وجود

... loading ...

وجود
وجود

شہید برہان وانی کی موت پر کشمیر میں زلزلہ

بدھ 31 اگست 2016 شہید برہان وانی کی موت پر کشمیر میں زلزلہ

kashmir-situation

برہان مظفر وانی کی’’ مشکوک اور مبہم پولیس کارروائی ‘‘کے نتیجے میں ہوئی موت نے کشمیر کی سیاست اور عسکریت میں بلا مبالغہ زلزلہ برپا کردیا ہے ۔یہ تصور کسی بھی شخص نے سرینگر سے لیکر دلی تک نہیں کیا تھا کہ حزب المجاہدین کے ایک نوجوان کمانڈر کی موت پر ایسی ہلچل پیدا ہوگی کہ سرینگر سے لیکر نیویارک تک بڑے بڑے لیڈر اور رہنما بھی حیرت میں ڈوب کر اپنی بے بسی اور بے کسی کا مظاہرہ کریں گے ۔آج کل ہر ایک کے ذہن میں ایک ہی سوال چھایا ہوا ہے کہ آخر ایک بندوق بردار نوجوان کی شہادت پر ایسا طوفان کیوں برپا ہوا کہ سترسے زیادہ نوجوان احتجاج کرتے ہو ئے شہید ہو گئے ،پانچ سو سے زیادہ نوجوان’’ پیلٹ گن کے چھرے ‘‘لگنے سے بینائی سے ہی محروم ہو گئے اور دس ہزار سے بھی زیادہ زخمی جبکہ گرفتاریوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کیا جا چکا ہے ؟میرا خیال ہے کہ پہلے ہمیں برہان وانی کے والد بزرگوار مظفر وانی کے اس بیان کو پھر یاد کرنا ہو گا جو انھوں نے ہندوستان کی کئی نیوزایجنسیز کو اپنے پہلے بیٹے کی شہادت پر دیا تھا کہ برہان کا عسکریت میں شامل ہونے کا سبب ’’ریاستی جبر‘‘ہے ۔

ریاستی جبر کی یہ آواز کشمیر میں 1947ء سے لیکر اب تک یعنی2016ء تک باربارسنائی دی مگر ’’دلی میں برسراقتدار مہاجنوں‘‘نے کبھی بھی اس کمزور آواز پر کان دھرنے کی کو شش نہیں کی ۔مرحوم شیخ محمد عبداﷲ سے پہلے اور ان کے بعد بھی لوگوں نے نہ صرف دلی والوں تک ہزار ہا طریقوں سے یہ بات پہنچانے کی کوشش کی مگر دلی والوں نے کبھی بھی اس کی شنوائی تو درکنار سن لینے کی بھی اطلاع کشمیریوں کو نہیں دی ۔ غالباََمرحوم شیخ محمد عبداﷲ نے دلی کے اس رویہ سے تنگ آکر ہی ان کے سامنے گٹھنے ٹیک دئیے تھے اور دلی اب تک کشمیر میں آئی وسیع ذہنی اور فکری تبدیلی کو سمجھنے میں ناکام رہ کر کشمیر کے ناسور کو صحیح ڈھنگ سے سمجھنے کے برعکس خود ’’پچاس اور ساٹھ کی دہائی ‘‘کے طور طریقوں سے ہی ہر نئی شورش کو دبا کر بزعم خویش کامیاب ہو جاتی ہے حالانکہ یہ بدترین عقلی اور فکری دیوالیہ پن کی بین دلیل ہے ۔ حیرت کاعالم یہ کہ ریاستی جبر کے ذیل میں پیدا شدہ مسائل کا ذمہ دار بھی مظلوم کو ہی قرار دیا جاتا ہے ۔دورِ حاضر کا نیا المیہ یہ ہے کہ اب ’’دانشوروں کا ایک مخصوص طبقہ‘‘لفظ ریاست کو ایسی مقدس گائے منوانے کا احمقانہ عقیدہ پال رہا ہے کہ ان کے نزدیک اس ’’مقدس گائے کے گوبر‘‘ کو مقدس نہ ماننے والا بھی ’’دہشت گرد نہ صحیح دہشت گردی کو تقویت پہنچانے والا ایک سبب بن جاتا ہے ۔ان کے خیال میں ’’ریاست‘‘کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جب ،جیسے اور جس طرح بھی کسی کو چاہے جینے یا نہ جینے کا فیصلہ کر سکتی ہے، ان کے نزدیک ’’حق اور صداقت کا میعار‘‘ہی ریاست ہے ۔دلی کا دانشور طبقہ اس فکری اور شعوری زوال کابری طرح شکار ہوا ہے جس کا خوب مظاہرہ اُنھوں نے شہید برہان کے قتل کے بعد تمام ٹیلی ویژن چینلز پر اس مرتبہ کیا ہے۔ اس لئے کہ ماضی کے برعکس اس دفعہ دلی کے ’’تختہ شاہی‘‘پر وہ نریندر مودی براجمان ہے جس کے نزدیک کشمیر کے قتل عام کے حوالے سے ’’متکبرانہ چپ‘‘مسئلے کا وہ اعلیٰ عقلی حل ہے جس تک اس سے پہلے کسی بھی ہندوستانی وزیر اعظم کورسائی نہیں ہوئی تھی ۔

دلی کی کشمیر کے تئیں ’’گھمنڈ سے بھرپور پالیسی ‘‘کا نتیجہ ہی یہ تھا کہ کشمیر کے معروف سیاسی رہنماؤں یاسیاسی اورپر امن ذرائع سے مسائل کے حل پر یقین رکھنے والے سینکڑوں کارکنوں نے بندوق تھام کر اپنے لئے پر خطر میدان کو شعوری طور پر منتخب کر لیا جن میں چند ایک کے نام یہ ہیں سید صلاح الدین احمد(چیرمین جہاد کونسل)شہید شمس الحق (امیر حزب المجاہدین)شہید ریاض الرسول،شہید غازی نصیب الدین ،شہید، برہان الدین حجازی،شہید اشفاق مجیداور شہید شیخ عبدالحمیدوغیرہ ۔یہ اور اسی طرح کے ہزارہا لیڈران اور کارکنان 1990ء تک صبر و ضبط کا دامن تھامے اس انتظار میں تھے کہ شاید آج نہیں تو کل نئی دہلی کا’’اندھابہرہ حاکم‘‘ان سے کئے گئے وعدوں کونبھا لے گا ۔مگر ان کی ہر آواز صدا بہ صحر ثابت ہوئی ۔کسی نے اس پر کان نہیں دھرا بلکہ اس کے برعکس ان کے لئے جیلوں کے دروزے کھولے گئے جہاں تشدد اور توہین سے ان سیاسی لیڈران اور کارکنان کی تواضع کی گئی ۔عقل حیران رہ جاتی ہے دلی کی بے شرمی اور حیا سے عاری رویہ پر !1990ء تک جو لوگ سیاسی میدان میں ’’مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کرتے تھے‘‘انھیں دلی کی ظالمانہ پالیسی نے جب بندوق کی جانب دھکیل کر سرحد پار پہنچا دیا اور پوری ریاست آگ وآہن کی زنجیروں میں پھنس کر برباد ہو گئی تو نئی دلی میں خواب خرگوش میں مست حکمران جاگ اٹھے اور حل کے برعکس ’’نئی ساحرانہ پالیسی ‘‘کا آغاز سونے کی زنجیریں لہرا کر لیڈروں کو اپنے دام میں پھنسانے کی مکروہ اور طفلانہ طریقوں کی ابتدا کی گئی، یہ سوچتے ہو ئے کہ جب کشمیر کا ایک شیخ بائیس برس بعد پھنس سکتا ہے تو کل کا صلاح الدین اور یسٰین ملک کیوں نہیں؟دلی ہر نئی تحریک کو پرانے حربوں سے رام کرنے کی بیہودہ پالیسی پر اب تک کاربند ہے حالانکہ کشمیر کے دریائے جہلم سے اب پانی کے ساتھ ساتھ کافی خون بہہ چکا ہے آج خدانخواستہ اگر بڑے سے بڑے لیڈر بھی دلی کے اشاروں پر بک سکتا ہے تو بھی تحریک کشمیر پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا ۔

پر امن سیاسی میدان سے مایوس ہو کرجب کشمیری ’’عسکری میدان‘‘میں آگئے اور کئی حضرات گرفتار ہو گئے تو دلی کا ’’بد باطن حکمران اور بیوروکریٹ طبقے‘‘ کے اشارے پر بہت سارے لوگ مختلف آڑ لیکر میدانوں ،پہاڑوں ،جنگلوں اور جیلوں میں مختلف پیشکشوں کے ساتھ پہنچنے لگے جن میں پہلی پیش کش بندوق سے دست کش ہو کر سیاسی میدان میں آکر ’’پرامن حل‘‘کی جانب بڑھنے اور حالات اس کے موافق بنانے کی تھی ۔بعض حضرات نے دلی پر بھروسا کرتے ہو ئے سیاسی راہ کو منتخب کر لیا مگر آج وہی حضرات ببانگ دہل دلی کو بے وفا اور بے بھروسہ قرار دیکر صاف صاف کہتے ہیں کہ دلی دراصل کشمیریوں کا وقت ضائع کرتے ہو ئے معاملے کو لمبا کرنا چاہتی ہے تاکہ نئی نسلیں مایوس ہو کر اپنی راہیں بدلنے پر مجبور ہو جائیں ۔بھارتی حکمران اب تک اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ کشمیری تھک ہار کر ’’مسئلہ کشمیر‘‘سے پلہ جھاڑ لیں گے ۔یہ غلط فہمی ان میں’’نریندر مودی‘‘کے برسراقتدار آنے کے بعد اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب وہ مختلف ٹیلی ویژن چینلز پر ’’بھگوا فورس‘‘کے دانشوروں کو بٹھا کر کھلے عام کشمیریوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہو ئے بھارتی رائے عامہ کو ان کے خلاف کھڑا کر کے ’’جاری قتلِ عام‘‘کا جواز فراہم کرنا چاہتی ہے ۔

عقل اس پاگل پن پر حیران ہے کہ آخر ایک مظلوم قوم کی بربادی کے بعد اس کے ساتھ اس قدر بھیانک مذاق اور استہزاء کیوں؟بندوق والوں سے کہا جاتا ہے کہ بندوق چھوڑ کر پرامن طریقوں کو اختیار کرتے ہو ئے مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے میں مدد دیدو،پر تشدد مظاہرین سے کہا جاتا ہے کہ پر امن مظاہرے کرو پر تشدد نہیں ،جبکہ پر امن مظاہرے کرنے والے حریت لیڈران کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی ہے اور پوری ریاست میں ان کے کارکنان کو ڈھونڈ کر جیلوں میں بند کردیا جاتا ہے۔ آزادی پسندوں سے کہا جاتا ہے کہ اگر کچھ دلی سے حاصل کرنا ہے تو مین اسٹریم میں آجاؤ جبکہ مین اسٹریم میں آئے لوگوں کو نہ اٹانومی ملی نہ ہی سیلف رول ،بلکہ ٹھینگا دکھا کر انھیں اپنی اوقات ایسے وقت میں یاددلادی جب وہ نہ ہی حریت کیمپ میں جاسکتے ہیں نہ ہی مین اسٹریم سے باہر نکل سکتے ہیں ۔کشمیر میں دغا اوردھوکے کی یہ سیاست اس قدرمشہور ہے کہ شیخ صاحب ،فاروق عبداﷲ اور مفتی سعیدجیسا ہندنواز وقت بے وقت اس کا دکھڑا بیان کرتا رہا ۔حتیٰ کہ سید علی گیلانی صاحب کے بقول شیخ صاحب یہاں تک کہتے ہیں کہ ’’دلی والے بھروسے کے قابل نہیں ہے‘‘۔

کشمیر کی نئی نسل عسکریت میں تب جوان ہوئی جب ان کے گردوپیش میں ’’جہاد اور مجاہدوں کے قصے‘‘بیان کیے جاتے ہیں ،افغانستان سے امریکا اور نیٹو کی طاقتور افواج کے کھدیڑنے سے متعلق واقعات ان کے کانوں میں پڑے ہیں ،عراق میں امریکیوں کا ظلم بیان کیا جاتا ہے ،فلسطین کی تحریک سے غذا پہنچائی جاتی ہے ،اور پھر اس کو یہ بتا دیا جاتا ہے کہ کشمیر میں ایک لاکھ مسلمانوں کو 1990ء سے اب تک قتل کیا جاچکا ہے ۔دس ہزار لا پتا کر دئیے گئے ہیں ،کئی لاکھ کو انٹروگیشن سینٹروں میں تشدد کا نشانہ بنایا جاچکا ہے اور کئی جسمانی طور پرنوخیز ،عصمت ریزی کے روح فرسا واقعات اس کے کانوں میں پڑتے ہیں تو وہ تنگ آکر ردعمل کا شکار ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر سو مایوسی کے بعد وہ اب ایک آخری قدم اٹھانے کا متمنی اور متلاشی نظر آتا ہے کہ آخر میری قوم اس ذلت ناک حالت میں ہی کیوں جیتی رہے گی ؟ اس سب پر دلی کا متکبرانہ رویہ آگ کا کام انجام دیتا ہے اور نئی نسل دلی کے تکبر کو توڑنے کے نئے راستے تلاش کرتے ہیں ۔پرامن ذرائع اور طریقے اگر موجود اور میسر ہو تے تو شاید اس کی نوبت ہی نہیں آتی۔


متعلقہ خبریں


بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ جاری وجود - پیر 18 اپریل 2022

امریکا کے محکمہ خارجہ نے بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں مسلمانوں کے خلاف بدترین انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کی نشاندہی بھی کر دی۔ انسانی حقوق سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا ماورائے عدالت ق...

بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ جاری

مقبوضہ کشمیر: تاریخی جامع مسجد سرینگر 30ہفتوں بعد نماز جمعہ کیلئے کھولنے پر جذباتی مناظر وجود - هفته 05 مارچ 2022

مقبوضہ جموں و کشمیر میں 30ہفتوں بعد تاریخی جامع مسجد سرینگر کونماز جمعہ کے موقع پرنمازیوں کیلئے کھولنے کے موقع پر جذباتی اور روح پرور مناظر دیکھے گئے ۔ جمعہ کو 30ہفتے بعد تاریخی جامع مسجد کے منبر و محراب وعظ و تبلیغ اور خبطہ جمعہ سے گونج اٹھے اور کئی مہینے بعد اس تاریخی عبادت گاہ...

مقبوضہ کشمیر: تاریخی جامع مسجد سرینگر 30ہفتوں بعد  نماز جمعہ کیلئے کھولنے  پر جذباتی مناظر

آزادی کے بعد پہلی بار ریاست جموں وکشمیر کے اختیارات چھین لیے گئے،راہول گاندھی وجود - بدھ 02 مارچ 2022

بھارت میں کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے 2019میں دفعہ 370 (جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی) کی منسوخی پر مودی کی فسطائی بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جواس سے پہلے کبھی نہیں کیا گیا اوراب اتر پردیش اور گجرات جیس...

آزادی کے بعد پہلی بار ریاست جموں وکشمیر کے اختیارات چھین لیے گئے،راہول گاندھی

کشمیر سے اظہارِیکجہتی، بھارت میں ملٹی نیشنل کمپنیوں پرہندو انتہا پسندوں کا حملہ وجود - اتوار 13 فروری 2022

بھارتی ریاست گجرات میں سینکڑوں ہندو انتہا پسند مظاہرین نے سوشل میڈیا پر مقبوضہ جموں و کشمیرسے اظہار یکجہتی کی پاداش میں متعدد ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ملکیت والے اسٹورز کو بند کرادیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پانچ فروری (یوم کشمیر) کے موقع پر پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں ہنڈائی موٹرز...

کشمیر سے اظہارِیکجہتی، بھارت میں ملٹی نیشنل کمپنیوں پرہندو انتہا پسندوں کا حملہ

بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی ہونے والی ہے، امریکی کانگریس کو بریفنگ وجود - پیر 17 جنوری 2022

جینو سائیڈ واچ کے بانی اور ڈائریکٹر گریگوری اسٹینٹن نے خبردار کیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی ہونے والی ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق گریگوری اسٹینٹن نے امریکی کانگریس کی بریفنگ کے دوران کہا کہ بھارت کی ریاست آسام اور مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کے ابتدائی علامات اور عمل موج...

بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی ہونے والی ہے، امریکی کانگریس کو بریفنگ

صحافیوں کی عالمی تنظیم کا بھارت سے کشمیری صحافی کی رہائی کا مطالبہ وجود - اتوار 09 جنوری 2022

امریکا میں قائم صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے) نے بھارت سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کے خلاف مظاہرے کی ویڈیو بنانے والے زیر حراست صحافی کو رہا کرنے کا مطالبہ کردیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق سی پی جے نے کہا کہ ایک آزاد صحافی اور میڈیا کا طالب عل...

صحافیوں کی عالمی تنظیم کا بھارت سے کشمیری صحافی کی رہائی کا مطالبہ

مقبوضہ کشمیر کی تحریکِ آزادی نظر انداز، دبئی حکومت کی زیر ملکیت کمپنی کا مقبوضہ کشمیر میں ڈرائی پورٹ تعمیر کرنے کا اعلان وجود - هفته 08 جنوری 2022

بھارت نہایت پُرکاری سے مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو مسلم ممالک کی اخلاقی حمایت سے محروم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس ضمن میں بھارت نے عرب ممالک کو خاص ہدف بنا رکھا ہے۔ پاکستان کے ابتر سیاسی نظام اور خارجہ محاذ پر مسلسل ناکامیوں نے اب مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے عالم اسللام کے متفقہ م...

مقبوضہ کشمیر کی تحریکِ آزادی نظر انداز، دبئی حکومت کی زیر ملکیت کمپنی کا مقبوضہ کشمیر میں ڈرائی پورٹ تعمیر کرنے کا اعلان

مقبوضہ کشمیر'29برس گزرنے کے باوجود لوگوں کے ذہنوں میں سوپور قتل عام کی یادیں آج بھی تازہ وجود - جمعرات 06 جنوری 2022

مقبوضہ کشمیر میں 6جنوری 1993ء کو بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں سوپور میں نہتے کشمیریوں کے قتل عام کے سانحہ کو29برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس کی تلخ یادیں لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی تازہ ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 1993میں اس دن سوپور میں اندھا دھند گولیاں برسا کر 60 سے زائد بے گناہ ک...

مقبوضہ کشمیر'29برس گزرنے کے باوجود لوگوں کے ذہنوں میں سوپور قتل عام کی یادیں آج بھی تازہ

بھارت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیل کے نقش قدم پر، اسرائیلی اخبار کا انکشاف وجود - جمعرات 25 نومبر 2021

بھارت نے اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کے دوران شہید ہونے والے کشمیریوں کے جسد خاکی لواحقین کے حوالے کرنے کے بجائے خود دور دراز مقامات پر دفنانا شروع کر دیے ہیں،ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی جریدے ہاریٹز کی ایک رپورٹ کے مطابق ا...

بھارت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیل کے نقش قدم پر، اسرائیلی اخبار کا انکشاف

علیحدہ کشمیر مانگ رہے ہیں تو دے دو، فوجی کی بیوہ مودی کے خلاف صف آرا وجود - جمعرات 21 اکتوبر 2021

بھارتی فوجی کی بیوہ حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کی حمایت میں میدان میں آگئیں اور کہا کہ وزیروں کی اولادوں کو ایک مرتبہ ضرور سرحد پربھیجیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'ٹوئٹر' پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں پونچھ سیکٹر میں ہلاک ہونے والے بھارتی ...

علیحدہ کشمیر مانگ رہے ہیں تو دے دو، فوجی کی بیوہ مودی کے خلاف صف آرا

مزاحمتی تحریک سے وابستہ کشمیریوں کے خلاف بھارتی کارروائیوں میں تیزی لانے کا منصوبہ وجود - هفته 09 اکتوبر 2021

بھارت نے اپنے نام نہاد انسداد دہشت گردی کے سرکردہ ماہرین کو مقبوضہ جموں و کشمیر بھیج دیا ہے تاکہ جاری مزاحمتی تحریک سے وابستہ کشمیریوں کو ختم کرنے کیلئے مقامی پولیس کی مدد کی جا سکے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ''ہندوستان ٹائمز'' کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ پیش رفت بھارتی وزی...

مزاحمتی تحریک سے وابستہ کشمیریوں کے خلاف بھارتی کارروائیوں میں  تیزی لانے کا منصوبہ

یورپی پارلیمنٹ ریسرچ سروس کی مقبوضہ کشمیر پر تحقیقی دستاویز جاری وجود - جمعه 27 ستمبر 2019

یورپی پارلیمنٹ کی ریسرچ سروس نے مقبوضہ کشمیرکی تازہ ترین صورتحال پر ایک تحقیقی دستاویز جاری کی ہے ،اس دستاویز میں مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور وہاں کرفیوکے نفاذ سے ابتک کے تمام واقعات کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے ، چیئرمین کشمیرکونسل ای یو نے کہا ہے کہ یورپی پارلیمنٹ کی یہ ...

یورپی پارلیمنٹ ریسرچ سروس کی مقبوضہ کشمیر پر تحقیقی دستاویز جاری

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر