وجود

... loading ...

وجود
وجود

دنیاافراط زر میں کمی کی جنگ ہاررہی ہے

جمعه 30 ستمبر 2016 دنیاافراط زر میں کمی کی جنگ ہاررہی ہے

inflation

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے گزشتہ دنوں اپنے اجلاس میں عالمی مالیاتی صورتحال کاجائزہ لینے کے بعد متنبہ کیاہے کہ اگر پوری دنیا کی حکومتوں نے افراط زر پر قابو پانے کے لیے اپنے مرکزی بینکوں کی مدد نہ کی تو دنیا افراط زر پر کنٹرول کی جنگ ہار جائے گی، جس کے پوری دنیا اور خاص طورپر ترقی پذیر ممالک کی معیشت پر سنگین نتائج پڑ سکتے ہیں، عالمی ماہرین معاشیات کاکہناہے کہ اگر افراط زر پر کنٹرول کی جنگ میں کامیابی حاصل نہ ہوئی اور اس حوالے سے مرکزی بینکوں کی کوششیں ناکام ہوگئیں تو دنیا بھر میں بیروزگاری کاسیلاب آجائے گا۔

عالمی مالیاتی فنڈ کے ماہرین نے اپنے اجلاس میں دنیا بھر اور خاص طورپر ابھرتی ہوئی معیشتوں والے ممالک کی اقتصادی صورتحال اور ان ممالک میں افراط زر پر کنٹرول کی کوششوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد جاری کردہ بیان میں کہاہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک کے مرکزی افراط زر پر کنٹرول کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن دنیا بھر میں معاشی نمو میں عمومی کمی کی وجہ سے ان کو اپنی کوششوں میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑ رہاہے۔ اگر پوری دنیا کے مرکزی بینک معاشی نمو میں کمی کی وجہ سے پیداہونے والی صورتحال پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات میں ناکام ہوئے یعنی افراط زر میں کمی کی جنگ ہار گئے تو ان کی معیشت بیٹھ جانے کاخدشہ پیدا ہوجائے گااور وہ تفریط زر کا شکار ہوجائیں گے۔

جہاں تک تفریط زر کا تعلق ہے تو معاشیات کاعلم رکھنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسی صورت میں قیمتوں میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے، کمپنیاں اور صارفین اخراجات کم بلکہ بند کردیتے ہیں جس کی وجہ سے سرمایہ کاری رک جاتی ہے، صارفین کی جانب سے اخراجات روک لئے جانے کی وجہ سے مارکیٹ میں اشیا تو ہوتی ہیں لیکن ان کے خریدار نہیں ملتے جس کی وجہ سے صنعتوں کو اپنی پیداوار میں کٹوتی کرنا پڑتی ہے اور صنعتیں جب پیداوار میں کمی کرتی ہیں تو لازمی طورپر ملازمین کی چھانٹی بھی شروع کردیتی ہیں۔ اس طرح معیشت کاپہیہ رک جاتاہے، تفریط زر کی صورت میں عالمی سطح پر زرعی پیداوار کی کھپت بھی کم ہوجاتی ہے اور ان کی قیمتوں میں بھی کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے جس کابراہ راست اثر زرعی شعبے اور کاشتکار پر پڑتاہے کیونکہ زرعی پیداوار کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے کاشتکا ر کے لیے فصلوں پر ہونے والے بیج کھاد اور آبپاشی وغیرہ جیسے اخراجات پورے کرنا مشکل ہو جاتاہے، اس طرح کھیت اور کھلیان خالی ہونا شروع ہوجاتے ہیں اس صورتحال میں کم وسیلہ ممالک کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ زرعی اور صنعتی پیداوار کی کھپت اور پیداوار میں کمی کی وجہ سے ملکوں کو ٹیکسوں کی مد میں ہونے والی آمدنی بھی کم ہوجاتی ہے اور قرضوں کابوجھ بڑھ جانے اور سرمایہ رک جانے کی وجہ سے ان ملکوں کے نوجوانوں کو روزی کی فراہمی ناممکن ہوجاتی ہے۔ آمدنی کے ذرائع محدود اور مسدود ہوجانے پر لوٹ مار، چوری، ڈکیتی اور دیگر اخلاقی جرائم میں اضافہ ہوتاہے اور معاشرہ افراتفری کاشکار ہوجاتاہے۔

جہاں تک تفریط زر کا تعلق ہے تو یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی کم وسیلہ ملک تفریط زر پیدا کرنے کاسبب نہیں بنتا بلکہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی جانب سے یہ کم وسیلہ ممالک پر مسلط کیاجاتاہے، اس کاطریقہ کار یہ ہے کہ افراط زر پر کنٹرول میں ناکامی کے بعد جب تفریط زر کادور شروع ہوتاہے تو بڑے صنعتی ممالک اپنی صنعتوں کاپہیہ چلتا رکھنے کے لیے اپنی مصنوعات انتہائی کم قیمت پر کم وسیلہ ممالک کو فروخت کرنا شروع کردیتے ہیں جس کی وجہ ان کم وسیلہ ممالک کی صنعتیں خسارے کاشکار ہوکر بند ہونے لگتی ہیں اور اس طرح باوسیلہ ترقی یافتہ ممالک اپنے عوام کو بیروزگاری سے بچانے کے لیے غریب ممالک کے عوام کو غربت اور بیروزگاری کی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ماہرین کا یہ انتباہ اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ عالمی سطح پر افراط زر پر کنٹرول کی کوششوں میں نمایاں کامیابی نہ ملنے کے سبب اب صورت حال تفریط زر کی جانب گامزن نظر آتی ہے اوراس کاسب سے زیادہ اثر صنعتی پیداوار پر نظر آرہاہے۔ پوری دنیا کے مالیاتی ماہرین کو اس صورتحال کو اپنے لئے ایک چیلنج تصورکرنا چاہئے اور اس پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں اور دنیا بھر کی حکومتوں کو اس حوالے سے اپنے مرکزی بینکوں کی بھرپور مدد کرنی چاہئے، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ماہرین کاکہنا ہے کہ پوری دنیا میں شرح سود پہلے ہی اتنی کم کی جاچکی ہے کہ اس میں مزید کمی کرنا ناممکن نظر آتاہے کیونکہ شرح سود میں مزید کمی کی صورت میں ملکی بچتوں پر اثر پڑے گا اور لوگ بچت کرنے کے بجائے اپنی رقم دیگر ذرائع پر لگاسکتے ہیں جس سے صنعتی شعبے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچے گا، کیونکہ بچتیں کم یا نہ ہونے سے ان کو قرضوں کے حصول میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے صنعتوں میں توسیع اور انھیں وقت کی ضرورت کے مطابق جدید بنانا ممکن نہیں رہے گاجس سے صنعتی پیداوار کم ہونے کے ساتھ ہی پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوگا، اور صنعتی پیداوار کی لاگت میں اضافے کی صورت میں عالمی منڈی میں دیگر ممالک کے مقابلے میں ان کی فروخت ممکن نہیں رہے گی۔

عالمی ماہرین معاشیات کو یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ برطانوی عوام کی جانب سے یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرنے کے فیصلے کابنیادی سبب بھی تفریط زر کی علامات ہی تھیں جس کی وجہ سے برطانوی صنعتوں میں توسیع کاعمل جمود کاشکار ہوگیاتھا، برطانوی ماہرین معاشیات اوروزیرخزانہ ملکی معیشت کی بحالی کی سعی لاحاصل میں مصروف تھے، بینک آف انگلینڈ صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود میں مسلسل کمی کے بعد اس میں اضافہ نہ کرنے کی پالیسی پر گامزن تھا لیکن صنعتی شعبے میں جمود کی صورتحال کی وجہ سے بڑے پیمانے پر لوگوں کوملازمتیں فراہم کرنا ممکن نہیں رہاتھا جس نے برطانوی عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اگر غریب یورپی ممالک کے لوگوں کے برطانیہ میں داخلے کو سختی سے کنٹرول کرلیاجائے تو وہ ملازمتیں جو غریب یورپی ممالک کے باشندے زیادہ محنتی ہونے اور نسبتاً کم اجرت پر کام پر تیار ہوجانے کی وجہ سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں انھیں ملنے لگیں گی اور اس طرح ان کی غربت اور مسائل کسی حد تک کم ہوجائیں گے، یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر برطانیہ میں صنعتوں میں توسیع واضافہ کاسلسلہ جاری رہتاتو برطانوی باشندے کبھی بھی یورپی یونین سے علیحدگی کا مطالبہ نہ کرتے۔

یہ صورتحال پوری دنیا خاص طورپر امریکہ کے فیڈرل ریزرو بینک، یورپ کے سینٹرل بینک اور بینک آف جاپان کے ماہرین اور ارباب اختیار کے لیے ایک ایسا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لیے انھیں کمر بستہ ہونا پڑے گا، جہاں تک یورپی مرکزی بینک اور بینک آف جاپان کا تعلق ہے تو ان دونوں بینکوں نے اس حوالے سے کوششیں شروع کردی ہیں اور انھوں نے یہ محسوس کرلیاہے کہ اگر انھوں نے اپنے ملکوں کی صنعتوں اور عوام کو تفریط زر کے اثرات سے بچانے کے لیے یہ لعنت دنیا کے غریب ممالک اور کم وسیلہ ممالک کی جانب منتقل کرنے کی کوشش کی تو بھی یہ کوشش عارضی ثابت ہوگی، کیونکہ جب کم وسیلہ ممالک کی معیشت بیٹھ جائے گی تو ان ملکوں کے عوام بھی ان کی مصنوعات خریدنے کی سکت کھوبیٹھیں گے اور انتہائی کم عرصے میں یہ لعنت دوبارہ ان کے ملکوں میں پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ واپس لوٹ آئے گی۔

اس صورتحال کی سنگینی کااندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ عالمی ادارہ تجارت یعنی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن نے بھی گزشتہ روز جنیوا میں اپنے اجلاس میں تجارتی اشیا کی تجارت سے متعلق اپنے پہلے کے اندازوں اور اس حوالے سے اپنی پیشگوئی میں نمایاں کمی کردی ہے، ادارے کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہاگیاہے کہ دنیا بھر میں صنعتی پیداوار میں کمی کے رجحان کے بعد اب پہلے لگائے گئے اندازے کے مطابق صنعتی پیداوار میں اضافے اور تجارتی حجم بڑھنے کاامکان نہیں رہا ہے۔ عالمی ادارہ تجارت نے یہ انتباہ یورپی یونین اور امریکہ کے درمیان آزادانہ تجارت کے معاہدے کے لیے ہونے والے اجلاس کے موقع پر جاری کیاہے اور انتباہ میں صاف صاف کہاگیاہے کہ موجودہ صورتحال میں دنیا بھر میں تجارتی سرگرمیوں میں تیزی کاامکان مفقود نظر آتاہے۔

عالمی ادارہ تجارت نے اپریل میں بین الاقوامی تجارت کے حوالے سے اپنی پیشگوئی میں رواں مالی سال کے دوران عالمی تجارت میں 2.8 فیصد اضافے کاامکان ظاہر کیاتھا لیکن گزشتہ روز کے اجلاس میں اس کو کم کرکے1.7 فیصد کردیا ہے، جبکہ گزشتہ سال عالمی تجارت کی شرح میں 3.9 فیصد تک اضافے کاامکان ظاہر کیا گیا تھا۔ عالمی ادارہ تجارت کے ماہرین کاکہناہے کہ دنیا بھر میں تجارتی شرح نمو میں مسلسل کمی کارجحان ہے اور اب یہ اپنی سست ترین سطح پر آگئی ہے، عالمی ادارہ تجارت نے تجارتی شرح نمو بہتر بنانے کے لیے مختلف ممالک کے درمیان شرح تبادلہ اور تجارتی معاہدوں کو زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی وجود منگل 30 اپریل 2024
قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار وجود منگل 30 اپریل 2024
بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مودی کاجنگی جنون اورتعصب وجود منگل 30 اپریل 2024
مودی کاجنگی جنون اورتعصب

پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر