وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاکستان بڑی سیاسی تبدیلیوں کے نرغے میں

هفته 09 جولائی 2016 پاکستان بڑی سیاسی تبدیلیوں کے نرغے میں

nawaz-zardari-fazl

خالق کائنات کا ہمیشہ سے ایک عجیب طریقہ کار رہا ہے کہ وہ آفاقی معاملات کو منتشر نقطوں میں بکھیر کر اپنے بندوں کوان کے ادراک کی دعوت دیتا ہے۔ان نقطوں کو یکجا کرکے حقائق کی ایک تصویر بنا لینا اتنا آسان کام نہیں ہوتابلکہ اس کے لئے طویل مشق اور باقاعدہ طریقہ کار یا Proper Methodologyاختیار کرنا پڑتی ہے۔ اس سے ہٹ کر معاملات کی آگاہی میں انسان صرف بھٹک سکتا ہے لیکن راہ نہیں پاسکتا۔ یہ طریقہ کار رموز کائنات سے لیکر زمین پر ہوتے سیاسی، سماجی اور تہذیبی معاملات میں ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پرفی زمانہ عالمی سطح پردنیا کے سردو گرم پر حاوی امریکا کے حوالے سے اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ امریکہ کا اگلا صدر کون ہوگا تو اس کا ادراک آنے والے انتخابات سے ایک برس قبل بھی کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لئے آپ کو صحیح ’’طریقہ کار‘‘ اختیار کرنا ہوگا۔ مثلا امریکی انتخابات سے ایک برس قبل تک کے عالمی حالات کے تناظر میں امریکی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کے رجحانات، اس دوران عالمی سطح پراس کی دوستی اور دشمنی کے تقاضے ، داخلی اور خارجی سطح پر امریکی اسٹیبلشمنٹ کی بدلتی ترجیحات اور پھر دونوں امریکی جماعتوں کے صدارتی امیدواروں کے منشور کو سامنے رکھ لیں تو نتیجہ اخذ کرنا زیادہ مشکل نہیں رہے گا اورتقریبا ایک برس بعد وائٹ ہاوس میں لگنے والی نئی تصویر واضح نظر آنا شروع ہوجائے گی۔۔۔

مشرف دور میں لیے جانے والے یوٹرن نے جس طرح اس ملک کی سیاسی، سماجی اور معاشی کمر توڑ کر رکھ دی تھی اب ان مڑے ہوئے معاملات کو سیدھا کرنے کے لئے بھی ایک اور یوٹرن کا وقت آگیا ہے۔

بکھرے نقاط یاScattered points کی یہی کہانی آجکل وطن عزیزکے سیاسی اسٹیج پر بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ جس کے تناظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کی جوہری تبدیلیوں کے دہانے پر آن پہنچا ہے۔ عالمی سیسہ گروں کے مفادات نے خطے کو جن حالات سے دوچار کردیا ہے، اس میں پاکستان بھی تیزی سے تبدیلی کے دھارے میں شامل ہوتا نظر آرہا ہے۔ اب ان ’’بکھرے نقاط‘‘ کی جانب آجائیں۔۔۔ نواز لیگ کی حد تک آف شور کمپنیوں کا معاملہ اور اس میں پاکستانی حکمران خاندان کی مالیاتی بدعنوانیاں کا عیاں ہوجاناکسی داخلی کوشش کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یہ قدرتی طور پر ایک عالمی کھیل کے تناظر میں اچانک سامنے آیا ہے جس میں پاکستان کا حکمران خاندان بھی بے نقاب ہوگیا، دوسرے ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان آمد اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں سے قصاص کا مطالبہ، تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کا ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کی حمایت کرنا اور سب سے زیادہ اہم اور قابل توجہ نون لیگ کے نصف سے زیادہ ممبران پارلیمنٹ کا وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر کے دوران اسمبلی سے غیر حاضر ہوجانا کسی نوشتہ دیوار سے کم نہیں، ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ نصف سے زیادہ نون لیگی ارکان قاف لیگ کی تاریخ دھرانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔۔ان حالات کے پیش نظر وزیر اطلاعات پرویز رشید کی جانب سے خورشید شاہ کے گھٹنے چھو کر ’’گھٹنہ ڈپلومیسی‘‘ کا آغاز کیا گیا لیکن یہ بھی بے سود ثابت ہوا۔یہ معاملات کا ایک رخ ہے۔

انہی معاملات کا دوسرا رخ پیپلز پارٹی کی جانب ہے۔زرداری گروپ ایک بین الاقوامی بندوبست کے تحت پانچ برس پاکستان پر حکومت کے نام پر اس قوم کا تیل نکال گیا۔جب اس بندوبست کے تحت نواز لیگ کی باری آئی تو آپریشن ضرب عضب کے دوران عسکری دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ معاشی دہشت گردوں پر بھی ہاتھ ڈال دیا گیاجس میں پیپلز پارٹی کے ایک سابق وزیر ڈاکٹر عاصم حسین کو بھی پکڑا گیا ، اس دوران لیاری میں دہشت گردی کا بازار گرم کردینے والے اور سیاسی حکمرانوں کے کٹھ پتلی عزیربلوچ کو دبئی سے گرفتار کرکے پاکستان لایا گیا اور اس کے بعد کراچی فشری کے سابق چیئرمین اور پی پی کے سینئر لیڈرڈاکٹر نثار مورائی کی گرفتاری اور ریمانڈ۔ اسے چور کی داڑھی میں تنکا کہا جائے یا آنے والے ’’خطرات‘‘ کی چاپ کہ آصف زرداری نے اسلام آباد میں اسٹیبلشمنٹ کو سخت زبان میں للکاربیٹھے، انہیں یہ غلط فہمی تھی کہ آپریشن ضرب عضب کے نام پر پیپلز پارٹی کو پھر کھڈے لائن لگانے کے ساتھ ساتھ ان کی پانچ سالہ ’’کارکردگی‘‘ پر بھی ہاتھ پڑھنے والا ہے۔ موصوف کو شاید یہ بھی غلط فہمی تھی کہ امریکا اور برطانیا پر مشتمل عالمی اسٹیبلشمنٹ پاکستانی اداروں کے خلاف ان کی پیٹھ ٹھونکے گی لیکن وہ شاید بھول گئے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ اپنے لئے کام کا معاوضہ اپنی جیب سے ادا نہیں کرتی بلکہ جس ملک میں دباؤ کے تحت ایسے ’’ سیٹ اپ‘‘ ترتیب دیتی ہے وہاں کے عوام اور قومی دولت کو ان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ موصوف نے اس ترنگ میں اسلام آباد میں تو بڑھک لگا دی لیکن جب پیچھے مڑکر دیکھا تو دور دور تک کوئی نہ تھا وہ دن اور آج کا دن موصوف دبئی، لندن اور واشنگٹن کے درمیان چھلانگیں لگاتے پھر رہے ہیں۔ آصف زرداری اس بات سے خوب واقف ہیں کہ ڈاکٹر عاصم اور عزیر بلوچ کے اعترافی بیانات اور ان کی گھنٹوں پر محیط ریکارڈنگ نے ان کا اور ان کے دیگر پارٹی دوستوں اور عزیزوں کا جو بھانڈہ پھوڑا ہے وہی زرداری گروپ کی سیاست کو ہمیشہ کے لئے دفن کردینے کے لئے کافی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بلاول زرداری کی شکل میں پیپلز پارٹی کی نئی جتھے بندی کی جارہی ہے لیکن یہ آنے والے وقت میں زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوگی۔

ملکی سیاسی صورتحال کا تیسرا رخ ایم کیو ایم ہے جو اس وقت پوری طرح حالت نزاع میں ہے۔ کراچی میں اس کے طاقت کی بنیاد پرموجود مینڈیٹ سے انکار ممکن نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک اس جماعت کی ’’ایکسپائری ڈیٹ‘‘ اب قریب ہے جس کی سب سے بڑی وجہ الطاف حسین کی حد سے زیادہ خود اعتمادی تھی جس کی وجہ سے وہ اس حال کو پہنچ گئے، نفسیاتی طور پر ’’متبادل‘‘ کا خوف اس قدر طاری تھا کہ کسی کو برداشت کرنا ان کے بس کی بات نہیں رہا تھایہی وہ خوف تھا جس کی وجہ سے ان کے بین الاقوامی ’’ذمہ داران‘‘ بھی پریشان ہوگئے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تحقیقات نے آگ پر تیل کا کام دیاجس کے نتائج دیوار پر لکھے نظر آرہے ہیں۔۔۔ ذرائع کے مطابق کراچی کے امور پر متحدہ کی گرفت تیزی کے ساتھ ڈھیلی پڑتی جارہی ہے اوربین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ اس صورتحال کا بغور جائزہ لے رہی ہے کیونکہ ’’پاک سرزمین ‘‘ پارٹی کی جانب سے متحدہ کے بنیادی ڈھانچے پر سخت ضرب لگ چکی ہے۔ برطانیا کی جانب سے متحدہ کی پشت پناہی بھی آہستہ آہستہ دم توڑ جائے گی ۔یہی وجہ ہے کہ آنے والے خطرات کے تحت متحدہ کی لندن میں موجود قیادت نے اپنے سیاسی امور لندن کی بجائے امریکا سے چلانے پر غور شروع کردیا تھا لیکن اگر آئندہ عام انتخابات میں سندھ سے پاک سرزمین پارٹی نصف سے کم بھی متحدہ کی سیٹوں پر قابض ہوگی تو امریکی بھی متحدہ کے مستقبل کے بارے میں نا امید ہوجائیں گے۔ذرائع کے مطابق دبئی سے لیکر جنوبی افریقا تک متحدہ کا سارا نیٹ ورک بُری طرح اُدھڑ چکا ہے۔ دبئی انتظامیہ نے وہاں روپوش متحدہ کے بے شمار ارکا ن کو پہلے اپنی واچ لسٹ میں رکھا اس کے بعد پاکستانی اداروں کے تعاون سے انہیں وہاں سے گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کیا جانے لگا اس صورتحال نے بھی لندن اور دنیا کے دیگر حصوں میں متحدہ کی صفوں میں ایک بھگدڑ مچادی ہے۔

حکمران جماعت کے پاس صرف ایک آپشن بچے گا کہ وہ نواز شریف کی جگہ کسی اور پارٹی عہدیدار کو پارٹی کی سربراہی سونپ دے۔ لیکن اس سلسلے میں نواز شریف شہباز شریف کو بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ۔

اب ان تمام معاملات کو ہم نظر میں رکھ کر ملک کی مجموعی صورتحال کی جانب لوٹتے ہیں تو بہت سے ’’بکھرے نقاط‘‘ مل کر ایک ایسی کہانی سناتے نظر آتے ہیں جس کے بارے میں ماضی قریب میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ صاف لگ رہا ہے کہ مشرف دور میں لیے جانے والے یوٹرن نے جس طرح اس ملک کی سیاسی، سماجی اور معاشی کمر توڑ کر رکھ دی تھی اب ان مڑے ہوئے معاملات کو سیدھا کرنے کے لئے بھی ایک اور یوٹرن کا وقت آگیا ہے۔ معاشی دہشت گردی کے خلاف اب تک جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں اس کے نتیجے میں کرپٹ سیاستدانوں نے عوام کو گمراہ کرنے کے لئے ’’جمہوریت کو خطرہ ہے‘‘ کا راگ الاپنا شروع کردیا تھالیکن درحقیقت یہ جمہوریت کو نہیں بلکہ خود ان کی بدعنوانیوں کو لاحق خطرات کا بین تھا۔ یہی وہ حالات ہیں جب ملک کے وزیر اعظم نے حکومت کو اپنے بچوں کے حوالے کیا اور لندن میں آپریشن کی غرض سے منتقل ہوئے لیکن اب جو صورتحال عیدالفطر کے بعد واضح ہوتی نظر آرہی ہے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ معاملات کس طرف جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے قصاص کا مطالبہ ان کی بے لچک پالیسی کا غماز ہے۔ اگر عید الفطرکے بعد بوزیر اعظم پاکستان کے واپس آتے ہی پاناما لیکس کا معاملہ بھی پوری قوت کے ساتھ سر اٹھائے گا ۔ اس لئے واضح الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ حکمران جماعت کے پاس صرف ایک آپشن بچے گا کہ وہ نواز شریف کی جگہ کسی اور پارٹی عہدیدار کو پارٹی کی سربراہی سونپ دے۔ لیکن اس سلسلے میں نواز شریف شہباز شریف کو بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اس لئے یہی ایک بڑی وجہ آنے والے وقت میں سب سے پہلے حکمران خاندان کے اندرتقسیم کا سبب بن جائے گی ۔۔۔حکمران جماعت کے پاس جو آخری پتہ رہ جائے گا وہ ’’عوام‘‘ ہوں گے (یعنی قبل از وقت انتخابات)نواز شریف کسی طور بھی ان ہاوس تبدیلی پر راضی نہیں ہیں۔

حالات کا سیناریو بتاتا ہے کہ زرداری صاحب کی سیاست ختم ہوچکی خود پیپلز پارٹی کے بعض حلقے خاموشی سے زرداری کو پی پی کے موجودہ سیاسی زوال کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں اس لئے پیپلز پارٹی سے ’’زرداری مائنس ‘‘کا تقریبا فیصلہ ہوچکا یہی وجہ ہے کہ بلاول زرداری کو بے نظیر کا سیاسی جانشین بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ ایم کیو ایم کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ ایسے جن کی مانند تھی جس کی جان صرف الطاف حسین کے اندر ہے الطاف کے ساتھ یہ جن بھی ہوا میں تحلیل ہونے کے قریب پہنچ چکا۔ یہی وجہ ہے کہ متحدہ کے سیاسی خلا کو پورا کرنے کے لئے پاک سرزمین پارٹی کا قیام پہلے ہی عمل میں لایا جاچکا ہے۔

جس خاموشی سے مولانا فضل الرحمان لندن پہنچے تھے اس سے کہیں زیادہ خاموشی کے ساتھ مولانا واپس آگئے اور تاحال سیاسی منظر نامے سے لاپتہ ہیں۔

اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ دلچسپ کردار مولانا فضل الرحمن کا رہا ہے۔ موصوف نے ایک مرتبہ حکومت اور متحدہ کے پھڈے میں لات اڑاتے ہوئے نائن زیرو کی زیارت کا شرف حاصل کیا لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ یہ ان کا سیاسی میدان ہی نہیں ہے۔ اسی لئے مولانا جس تیزی کے ساتھ متحدہ اور نون لیگ کے درمیان پل بننے آئے تھے اس سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ واپس ہوگئے۔ دوسری مرتبہ مولانا کا ’’ظہور‘‘ اس وقت ہوا جب نواز زرداری مفاہمت اور ملاقات کے امکانات کا معاملہ سامنے آیا اور میاں صاحب کے خرچے پر مولانا صاحب لندن یاترا کے دوران آصف زرداری کے پہلو میں مسکراتے پائے گئے لیکن یہاں بھی انہیں جلدی احساس ہوگیا کہ انہیں بھیجا نہیں بلکہ دھکا دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس خاموشی سے مولانا لندن پہنچے تھے اس سے کہیں زیادہ خاموشی کے ساتھ مولانا واپس آگئے اور تاحال سیاسی منظر نامے سے لاپتہ ہیں۔ غالبا انہیں احساس ہوگیا کہ عید الفطر کے بعد پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ہونے کیا جارہا ہے۔۔۔ کسی نے انہیں غالبا بتا دیا ہے کہ پہلے تو مائنس ون کی بات سنا کرتے تھے اب تو شایدوطن عزیز کو ’’مائنس تھری‘‘ کا مرحلہ درپیش ہوچکا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اس وقت اپنے ہمسایوں کے ہاتھوں اور اپنے سیاستدانوں کی وجہ سے آج جس مقام پر کھڑا ہے اگر بے رحم احتساب نہ کیا گیا تو اس کی قیمت سب کو ادا کرنا پڑ جائے گی۔ آنے والے منظر نامے میں 2018ء کے انتخابات کا دور دور تک کہیں نشان نظر نہیں آرہا۔ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہ کوئی ’’عبوری سیٹ اپ‘‘ ہی آئندہ انتخابات کا انعقاد کرائے گا جس میں موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر سیاستدان تاریخ کا حصہ بن چکے ہوں گے ۔ پاک چین راہداری اس ملک کی معاشی شہ رگ بننے جارہی ہے جس پر پاکستان کے دفاع کے ضامن اداروں نے سمجھوتہ نہ کرنے کاعہد کرلیا ہے۔ افغانستان کی جانب سے امریکا نے طورخم بارڈر پر پاکستان کو جس امتحان میں ڈالنے کی کوشش کی تھی پاکستان الحمد ﷲ اس میں سرخرو ہوا ہے اسی قسم کی جارحانہ پالیسی سے کابل اور دہلی کو ان کی اوقات میں رکھا جاسکے گا۔۔۔


متعلقہ خبریں


اداروں پر حملہ برداشت نہیں کرینگے، آصف زرداری وجود - هفته 05 نومبر 2022

سابق صدر آصف علی زرداری نے چیئرمین تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ایک شخص ملک میں انتشار چاہتا ہے لیکن ہم اداروں پر حملہ برداشت نہیں کریں گے۔ آصف علی زرداری کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ایک شخص ملک میں انتشار پھیلانے کے لیے ہر لائن عبور کر رہا ہے، اس شخ...

اداروں پر حملہ برداشت نہیں کرینگے، آصف زرداری

نون لیگ کا نیا لندن پلان سامنے آگیا، حکومت برقرار رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے شرائط رکھنے کا فیصلہ وجود - پیر 16 مئی 2022

(رانا خالد قمر)گزشتہ ایک ہفتے سے لندن میں جاری سیاسی سرگرمیوں اور نون لیگی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد نیا لندن پلان سامنے آگیا ہے۔ لندن پلان پر عمل درآمد کا مکمل دارومدار نواز شریف سے معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اہم ترین شخصیت کی ایک اور ملاقات ہے۔ اگر مذکورہ اہم شخصیت نو...

نون لیگ کا نیا لندن پلان سامنے آگیا، حکومت برقرار رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے شرائط  رکھنے کا فیصلہ

انتخابی اصلاحات کے بعد ہی عام انتخابات ہوں گے، آصف علی زرداری وجود - بدھ 11 مئی 2022

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی)کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ہم الیکشن سے نہیں ڈرتے لیکن ہمارے گیم پلان میں انتخابی اور قومی احتساب بیورو (نیب)اصلاحات ہیں، جس کے بعد انتخابات ہوں گے۔ پہلی دفعہ اگر فوج ایک غیرسیاسی ہوتی ہے تو مجھے باجوہ کو سیلوٹ کرنا چاہیے...

انتخابی اصلاحات کے بعد ہی عام انتخابات ہوں گے، آصف علی زرداری

آصف زرداری سے چودھری شجاعت کی ملاقات: تحریک عدم اعتماد پر تبادلہ خیال وجود - جمعرات 10 مارچ 2022

سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین کے درمیان ملاقات ہوئی ،ملاقات میں عمران خان کے خلاف پیش کردہ تحریک عدم اعتماد سمیت دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ زرداری ہاوس اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کے ہمر...

آصف زرداری سے چودھری شجاعت کی ملاقات: تحریک عدم اعتماد پر تبادلہ خیال

172 سے زائد ووٹ لیں گے، اپوزیشن رہنماؤں کا اعلان وجود - بدھ 09 مارچ 2022

اپوزیشن رہنماؤں نے کہا ہے کہ ارکان ایوان میں لائیں گے اور 172 سے زائد ووٹ لیں گے۔ اس بات کا اعلان سابق صدر آصف علی زرداری، قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کی ق...

172 سے زائد ووٹ لیں گے، اپوزیشن رہنماؤں کا اعلان

حکومت ہٹاؤ مہم،آصف زرداری لاہور میں متحرک ،ملتان روانگی بھی موخر وجود - بدھ 09 فروری 2022

حکومت ہٹاؤ مہم کے سلسلے میں آصف زرداری لاہور میں متحرک ہوگئے ہیں۔ سابق صدر اور شریک چیئرمین پی پی آصف زرداری نے حکومت ہٹاؤ مہم کے باعث ملتان روانگی بھی موخرکردی ہے۔ ذرائع کے مطابق سابق صدر آصف زرداری نے سیاسی میدان میں ایک اور انٹری کی تیاری کرلی ، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق...

حکومت ہٹاؤ مہم،آصف زرداری لاہور میں متحرک ،ملتان روانگی بھی موخر

زرداری کی 8 ارب کی مشکوک ٹرانزیکشن، نیب سے جواب طلب وجود - بدھ 15 دسمبر 2021

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری کی 8 ارب کی مشکوک ٹرانزیکشن ریفرنس میں بریت کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے نیب سے جواب طلب کر لیا۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے نیب سے 18 جنوری تک جواب طلب کر لیا کہ بتائیں کہ متعلقہ ...

زرداری کی 8 ارب کی مشکوک ٹرانزیکشن، نیب سے جواب طلب

خواجہ آصف نے آصف علی زرداری کوکاریگر سیاست دان قرار دیدیا وجود - جمعرات 09 دسمبر 2021

مسلم لیگ (ن )کے رہنما خواجہ آصف نے آصف علی زرداری کوکاریگر سیاست دان قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ ہمیں آصف زرداری کی سیاسی خواہشات کا بخوبی اندازہ ہے۔ ایک انٹرویو میں لیگی رہنما خواجہ آصف نے آصف زرداری کو کاریگر سیاست دان قرار دیا اور کہا کاریگر اچھا لفظ ہے۔انھوں نے کہا کہ آصف زرداری ...

خواجہ آصف نے آصف علی زرداری کوکاریگر سیاست دان قرار دیدیا

لاہور کے بلدیاتی انتخابات میں کلین سوئپ کریں گے،آصف علی زرداری وجود - بدھ 08 دسمبر 2021

پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے چیئرمین و سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پنجاب میں پوری قوت کے ساتھ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیں گے،بلدیاتی الیکشن میں میدان کسی کے لئے خالی نہیں چھوڑیں گے ۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو لاہور سمیت پورے پنجاب میں مضبو...

لاہور کے بلدیاتی انتخابات میں کلین سوئپ کریں گے،آصف علی زرداری

نواز لیگ کے خلاف ہر جگہ لڑیں گے،آصف علی زرداری وجود - منگل 07 دسمبر 2021

سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ سازش کی وجہ سے پاکستان خطرے میں ہے ، دنیا پاکستان کو توڑنا چاہتی ہے ، ہم نے پاکستان کو بچانے کا عہد کیا ہواہے ، ہم پاکستان کے لئے لڑیں گے اور اسے بچائیں گے ، میں نے اپنی جماعت سے کہا تھا ہم پنجاب میں الیکشن لڑ سکتے ہیں، میں نے ضمنی انتخا...

نواز لیگ کے خلاف ہر جگہ لڑیں گے،آصف علی زرداری

نواز شریف اور مریم نواز چھوٹنے نہیں چاہئے، (ثاقب نثار کا جج کو حکم) سابق چیف جج گلگت بلتستان نے بھانڈا پھوڑ دیا وجود - پیر 15 نومبر 2021

سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا ایم شمیم نے انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہ ہونے کے لیے اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائیکورٹ کے ایک جج کو خصوصی حکم دیا تھا۔ انصاف کے تقاضوں کے منافی اس مشکوک طرزِ عمل کے انکشاف نے پاکستان کے سیاسی ، صحافتی اور عد...

نواز شریف اور مریم نواز چھوٹنے نہیں  چاہئے، (ثاقب نثار کا جج کو حکم) سابق چیف جج گلگت بلتستان نے بھانڈا پھوڑ دیا

آصف زرداری کیخلاف25سال پرانے مقدمے میں نیب اپیلیں سماعت کےلیے مقرر وجود - هفته 13 نومبر 2021

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف 25 سال پرانے کیس میں نیب اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کر دیں ۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ ارسز ٹریکٹر اور اے آر وائی گولڈ ریفرنسز کی سماعت کرے گا ۔ اے آر وائی گولڈ ریفرنس میں آصف ...

آصف زرداری کیخلاف25سال پرانے مقدمے میں نیب اپیلیں سماعت کےلیے مقرر

مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر