وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاکستانی دینی جماعتیں عالم عرب کی ’’عرب بہار‘‘ سے سبق حاصل کریں

جمعرات 29 ستمبر 2016 پاکستانی دینی جماعتیں عالم عرب کی ’’عرب بہار‘‘ سے سبق حاصل کریں

pakistani-religious-parties

عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا رخ اختیار کیا تھا اسی وقت ہم نے اسے ایک بڑے صہیونی استعماری کھیل سے تعبیر کردیا تھا۔ تیونس کا بن علی، مصر کا حسنی مبارک، شام کا بشار الاسد اوریمن کے صدر صالح کسی لحاظ سے بھی مغربی مفادات کے خلاف نہیں تھے ،بلکہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں وہی کچھ کررہے تھے جس کا امریکا اور مغرب دیگر مسلم ممالک سے تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ پھر اچانک ان ممالک میں اصلاح کے نام پر اسلام پسند تحریکوں کو جگہ بنانے کی سہولتیں کیوں دی گئیں۔۔۔ بشار الاسد، حسنی مبارک، بن علی ،قذافی اورصدرعبداللہ صالح نے اپنے اپنے ملکوں میں اسلامی تحریکوں کو بری طرح کچلا تھا۔ شام میں اسد انتظامیہ نے باقاعدہ شامی مسلمانوں پر ماضی میں بھی فضائیہ سے بمباری کروا کر لاکھوں مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کیا تھا۔قذافی نے اپنے دور حکومت کو مسلمانوں کے حوالے سے ایک تماشا بنائے رکھا، پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ مغرب اپنے ہی مہروں کے خلاف ہوکر اسلامی تحریکوں کوکیوں سیاسی اور عسکری امداد سے نوازنے لگا؟

اصل صورتحال یہ ہے کہ مذکورہ عرب ممالک میں آمروں کے طویل دور اقتدار نے ردعمل کی ایک تحریک کو اندر ہی اندر خاصا دو آتشا کردیا تھا۔دوسری بات یہ تھی کہ اسرائیل اپنے دجالی مقاصد کی خاطر جس وقت اپنی حدود سے باہر نکل کر عربوں کے وسائل اور علاقوں پر قبضہ جماتا تو یقینا یہ سوال اٹھ جاتا کہ اسرائیل اور امریکا نے اپنے ہی بنائے ہوئے مہروں کی دہائیوں پر پھیلی ہوئی خدمات کو نظر انداز کرکے جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔ اس لیے منصوبے کے اگلے حصے کی ابتدا سے پہلے ان ممالک میں ایسی حکومتوں کا قیام انتہائی ضروری تھا جو عالمی رائے عامہ کے سامنے اسرائیل کی دشمن حکومتیں تصور کی جائیں۔ یہی وجہ تھی کہ جس وقت تیونس میں بن علی کے سفاک ترین طرز حکمرانی کے خلاف عوامی ردعمل سامنے آیا تو مغربی سیسہ گروں کے کانوں میں گھنٹی بج گئی یہ ایک بڑا واضح اشارہ تھا کہ تیونس میں سلگنے والی چنگاری اب بجھے گی نہیں بلکہ اس کا پھیلاؤ شمالی افریقہ سے نکل کر مشرق وسطی تک جا پہنچے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کی عالمی صہیونی استعماری قوتوں نے اسے روکنے کی بجائے مزید دوآتشا کرنے کا منصوبہ ترتیب دیا۔ اس سارے منظر نامے کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ بات یاد رکھیں کہ مصر کو عالم عرب میں وہی حیثیت حاصل ہے جو یورپ میں فرانس کو حاصل ہے ۔

فرانس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر اسے چھینک آجائے تو تمام یورپ کو زکام ہوجاتا ہے یہی حیثیت مصر کی عالم عرب میں ہے۔ کیونکہ تاریخ کے پچھلے ادوار سے لیکر تاحال مصر عالم عرب میں بڑی سیاسی، سماجی، فکری اور معاشی تبدیلیوں کا منبع رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ بھی بڑی تبدیلی کے لیے مصر کا ہی انتخاب کیا گیاکیونکہ مصر کی اسلامی تحریک اخوان المسلمون ایک بااثر تحریک سمجھی جاتی ہے بلکہ اسے عالم عرب کی ’’ام الحرکات‘‘ یعنی اسلامی تحریکوں کی ماں کہا جاتا ہے۔منصوبے کے مطابق حسنی مبارک کو منظر سے ہٹا کر عام انتخابات کروائے گئے اور یقینی بات تھی کہ مصر میں اقتدار کے اس خلا کو اخوان المسلمون نے ہی پورا کرنا تھا۔ جیسے ہی اخوان سے تعلق رکھنے والے امیدوار محمد مرسی نے مصر کی صدارت کا حلف اٹھایا تو منصوبے کے مطابق زرخرید میڈیا نے محمد مرسی کے سرکاری اقدامات کو تنقید کا نشانہ بناکر اسے اس طرح پیش کیا کہ عالمی رائے عامہ اور خصوصاً عالم عرب میں ایک مخمصے کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ ایک طرف محمد مرسی کے خلاف منصوبہ بندی سے یہ سلسلہ جاری تھا تو دوسری جانب ترکی کو بیس بنا کر شام کی خانہ جنگی میں تیزی لائی جانے لگی اور اس کے ساتھ ساتھ ایک طرف اس قسم کا پروپیگنڈا بھی شروع کردیا گیا کہ اگر دمشق پر اسلام پسند حکومت میں آگئے تو عالم عرب انتہا پسندی کی زد میں آسکتا ہے۔

مغرب کا اصل صہیونی منصوبہ یہ تھا کہ عالم عرب کے اہم ترین ممالک میں دینی جماعتوں کو مختصر عرصے کے لیے اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ جب یہ جماعتیں مین اسٹریم سیاست کے راستے اقتدار میں آجائیں تو پھر ان کے خلاف انتہاء پسندی کا پروپیگنڈا شروع کرکے عرب عوام کو ان سے بدظن کردیا جائے یوں عالمی رائے عامہ خود بخود ان سے خوفزدہ ہوجائے گی۔یہ وہی ’’کامیاب تجربہ‘‘ ہے جو عالمی صہیونی سیسہ گروں نے مشرف دور میں پاکستان کی دینی جماعتوں کے ساتھ کیا تھا جب ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر جمع تمام دینی جماعتوں کو خیبر پی کے کی حکومت دے کر انہیں آئندہ عوام کے سامنے آنے کے قابل ہی نہ چھوڑا ۔اب صورتحال یہ ہے کہ ایم ایم اے کے سابقہ دو اہم کردارجماعت اسلامی اور فضل الرحمن کو نہ افغانستان کے طالبان معتبر سمجھتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے’’ معتدل عوام‘‘ ان پر بھروسا کرنے کے لیے تیار۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس وقت پاکستان میں این آر او کی شکل میں جمہوریت کے نام سے بدنام زمانہ منصوبے کا دوسرا حصہ شروع ہوا تو ان دینی جماعتوں کا دور دور تک کچھ پتا نہ تھا۔مغرب اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ دینی جماعتیں جب حکومت میں نہ ہوں تو عوامی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے لیے زیادہ طاقتور ثابت ہوتی ہیں، لیکن جیسے ہی انہیں اقتدار کا اگر دسواں حصہ بھی میسر آجائے تو ان کے لیڈر اپنے افکار کی لُٹیا ڈبونے میں دیر نہیں کرتے۔اسی تجربے سے استفادہ کرکے اب مغرب یہی کھیل عالم عرب میں کھیل رہا ہے ۔ لیکن اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ عالم عرب کی دینی تحریکیں پاکستان کی دینی سیاسی جماعتوں سے قدرے مختلف ہیں۔عالم عرب کی دینی جماعتوں میں سنبھلنے کی بہت گنجائش ہے ۔ مقاصد کے حصول کے لیے ان کا فکری شعور خاصا سنجیدہ اور قابل بھروسا ہے، جبکہ پاکستانی دینی جماعتوں کا سیاسی تشخص آج جس مقام پر کھڑا ہے اس معیار پر تو پرانے وقتوں کے دینی رہنما سوچ کر ہی پناہ مانگتے ہوں گے۔جماعت اسلامی کے قبلہ قاضی صاحب (مرحوم) گذشتہ دور میں ایم ایم اے کی خیبر پختون خواکی حکومت کی شکل میں خود تو افغان سرحدوں تک دراز ہو گئے تھے لیکن جماعت اسلامی بیچاری صرف منصورہ تک محدود ہوکر رہ گئی۔ یہی حال حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کی جماعت کا ہے کہ اگر انہیں اپنے بزرگوں کے قائم کردہ دینی مدارس کے لاتعداد طلاب کا سہارہ نہ ہو تو بہت جلد جے یو پی (ف) تاریخ کا حصہ بن جائے۔ باقی دینی سیاسی جماعتوں کا ذکر ہی کیا۔ ایک بات ذہن میں رکھیے گا کہ ہم یہاں صرف سیاسی دینی جماعتوں کی بات کررہے ہیں ،سیاست سے الگ دینی جماعتیں ہمارا موضوع نہیں۔

مصر کی اخوان المسلمون کی سب سے بھیانک غلطی اقتدار میں آناتھا جس کی وجہ سے صہیونیت نواز جنرل سیسی کو بھرپور انداز میں استعمال کرکے اخوان المسلمون کی جڑ کاٹنے کی کوشش کی گئی ہے، جبکہ اقتدار سے باہر رہ کر وہ امریکا اور اسرائیل سمیت سب کے لیے ایک ڈراؤنا خواب تھی۔پاکستان کی سیاسی دینی جماعتوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ اپنی اصل یعنی دینی اور دعوتی ذمے داریوں پر سیاست کو ترجیح نہ دیں بلکہ اس حوالے سے مشرف دور میں اپنی کارکردگی اور عالم عرب کی ’’عرب بہار‘‘ سے سبق حاصل کریں۔اس کے ساتھ ساتھ اپنی بنیادی قیادت میں تبدیلی کرکے ایسے افراد کو سامنے لائیں جو الزامات اور کرپشن کے حوالے سے پاک ہوں،پھر ہی وہ نتائج سامنے آسکتے ہیں جو عالم عرب کی دینی جماعتوں میں دیکھے جاتے ہیں۔ ورنہ عالم عرب کی دینی جماعتوں کی کامیابیوں پر پاکستان میں بیٹھ کر بغلیں بجانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ایک طرف جنت کی آرزو اور دوسری جانب رندوں کی محفل سوائے خسارے کے کچھ نہیں۔۔۔


متعلقہ خبریں


کابل سے القدس تک محمد انیس الرحمٰن - پیر 03 اکتوبر 2016

سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...

کابل سے القدس تک

لیڈراور کباڑیا محمد انیس الرحمٰن - هفته 24 ستمبر 2016

ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...

لیڈراور کباڑیا

کسنجر کا خواب اور نئی عالمی’’دجالی تقسیم‘‘ محمد انیس الرحمٰن - اتوار 18 ستمبر 2016

جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...

کسنجر کا خواب اور نئی عالمی’’دجالی تقسیم‘‘

افغان مہاجرین کی پاکستان سے جبری بے دخلی بھارت کے لیے خوش خبری محمد انیس الرحمٰن - هفته 03 ستمبر 2016

دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...

افغان مہاجرین کی پاکستان سے جبری بے دخلی بھارت کے لیے خوش خبری

ترکی میں ناکام انقلاب : امریکا اور روس میں براہ راست ٹکراؤ کے امکانات محمد انیس الرحمٰن - منگل 16 اگست 2016

ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...

ترکی میں ناکام انقلاب : امریکا اور روس میں براہ راست ٹکراؤ کے امکانات

مدینہ منورہ میں خودکش حملہ: مقامات مقدسہ کو نشانا بنانے کا منصوبہ نیا نہیں محمد انیس الرحمٰن - جمعه 22 جولائی 2016

گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ...

مدینہ منورہ میں خودکش حملہ: مقامات مقدسہ کو نشانا بنانے کا منصوبہ نیا نہیں

افغانستان میں ہاری جنگ اسلام آباد میں جیتنے کی کوشش محمد انیس الرحمٰن - بدھ 13 جولائی 2016

امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...

افغانستان میں ہاری جنگ اسلام آباد میں جیتنے کی کوشش

کیا جنوبی ایشیا بڑی تبدیلی کی زد میں آنے والا ہے؟ محمد انیس الرحمٰن - اتوار 26 جون 2016

گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی...

کیا جنوبی ایشیا بڑی تبدیلی کی زد میں آنے والا ہے؟

نریندر مودی کی خطے میں ’’شٹل ڈپلولیسی‘‘ کیا رنگ لائے گی؟ محمد انیس الرحمٰن - جمعه 17 جون 2016

خطے کے حالات جس جانب پلٹا کھا رہے ہیں اس کے مطابق افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے خلاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی کرزئی انتظامیہ کا روپ دھارتی جارہی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت کابل انتظامیہ کی جانب سے بھارت اور ایران کے ساتھ مزیدزمینی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شک...

نریندر مودی کی خطے میں ’’شٹل ڈپلولیسی‘‘ کیا رنگ لائے گی؟

افغان مسئلے کا حل۔۔۔ جنگ یا مذاکرات؟ محمد انیس الرحمٰن - هفته 11 جون 2016

ایک ایسے وقت میں جب طالبان قیادت کی جانب سے بھی کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے کا واضح اشارہ مل چکا تھا اور طالبان لیڈر ملا اختر منصور اس سلسلے میں دیگر طالبان کمانڈروں کو اعتماد میں لے رہے تھے پھر اچانک امریکیوں کو ایسی کیا ضرورت آن پڑی کہ انہوں نے طالبان کے امیر مل...

افغان مسئلے کا حل۔۔۔ جنگ یا مذاکرات؟

جزیہ محمد انیس الرحمٰن - پیر 30 مئی 2016

میڈیا ذرائع کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور پر فضائی حملہ کیا اورممکنہ طور پر وہ اس حملے میں مارے گئے ہیں، تاہم حکام اس حملے کے نتائج کاجائزہ لے رہے ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ حملہ صدر باراک اوباما کی م...

جزیہ

پاناما لیکس : عالمی معاشی نظام تبدیلی کے دہانے پر محمد انیس الرحمٰن - بدھ 04 مئی 2016

جدید تاریخ میں جب بھی دنیا کو کسی بڑی تبدیلی سے دوچار کیا گیا تو اس سے پہلے اس عالم رنگ وبو کو ایک زبردست ـ’’جھٹکا‘‘ دیا گیا۔ اس کی مثال اس انداز میں دی جاسکتی ہے کہ جس وقت جدید تاریخ کے پہلے دور میں دنیا خصوصا مغرب کو معاشرتی اور معاشی تبدیلیوں سے گزارا گیا تو پہلی عالمی جنگ کا ...

پاناما لیکس : عالمی معاشی نظام تبدیلی کے دہانے پر

مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر