وجود

... loading ...

وجود
وجود

سندھ سے برطانیہ تک

منگل 28 جون 2016 سندھ سے برطانیہ تک

استعفے کا مطالبہ پاکستان کے وزیراعظم سے ہورہا تھا اور بات برطانیہ جاپہنچی۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی پر ریفرنڈم ہوا۔52فیصد شہریوں نے حق میں اور48فیصد نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ یوں محض 4فیصد کے فرق سے علیحدگی پسند جیت گئے نہ کوئی شور اٹھا‘ نہ ہنگامہ ہوا‘ نہ ریلیاں‘ جلسے جلوس اور دھرنے دیئے گئے۔ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون برطانیہ کو یورپی یونین میں شامل رکھنے والوں کے ساتھ تھے۔ خوش دلی کے ساتھ جمہوری رویہ اختیار کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ سے استعفا دیدیا۔ پاکستان میں صورتحال مختلف ہے۔ کرپشن کے سب سے بڑے اسکینڈل پاناما لیکس میں وزیراعظم کا خاندان ملوث بتایا جاتا ہے۔ اس پر ہنگامہ برپا ہے۔ اپوزیشن کا سرفہرست مطالبہ وزیراعظم کا استعفا ہے۔ عید کے بعد دمادم مست قلندر کی اندرون خانہ تیاری جاری ہے لیکن استعفے کی آواز کہیں سے نہیں آتی۔ کراچی میں دن دیہاڑے لیاقت آباد جیسے گنجان آباد علاقے میں مدحتِ رسولؐ اور مغنی خواجگان امجد فریدصابری کو گولی مارکر شہید کردیاگیا ان کی اہلیہ کو بیوہ اور چھوٹے بچوں کو یتیم کردیاگیا۔ وہ قوالی کے فن میں یکتائے زمانہ اور اپنے آباؤ اجداد کی میراث کے والی تھے لیکن اس سریلی آٓواز کو بارود برسانے والوں نے خاموش کردیا۔ دوسری طرف سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جناب سجاد علی شاہ کے صاحبزادے اویس شاہ ایڈووکیٹ کو سرشام کلفٹن کے مصروف ترین کمرشل علاقے سے اغواء کرلیاگیا۔ پولیس اور دیگر سیکورٹی ادارے سارے حربے آزمانے کے باوجود انہیں بازیاب نہ کرسکے لیکن ان دو بڑی وارداتوں کے بعدبھی کہیں سے بھی استعفے کی صدا بلند نہیں ہوئی۔ کلفٹن کے دو اعلیٰ پولیس افسروں کو واردات کے بعد معطل کیاگیا لیکن دبئی سے آنے والی کال پر اگلے ہی دن انہیں بحال کردیاگیا۔ پھر کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہے۔ اسے پھلنے پھولنے دیا جائے۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ کیسی جمہوریت ہے جس مین جان ومال‘ عزت وآبرو کوئی شے محفوظ نہیں ہے‘ سپریم کورٹ نے اسے’’بادشاہت‘‘ قرار دیا ہے۔ یہ ’’بادشاہ لوگ‘‘ کہتے ہیں کہ کرپشن کا مسئلہ قائداعظم کے دور میں بھی تھا۔ ان کے مطابق یہ مسئلہ چونکہ بانی پاکستان کے دور میں بھی تھا لہذا اس ’’تاریخی یادگار‘‘ کو اسی طرح سے جاری رہنا چاہئے۔ سندھ کے وزیر خزانہ مراد علی شاہ اگلے ہی لمحے اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بے باکی سے فرماتے ہیں کہ ہمارے کاموں میں سب سے بڑی رکاوٹ نیب ہے۔ انہوں نے اس امر کی وضاحت نہیں کی کہ وہ کون سے ’’کام‘‘ ہیں جن میں نیب رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ نیب کرپشن کو روکنے کا ادارہ ہے۔ یہی کردار سندھ کے وزراء اور افسروں کو برالگ رہا ہے۔ 21ارب روپے کے لاڑکانہ ترقیاتی منصوبہ کا کیا بنا؟ پیسہ کہاں گیا؟ سندھ کے دیگر ترقیاتی منصوبوں کا کیا بنا؟ صوبہ موئنجودڑو بنتا جارہا ہے سرکاری زمینوں کی بندربانٹ سے لے کر محکموں کے فنڈ تک لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ نیب کی ان سب پر نظر ہے۔ اس لئے مراد علی شاہ کو سندھ میں نیب کا وجود ناپسند ہے۔ بلدیہ کراچی کا بجٹ بلوچستان سے زیادہ ہے۔ سونے کی اس چڑیا پر پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت اور بھائی بہنوں کا قبضہ ہوچکا ہے لیکن شہر کی ترقی کیلئے نہیں کہ اس ضمن میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ سرجانی ٹاؤن سے ٹاور تک ’’گرین لائن میٹرو منصوبہ‘‘ بھی وزیراعظم اور وفاقی حکومت کی امداد سے بنایا جارہا ہے۔ کئی سال بعد کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کو بحال کرکے سوک سینٹر اس کی تحویل میں دے دیاگیا ہے اور کے ایم سی پھر راندۂ درگا ہ ہے۔ کے ڈی اے کے مقررکردہ ڈائریکٹر جنرل ناصر عباس کے پاس ڈائریکٹر لینڈ کاعہدہ بھی ہے۔ ان کی دلچسپی اس عہدے میں زیادہ ہے۔ کے ڈی اے کے پاس ابھی فنڈز نہیں ہیں۔ سب کچھ لینڈ ڈپارٹمنٹ میں ہے۔ کراچی کے بلدیاتی اداروں پر ’’قابضین‘‘ کو اگر شہر کی ترقی عزیز ہوتی تو آج لاڑکانہ‘ نوابشاہ اور خیرپور کھنڈرات کی بجائے’’پیرس‘‘ بن چکے ہوتے۔ سندھ میں ’’بادشاہت‘‘ کا بھانڈا تو اس جعلی پولیس موبائل نے بھی پھوڑ دیا جو سندھ اسمبلی کے باہر مشکوک حالت میں کھڑی تھی۔ جس پر جلی حرفوں میں پولیس لکھا تھا۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ آصف زرداری کے بہنوئی فضل اﷲ پیچوہو کے پرائیویٹ گارڈوں کے زیر استعمال پرائیویٹ گاڑی تھی۔ فضل اﷲ پیچوہو سندھ حکومت کے سیکریٹری تعلیم ہیں جن کا کلہ ان کے برادر نسبتی نے مضبوط سے گاڑ دیاہے۔ سندھ صوبے کی اس بادشاہت کو جاری رکھنے کیلئے پس پردہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ روابط بحال کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ اس مقصد کیلئے گزشتہ دنوں آصف علی زرداری لندن سے دبئی تشریف لائے۔ کئی دن قیام کیا۔ فوج کی حمایت میں بیان دیا۔ امریکہ اور افغانستان کے موضوعات پر اسٹیبلشمنٹ کے موقف کی تائید کی۔ اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو کو دبئی بلاکر وزیراعظم نوازشریف کے خلاف بیانات اور تقاریر میں مصالحہ تیز کرنے کی تاکید کی۔ ان تمام کارروائیوں کے باوجود جب اسٹیلشمنٹ نے کوئی مثبت اشارہ نہیں دیا تو جھٹ سے امریکہ پہنچ گئے جہاں لاس اینجلس میں امریکی سینیٹر جان مکین سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کی خبر سندھ حکومت کے محکمہ اطلاعات نے جاری کی۔ جبکہ یہ وفاقی حکومت اور دفتر خارجہ کا معاملہ تھا۔ اس سے قبل ہی پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے زیرک اور ذہین ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے دوٹوک انداز میں اعلان کردیا کہ فوج جمہوریت کی مدد کررہی ہے۔ حقانی نیٹ ورک سمیت تمام جنگجوؤں کیخلاف بلاامتیاز کارروائی کی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم نوازشریف کو ٹیلیفون کرکے صحتیابی کی مبارکباد دی اور پھولوں کاگلدستہ بھی بھجوادیا۔ آرمی چیف خود جرمنی اور چیکو سواکیہ کے دورے پر تھے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے یہ اقدامات اس پراپیگنڈے کا توڑ ثابت ہوئے جس میں کہا جارہا تھا کہ فوج نوازشریف اور جمہوریت کے خلاف ہے۔ اس طرح امریکی سینیٹروں کو غلط تاثر دینے کی کوشش ناکامی سے دوچار ہوگئی۔ امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی سے پیپلزپارٹی کو لاتعلقی کا اعلان کرنا پڑا جو زرداری دور میں ہی امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے جنہوں نے تھوک کے بھاؤ بلیک واٹر جیسی امریکی تنظیموں کے ویزے جاری کئے اور جن کو پاکستان سے فرار کرانے کیلئے اس وقت کے صدر مملکت آصف زرداری کو کئی گھنٹے چکلالہ ایئرپورٹ پر رکنا پڑا تھا۔ کہاجاتا ہے کہ اس زمانی میں صدرآصف علی زرداری پر بھی استعفے کیلئے بڑادباؤ تھا لیکن وہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدد سے بآسانی اپنے5سال گزار گئے۔ اس وقت سندھ حکومت بدنامی کی بلندی پر بیٹھی بیساکھیوں کے سہارے اپنی مدت پوری کرنے کی سمت گامزن ہے۔ ہمارے جمہوری نظام میں چونکہ استعفے کا رواج نہیں ہے لہذامشہور قوال امجدفریدصابری کا قتل ہو یا چیف جسٹس کے بیٹے کا اغواء‘ حکومت روایتی عمل سے آگے کوئی قدم نہیں اٹھاتی۔ وزیراعلیٰ یا وزیرداخلہ کا استعفا تو بہت دور کی بات ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر