وجود

... loading ...

وجود
وجود

سندھ میں اقتدار واختیار کی کشمکش

منگل 14 جون 2016 سندھ میں اقتدار واختیار کی کشمکش

sindh-assembly

اگست1988ء میں صدر جنرل ضیاء الحق کی حادثاتی موت کے بعد عنانِ اقتدار آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کے ہاتھ میں تھی‘ پاک فوج کے دوسرے سینئر ترین افسر جنرل شمیم عالم خان‘ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حلیم احمد اور چیف الیکشن کمشنر جناب جسٹس نصرت حسین تھے۔ اتفاق سے ان چاروں کا تعلق اردو برادری سے تھا‘ کراچی کی انتہائی کشیدہ صورتحال میں پرامن عام انتخابات منعقد ہوئے‘ کراچی‘ حیدرآباد اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں میں ایم کیوایم بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ مرکزی اقتدار پاکستان پیپلزپارٹی کو ملا جس میں ایم کیوایم نے نہایت اہم اور سرگرم کردار ادا کیا۔ انتخابات کے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انعقاد کا سہرا جنرل اسلم بیگ کے سر بندھا اور وزیراعظم بینظیر بھٹو نے انہیں ’’تمغہ جمہوریت‘‘ عطا کیا۔ لیکن آج صورتحال بدل چکی ہے‘ اب سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ایم کیوایم کے میئر اورچیئرمین کو بلدیاتی اختیارات بھی دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ میئر اور چیئرمین کا الیکشن29جون کو ہورہا ہے۔ یہ تاریخ بھی الیکشن کمیشن نے دی ہے لیکن اس سے قبل صوبائی حکومت نے کراچی کے بلدیاتی منصوبوں کیلئے ایک عدد ’’پراجیکٹس ڈائریکٹوریٹ‘‘ قائم کردیا ہے۔ تمام مالیاتی اختیارات اور منصوبہ بندی اس ڈائریکٹوریٹ کو دے دی گئی ہے جو صوبائی محکمہ بلدیات کے تحت کام کرے گا۔ میئر کا کام صرف منصوبوں کی انسپیکشن ہوگا۔ مالیاتی امور سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ اس ڈائریکٹوریٹ کی سربراہی ممکنہ طور پر نیاز سومرو کو سونپی جارہی ہے جن کا تعلق اندرون سندھ سے ہے۔ کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے مالیاتی امور اب وہ دیکھیں گے۔

قیادت کی سطح پر ایم کیوایم تین حصوں میں منقسم ہے۔ تازہ ترین تخلیق سابق میئر کراچی مصطفےٰ کمال کی سربراہی میں پاک سرزمین پارٹی ہے۔ جس نے انیس احمد قائمخانی اور انیس احمد خان ایڈوکیٹ کی قیادت میں اندرون سندھ بھی پر پھیلادیئے ہیں۔ کراچی کے علاوہ حیدرآباد اورمیرپورخاص میں بڑے سیکریٹریٹ قائم کئے گئے ہیں۔ ایک خاص علاقے میں مہاجر قومی موومنٹ کے آفاق احمد بھی مصروف عمل ہیں۔ فیصلہ اگلے انتخابات میں شہری علاقوں کے ووٹر کریں گے کہ وہ اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالتے ہیں۔ البتہ سندھ کے شہری علاقوں میں یہ خیال ضرور تیزی سے پرورش پارہا ہے کہ انہیں دیوار سے لگایا جارہا ہے اور حکومتی امور میں ان کی کوئی شمولیت نہیں ہے۔23 اگست1955ء کو آئین ساز اسمبلی میں مغربی پاکستان کے 12یونٹوں کو ملاکر ’’ون یونٹ‘‘ کا بل پیش ہوا تو اس کے مخالفین میں سابق وزیراعلی پختونخواہ سردار عبدالرشید ‘ عبدالغفار خان‘ شیخ عبدالمجید سندھی اور جی ایم سید وغیرہ شامل تھے۔30 ستمبر کو بل منظور ہوا اور14اکتوبر کو ون یونٹ قائم ہوگیا تھا اس کے مخالفین کا کہنا تھا کہ اس سے چھوٹے صوبوں کا تشخص ختم ہوجائے گا۔ کم وبیش ایسی ہی صورتحال اب درپیش ہے۔ سندھ حکومت کی کارروائیوں سے شہری علاقوں کا تشخص ختم ہوگیا ہے۔ ون یونٹ سے قبل سندھ کے علاقے خیرپور کو ریاست کا درجہ حاصل تھا۔ اس کی اپنی اسمبلی تھی جس کے ارکان کی تعداد 30 تھی‘ ممتاز حسین قز لباش خیرپور کے وزیراعلیٰ تھے جو آئی سی ایس افسر تھے اور انہیں ان کی قابلیت پر تالپور حکمران نے وزیراعلیٰ مقرر کیا تھا۔ موجودہ ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا کے نانا خیرپور اسمبلی کے رکن تھے۔ سید قائم علی شاہ بھی خیرپور ریاست کے باشندے ہیں ،جو اب پورے سندھ کے وزیراعلیٰ ہیں۔ اس دور میں کراچی وفاقی علاقہ شمار ہوتا تھا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے جولائی1948ء میں ایک حکم جاری کرکے اسے وفاقی علاقہ قرار دیا تھا۔ لسبیلہ اور ٹھٹھہ بھی اس میں شامل تھے۔ تمام اختیارات چیف کمشنر کے پاس ہوتے تھے۔ جغرافیائی طور پر سندھ تین حصوں میں منقسم تھا۔ جن میں وفاقی علاقہ کراچی‘ ریاست خیرپور اور باقی صوبہ سندھ شامل تھے۔ جب ون یونٹ بنا تو مغربی پاکستان کے تمام یونٹوں کو اس میں شامل کردیاگیا تھا۔1969ء میں ون یونٹ ختم ہوا تو کراچی اور خیرپور کو بھی سندھ میں شامل کرکے ایک صوبہ بنادیاگیا۔ انتظامی تقسیم یا کئی یونٹوں کو ملانے سے علاقے کے جغرافیہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ آج یورپ25ملکوں میں تقسیم ہے لیکن وہ یورپ ہی کہلاتا ہے اور وہاں ایک سکہ یورو چلتا ہے۔ پاکستان اور بھارت قومیتوں کے قید خانے ہیں۔ یہاں سیکڑوں قومیتیں آباد ہیں۔ بھارت نے کثیر صوبے بناکر بھارت کی یکجہتی کو برقرار رکھا ہے۔ بھارتی پنجاب تین حصوں میں تقسیم نہ ہوتا تو ممکن ہے کہ خالصتان تحریک کامیاب ہوجاتی اور مشرقی پنجاب کے سارے سکھ مل کر اپنا الگ خطہ حاصل کرلیتے۔ بالخصوص 1984ء میں سکھوں کے مقدس گوردوارہ کے انہدام اور وزیراعظم اندراگاندھی کے قتل سے جو صورتحال جنم پذیر ہوئی تھی اس میں بھارتی پنجاب کا بھارت میں شامل رہنا مشکل تھا۔ علیحدگی کی تحریک ہمیشہ حقوق سے محرومیوں کے بطن سے پیدا ہوتی ہے۔ وفاق میں قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ پیپلزپارٹی کے پاس ہے لیکن وہ یہی حق متحدہ قومی موومنٹ کو دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین سلیم رضا جلبانی ہیں جن کا تعلق اندرون سندھ اور پیپلزپارٹی سے ہے جبکہ اصولی طور پر یہ عہدہ اپوزیشن جماعت کے پاس ہوتا ہے۔ سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی سادہ اکثریت ہے جس کی بنیاد پر وہ من پسند قانون سازی کررہی ہے اور اپوزیشن جماعتیں کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ موجودہ صورتحال سنجیدہ غوروخوض کی متقاضی ہے۔ اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے تو یہ بات غیر سنجیدہ انداز میں کہہ دی ہے کہ ’’پنجابی‘ پٹھان اور بلوچ علیحدگی نہیں چاہتے اور علیحدگی کی بات کرنے والے مینٹل ہیں‘‘ لیکن انہیں یہ حقیقت ضرور مدنظر رکھنی چاہئے کہ 1947ء سے قبل کانگریسی سیاستدانوں کے اسی طرز عمل اور گفتگو نے برصغیر کو تقسیم کرادیا تھا۔ سندھ کے حکومتی اور بلدیاتی امور میں شہری علاقوں کی شمولیت وقت کا تقاضا ہے۔ صوبائی حکومت جن علاقوں سے ٹیکس وصول کرتی ہے اور سب سے زیادہ ٹیکس شہری علاقے ہی دیتے ہیں‘ ان علاقوں کو اقتدار اور منصوبہ سازی میں نظر انداز کرنے سے مسائل جنم لیں گے۔ کوشش یہ کی جائے کہ ایسی نوبت ہی نہ آئے۔ سندھ کی یکجہتی کو آج بھی بچایا جاسکتا ہے۔


متعلقہ خبریں


سندھ تقسیم کے دہانے پر مختار عاقل - منگل 07 جون 2016

متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف ’’را‘‘ کا پروپیگنڈہ بھی رائیگاں گیا۔ آپریشن توگزشتہ ایک سال سے جاری ہے۔ ہزاروں کارکن ’’اِدھر اُدھر ‘‘ ہیں۔ سینکڑوں جیلوں میں بند ہیں۔ پھر بھی کراچی کے دو صوبائی حلقوں سے ایم کیوایم کے دو امیدوار محفوظ یار خان اور قمر عباس کی کامیابی حیران کن ہے۔ محفوظ یا...

سندھ تقسیم کے دہانے پر

اعتماد کابحران مختار عاقل - منگل 31 مئی 2016

خاموشی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے‘ نقارخانے کے شور میں ’’آف شور‘‘ کا شور شامل تھا تو کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ وزیراعظم میاں نوازشریف اس زور کے شور سے تنگ آکر لندن چلے گئے۔ ڈاکٹروں نے ان کی ’’اوپن ہارٹ سرجری‘‘ تجویز کی ہے۔ ان کی حریف پارٹی کے سرکردہ رہنما شاہ محمودقریشی ...

اعتماد کابحران

مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر