وجود

... loading ...

وجود
وجود

دیوارِ گریہ کے آس پاس (۱)

جمعرات 28 اپریل 2016 دیوارِ گریہ کے آس پاس (۱)

IMG_2219

سرجن کاشف مصطفیٰ کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے۔ وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں۔ انگلستان سے اعلیٰ تعلیم کے بعد وہ اپنے گرو ڈاکٹر حسنات احمد کے مشورے پر جنوبی افریقا چلے گئے وہیں ملازمت اور سکونت اختیار کرکے ایسا نام کمایا کہ جنوبی افریقا کے مشہور عالَم لیڈر نیلسن منڈیلا کے بھی معالج رہے۔ سیر و سیاحت کے بے حد شوقین ہیں۔ دنیا کو کھلی نظر سے آدھے راستے میں آن کر کشادہ دلی سے گلے لگاتے ہیں۔ ہمارے دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر اپنا اسرائیل کا حالیہ سفر نامہ بطور ِ خاص “وجود” کے لیے لکھنے پر رضامند ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس کا ترجمہ اور تدوین کی ہے جو پیش خدمت ہے۔


جب بطور Cardiothoracic Surgeon دوسروں کا دل ٹھیک کرتے کرتے اپنا دل بے قرار ہونے لگتا ہے تو سفر پر نکل پڑتا ہوں۔ ایسی ہی ایک کیفیت کا شکار ہوکر میں نے اعلان کیا کہ میرا اگلا پڑاؤ اسرائیل میں ہوگا تو احباب کو اچھا نہ لگا۔ سب ہی جانتے تھے کہ وہ ایک ایسی سرزمین ہے جس کا جغرافیہ مختصر، تاریخ طویل اور فساد لامتناہی ہے۔ کسی نے اسے سونے کے ایک ایسے پیالے سے بھی تشبہیہ دی تھی جس میں بچھو کلبلا رہے ہوں۔ میں خود بھی سوچ رہا تھا کہ کیا مملکت ہے، ڈیڑھ ہزار سال ہونے کو آئے اس کا ماضی خون میں لتھڑا ہوا، ا حال تصادم میں الجھا ہوا اور جس کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ غالب نے کہا تھا کہ ع

رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور۔ ۔

میرا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا گو دل میں یہ خواہش یہ تھی کہ ایک رات مسجدالاقصیٰ میں عین اس مقام رفعت پر سجدہ ریز ہوں گا جہاں سے ہمارے نبی کریمﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ میں نے ملامتی عبادہ اوڑھا اور سب کو کہا کہ اب دل کا انڈیانا جونز (ہالی ووڈ کی فلموں کا مشہور کردار ) نہ مانے تو کیا کروں، یارو مجھے معاف کرو!

یروشلم کا قدیم شہر جس کے چار طرف پرانے پتھروں کی ایک دیوار نے گھیرا ڈال رکھا ہے۔ دنیا کے تین بڑے مذاہب کی جولان گاہ رہا ہے۔ ایک کویعنی یہودیت کو وہاں پناہ ملی دوسرے کو یعنی عیسائیت کو جنم اور اسلام وہاں فاتح بن کر آیا اور جس کے پیروکار مفتوح بن کر رہتے ہیں۔ بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ عقائد کا یہ ایک دوسرے سے الجھتا سنگم کیسا ہے کہ جس کی انسانی شعور پر حکمرانی ایسی ہے کہ سائنسدان، فلسفی اورملحد بے پناہ مخالفت و تنقید کے باوجود اس کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ اللہ نے اس نیم بنجر سرزمین پر کیا ایسا کرم کیا ہے کہ انبیاء کی ایک کثیر تعداد نے ہیبرون سے یروشلم کی اس تنگ سی پٹی کو مقام سکونت، دعوت اور رفعت بنایا۔ سوال کئی تھے اور جواب ایک ہی، لہذا سوچا کہ خود چل کر دیکھتے ہیں۔

کئی ماہ کی منصوبہ بندی، مطالعے اور تحقیق سے فرصت ملی تو اپریل کی ایک خوش گوار صبح خود کو ائیر بس میں براجمان پایا جو تل ایبب کی جانب رواں دواں تھی۔ امریکن کافی کے گھونٹ سے شعور جاگا تو احساس ہوا کہ مسافروں کی ایسی کڑی جانچ پڑتال کہیں اور نہیں ہوتی۔ ہر وہ مسافر جو اسرائیلی باشندہ نہ تھا، چبھتی ہوئی نظروں، کھنگالتے ہوئے سوالات اور احتیاط سے ٹٹولتے ہوئے ہاتھوں سے گزر کر ہی جہاز میں اپنی نشست تک پہنچ پایا تھا۔ جہاز میں نظر گھمائی توکوئی بھی ہم سفر ہم نوانہ تھا۔ ایتھوپیا کے یہودیوں کا ایک چھوٹا سا گروپ تھا۔ انہیں اصلی تے گورے یہودی اپنا ہم پلہ نہیں سمجھتے۔ نائیجیریا کے عیسائیوں کا ایک گروہ بھی اپنے خوش گفتار نوجوان پادری کی رہنمائی میں مقامات مقدسہ کی زیارت کے لیے جارہا تھا۔ جنوبی افریقاکے کچھ متمول یہودی خاندان بھی نشستوں پر براجمان تھے۔ جہاز کے ائیل میں سیر کے لیے کھڑا ہوا تو اپنے علاوہ کسی اور کو مسلمان نہ پایا۔ البتہ اپنے دوست کی اس بات کی تصدیق کے لیے کہ لیے کہ کیا اسرائیلی ہوائی کمپنی ایل عال ( آسمانوں کی جانب) میں ہمہ وقت ایک دو کمانڈو ہوتے ہیں۔ اپنا بدن سامنے رکھ کر ہر مردانہ بدن کا بغور جائزہ لیا۔ مایوسی ہوئی۔ نشست پر آن کر بیٹھا تو دل کے رخسار پر نہ سہی کاندھے پر ایک نرم سا ہاتھ اس دعوت کے ساتھ دکھائی دیا کہ ـyour halaal meal sir” ‘‘

کھانے کا ایک لقمہ یقین دلا گیا کہ بے حد بد ذائقہ کھانا ہے۔ دل نے سوچا کاش اس سفر میں اگر نواز شریف ساتھ ہوتے تو کم از کم کھانا تو اچھا مل جاتا، کالے تیتر کا قورمہ، نینی روغن جوش، گشتابہ، دہی بڑے، فجے کے پاوے، تبک ماز، زعفرانی کھیر، دہلی کے حلوائی کی رس ملائی۔ جب فضائی میزبان نے بددلی مگر خاموشی سے کھانے کی ٹرے ہٹائی تو ایتھوپیا کا یہودی ربی جو ہم نشست تھا گویا ہوا کہ ’’ کھانے کو برا سمجھنا اچھی بات نہیں‘‘۔ میں نے غور سے دیکھا تو ایسا لگا کہ فاقہ زدہ سرسید پڑوس میں بیٹھے ہم کلام ہوں۔ چہرے پر ایسی ڈاڑھی، لگے کہ منہ پر ڈاڑھی نہیں بلکہ ڈاڑھی پر منہ رکھ دیا گیا ہے۔ سیاہ کوٹ اور سیاہ ہیٹ پہنے ہوئے، گہری جائزہ لیتی ہوئی نگاہوں۔ مصافحے کے لیے تعارف کراتے ہوئے اپنا ہاتھ بڑھایا کہ ’’ میرانام شائم آمنون ہے‘‘۔ میری نگاہ اب اس کی آنکھوں کی بجائے بالوں کی اس لٹ پر تھی جو کانوں سے بہہ کر بل کھاتی ہوئی ایک بدنصیب ناگن کی طرح اس کے سینے پر پڑی تھی۔

’’اقصی جانے کا ارادہ ہے؟‘‘اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

’’نہیں یہاں کسی بزنس ٹرپ پر آیا ہوں‘‘مجھے بھی سچ بولنے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔ اسے جواب سن کر مایوسی ہوئی اور وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا۔

یکایک مجھے احساس ہوا کہ یہودی عالم عام طور پر غیر مسلموں سے گفتگو میں پہل نہیں کرتے۔ یہ ایک سنہری موقع ہے جو میں بے جا احتیاط کے چکر میں ضائع کررہا ہوں۔ میری ایک عمر ان یہودی افراد کے درمیان پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیتے ہوئے گزری تھی۔ میں نے بہت آہستگی سے منقطع سلسلہ پھر سے جوڑ دیا۔ ’’وہاں میری دلچسپی کی کیا شے ہوسکتی ہے؟ــ‘‘

’’کاروبار کے معاملے میں تو میں آپ کو مشورہ نہیں دے سکتا؟‘‘ مجھے لگا کہ اس نے میرا جھوٹ پکڑ لیا ہے۔ اس کے چہرے پر ایک روحانی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اسرائیل ایک مقدس سرزمین ہے، آپ کا عقیدہ کچھ بھی ہو، آپ یہاں سے خالی ہاتھ نہیں لوٹتے۔ ‘‘

’’اس کا ادراک مجھے ائیرپورٹ پر ان کے رویے سے ہوگیا تھا۔ ہر طرف خفیہ کارندے۔ ‘‘ میں نے بھی ایک محدود پیمانے کی جنگ چھیڑ دی۔

’’ آپ کا شکوہ صیہونیت سے ہے، اسرائیل سے نہیں۔ اگر ایک طاقتور گروپ مذہب اور کا سسٹم کا اجارہ دار بن جائے تومعاشرہ کمزور اور زوال پذیر ہوجاتا ہے اور اس سسٹم کی بربادی شروع ہوجاتی ہے۔ یہودیت اور صیہونیت دو علیحدہ نظام ہیں۔ ہم کبھی بھیSiamese twins(ایک سر دو دھڑ والے جڑواں بچے) نہیں رہے جیسا کہ دنیا کو باور کرایا جاتا ہے۔ ‘‘ اس کا جواب سن کر مجھے اپنی سماعت پر شک سا ہونے لگا۔

’’پھرصیہونیت کیا ہے؟ ‘‘میں نے سوچا کہ آج اس کی ہم سفری کا لابھ لوں!

صیہون یا Sion کا مطلب سورج کے پجاری ہوتا ہے۔ یہ حضرت یوسف والے علاقے کنعان کا ایک قدیم فرقہ تھا جو ہر حال میں اقتدار پر قابض رہنا چاہتا تھا۔ وہ اپنی وضاحت میں معذرت سے عاری تھا۔

’’ہم غیر یہودی تو دونوں کو ایک سمجھتے ہیں‘‘۔ میں بھی مصر ہی رہا!

’’بہت جلد تم دیکھو گے کہ ہم یہ ناخوشگوار بوجھ اپنے وجود سے اُتار پھینکیں گے۔ ساری دنیا کے یہودی بتدریج اس کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ اس نے اپنا پتلا ہاتھ پھیلا دیا۔ پانچ انگلیاں مختلف سائز، مختلف کام مگر ایک ہاتھ۔ ایک وجود۔ اس کی ہم یہودیوں کے ہاں بڑی اہمیت ہے، اسے ہم خمسہ کہتے ہیں‘‘۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا مگر اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ پوچھتا، وہ اٹھ کر اپنے گروپ کو ہدایات دینے چلا گیا۔

مجھے بھی نیند نے آن لیا۔ آنکھ کھلی تو شائم امنون ساتھ ہی بیٹھا تھا، خاموش اور بہت جدا جدا۔ اسی دوران میں اسپیکر پر اعلان ہوا کہ ہم اسرائیل کی فضائی حدود میں داخل ہوگئے ہیں۔ جہاز میں اس اعلان کے ساتھ دعاؤں کا ایک غلغلہ بلند ہوا، یہودی ربی اٹھے اور جھک جھک کر تعظیم پیش کرنے لگے، مالدار فربہ اندام یہودی خواتین جن کا جنوبی افریقا سے تعلق تھا اور جو اپنی ملازماؤں کے ساتھ اسرائیل جارہی تھیں، سسکیاں لے لے کر رونے لگیں۔ مجھے مسجد تنیم اور میقات یاد آگئے۔ اگلے ہی لمحے ہم بن گوریاں ائیرپورٹ پر اترگئے(بن گوریاں اسرائیل کے پہلے صدر تھے، انہیں صدر فضل الہی چوہدری اور رفیق تارڑبننے کا موقع اس لیے ملا کہ عظیم یہودی سائنسداں آئن سٹائن نے اس عہدے کو قبول کرنا اپنی علمی مصروفیات کی راہ میں رکاوٹ جانا تھا اور انکاری ہوئے تھے۔ )

ben gorian airport

میرے جنوبی افریقا والے پاسپورٹ کے لیے اسرائیل کا ویزہ لازم نہیں مگر مجھے لگا کہ پاک وطن کی وجہ سے تنگ کریں گے۔ ۔ مجھ سے آگے لائن میں کھڑے تین گوروں کا داخلہ وہ سر کی ایک جنبش سے منسوخ نہ کرتی تو خاتون امیگریشن افسر کی حلاوت اور انداز آپ کو کسی فروٹ پنچ کی یاد دلاتا تھا۔ مشرق و مغرب میں ایسا لگتا تھا اس کے نسوانی سراپے کو دوسری نسل نے دل سے قبول کرلیا تھا۔ گو انگریزی پر فرنچ زبان کی گلابی خواب آویز دھند چھائی ہوئی تھی۔

میری باری آنے پر اس کی ابرو نے ایک خوش گوار کمان کا روپ دھارا ( یہ بدنی زبان میں اظہار قبولیت کی علامت ہے۔ جو لوگ آپ کو ناپسند کرتے ہیں وہ آنکھیں سکیڑ لیتے ہیں) سوال کرتے ہوئے ایسے ہی ہم آہنگ کمان اس کے ہونٹوں نے بھی بنائی۔

’’جائے پیدائش‘‘ ؟’’پاکستان‘‘ میں نے بھی نعرہ تکبیر کی طرح خود اعتمادی کا ثبوت دیتے ہوئے سارے اسرائیل کو بتا دیا۔ بلند لہجے پر وہ مسکرائی۔ منہ میں قلم اور کمپیوٹر پر بٹن دبایا۔ ایک کارڈ نکل کر آیا جس پر میری تصویر، پاسپورٹ نمبر اورقیام کی مدت درج تھیں۔ ایک ادا سے مجھے جب وہ کارڈ اس نے پاسپورٹ سمیت لوٹایا تو کہنے لگی:

“Welcome to Israel Sirجو مجھے پنجابی میں’’ صد بسم اللہ آیا نوں‘‘ ہی لگا!
(جاری ہے)


متعلقہ خبریں


عمان کا اپنی فضاء اسرائیلی طیاروں کے لیے کھولنے سے انکار وجود - هفته 22 اکتوبر 2022

سلطنت عمان نے اسرائیلی سویلین طیاروں کو دنیا کے مشرقی حصے تک پہنچنے کے لیے اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔عبرانی اخبار نے اسرائیلی سول ایوی ایشن کمپنی کے اگلے دو ماہ میں ہندوستان کے لیے اپنی پروازیں منسوخ کرنے کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے۔ اس کی وجہ سلطنت ع...

عمان کا اپنی فضاء اسرائیلی طیاروں کے لیے کھولنے سے انکار

اسرائیل یہودی اکثریت قائم کرنے کیلیے فلسطینیوں کو نشانہ بنارہا ہے، ایمنسٹی وجود - بدھ 02 فروری 2022

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ فلسطینیوں کو نسلی امتیاز کا نشانہ بنانے پر اسرائیل کو جوابدہ ہونا چاہیئے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فلسطین کی صورت حال پر ایک 35 صفحات پر مشتمل رپورٹ شائع کی جس میں اسرائیل کے وحشیانہ جبر اور غیر قان...

اسرائیل یہودی اکثریت قائم کرنے کیلیے فلسطینیوں کو نشانہ بنارہا ہے، ایمنسٹی

اداکارہ ایما واٹسن کی فلسطینیوں سے حمایت پر اسرائیلی حکام آگ بگولا وجود - بدھ 05 جنوری 2022

برطانوی اداکارہ ایما واٹسن نے فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کی جس پر اسرائیلی حکام اور حمایت یافتہ افراد آگ بگولا ہوگئے۔برطانوی اداکارہ نے ایک روز قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ اور فوٹو ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم انسٹاگرام پر فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ایک تصویر پوسٹ کی جو گزشتہ...

اداکارہ ایما واٹسن کی فلسطینیوں سے حمایت پر اسرائیلی حکام آگ بگولا

اسرائیل میں صلیبی جنگوں کے دور کی قدیم تلوار دریافت کرلی گئی وجود - جمعه 22 اکتوبر 2021

اسرائیل میں ماہرین آثار قدیمہ نے 900 سال پرانی صلیبی جنگوں کے دور کی ایک بڑی تلوار دریافت کی ہے۔غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق آثار قدیمہ محکمے کے ایک افسر نے بتایا کہ کو چند روز قبل ایک شخص کو تیراکی کرتے ہوئے تلوار ملی ہے۔ انہوں بتایا کہ ایک شوقیہ غوطہ خور کچھ دن پہلے اسرائیلی ب...

اسرائیل میں صلیبی جنگوں کے دور کی قدیم تلوار دریافت کرلی گئی

اسرائیل کا ثقافتی بائیکاٹ، آئرش مصنف نے اپنی کتاب کا عبرانی ترجمہ روک دیا وجود - بدھ 13 اکتوبر 2021

آئرش مصنفہ سیلی رونی کی پہلی دو کتابوں کے عبرانی پبلشر مودان پبلشنگ کے ترجمے کے بعد کہا ہے کہ مصنفہ نے اپنی نئی کتاب کے عبرانی میں ترجمے سے روک دیا ہے۔ اس کی وجہ آئرلینڈ کی مصنفہ کی طرف سے اسرائیل کا ثقافتی بائیکاٹ ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق آئرش مصنفہ کی نئی کتاب خوبصورت دنیا ، آپ ...

اسرائیل کا ثقافتی بائیکاٹ، آئرش مصنف نے اپنی کتاب کا عبرانی ترجمہ روک دیا

اسرائیل کا القدس میں ترکی کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کا منصوبہ وجود - جمعرات 10 اکتوبر 2019

اسرائیلی وزارت خارجہ نے وزیر خارجہ یسرایل کاٹز کے ایما پر''مقبوضہ بیت المقدس''میں ترک حکومت کی سرگرمیوں اور ترکی کے تعاون سے چلنے والے منصوبوں پر پابندی لگانے کا منصوبہ تیار کر لیا۔اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں ترکی کی سماجی اور ترقیاتی سرگر...

اسرائیل کا القدس میں ترکی کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کا منصوبہ

اسرائیل کی تباہی قابل حصول ہدف ہے، سربراہ ایرانی پاسداران انقلاب وجود - منگل 01 اکتوبر 2019

ایران کے پاسداران انقلاب کے کمانڈر انچیف میجر جنرل حسین سلامی نے اسرائیل کو غیرقانونی ریاست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ روایتی حریف کی تباہی قابل حصول ہدف بن گیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق میجرجنرل حسین سلامی نے کہا کہ یہ ناجائز ریاست کو نقشے سے ضرور ختم کردیا جائے گا اور یہ دور نہیں، ...

اسرائیل کی تباہی قابل حصول ہدف ہے، سربراہ ایرانی پاسداران انقلاب

اسرائیل نے فلسطینیوں کے 2ہزار مکانات مسمار کیے ،جمال الخضری وجود - جمعرات 26 ستمبر 2019

غزہ میں اسرائیل نے 2014 کے بعد فلسطینیوں کے 2ہزار مکانات مسمار کر دیئے ۔فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی ریاست کی طرف سے مسلط کردہ محاصرے کے خلاف سرگرم کمیٹی کے سربراہ جمال الخضری غزہ میں ایک پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج نے 2014 کے بعد مختلف کارروائیو...

اسرائیل نے فلسطینیوں کے 2ہزار مکانات مسمار کیے ،جمال الخضری

انڈر ٹیکر کاشف مصطفیٰ - پیر 19 ستمبر 2016

جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...

انڈر ٹیکر

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط کاشف مصطفیٰ - پیر 12 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32 کاشف مصطفیٰ - بدھ 07 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31 کاشف مصطفیٰ - جمعه 02 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31

مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر