... loading ...
پچھلے دنوں ملا منصور اختر کی ہلاکت سے پہلے الجزیرہ چینل پر ایک بے حد دل چسپ مذاکرہ ہوا۔ عنوان تھاPakistan-US relationship: A double game?
میزبان تو وہ گفتار میں شر اور نرت کے ماہر مہدی حسن تھے ۔ مکالمے کے اس صحرائے بدگمانی ٔ خیال کے ایک کنارے پر پاکستانی انٹیلی جنس کے قطب الاقطاب، ہمارے جنرل اسد درانی تو دوسری جانب امریکی محکمہ دفاع کے کردار کے غازی اور کچھ پراسرار بندےMichael Flynn جو صدر اوباما کے دور ہی میں جنرل درانی کے سابقہ اداروں سے ملتے جلتے ادارے ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کے نہ صرف ڈائریکٹر رہ چکے ہیں بلکہ انہوں نے طالبان کے خلاف افغانستان میں چند اسپیشل آپریشنز کی نگرانی بھی کی تھی۔ حال ہی میں ان کی کتابThe Field of Fight: How We Can Win the Global War Against Radical Islam and Its Allies,
بھی منظر عام پر آئی ہے ۔
بات اپنے جنرل اسد درانی صاحب کی ہورہی تھی۔لیکن اس سے پہلے ایک لطیفہ:
ایک دن لڑکی نے لڑکے سے پوچھا کہ تم میرا ساتھ کب تک نبھاؤگے؟
لڑکا یہ سوال سن کر رو دیا اور اپنے آنسو کا ایک قطرہ سمندر میں گرا کر کہنے لگا جب تک تم یہ قطرہ سمندر میں ڈھونڈ نہیں لیتیں۔لڑکے کا یہ جواب سن کر لڑکی توو فور مسرت سے پاگل ہوگئی مگر سمندر نے لڑکے سے کہا ’’اے پاکستانیوں تم نے اتنی فن کاری کس سے سیکھی ہے؟‘‘
ہم جنرل اسد درانی کے باب میں ( اس قدر سنجیدہ موضوع کہ اس کے مضمرات جانتے ہی ہمارے وزیر اعظم دل تھام کر کھلے دل والی سرجری کرانے برطانیہ پہنچ گئے) یہ لطیفہ سنا کر ماحول کو ہلکا پھلکا بنانا اس لیے بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمیں علم ہے کہ برطانوی ایم آئی پانچ اورچھ کے اکثر جاسوس اور سربراہان ماسوا اسٹیلا ریمنگٹن کے جو اُن کی پہلی خاتون سربراہ تھیں، سب ہی لطائف اور کثائف کے بے حد شوقین تھے بالخصوص کم فلبی،ایلیٹ، کرسٹین کیلر والا اسٹیفن وارڈ اوران کا زیر تربیت جاسوس شاعر اینگلٹن جس نے سی آئی اے کا کاؤنٹر انٹیلی جنس کا شعبہ ستمبر1947 میں قائم کیا۔اسی کی سفارش پر ہی جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر کم فلبی کی بطور افسر رابطہ واشنگٹن میں تعیناتی ہوئی تھی۔ان سب جاسوسوں کی حس مزاح بڑی جان لیوا تھی۔
جنرل اسد درانی اور ان کے باس جنرل حمید گل جب بات کرتے تھے توآپ اختلاف رائے کے باوجود انہیں سننے پر مجبور ہوجاتے تھے ۔اس کی برعکس صحافی رؤف کلاسرا سے دبئی لیکس پر شدید خائف ایک سابق ایئر مارشل اور دو عدد سابق جرنیل اور چھوٹے موٹے چینلوں پر’’ را ‘‘اور سی آئی اے کے دانت کھٹے کرتے ہوئے کچھ ریٹائرڈ سابقہ فوجی افسر اپنے عہدے کی سابقہ طاقت اور اپنے موجود ہ سحر رسائی کے زعم میں جب محوِ گفتار ہوتے ہیں تو دماغ کی شریانوں کے پھٹنے کا خطرہ ہمیشہ لاحق رہتا ہے۔
ہم اور دیگر افراد جنرل حمید گل اور جنرل اسد درانی کی کئی باتوں اور تجزیوں سے اتفاق نہیں کرتے ۔مگر ہمارا اتفاق نہ کرنا ان کے نقطۂ نظر کی اہمیت کو بالکل اس طرح کم نہیں کرتا جس طرح گفتار کے غازی مولانا کا ڈیڑھ کروڑ کی اپنے کپڑوں جیسی اجلی گاڑی اور اس کی پشت پر بیس محافظین کی دوو عدد بیش قیمت گاڑیوں سے اتر نا۔حضرت اس شان امارت کے باوجود جب یروشلم کی فتح یابی کا منظر نامہ بیان کرتے ہیں تو ان کی میاں چنوں کی کدکڑے لگاتی اردو میں وہ بہت ہی من موہنا لگتا ہے کہ ـ’’ یروشلم کا بڑا بشپ سفورنیئس کہہ رہا تھا کہ ہم قلعے کی چابیاں کسی مسلمان سپہ سالار کو نہیں بلکہ ایک ایسے بادشاہ کے حوالے کریں جس کا حلیہ اور بود و باش فقیروں کی سی سادہ ہو۔ چھ ماہ سے جاری محاصرے کو یوم فتح میں بدلنے کے لیے خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب ؓ ساڑھے سات سو میل دور کا سفر اس طرح کرتے آئے تھے کہ ایک کوس غلام اونٹ پر سواری کرتا تھا تو دوسرے کوس آپؓ،یروشلم میں داخل ہوئے تو برسات کی وجہ سے کیچڑ کے چھینٹے لباس سادہ کے کناروں پر نمایاں تھے۔ اﷲ اﷲ کیا شان سادگی اور بے نیازی تھی میرے امیر کی۔کاش اﷲ ہم سب کو ان کا سا ایمان ، اور سادگی عطا کرے۔ اوئے گارڈاں نوں آکھو گڈیاں تیار رکھن اسی ٹکر کتھے ہور کھاواں گے۔‘‘
دیکھیں بات امریکاپاکستان کے تعلقات۔ڈبل گیم کی تھی اور ہم کہاں سے کہاں نکل گئے۔سارا قصور کم بخت اس بیوروکریسی کا ہے، کسی بات کو سیدھے طریقے پر آمنا صدقنا انداز میں بیان ہی نہیں کرسکتی اس کا بنایا ہوا ہر قانون منفی انداز میں شروع ہوتا ہے کہ NOTWithstanding
مثلاً یہ مثال ’’فیملی کورٹ ایکٹ مجریہ 1964 کی رو سے فیملی کورٹ کو ضلعی عدالت کا درجہ حاصل ہوگا ۔ ہر چند کہ اس کااطلاق مندرجہ ذیل شقوں پر نہیں ہوگا‘‘ ایک زمانے میں بیوروکریسی کی اسی بے راہ روی کی مناسبت سے ہمارے دفتر کی میز پر لکھا ہوتا تھا کہ’’ اگر آپ کسی کو برباد کرنا چاہتے ہیں تو عورت اس کا سب سے حسین ذریعہ ہے، جوا تیز ترین اور بیورکریسی اس کا سب سے یقینی ذریعہ ہے‘‘
اس سے پہلے کہ قارئین اور جنرل اسد درانی اور آخر میں امریکہ بھی ہم سے ناراض ہوجائے ہم جلدی سے موضوع پر آجائیں۔ایسا کم ہی ہوتاا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان ایک دوسرے کی پالیسیوں کو یوں میڈیا کے سامنے آڑے ہاتھوں لیں مگر اس لحاظ یہ مکالمہ بہت اہم تھا کہ اس سے ماضی اور آئندہ کے طرز عمل کے خد و خال زیادہ واضح ہوجاتے ہیں۔ہمیں جہاں جنرل فلن کے رکھ رکھاؤ اور علاقے سے صرف آپریشنل واقفیت کی وجہ سے اپنی سوچ سے لگاؤ نے متاثر کیا وہیں جنرل درانی کی خود اعتمادی اور واضح سوچ اور پھیلاؤ نے بھی بطور پاکستانی مسلمان بہت ہی تقویت بخشی۔
مذاکرے کا یوں آغاز ہی مہد ی رضا حسن کی جانب سے بہت تہلکہ خیز تھا کہ امریکا میں سی آئی اے کے کچھ حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ’’ پاکستان میں اسامہ بن لادن کے بعد ان کے اسٹیشن چیف کو زہر دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ــ‘‘
جنرل فلن نے آغاز میں ہی پیشہ ورانہ احترام کے تحت یہ وضاحت کردی کہ وہ زہر خوانی کے الزامات سے ہٹ کر بات کریں گے۔ مہدی حسن صاحب نے گفتگو کا کھونٹا اس نقطے پر لا کر گاڑ دیا کہ دونوں ممالک کے درمیان افغانستان کے حوالے سے ایک ڈبل گیم، ایک بے اعتباری اور مختلف اور متضاد مقاصد کا تعاقب ہے۔جنرل فلن ان کے اس خیال سے متفق نظر آ ئے ا ور فرمانے لگے کہ دونوں ممالک کی خود غرضی اور مفاد پرستی اس خطے کے حوالے سے ایک دوسرے سے متصادم دکھائی دیتی ہے۔جواب میں جنرل اسد درانی نے کوئی معذرت خواہانہ انداز اپنانے کے بجائے انتہائی اعتماد سے کہا کہ ہاں آپ سے ہمارے مقاصد بالکل مختلف ہیں ۔ ایک زمانہ تھے جب آپ اور ہم سویت یونین کے خلاف برسر پیکار تھے تو یہ بالکل ایک دوسرے سے گندھے ہوئے تھے۔یہ وجہ تھی کہ ہمیں بطور پارٹنر وہاں بہت بڑی کامیابی ملی۔نائن الیون کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی ہے۔
مہدی رضا حسن نے اس موقع پر ایک اور بہت پرفریب جال بچھایا کہ ان کے یعنی جنرل درانی کے خیال میں امریکی مفادات کو اٖفغان طالبان کی جانب سے نشانہ بنانا ،کیا وہ اسے ایک قانونی جوازسمجھتے ہیں؟
جس پر ان کا جواب بے حد عمد ہ تھا کہ امریکی افواج کی وہاں موجودگی خطے میں بذات خود باعث تشویش ہے۔وہاں موجود کچھ مسلح گروپ اس کی عسکری مخالفت کرتے رہیں گے۔ہم افغانستان کے پڑوسی ہیں اور ہمارا ان کا ساتھ امریکی انخلا کے بعد بھی برسوں جاری رہے گا۔
میزبان مہدی محمد رضا نے اس پر ایک ایسا سوال کیا جو سراسر شر انگیزی پر مبنی تھا کہ آپ جنرل فلن افغانستان میں موجود رہے ہیں آپ کا کیا خیال ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں طالبان کے مختلف دھڑوں کی براہ راست معاونت کرتی ہیں؟جنرل فلن نے اس پر ایک ایسا راستہ اختیار کیا جو بہت ہی مہذب اور پیشہ ورانہ تھا ۔ وہ کہنے لگے نہ صرف افغانستان بلکہ دنیا میں ہر جگہ خفیہ ادارے اپنی پالیسی سے ہم آہنگ گروپوں کی حمایت کرتے ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ انتہا پسند اسلامی گروپ دنیا بھر میں زیکا وائرس کی طرح پھیل گئے ہیں پچھلے دس سال میں پاکستان میں بھی ان کی تعداد ڈبل ہوگئی ہے۔بالخصوص حقانی گروپ ، جن کی ہم نے کبھی بہت حمایت کی تھی۔
اس پر میزبان کی جانب سے سوال کیا گیا کہ جنرل فلن کے اس اعتراض کے جواب میں کہ حقانی اور دیگر طالبان گروپس کو پاکستان کی بڑی حمایت حاصل ہے ایسا کیوں ہے ؟جنرل درانی کا جواب بہت ہی متاثر کن اور سفارتی تقاضوں سے بھرپور تھا۔ وہ کہنے لگے کہ حقانی اور دیگر طالبان گروپ امریکی افواج کی موجودگی کو زبردستی کا قبضہ سمجھتے ہیں اس لیے افغانستان اور دیگر مسلمان ممالک انہیں مجاہدین برحق سمجھتے ہیں اور ان کی جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں ۔خود نیویارک ٹائمز کے سروے کی روشنی میں ایک تہائی افغانستان ان کی حمایت کرتا ہے ۔ انہیں ریڈیکل، انتہا پسند جنگجو کہنا لاحاصل ہے
یہاں اس میزبان کی جانب سے ایک اور فتنہ انگیز سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان کا ان جنگجوؤں کی حمایت کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ امریکی امداد کو وصول کرتے رہنا جائز ہے، کیا وہ ماضی میں دی گئی بڑی امدادی رقم امریکا کو لوٹائیں گے؟ پاکستان اپنا قومی تشخص کسی بھی مالی امداد کے عوض فروخت نہیں کرے گا ۔امریکانے یہ رقم ہمارے انفرا اسٹرکچر کو برباد کرنے کے معاوضے کے طور پر دی ۔ اسے اگر خطے میں ہمارا تعاون درکار ہے تو وہ ہماری مدد کرنے کا پابند ہے۔۔جنرل فلن کا اس پر اعتراض تھا کہ پاکستان کو فیصلہ کرنا ہوگا کیوں کہ ہمارے دفاعی تحفظات ان کے ڈبل گیم کی نذر ہورہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ انتہا پسند اسلام خطے سے نکل کر کہیں اور کا بھی رخ کرسکتا ہے۔
جنرل درانی نے اس پر جنرل فلن سے کہا وہ جس طرح کے پیشے ، کارروائیوں اور مفادات کے تحفظ میں مصروف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ایجنسیاں اور ممالک کبھی بھی سنگل گیم نہیں کھیلتیں۔ بہتر ہوگا کہ ہم مشترکہ خطرات کو ایک دفعہ پھر سے واضح کرلیں۔
میزبان نے اس موقع پر پاکستان میں دولت اسلامیہ کی موجودگی اور ٹی ٹی پی کا ذکر چھیڑ دیا۔ جنرل درانی نے اس پر اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اچھا ہوا کہ یہ موضوع آیا ۔ ہم سے یہ حماقت ہوئی جب ہم نے اپنے قبائلی علاقوں میں فوجی کارروائی کی ۔ یہ سب ہم نے امریکی دباؤ میں کیا اور اس کے نتائج ہمیں پاکستان میں بھگتنے پڑے۔جنرل فلن کو ان سے اس بات پر اتفاق نہ تھا۔ وہ جتانے لگے کہ امریکا کو اس کی بہت فکر ہے کہ پاکستان میں اس طرح کے گروپ سرگرم ہیں جو اس کے امن عامہ کی صورت حال کو اپنی مرضی سے برباد کرتے ہیں۔جنرل درانی نے کہا اس سے بڑھ کر ہمارے لیے باعث مسرت کوئی اور بات ہوہی نہیں سکتی کہ امریکاہمارے امن و امان کے بارے میں اتنا متفکر رہتا ہے لیکن اگر ہم حقانی جیسے گروپوں کو جو پاکستان میں ایک تنکا بھی نہیں توڑتے اگر فوجی کارروائی سے اپنا مخالف بنالیں گے تو جان لیں کہ وہ ہماری راتوں کی نیندیں اڑادیں گے۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...