وجود

... loading ...

وجود
وجود

دیکھو تو ہم کیا بن گئے ہیں! دریا کی مخالفت پر کمربستہ بلبلہ، مٹی سے بغاوت پر آمادہ ذرہ اور تاریخ کو للکارنے والا ایک ضدی لمحہ

هفته 27 اگست 2016 دیکھو تو ہم کیا بن گئے ہیں! دریا کی مخالفت پر کمربستہ بلبلہ، مٹی سے بغاوت پر آمادہ ذرہ اور تاریخ کو للکارنے والا ایک ضدی لمحہ

ahmed-javed-sahib

دیکھو تو ہم کیا بن گئے ہیں! دریا کی مخالفت پر کمربستہ بلبلہ، مٹی سے بغاوت پر آمادہ ذرہ اور تاریخ کو للکارنے والا ایک ضدی لمحہ

اس سے احمق بلبلہ، اس سے نادان ذرہ، اس سے بے وفا لمحہ قابل تصور نہیں ہو سکتا۔ یہ اس مسخ شدہ، کارٹون نما بلبلے، ذرے اور لمحے کی کہانی ہے جو نہ خود سے واقف ہے نہ اس دنیا سے جس میں وہ اپنے عمل کو نتیجہ خیز بنانے کی کوشش میں ہے۔ ان احوال کے ساتھ ہونا، کرنا سب لاحاصل اور بے معنی ہے۔ بلبلے کا دریا کی مخالفت کرنا مضحکہ خیز ہے، ذرے کی مٹی سے بغاوت لایعنی ہے، تو لمحے کا تاریخ کو للکارنا المناک ہے۔ یہ بلبلہ، یہ ذرہ، یہ لمحہ نہ اپنی اصل سے آگاہ ہے، نہ وہ اس انجام سے باخبر ہے جس کی طرف وہ بڑھ رہا ہے، اور اس کے احوال اس قدر دگرگوں ہیں کہ شاید اسے اپنی اصل و انجام جاننے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ لیکن یہ کون ہیں؟ اچانک سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تو ہم ہی ہیں، اور یہی بلبلہ، یہی ذرہ، یہی لمحہ اب ہمارا تعارف ہے، کیونکہ ہمارا تعارف اس قدر مشکل اور انہونا ہوتا جا رہا ہے کہ اس کے لیے ایسے ہی غیرمعمولی اور غیر روایتی وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔

بلبلہ زندگی کا استعارہ ہے، اور ہم اپنی اصل حیات سے منقطع ہیں۔ ذرہ وجود کا استعارہ ہے اور ہم اپنی اصل ہستی سے ناواقف ہیں، اور لمحہ کچھ بننے کا آوازہ ہے اور ہم عمل سے تہی ہیں۔ اس قول زریں کا خلاصہ ایک لفظ میں کیا جا سکتا ہے، اور وہ ہے ”حالت انکار“۔ تو یہ حالت انکار کیا ہوتی ہے؟ اس کی تعریف بہت سادہ ہے۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں انسان اپنے تجربے سے بھی کوئی سبق لینے کی اہلیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ حالت انکار میں انسان ذہن اور علم کی سطح پر تصورات کو سمجھنا اور ان میں امتیاز کرنا تو دور کی بات ہے، اپنے انفرادی اور اجتماعی تجربے کی معنویت کو جاننے سے بھی عاری ہو جاتا ہے۔ حالت انکار فرد پر بھی آتی ہے اور قوموں پر بھی۔ حالت انکار خودفراموشی سے سینچی ہوئی احمقانہ ہٹ دھرمی اور اپنے فطرتی اور تاریخی حالات سے ذہن کے مکمل انقطاع میں ظاہر ہوتی ہے۔ حالت انکار میں انسان اپنی داخلیت کی کینچلی میں مستقل پناہ گزیں ہو جاتا ہے۔ اقبالؒ نے کیا خوب کہا تھا:

سخت باریک ہیں امراضِ امم کے اسباب
کھول کر کہیے تو کرتا ہے بیاں کوتاہی

جیسے مثال کے طور پر شام میں معاشرے کی مکمل تباہی ہمارا اجتماعی تجربہ ہے۔ اس پر رونا دھونا عام ہے، جو صاف ظاہر ہے کہ ہماری دردمندی کا اظہار ہے۔ لیکن قوموں کی ذمہ داری صرف ماتم و گریہ زاری اور تجہیز و تکفین تک محدود نہیں ہوتی۔ یہ ایک سیاسی صورت حال ہے جس کی جڑیں تاریخ میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلم ذہن اس صورت حال کے بامعنی علمی تجزیے، اس تجزیے سے پیدا ہونے والے موقف اور اس موقف پر بننے والے سیاسی عمل کا کوئی امکان رکھتا ہے؟ ہم زیادہ سے زیادہ وعظ کر سکتے ہیں، دہائی دے سکتے ہیں، اور نظریۂ سازش کا نعرہ بلند کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تو کوئی اور چیز ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ شام میں ایک ناقابل تصور المیہ لحظہ لحظہ تشکیل پا رہا ہے، لیکن اس پر کام کی کوئی بات کیا ہمارے میڈیا، سائبر اسپیس، علوم وغیرہ میں کہیں نظر آتی ہے؟ ناظرین کی حالات سے واقفیت ناچیز سے کہیں بڑھ کر ہے، سب کچھ ان کے سامنے ہے۔ یہ ہماری تہذیبی حالت انکار کا واقعاتی اظہار ہے۔

اقوام اور معاشروں کی حالت انکار کے اول آثار علم میں ظاہر ہوتے ہیں اور وہیں اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔ معاشرے کے اجتماعی شعور کا تاریخ سے متعلق اور ہم قدم رہنے کا واحد ذریعہ عقلی اور تجربی علوم ہیں۔ تاریخ اس قدر سفاک ہے کہ عقلی اور تجربی علوم کے بغیر مذہبی علوم کی کوئی معنویت بھی باقی نہیں رہنے دیتی، اور اپنی دھاک سے ان کی بھی اپنی مرضی پر تشکیل کر لیتی ہے۔ اپنی غیرمعمولی حالت انکار کی وجہ سے آج ہم ناہنجار بلبلوں، نابکار ذروں اور نافرجام لمحوں کا مجموعہ بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ قول زریں ہماری اجتماعی حالتِ انکار کو خوفناک طریقے پر نمایاں کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سے نکلنے کا کیا راستہ ہے؟ ہماری گزارش ہے کہ اپنے تہذیبی ورلڈ ویو کی بازیافت اور اس میں رہتے ہوئے عقلی اور تجربی علوم کی طرف واپسی اس صورت حال سے نکلنے کا واحد راستہ ہے۔ اپنے کلچر اور مذہبی علوم کو تاریخ اور جدیدیت کی مرادات پر ڈھالتے چلے جانے سے حالت انکار مزید گہری ہوئی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں چیزوں کو ویسے دیکھنے اور سمجھنے والا ذہن عطا فرمائے جیسی وہ ہیں، اور تاریخ سے نبردآزما ہونے والا کردار عطا فرمائے۔ آمین


متعلقہ خبریں


سب اندھیرے ایک سے نہیں ہوتے، کچھ رات میں پھیلتے ہیں اور کچھ، دن میں! محمد دین جوہر - اتوار 04 ستمبر 2016

اندھیرے جو دل کو ظلمت خانہ بنا دیں وہ رات کو آتے ہیں اور جو ذہن کو تاریک کر دیں وہ دن کو پھیلتے ہیں۔ اندھیرے جو احوال بن جائیں وہ رات میں اترتے ہیں، اور ظلمت جو فکر بن جائے وہ دن کو بڑھتی ہے۔ آج دنیائے آفاق خود اپنے ایندھن سے اور انسانی کاوش سے روشن ہے۔ یہ دنیا انسان کا گھر تو ہے...

سب اندھیرے ایک سے نہیں ہوتے، کچھ رات میں پھیلتے ہیں اور کچھ، دن میں!

ذہانت صرف علم سے نہیں، جہل سے بھی پیدا ہوتی ہے محمد دین جوہر - بدھ 31 اگست 2016

اگر اس قول زریں میں ”ذہانت“ کا مفہوم طے ہو جائے تو اشکال ختم ہو جاتا ہے۔ یہ اشکال ذہانت کے حوالے سے ”علم“ اور ”جہل“ کی ہم منصبی سے پیدا ہوتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ ذہانت کا مفہوم کیا ہے یا درست تر معنی میں اس کی تعریف کیا ہے؟ علم کی عمارت دراصل تعریفات کی اینٹوں سے کھڑی ہوتی ہے۔ ای...

ذہانت صرف علم سے نہیں، جہل سے بھی پیدا ہوتی ہے

شاعری کا ذوق نہ ہو تو آدمی 'مولوی' تو بن سکتا ہے، عالم نہیں محمد دین جوہر - جمعرات 18 اگست 2016

"شاعری کا ذوق نہ ہو تو آدمی 'مولوی' تو بن سکتا ہے، عالم نہیں!" جمال کے آتش پیرہن جلوے آب معانی میں بسنے پر راضی ہو جائیں تو شاعری پیدا ہوتی ہے، اور اس ”آبدار پانی“ کا جرعہ نصیب ہونا ذوق ہے۔ ہمارے ہاں شاعری پر جھگڑا نہیں، اور وہ جو عظیم المرتبت یونانی استاد شاگرد کا جھگڑا ہے، ا...

شاعری کا ذوق نہ ہو تو آدمی 'مولوی' تو بن سکتا ہے، عالم نہیں

بعض لوگ اچھا آدمی بننے سے بچنے کے لیے مذہبی ہو جاتے ہیں محمد دین جوہر - جمعه 12 اگست 2016

"بعض لوگ اچھا آدمی بننے سے بچنے کے لیے مذہبی ہو جاتے ہیں" بعض اوقات اصل بات اس قدر اہم ہوتی ہے کہ اسے براہ راست کہنے سے مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اس قول زریں کی تہہ داری ہمارے عصری حالات پر تبصرہ بھی ہے، اور اصل بات تک پہنچنے کے لیے مہمیز بھی ہے۔ اول تو اس قول میں ”بعض“ کا لفظ نہایت ...

بعض لوگ اچھا آدمی بننے سے بچنے کے لیے مذہبی ہو جاتے ہیں

سیکولر نظام میں خدا کو ماننے کی پوری آزادی ہے، البتہ بندہ بننے پر سخت پابندی ہے محمد دین جوہر - جمعه 05 اگست 2016

سیکولرزم ایک سیاسی نظام کے طور پر دنیا میں عملاً قائم ہے، اور ایک فکر کے طور پر علوم اور ذہن میں جاری ہے۔ یہ ایک کامیاب ترین نظام اور موثر ترین فکر ہے۔ اب سیکولرزم دنیا کا معمول بھی ہے اور عرف بھی۔ عام طور پر یہ سمجھا اور کہا جاتا ہے کہ یہ مذہب کے خلاف ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بات د...

سیکولر نظام میں خدا کو ماننے کی پوری آزادی ہے، البتہ بندہ بننے پر سخت پابندی ہے

ایمان کو علم بنا دینا بے ایمانی ہے، اور علم کو ایمان بنا لینا، لاعلمی! محمد دین جوہر - هفته 30 جولائی 2016

ایمان کو علم بنا دینا بے ایمانی ہے، اور علم کو ایمان بنا لینا، لاعلمی! اس قول زریں میں احمد جاوید صاحب نے علم پر مذہبی موقف کو سادہ انداز میں بیان کیا ہے۔ سب سے پہلے اس قول کی تہہ میں کارفرما موقف کو دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ گزارش ہے کہ علم کی ایسی تعریف کہیں میسر نہیں ہے، یعن...

ایمان کو علم بنا دینا بے ایمانی ہے، اور علم کو ایمان بنا لینا، لاعلمی!

مجذوب کا رجز وجود - اتوار 25 اکتوبر 2015

احمد جاوید تنہ نا ھا یا ھو تنہ نا ھا یا ھو گم ستاروں کی لڑی ہے رات ویران پڑی ہے آگ جب دن کو دکھائی راکھ سورج سے جھڑی ہے غیب ہے دل سے زیادہ دید آنکھوں سے بڑی ہے گر نہ جائے کہیں آواز خامشی ساتھ کھڑی ہے لفظ گونگوں نے بنایا آنکھ اندھوں نے گھڑی ہے رائی کا دانہ یہ دنیا کو...

مجذوب کا رجز

مناجات وجود - اتوار 06 ستمبر 2015

اونچی لہر بڑھا دیتی ہے دریا کی گہرائی تیرے غیب نے دل کو بخشی روز افزوں بینائی سات سمندر بانٹ نہ پائے موتی کی تنہائی ناپ چکا ہے سارا صحرا میری آبلہ پائی مالک میں ہوں تیرا چاکر مولا! میں مولائی دل ہے میرا گیلا پتھر جمی ...

مناجات

مضامین
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان وجود پیر 22 اپریل 2024
انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3) وجود اتوار 21 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر