وجود

... loading ...

وجود
وجود

رام پنیانی اور پاکستانی وزیر

جمعرات 03 نومبر 2016 رام پنیانی اور پاکستانی وزیر

rampuniyani

رام پنیانی

رام پنیانی کا تعلق بھارت سے ہے۔ پیشے کے لحاظ سے اولاً ڈاکٹر اور ثانیاً بایو میڈیکل انجینئر ہیں، پرچار کے حساب سے البتہ تاریخ کے ذرا وکھرے طالب علم ہیں۔ تاریخ کا تو کئی اور لوگ بھی مطالعہ کرتے ہیں مگر وہ اپنے اس مطالعے کو کھینچ کھانچ کر غلط فہمیاں دور کر نے میں استعمال کرتے ہیں۔ایسی گنجلک اور متعصب غلط فہمیاں جو کوئی مسلمان یا عیسائی بیان کرے تو سارا بھارت اس پر تھو تھو کرے۔رام پنیانی صاحب کو اندرا گاندھی ایوارڈ برائے قومی یک جہتی بھی مل چکا ہے۔وہ بین المذاہب ہم آہنگی کے بڑے داعی ہیں۔
پاکستانی وزیر کا تذکرہ ہم نے یہاں پتھر کے اس غیر مستند باٹ کے طور پر کیا ہے جو ریڑھی والے اور چھابڑی والے وزن برابر کرنے کے لیے دوسرے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں۔ اس سے سودے کا وزن اور غریب تاجر کا ایمان دونوں ہی سلامت رہتے ہیں۔اب ایمان کی فکر صرف اسی سطح پر پائی جاتی ہے۔
تاریخ کے بارے میں مختلف باتیں کہی جاتی ہیں۔ چرچل کہتے تھے کہ تاریخ فاتحین لکھتے ہیں۔پنیانی صاحب البتہ بھارت کی اکثریت کو، جولیس سیزر کے دوست رومی فلاسفر سیسرو کے قول کی روشنی میں یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر آپ اس حقیقت کا کھوج نہیں لگائیں کہ ماضی میں کیا کچھ ہوا تو اس کا امکان ہے کہ آپ ساری عمر ذہنی طور پر ایک نادان بچہ ہی رہیں۔
تاریخ کا آپ جائزہ لیں تو یہ بڑی حد تک آراء (Opinions) پر مبنی حقائق کا بیان ہوتی ہے۔ ان حقائق کی اپنی ذہنی کیفیت اور مفاد کے حساب سے زاویہ نگاری (Angling)کی جاتی ہے۔ سو فیصد حقائق جیسے دو جمع دو برابر چار ،صرف سائنس کے چند مضامین بالخصوص ریاضی میں ابتدائی سطح پر بیان ہوتے ہیں بعد میں فارمولے لگا کر ان سے بھی بہت کھلواڑ کی جاتی ہے۔دنیا کی کوئی تاریخ Absolute Truth نہیں۔
اسلام آباد میں دو نومبر والے دھرنے کے الیکٹرونک میڈیا کے اپنے دکھائے ہوئے مناظر کو بھی اگر بعد کا مورخ بیان کرے گا تو اس کے تین زوایے ہوں گے اور ہر زاویہ اپنی جگہ پر درست ہوگا۔وہ اگر حکومت کے حامی گھرانوں کا چشم و چراغ ہے تو کہے گا کہ ایک آئینی طور پر منتخب حکومت کو احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ کے ذریعے ختم کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔وہ اگر پی ٹی آئی کے کیمپ کا ہے تو پرویز ر شید کو قربانی کے بکرے کی بجائے قربانی کا گدھا کہے گا کیوں کہ نون لیگ کے ہاں گدھے کی قربانی جائز ہے۔ جب ہی تو ان کے وزیر تجارت خرم دستگیر نے اسی سال سات جنوری کو بھری اسمبلی میں بیان دیا تھا کہ ان کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی 199,860 گدھوں کی کھالیں باہر ملک بھیجیں۔ان کا گوشت کہاں گیا؟
؂کس کو خبر ہے میرؔ سمندر پار کی
جبھی تو باہو شاہ نے کہا تھا کہ
؂ سیاست داناں دے ٹڈ سمندروں ڈونگے (گہرے)
کون ٹّڈاں جی جانے ہُّو
تیسرا زاویہ عوام کا ہوگا جو تاریخ کے طالب علموں کی نگاہ میں اہل کوفہ کی مانند اقتدار والوں کے ساتھ مصلحت کی خاک اور تلاش عافیت کا ہوگا۔
ڈاکٹر رام پنیانی کا مطالعہ ایک طرح سے مفتوحین کا رویہ ہے لیکن اس میں انہوں نے ایک نئی زمین نکالی ہے۔ وہ فاتحین کے بارے میں پائے جانے والے متعصبانہ نقطہء نگاہ پر تحقیق کی تلوار سونت کر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس دوران وہ اپنا لب و لہجہ دھیما رکھتے ہیں۔گاہے بہ گاہے وہ اپنے سامعین کے اذہان میں برسوں سے ٹھونسے ہوئے اسباق و نظریات پر بچوں کے سے مزاح کا پھوار بھرا چھڑکا ؤ بھی کیے جاتے ہیں۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ہندوتوا کے رنگ میں رنگے بھارت واسیوں کے نزدیک مغلوں میں اکبر اچھا بادشاہ تھا۔ دین اسلام سے ہٹ کر وہ رواداری کو بہت فروغ دیتا تھا۔ اس سے بہت پہلے آنے والا محمود غزنوی اور بہت بعد میں بادشاہت کا منصب سنبھالنے والا اورنگ زیب بہت برا تھا۔ وہ مندر ڈھاتے ،ہندووں کا مال لوٹتے تھے اور انہیں زبردستی مسلمان بناتے تھے۔ یہ تاریخ کے وہ اسباق ہیں جو ہندوستان میں ہر طالب علم اور ہر استاد نے اپنے ذہن میں سمو رکھے ہیں۔
سب سے پہلے ڈاکٹر رام پنیانی نے سلطان محمود غزنوی کو بطور موضوع بحث منتخب کیا۔ یمین الدولہ ابوالقاسم بن سبکتگین نے غزنی سے اپنی سلطنت کے پھیلاؤ کے لیے فتوحات کا آغاز کیا۔سن 1001 میں اس نے سب سے پہلے راجہ جے پال کو پشاور میں شکست دی۔ghazna-sey-somnath اس کا بیٹا آنند پال جو لاہور کا حکمراں بنا اس کو سات سال بعد ہرایا اور سن 1025 میں اس نے سومنات فتح کیا۔
غزنی جہاں سے سلطان محمود غزنوی (وہ پہلا بادشاہ تھا جس نے اپنے نام میں ترکی کا لقب سلطان شامل کیا) نے اپنی فتوحات کا آغاز کیا،وہاں سے سومنات تک کا اس زمانے کا زمینی سفر پانچ ہزار کلو میٹر بنتا ہے۔ تب تک موٹر ویز اور بائی پاس نہیں بنے تھے۔ ملتان تک جو وہاں پہلے ہی اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ چکا تھا یہ فاصلہ لگ بھگ تین ہزار کلو میٹر کے قریب ہے۔اسے ہم مکمل طور پرنہ تو مسلمان علاقہ کہہ سکتے ہیں نہ کاملاً ہندو علاقہ۔ یہاں ملی جلی آبادی تھی۔گوگل اب یہ فاصلہ کل 1,416 کلو میٹر بتاتا ہے مگر ہم اس نقطے کو اس لیے نظر انداز کرسکتے ہیں کہ ایک ہزار سال میں کئی نئی شاہراہیں تعمیر ہوئی ہیں ، مثلاً مشہور جی ٹی روڈ جو شیر شاہ سوری نے کابل سے کلکتہ تک بنائی وہ کل 2500 کلومیٹر طویل ہے۔

جی ٹی روڈ پر زمانہ قدیم میں پیادہ سفر کرنے والوں کی ایک تصویر

جی ٹی روڈ پر زمانہ قدیم میں پیادہ سفر کرنے والوں کی ایک تصویر

اس لیے ڈاکٹر رام کا بیان کردہ فاصلہ لگتا ہے پرانے نقشوں پر محیط اور مبالغہ آمیز نہ سہی پھر بھی تحقیق کی کسوٹی پر کمزور لگتا ہے۔
غزنی سے کچھ ہی فاصلے پر بامیان کا وہ مشہور تاریخی مقام ہے۔جہاں دنیا کے قدیم ترین دیو ہیکل گوتم بدھ کے مجسمے نسب تھے ۔ملتان تک آنے کے لیے اسے بامیان سے ہوکر آنا پڑا تھا ۔یہ دومجسمے آپ کو یاد ہوگا کہ طالبان نے اپنے دور حکومت میں مارچ 2001 میں ڈائنامیٹ سے اڑا دیے تھے۔

بامیان ۔پہلے اور بعد

بامیان ۔پہلے اور بعد

دنیا بھر سے (بالخصوص جاپان سے )ان کی تعمیر اور انتظام کے لیے جو امداد آرہی تھی اس سے طالبان اس لیے ناراض تھے کہ ان دنوں وہاں قحط سالی تھی۔ جس کے بارے میں مہذب دنیا لاتعلق ہوئی بیٹھی تھی۔ بت شکن محمود غزنوی نے بامیان کے ان مجسموں کو ہاتھ تک نہیں لگایا گو یہ محض ڈھائی سو کلو میٹر کے فاصلے پر موجود تھے۔اسی طرح طالبان حق جو افغانستان میں پانچ سال1996 سے 2001 وہ بھی بلا وجہ کے بت شکن نہ تھے بس یوں ہی دنیا کو Shock Treatment دینا چاہتے تھے ۔سوئے ضمیروں کو لات مار کر جگانا چاہتے تھے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ دنیا میں آج کل Shock Economy ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ کبھی ایبولا وائرس آتا ہے تو کبھی ایڈز کی باتیں ہوتی ہیں۔ یہ دوا سازوں کی محبوب صنف معاشیات ہے۔ ہمارے دوست انکم ٹیکس والے میجر اخلاق کہا کرتے تھے جہاز کے کپتان کا دم طوفان کی خبر سے نکالا کرو۔
ڈاکٹر رام پنیانی نے حاضرین سے مل کر حساب لگایا تو ہندوستان میں اوسطاً فی کلو میٹر چھوٹے بڑے پانچ مندر مل جاتے ہیں۔ یوں یہ تعداد سومنات تک پہنچ کر فاصلے کے پرانے تخمینے تک دس ہزار تک جاپہنچتی ہے۔ملتان سے غزنی کا موجودہ فاصلہ موجودہ سڑکوں کی وجہ سے کل ساڑھے چھ سو کلو میٹر کا ہے۔باقی ملتان سے ویراول گجرات کا فاصلہ ہزار کلومیٹر سے اوپر کا ہے۔
ہم اگر ان مندوروں کی تعداد کم کرکے ایک ہزار بھی کردیں تو سومنات تک کے زمینی راستے میں محمود غزنوی نے ان میں سے کسی سے کوئی لوٹ مار نہیں کی۔وہ یقیناًکسی لڑاکا جہاز یا اپاچی ہیلی کاپٹروں کی مدد سے گجرات کے قصبے ویراول نہیں پہنچا تھا جہاں سومنات کا مندر واقع ہے۔یہ وہ پہلا وار ہے جو وہ ہندوستان بھر میں محمود غزنوی پر پائے جانے والے تعصب پر بہت دھیمے سے کرتے ہیں۔
اب بات آگے بڑھتی ہے وہ کہتے ہیں کہ وہاں سومنات میں سونے کے بیس ہزار دینار تھے۔ یہ گجرات میں عربوں کے بحری قافلوں سے چرائے گئے تھے۔ سلطان محمود کو اس کی اطلاع تھی۔ اس کی فوج میں 35 فی صد ہندو شامل تھے۔اس فوج کے بارہ دستوں میں سے پانچ کے کمانڈر ہندو جرنیلوں کے نام سوندھی،تلک،ہرجان،رانڈھ اور ہند تھے۔ ان جرنیلوں نے اس کی معاونت ملتان میں بھی وہاں کے مسلمان حاکم عبدالفتح داؤد کے خلاف اسی دل بستگی سے کی تھی جس طرح انہوں نے سومنات پر باقی مسلمان فوج کے ساتھ کی تھی۔ملتان کی اس جنگ میں جب عبدالفتح داؤد نے جامع مسجد میں پناہ لی تو محمود کی فوج نے اسے بھی تاراج کردیا تھا۔
یہاں وہ کشمیر کے ایک راجہ ہرش دیو کا بھی حوالہ دیتے ہیں جن کا ایک محکمہ دیوت پتن نائیک کا کام ہی یہ تھا کہ جس عبادت گاہ میں بھی سونے اور جواہر سے مزین دیوتا اور خزائن ہوں انہیں مسمار کرکے دولت کو سرکاری خزانے میں جمع کرادیا جائے۔ ابتدائے تاریخ سے عبادت گاہوں میں اس طرح کے ذخائر جمع ہوتے رہے اور انہیں لوٹا جاتا رہا یہ کوئی نئی بات نہیں،روم اور بابل کے شہنشاہوں نے فلسطین میں دو مرتبہ ہیکل سلیمانی کو لوٹا جہاں اس طرح کے خزانوں کے ڈھیر تھے۔پچھلے دنوں بھی ممبئی میں ایک مشہور مندر ہے جس کا نام ہے سدھی ونائیک مندر۔

سدھی ویانک مندر

سدھی ونائیک مندر

یہاں ان کے خوش قسمتی کے ہاتھی کے منھ اور انسانی دھڑ والے دیوتا گنیش(گنپتی باپا) کی پوجا ہوتی ہے۔اس مندرکو سالانہ عطیات کی صورت میں 2.2 ملین ڈالر ملتے ہیں جو بھارت کے 15 کروڑ روپے بنتے ہیں۔اس کے کاروبار سے جمع شدہ رقم کی مالیت اربوں روپے ہے۔اس کے انتظامی امور پر جب ٹھاکرے کی شیو سینا نے قبضے کا سوچا تو بہت دنگا فساد مچا ۔اسی طرح ان کی ریاست آندھرا پردیش کے ایک مندر تروپاتھی بالا جی کی سالانہ آمدنی محض جمع شدہ پونجی سے حاصل ہونے والے سود کے حساب سے دو سو کروڑ روپے ہے۔

تریپاٹھی بالا جی مندر

تریپاٹھی بالا جی مندر

اس کے قریب ایک گاؤں میں صرف مقامی خواتین رہتی ہیں جو مندر کے لیے کھانے پینے کی اشیا اور پھولوں کا انتظام کرتی ہیں اور اپنی پوترتا (پاکیزگی) کے اہتمام میں ہمہ وقت حالت برہنگی میں رہتی ہیں۔ اس گاؤں میں کسی غیر مقامی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں۔
ہندوستان میں اورنگ زیب کو بدترین متعصب حکمران سمجھا جاتا ہے۔اسی اورنگ زیب کی اپنے ایک ماتحت مسلمان حکمران گولکنڈہ کے تانا شاہ سے خراج کی رقم کی ادائیگی پر جھگڑا ہوگیا۔وہ تین سال سے مختلف حیلے بہانوں سے خراج پیش نہیں کررہا تھا۔اس نے یہ جاننے کے لیے کہ تانا شاہ اپنی دولت کہاں چھپائے بیٹھا ہے جاسوس بھیجے اور جب اسے بتایا گیا کہ یہ ساری دولت محل سے متصل مسجد قطب شاہی میں چھپائی گئی ہے۔qutub-shahi-mosqueدولت کے حصول کے لیے مسجد کی اینٹ سے اینٹ پاکباز اورنگ زیب کے حکم پر بجادی گئی۔
ہم اب بہت کچھ پڑھنے اور دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اہل مال و منال، صاحبان حسن و جمال ، کوچہء طاقت و اقتدار کے باسیوں کی اکثریت، اخلاقیات اور حسن عمل و کردارسے اتنی ہی پرے ہوتی ہے جتنی مریخ کا سیارہ ہماری زمین سے پرے خلاؤں میں چکر لگا رہا ہے۔
یاد رکھیں خلفائے راشدین کے بعد جتنے بھی مسلمان حکمراں مسند اقتدار پر فائز ہوئے وہ اتنے ہی اچھے یا برے تھے جتنے مامون رشید ، محمد تغلق ، نادر شاہ درانی، شہاب الدین غوری، رنجیت سنگھ، اسٹالن ، نہرو، ایوب خان ، جمال عبدالنا صر، چرچل ، گولڈا مئیر، چھوٹے بڑے جارج بش، کلنٹن،واجپائی، سرکوزی، برسکونی ، اوباما اور پیوٹن دکھائی دیتے ہیں۔
لہٰذا بقول قتیل شفائی مرحوم
؂ یارو کسی دشمن سے کبھی پیار نہ مانگو
اپنے ہی گلے کے لیے تلوار نہ مانگو


متعلقہ خبریں


زمین پر زندگی کے 4ارب سال پرانے آثارمل گئے وجود - اتوار 05 مارچ 2017

ماہرین کو کینیڈا میں خلیج ہڈسن کے علاقے میں ایک سمندری معدنی چٹان سے حیاتیاتی اجزاءکی باقیات ملیں اس سے پتا چلتا ہے کہ تقریباً 4 ارب 30کروڑ برس قبل بھی زندگی موجود تھی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں کو اس سے قبل کبھی ایسے کوئی اربوں سال پرانے ٹھوس شواہد نہیں ملے تھے کہ اپنی قدیم سے ...

زمین پر زندگی کے 4ارب سال پرانے آثارمل گئے

مضامین
کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

چور چور کے شور میں۔۔۔ وجود پیر 06 مئی 2024
چور چور کے شور میں۔۔۔

غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا وجود پیر 06 مئی 2024
غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا

بھارت دہشت گردوں کا سرپرست وجود پیر 06 مئی 2024
بھارت دہشت گردوں کا سرپرست

اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر