں رخصتی سے دل دکھا کہ ایک نظریاتی سیاسی کارکن کے ساتھ ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا۔ ویسے بھی اس ملک میں بین الاقوامی امداد پر پلنے والی این جی اوز کے آ جانے کے بعد ان کے نظریاتی قبیلے میں لوگ ہی کتنے رہ گئے ہیں جو پاکستانی اداروں سے تنخواہ لیتے ہیں؟


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر