وجود

... loading ...

وجود
وجود

امجد صابری کاقتل کراچی کے امن کا امتحان!!

پیر 27 جون 2016 امجد صابری کاقتل کراچی کے امن کا امتحان!!

amjad-sabri

کبھی حکیم محمد سعید تو کبھی مولانا یوسف لدھیانوی، کبھی مفتی نظام الدین شامزئی تو کبھی علامہ حسن ترابی، کبھی چوہدری اسلم تو کبھی سبین محمود،کبھی پروین رحمن تو کبھی پروفیسر شکیل اوج، کبھی ولی خان بابر تو کبھی پروفیسر یاسر رضوی ،اور اب امجد فرید صابری کراچی کی سڑکوں پر رقص کرتی موت کانشانہ بن چکے ہیں۔

کراچی میں جرائم پیشہ افراد کیخلاف آپریشن کو دوسال سے زائدکا عرصہ ہوگیا،سیکڑوں ٹارگٹ کلر گرفتار ہوئے،اغوا کار پکڑے گئے،لیکن امجد صابری کو لیاقت آباد جیسے گنجان آبا دعلاقے میں دن دیہاڑے درجنوں لوگوں کے سامنے قتل کردیا گیا ۔ حکیم محمد سعید کے قتل کے بعد یہ دوسرا ایسا واقعہ ہے جس نے کراچی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا،دو دن سے پورا شہر اداس ہے۔یہ واقعہ ملکی دہشت گردی ہے یا غیر ملکی ،ابھی اس پر بھی تحقیقات جاری ہے،لیکن ہر دکان ،گھر،گلی محلے اور دفتر میں صرف یہی سوال ہے:امجد صابری کوکس نے قتل کیا؟کیوں قتل کیا؟اس واقعے سے ایک روز قبل چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس سجاد علی شاہ کے صاحبزادے اویس شاہ کو بھرے بازار سے اغواء کرلیا گیا۔ابھی قانون نافذ کرنے والے ادارے اس دھبے کو چھپا بھی نہیں پائے تھے کہ اتنا بڑا داغ کراچی کے ماتھے پر لگادیا گیا۔ہائی پروفائل ٹارگٹ کلنگ کراچی میں وقفے سے وقفے سے جاری ہے۔کراچی میں ایک لاش گرنے سے دوسری لاش گرنے تک کا وقفہ امن کہلاتا ہے۔

لگتا ہے کہ امجد صابری کابلاجواز قتل سندھ میں سیاست کی بساط کو دھچکا ضرور پہنچائے گا۔حکیم سعید قتل ہوئے تو اس وقت بھی وزیر اعظم نواز شریف ہی تھے ۔ انہیں سندھ حکومت ختم کرکے سینئر مشیر اعلی کو سونپنی پڑی تھی۔آئین میں گنجائش نہیں تھی لیکن بعض” کاریگر آئین میں ”جگاڑتلاش کرلیتے ہیں۔آئین میں پرویز مشرف کیلئے بھی گنجائش نکال لی گئی تھی ۔جب امریکہ نے کہا کہ مارشل لا نہیں لگے گا تو پاکستان کے آئینی ماہرین نے چیف ایگزیکٹیوکا عہدہ ایجادکیا تھا۔یہ آئین میں نہیں تھالیکن چونکہ امریکہ کی ہر کمپنی میں سی ای اویعنی چیف ایگزیکٹیوہوتا ہے اس لئے انہیں اس عہدے سے اجنبیت کا کوئی تاثر نہیں ملا۔

سندھ ایک بار پھر ایسے ہی بحران میں پھنس گیا ہے۔امجد صابری کا قتل اور چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے بیٹے کا اغواء پے در پے دو ایسے واقعات ہیں جوسندھ حکومت کی اہلیت پر سوالیہ نشان ہیں۔کیا سب کچھ اسی طرح چھوڑ دیا جائے… اور پاکستان کے ”کماؤشہرکو سسکتابلکتاتڑپتارہنے دیا جائے اور ملک کو ٹیکس کی آمدنی کے ذریعے تقویت دینے والے شہر کو نظرانداز کرکے روزانہ ساڑھے 5ارب روپے قرضہ لے کر چلایا جائے۔کراچی کی تباہی … خدانخواستہ … خدانخواستہ…اس سے آگے قلم لکھنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن ملک ایسی صورتحال کا متحمل نہیں ہوسکتا…پاکستان روس سے بھی زیادہ خطرناک پوزیشن میں آگیا ہے اور اقبال کا یہ شعر معلوم نہیں کیوں ڈرارہاہے کہ ع

داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں

امجد صابری کے قتل کے بعد کراچی آپریشن کی ”اسپیڈ میں غیر متوقع اضافہ ہوسکتاہے۔یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں…ایک ایسی آواز جو ہر دل میں موجود ہو…ایک ایسا چہرہ جو مسکراتا ہوا ہو…اسے طبعی عمر مکمل کرنے سے قبل لحد میں اتارنا بہت مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔اس واقعے کے کراچی پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔رینجرز نے بھی قاتلوں کی تلاش میں اپنے ”ماسٹر مائنڈمیدان میں اتار دیئے ہیں اور یہ سب جانتے ہیں کہ

شعر یہاں پر آئے گا

قریب ہے یار روزِ محشر، چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا

لکھنے کی باتیں بہت ہیں لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ سوچنے والے بھی بہت کچھ سوچ رہے ہیں۔رضیہ بری طرح پھنس گئی ہے اور پاکستان خاص طور پر کراچی کو اس صورتحال سے نکالنے والا کوئی نظر نہیں آرہا ۔سنا ہے کہ نقشے بن رہے ہیں… پلان تیار کئے جارہے ہیں۔ پیغامات بھیجے جارہے ہیں،لیکن بظاہر کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا۔فیض احمد فیض کے چند اشعار بہت کچھ کہہ رہے ہیں:

تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارضِ وطن
جو ترے عارضِ بے رنگ کو گلنار کرے
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہو گا
کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گلزار کریں
تیرے ایوانوں میں پرزے ہوئے پیماں کتنے
کتنے وعدے جو نہ آسودہ اقرار ہوئے
کتنی آنکھوں کو نظر کھا گئی بدخواہوں کی
خواب کتنے تری شاہراہوں میں سنگسار ہوئے

چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ سجاد علی شاہ کے صاحبزادے کے اغواء نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پہلے ہی ہلاکر رکھا ہوا تھا۔کراچی کی ناکہ بندی کی گئی۔اسنیپ چیکنگ شروع کی گئی ،سرچ آپریشن اور مڈنائٹ آپریشن تیز کئے گئے ،چھاپے مارے گئے ،گرفتاریاں ہوئیں لیکن پھر سب کچھ دھرے کا دھرارہ گیااور خبر آئی کہ ”امجد صابری کو قتل کردیا گیا۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کی بیٹے کے اغواء کے بعد اغواء کاروں کی جانب سے تاحال کوئی رابطہ نہ ہونا زیادہ تشویش ناک بات ہے۔ اس سے یہ شبہ ظاہرہوتا ہے کہ اغواء کاروں کا مقصد تاوان کا حصول نہیں بلکہ کراچی میں خوف کی فضاء دوبارہ قائم کرنا ہے ۔ امجد صابری کا قتل بھی معاشرے میں ہم آہنگی کی بحال ہوتی فضا کو ایک دھچکا لگانا ہے کیونکہ ایک ایسے غیر متنازعہ فنکار کو جو تمام فرقوں میں یکساں مقبول ہو اور قطعی بے ضرر ہو، اسے قتل کرنا کسی ذاتی تنازعے کا نتیجہ نہیں ہو سکتا۔کراچی میں امن کی جزوی بحالی کے ساتھ ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے توجہ کرپشن کی سرکوبی سمیت دیگر امور پر مرکوز کر لی اور دہشت گردوں کو دوبارہ پنپنے کا موقع مل گیا اور اس بار انہوں نے دو ایسے وار کئے کہ تین سال کی محنت کے بعد شہر میں ختم ہوتی خوف کی فضا دوبارہ قائم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

سندھ حکومت کراچی میں امن کی بحالی کا کریڈٹ لینے کیلئے تو پیش پیش رہتی ہے لیکن امجد صابری کے قتل کے بعد ڈی ایس پی لیاقت آباد اور ایس ایچ اوشریف آباد کو معطل کردینا کافی نہیں ہوگا۔وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے استعفے کے مطالبات بھی آنا شروع ہوگئے ہیں۔امن وامان کی بحالی سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے اور وہ اسے پوری طرح انجام دیناہوگی۔کراچی میں اب تک جتنے ”ہائی پروفائل ٹارگٹ کلنگ کیسزہوئے ہیں ان میں سے صرف سانحہ صفورہ کے ملزمان گرفتار ہوئے، باقی مقدمات کی صرف تفتیش جاری ہے ۔حکیم محمد سعید کے قاتل اب تک سامنے آرہے ہیں ۔حال ہی میں منظرعام پر آنے والی ایک جے آئی ٹی میں حکیم محمد سعید کے قاتلوں کے بارے میں انکشاف کیا گیا ہے۔

امجد صابری کے ساتھ گاڑی میں موجود سلیم عرف چندہ نے انتہائی بوجھل دل اور رقت آمیز کیفیت میں امجد صابری کے آخری الفاظ بیان کئے کہ جب حملہ آوروں نے پہلا فائر کیا تو گاڑی کی ونڈاسکرین ٹوٹ گئی جس پر امجد صابری نے حملہ آوروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، مجھے کیوں مارنا چاہتے ہو؟ جس کے بعد حملہ آوروں نے مزید فائر کیے اور ان کو قتل کر دیا۔ایسی صورتحال میں احمد فرازکیوں یادنہ آئیں؟

مت قتل کرو آوازوں کو
تم اپنے عقیدوں کے نیزے
ہر دل میں اتارے جاتے ہو
ہم لوگ محبت والے ہیں
تم خنجر کیوں لہراتے ہو
اس شہر میں نغمے بہنے دو
بستی میں ہمیں بھی رہنے دو
ہم پالن ہار ہیں پھولوں کے
ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں
تم کس کا لہو پینے آئے ہو
ہم پیار سکھانے والے ہیں
اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے
جب حرف یہاں مر جائے گا
جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی
جب شعر سفر کر جائے گا
جب قتل ہوا سر سازوں کا
جب کال پڑا آوازوں کا
جب شہر کھنڈر بن جائے گا
پھر کس پہ سنگ اٹھاؤگے
اپنے چہرے آئینوں میں
جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے


متعلقہ خبریں


ایم کیو ایم اور مائنس پلس کا کھیل؟؟ الیاس شاکر - جمعه 02 ستمبر 2016

ایم کیو ایم کی حالت اِس وقت ایسی ہے جو سونامی کے بعد کسی تباہ شدہ شہر کی ہوتی ہے... نہ نقصان کا تخمینہ ہے نہ ہی تعمیر نو کی لاگت کا کوئی اندازہ ...چاروں طرف ملبہ اور تصاویر بکھری پڑی ہیں۔ ایم کیو ایم میں ابھی تک قرار نہیں آیا... ہلچل نہیں تھمی... اور وہ ٹوٹ ٹوٹ کر ٹوٹ ہی رہی ہے۔ ...

ایم کیو ایم اور مائنس پلس کا کھیل؟؟

فاروق ستار کی دوستانہ بغاوت۔۔۔؟ الیاس شاکر - جمعه 26 اگست 2016

کراچی میں دو دن میں اتنی بڑی تبدیلیاں آگئیں کہ پوراشہر ہی نہیں بلکہ ملک بھی کنفیوژن کا شکار ہوگیا۔ پاکستان کے خلاف نعرے لگے، میڈیا ہاؤسز پر حملے ہوئے، مار دھاڑ کے مناظر دیکھے گئے، جلاؤ گھیراؤنظر آیا اور بالآخر ایم کیو ایم کے اندر ایک بغاوت شروع ہوگئی۔ فاروق ستار نے بغیر کسی مزاحم...

فاروق ستار کی دوستانہ بغاوت۔۔۔؟

وزیر اعظم صاحب !!کراچی کا کیا قصورہے؟؟ الیاس شاکر - بدھ 24 اگست 2016

وزیراعظم صاحب نے ایک بار پھر یاد دلادیا کہ کراچی لاوارث یتیم لاچاراوربے بس شہر ہے...کراچی کے مختصر ترین دورے کے دوران نواز شریف صاحب نے نہ ایدھی ہاؤس جانے کی زحمت گوارا کی نہ امجد صابری کے لواحقین کودلاسہ دیا۔ جس لٹل ماسٹر حنیف محمد کو پوری دنیا نے سراہا ،نواز شریف ان کے گھر بھی ...

وزیر اعظم صاحب !!کراچی کا کیا قصورہے؟؟

کراچی کی بارش اور سندھ حکومت الیاس شاکر - جمعه 12 اگست 2016

ماضی کا ایک مشہور لطیفہ ہے۔ ایک افغان اور پاکستانی بحث کر رہے تھے۔ پاکستانی نے افغان شہری سے کہا: ’’تم لوگوں ‘‘کے پاس ٹرین نہیں تو ریلوے کی وزارت کیوں رکھی ہوئی ہے؟ افغان نے جواب دیا: ''تم لوگوں کے پاس بھی تو تعلیم نہیں پھر تمہارے ملک میں اس کی وزارت کا کیا کام ہے۔ کراچی اور ح...

کراچی کی بارش اور سندھ حکومت

سندھ تقسیم ہوگیا۔۔۔!! الیاس شاکر - پیر 08 اگست 2016

نئے وزیر اعلیٰ مرادعلی شاہ کے تقرر سے سندھ عملی طور پردو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔۔۔۔۔سندھ میں ’’خالص سندھی حکومت‘‘قائم ہوچکی ہے۔۔۔۔۔پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء کے لسانی فسادات کے بعد یہ تسلیم کیا تھا کہ سندھ دو لسانی صوبہ ہے اور سندھ میں آئندہ اقتدار کی تقسیم ا...

سندھ تقسیم ہوگیا۔۔۔!!

نئے وزیراعلیٰ کی ضرورت کیوں؟ الیاس شاکر - پیر 01 اگست 2016

سندھ حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ وزیرداخلہ کو فارغ کردو، اس پر فلاں فلاں الزام ہے۔ الزامات کا تذکرہ اخبارات میں بھی ہوا۔ لاڑکانہ میں رینجرز نے وزیر داخلہ کے گھر کے باہر ناکے بھی لگائے، ان کے فرنٹ مین کو قابو بھی کیاگیا، لیکن رینجرزکی کم نفری کا فائدہ اٹھاکر، عوام کی مدد سے، سندھ...

نئے وزیراعلیٰ کی ضرورت کیوں؟

رینجرز کے اختیارات اور شرائط الیاس شاکر - جمعرات 28 جولائی 2016

پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے خورشید شاہ نے ایک عجیب و غریب اور ناقابل یقین بیان دیا کہ سندھ میں امن پولیس نے قائم کیا ہے اور باقی کسی ادارے کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ رینجرز کو اختیارات ضرور دیں گے مگر قانون اور قواعد کی پابندی کرتے ہوئے، انہوں نے رینجرز ...

رینجرز کے اختیارات اور شرائط

کراچی آپریشن اوراسلام آباد کی حکمت عملی!! الیاس شاکر - پیر 18 جولائی 2016

عید گزر گئی ۔۔۔۔۔کہا جارہا تھا کہ ’’کراچی آپریشن‘‘کی رفتار ’’بلٹ ٹرین‘‘کی طرح تیز ہوجائے گی ۔۔۔۔۔دہشت گردوں کا گھر تک پیچھا کرکے انہیں نیست و نابود کردیا جائے گا لیکن ایسا ’’گرجدارآپریشن ‘‘فی الحال ہوتا نظر نہیں آرہا۔۔۔۔۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ وفاق میں ’’سیاسی آپریشن‘‘ہوگا۔۔۔۔۔ ا...

کراچی آپریشن اوراسلام آباد کی حکمت عملی!!

غریبوں کا جرنیل....ایدھی!! الیاس شاکر - بدھ 13 جولائی 2016

عبدالستارایدھی کی وفات نے کراچی میں خوف کی فضا طاری کردی ۔ غم کے بادل چھا گئے ہیں ۔پورا شہر ہکا بکا ہے کہ اس شخص کا سوگ کیسے منائیں جو اپنا نہیں تھا لیکن اپنوں سے بڑھ کر تھا ۔ اس کی موجودگی سے ایک آسرا تھا، ایک امید بندھی ہوئی تھی۔عبدالستار ایدھی ایک شخص کا نام نہیں، کراچی میں اس...

غریبوں کا جرنیل....ایدھی!!

تھوڑی بارش‘ تباہی زیادہ… یہ ہے کراچی!! الیاس شاکر - هفته 02 جولائی 2016

کراچی میں دو دن بارش کیا ہوئی‘ سندھ حکومت کی کارکردگی ’’دھل‘‘ کر سامنے آگئی۔ برسوں سے بارش کو ترسے کراچی والے خوش تھے کہ بارش ہو گئی... شہر چمک جائے گا... آئینہ بن جائے گا‘ لیکن افسوس صد افسوس! عوام کے ارمان خاک میں مل گئے۔ بارش میں نہانے کے خواب... سیر و تفریح کے منصوبے... شاپنگ...

تھوڑی بارش‘ تباہی زیادہ… یہ ہے کراچی!!

وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے بھی اپنے خطاب میں شکریہ راحیل شریف کہہ دیا! وجود - اتوار 26 جون 2016

وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ بولیں اور زبان وبیان ، محاوروں اور اردو اشعار کے ساتھ اپنی عمر کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کھلوار نہ کریں ، ایسا کبھی ہو نہیں سکتا۔ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے 25 جون کو سندھ اسمبلی سے خطاب کر تے ہوئے اپنی زبان کی پھسلن کا ریکارڈ برقرار رکھتے ہوئے حزب اخ...

وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے  بھی اپنے خطاب میں شکریہ راحیل شریف کہہ دیا!

معروف قوال امجد صابری سپرد خاک،نماز جنازہ میں ہزاروں افراد کی شرکت وجود - جمعه 24 جون 2016

دہشت گردوں کے حملے میں جاں بحق ہونے والے معروف قوال امجد صابری کو سپرد خاک کردیا گیا۔صابری گھرانے سے تعلق رکھنے والے غلام فرید صابری کے صاحبزادے اور معروف قوال امجد صابری کو 22جون کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی ہلا...

معروف قوال امجد صابری سپرد خاک،نماز جنازہ میں  ہزاروں افراد کی شرکت

مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر