وجود

... loading ...

وجود
وجود

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم !

هفته 10 ستمبر 2016 علاقائی تجارتی رابطے اور ہم !

hayratan-border

دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کو چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزار شریف کے سرحدی گاؤں حیراتان کی خشک بندرگاہ پرپہنچی ہے ۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہے ہیں۔ کل ہی بھارتیوں کے زیر انتظام افغان فوج کے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ،ٹویٹر کے ذریعے اطلاع ملی ہے کہ ایران کاافغانستان کے سرحد ی گاؤں ’خاف ‘ تک ریلوے لائن بچھانے کا کام تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اور افغانستان کے عبداللہ عبداللہ نے چاہ بہار بندرگاہ کو جلد از جلد شروع کرنے پر زور دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین اور روس کے بعد اب ایران بھی افغانستان کے ساتھ براستہ ریلوے لائن منسلک ہو گیا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وقت خطے کے باقی ممالک، بشمول بھارت ،افغانستان کے ساتھ کسی نہ کسی طور تیزی سے جُڑ رہے ہیں ، انہوں نے افغان طالب علموں کے لئے تعلیمی وظائف کا اعلان کردیا ہے، جب کہ ہمارے ہاں ایسا کوئی تکلف نہیں ہے ۔ ویسے بھی پاکستان کے جن سرحدی علاقوں میں قدرتی طور پر افغانوں کے لئے تعلیمی بیس کیمپ بننے تھے ، وہاں ہم نے ایران کے زیر اثر قبائل کو بسا کر ، نہ ختم ہونے والی فرقہ ورانہ جنگ میں خود کو دھکیل دیا ہے۔ افغان فوج کے افسران کی تربیت بھارت میں ہورہی ہے، حالانکہ ہماری تو افغان پالیسی رہی ہی ہماری فوج کے ہاتھ میں ہے تو پھر یہ کیا ہے؟ پاکستان کے دینی مدارس سے چُن چُن کر نکالے گیے افغان طلباء کو بھارتی مسلم دینی اداروں میں دھڑادھڑ داخلے دئیے جا رہے ہیں۔ جب افغانستان کے ساتھ مختلف مسائل کے باعث طورخم اور چمن کے بارڈر بند ہوتے ہیں تو ایران اپنے بارڈر کھول دیتا ہے اور بھارت ہوائی جہازوں کے ذریعے وہاں سے مال اور مسافر اٹھاتا ہے۔ ایسے میں میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر کچھ عناصرایسے بھی پیدا ہو گیے ہیں جو مسلسل افغان مہاجرین کے نام پر افغان قوم کو گالم گلوچ کر تے رہتے ہیں تا کہ گزشتہ چالیس سال کی میزبانی سے جو ساکھ افغانوں کی نوجوان نسل میں پیدا ہوئی ہے اس کا بیڑہ غرق کیا جا سکے۔ یہ لوگ کون ہیں؟ ان کو پہچاننے اور قومی زندگی سے تلف کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں یہ کسی مشرقی یا مغربی ہمسایہ ملک کے گھس بیٹھیے ایجنٹ تو نہیں؟

یہاں اس بات کا تذکرہ بہت ضروری ہے کہ ان دو مزید ریل رابطوں کے قائم ہونے سے قبل افغانستان تک ریل کے صرف دو ہی راستے ہوا کرتے تھے ، ایک طورخم تک کا راستہ اور دوسرا چمن کا راستہ۔ ان دونوں راستوں پر ٹرین چلا کرتی تھی۔ لیکن جب مرحوم ضیاء الحق کے دور میں پاک فوج نے امریکیوں کو افغانستان کے لئے خدمات پیش کیں اور اشیاکی نقل و حمل کے کاروبار میں چھلانگ لگائی تو بہانا روس کے خلاف افغان جنگ کا بنایا اور پشاور سے طورخم اور کوئٹہ سے چمن کے ریلوے لائنوں کو سامان کی نقل و حمل کے لئے بالکل ہی ترک کردیا ۔ حالانکہ دنیا بھر میں ایسے ریل راستے جن پر مال گاڑیاں نہ دوڑیں وہاں ریلوے کا کاروبار ہمیشہ گھاٹے کا سودا ہوا کرتا ہے۔ اب صرف اس ریلوے پٹری کو زندہ رکھنے کے لئے پشاور سے لنڈی کوتل تک ایک ٹرین کبھی کبھار چلائی جاتی ہے شاید وہ بھی نہیں۔ پہلے اسے دونوں افغان جنگوں کو بہانہ بناکر بند رکھا گیا اور اب تخریب کاری کا۔ اس کی بعض برانچ لائنوں کو یا تو مقامی افراد اکھاڑ کر لے گئے ہیں یا پھر ان کو ویسے ہی نئے منصوبوں کے تحت سڑکیں بناتے وقت انہیں زمین میں دفن کر دیا گیا ہے۔

afghanistan-map-railways

تاہم ہمیں ریلوے کے حکام نے بتایا ہے کہ کوئٹہ سے چمن تک ایک مسافر ٹرین روزانہ چلتی ہے جس میں مسافر کم اور (اسمگلنگ کا) سامان زیادہ ہوتا ہے۔ اس ٹرین کو ایک نجی ٹھیکیدار چلاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس میں ٹکٹ کوئی نہیں خریدتا۔ ریلوے نے ایک آدھ دفعہ اسے بھی بند کرنے کی کوشش کی تو اس سے مستفید ہونے والے کوئٹہ کے پختون بپھر گئے کہ یہ تجارت (دراصل ا سمگلنگ )کرنا ان کا قانونی اور نسلی حق ہے اور ایسا کرنے کا حق انہیں بھٹو مرحوم نے ایک تاریخی جلسے میں اعلان کرتے ہوئے دیا تھا جس میں انہوں نے اُس وقت کے افغان صدر کے گنجے سر پر ہل چلانے کی بڑھک لگائی تھی۔ بعد کی آنے والی حکومتوں نے عافیت اسی میں جانی کہ اسے نہ چھیڑا جائے اور اسے ایسے ہی چلتے رہنے دیا جائے۔ اگر طورخم اور چمن کی سرحدوں تک افغان راہداری تجارت کے کنٹینرز بذریعہ ریل بھجوائے جائیں تو پاکستان کی قومی شاہراہوں پر رش کم ہوگا بلکہ ا سمگلنگ کی روک تھام میں بھی مدد ملے گی اور ان روٹس پر ریلوے بھی منافع بخش ادارہ بن جائے گا۔

حکومتِ پاکستا ن کے مختلف عہدیداروں اور ہمارے فوجی اداروں کے مختلف ادوار کے رویوں کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آج ہم اس بات پر حیران ہوتے ہیں۔ کابل میں پاکستان مخالف جذبات کیوں پائے جاتے ہیں۔ وہاں پر پاکستان کے خلاف نعرے لگانے والوں اور ہمارا قومی پرچم جلانے والوں کی سیاسی و معاشرتی اوقات اتنی ہی ہوجتنی پشاور میں اے این پی کی یا پھر کوئٹہ میں ہزارہ کی۔ یعنی اقلیت ہونے کے باوجود ، انتہائی اہم عہدوں پر قابض ہونے کی وجہ سے انتہائی موثر! لیکن سوال تو یہ ہے کہ ہم پہلے سے موجود زمینی اور نسلی رابطوں کو غیر موثر یابند کرنے پر کیوں مُصر ہیں؟

ویسے قیامِ پاکستان کے وقت جب ہمیں مغربی پاکستان کی ریلوے ملی تھی تو اس کے اُس وقت تک کے مجوزہ منصوبوں میں ریلوے کے رابطوں کو طورخم سے جلال آباد تک اور چمن سے قندھار تک بڑھانا شامل تھا۔ ریلوے کے ان رابطوں میں اس توسیع کے بغیر ہم ان روٹس سے کمائی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ دنیا بھر میں ریلوے کو منافع میں چلانے کا ایک ہی اصول ہے یعنی مسافروں کے علاوہ صرف سامان کی نقل و حمل۔ دنیا میں ریلوے کے صرف وہی روٹس کامیاب مانے جاتے ہیں جن پر مال گاڑیاں چلائی جا رہی ہوں، صرف مسافر ڈھو کے کوئی بھی ریل چلانے والا ادارہ کبھی بھی منافع کمانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ چین شاہراہِ ریشم کے جن بھی راستوں پر ریلو ے کو بحال کر رہا ہے وہاں پروہ مسافر ٹرینوں کی بجائے مال گاڑیاں چلا رہا ہے ۔ لیکن وہ کیا ہے کہ ستر سال گزر گیے ہم نے اس کے بالکل برعکس کیا ہے ، مال گاڑیاں بند کی ہیں اور مسافر ٹرینیں چلائی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی تمام تر دعووں کے باوجود ریلوے کا خسارہ چھتیس ارب روپے ہے اورہم اس بات پر خوش ہیں کہ کم از کم چل تو رہا ہے۔ یہ تو نہیں ہورہا کہ زرداری دور کی طرح سولہ ارب روپے کا خسارہ بھی ہو اور کوئی ٹرین بھی وقت پر نہ چل پا رہی ہو؟

اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ ہماری روڈ ٹرانسپورٹ کا کاروبار اس قدر منافع بخش ہو گیا ہے کہ یہ تناسب یا تو منشیات اسمگلنگ میں ہے یا پھراسی سڑک کی ٹرانسپورٹ میں۔ ایک ٹرک والا ایندھن کی قیمتوں میں ہوشربا کمی کے باعث چھ سے آٹھ ماہ میں اپنے ٹرک کی قیمت واپس وصول کر لیتا ہے۔ دنیا کے کس کاروبار میں ایسا ہوتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ایک سابق آرمی چیف کے بھائیوں پر زمینوں کے کاروبار میں پیسے بنانے کے علاوہ ٹرکوں کے ذریعے افغانستان میں ایساف اور نیٹو افواج کو نقل و حمل کی خدمات پر پیسے کمانے کا الزام بھی ہے۔ اور وہ جوچند جرنیلوں کو’نشانِ عبرت‘ بنانے کے تاریخی واقعات میڈیا کے ذریعے قوم کے کانوں میں سے اتارے جا رہے ہیں ، وہ بھی اسی ٹرانسپورٹ کے شعبے سے ہی تعلق رکھتے تھے۔

ایسے میں کیا وہ وقت نہیں آیا کہ ہم افغانستان کے ساتھ کسی بھی ہمسایہ ملک یا اس کی کسی بھی پراکسی کے اثر سے نکل کر اپنی آزادانہ دوطرفہ تعلقات کی پالیسی کو ازسرِ نو تشکیل دیں؟

Uzbekistan-rail


متعلقہ خبریں


بھارتی خفیہ ایجنسیاں بلوچستان میں لڑائی کیلیے جنگجوبھرتی کررہی ہیں وجود - جمعه 28 اکتوبر 2016

افغان نیشنل آرمی کے کمانڈرز اور ارکان پارلیمنٹ طالبان اور داعش کے جنگجوؤں کو پرتعیش گاڑیوں میں بٹھاکر ان کے مطلوبہ مقام تک پہنچاتے ہیں موجودہ افغان حکومت کے ساتھ پاکستان، افغانستان اور بھارت کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ کا معاہدہ ہواتھا،جس سے پاکستان کو اب تک کوئی فائدہ نہیں ہوسک...

بھارتی خفیہ ایجنسیاں بلوچستان میں لڑائی کیلیے جنگجوبھرتی کررہی ہیں

سانحہ کوئٹہ:"را" اورافغان خفیہ اداروں کی مشترکہ کارروائی، کَڑیاں ملنے لگیں وجود - جمعرات 27 اکتوبر 2016

کوئٹہ پولیس ٹریننگ مرکز پر حملے کی نگرانی افغانستان سے کی گئی، مقامی نیٹ ورک کو استعمال کیا گیا حساس اداروں نے تفصیلات جمع کرنا شروع کردیں ، افغانستان سے دہشت گردوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے  بھاری ہتھیاروں  کے ساتھ کوئٹہ پولیس کے تربیتی مرکز پر ہونے والے خود کش  حم...

سانحہ کوئٹہ:

بھارتی جنگی بیانیے کا جواب رضوان رضی - بدھ 05 اکتوبر 2016

کوئی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک ہم عصر صحافی جو صحافت کرتے کرتے ایک دم غائب ہو گئے تھے، کچھ سالوں کے بعد ملے تو پتا چلا کہ وہ کابل میں ایک امریکی اخبار کے بیورو میں پائے جاتے ہیں اور ہر ماہ کسی افغان وار لارڈ کی طرح ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہیں۔ پختون پس منظر کے باعث ان کو ...

بھارتی جنگی بیانیے کا جواب

انتخابی وٹا اور چند اشارے رضوان رضی - منگل 04 اکتوبر 2016

جناب عمران خان نے رائیونڈ اور جاتی امراء چوک پر ایک اور جلسہ کرلیا۔ جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہر دو فریقین کے نزدیک دیگر ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی ربع صدی تک سیاسی جلسوں کے جائزوں کے بعد خاکسار کا خیال ہے کہ بیس ہزار وہ جادوئی ہندسہ ہے جس کو پار کر جانے کے بعد کوئی ب...

انتخابی وٹا اور چند اشارے

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا رضوان رضی - اتوار 25 ستمبر 2016

میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہورہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ ہے جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری ح...

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا

قربانی سے تکلیف کن کو ہے؟ رضوان رضی - جمعه 16 ستمبر 2016

ہمارا دفترگزشتہ ایک دہائی سے گلبرگ ، لاہور میں ہی واقع ہے۔ ادارہ بدلتا رہتا ہے لیکن علاقہ نہیں بدلتا۔ مشرف دور کی بات ہے ایک دن گھر کو واپسی کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے گھر والی سڑک سے گزر کر نہر کے کنارے والی سڑک پر مڑے تو نہر کے کنارے بنی حفاظتی دیوار پر لکھا تھا ’...

قربانی سے تکلیف کن کو ہے؟

سیاسی اشرافیہ اور کرپشن رضوان رضی - اتوار 04 ستمبر 2016

میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان نوے کی دہائی میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر تھی تو بی بی کے خلاف مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک خانہ ساز بدعنوانی یا کرپشن کا ’بیانیہ ‘ نہ صرف اوصول کیا گیا بلکہ اس کو حسبِ توفیق آگے بھی پھیلایا ، وہ بیانیہ تھا کہ ’’بے نظیر ،زرداری اور ان ...

سیاسی اشرافیہ اور کرپشن

افغان یونیورسٹی حملہ: افغان حکومت کی طرف سے پاکستان کے خلاف الزامات غلط نکلے! وجود - جمعه 26 اگست 2016

کابل میں امریکی یونیورسٹی پر حملے میں پاکستان پر منصوبہ بندی کے افغان حکام کے الزامات غلط ثابت ہوگئے ہیں۔ افغان حکام کی طرف سے جن سمز پر رابطوں کا الزام عائد کیا گیا تھا ، وہ افغان نیٹ ورک کا ہی حصہ نکلیں ، جب کہ اس کے تیکنیکی جائزے میں بھی حقائق افغان حکام کے الزامات کے برعکس نک...

افغان یونیورسٹی حملہ: افغان حکومت کی طرف سے پاکستان کے خلاف الزامات غلط نکلے!

پاک افغان سرحدی حکام کی فلیگ میٹنگ بے نتیجہ، باب دوستی کھل نہیں سکا! وجود - اتوار 21 اگست 2016

پاک افغان سیکورٹی حکام کے درمیان چمن سرحد پر "باب دوستی "دوبارہ کھولنے کے حوالے سے فلیگ میٹنگ بے نتیجہ ختم ہوگئی۔ اطلاعات کے مطابق مذکورہ اجلاس خود افغان حکام کی جانب سےدرخواست پر بلایاگیا تھا مگر اس کے باوجود افغان حکام نے اپنے سرحدی علاقوں میں حفاظتی اقدامات کے حوالے سے اپن...

پاک افغان سرحدی حکام کی فلیگ میٹنگ بے نتیجہ، باب دوستی کھل نہیں سکا!

افغانستان میں پاک-بھارت پراکسی جنگ، امریکا بھارت کے شانہ بشانہ وجود - پیر 15 اگست 2016

اس ہفتے کی اہم لیکن ایسی خبر جسے نظر انداز کردیا گیا، افغانستان میں موجود امریکی کمان سے بھارت سے کہا ہے کہ وہ افغان فوج کے لیے فوجی امداد میں اضافہ کرے۔ بھارت نے دسمبر 2015ء میں افغانستان کو چار جنگی ہیلی کاپٹر دیے تھے، اب امریکی اور افغان حکام چاہتے ہیں کہ انہیں مزید بھی دیے جا...

افغانستان میں پاک-بھارت پراکسی جنگ، امریکا بھارت کے شانہ بشانہ

افغان طالبان نے پاکستانی ہیلی کاپٹر کا عملہ رہا کردیا، افغان حکومت غیر متعلق ثابت! وجود - اتوار 14 اگست 2016

افغانستان میں کریش لینڈنگ کرنے والے پنجاب حکومت کے ہیلی کاپٹر کے عملے کو افغان طالبان کی جانب سے رہا کیے جانے کے بعد پاکستان پہنچا دیا گیا۔ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہیلی کاپٹر میں سوار چھ افراد کے عملے کو قبائل کے درمیان معاہدے کے تحت رہا کیا...

افغان طالبان نے پاکستانی ہیلی کاپٹر کا عملہ رہا کردیا، افغان حکومت غیر متعلق ثابت!

قندھار میں پاکستانی کرنسی کے استعمال پر پابندی عائد وجود - اتوار 07 اگست 2016

افغانستان کے ایک سینئر پولیس عہدیدار نے، جنہیں ملک کی طاقتور ترین شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے، صوبہ قندھار میں پاکستانی کرنسی کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے۔ قندھار کے پولیس چیف جنرل عبد الرازق نے کہا کہ کاروباری سودوں میں پاکستانی روپے کے استعمال کو جرم قرار دے دیا ہے لیک...

قندھار میں پاکستانی کرنسی کے استعمال پر پابندی عائد

مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر