وجود

... loading ...

وجود
وجود

اشرف غنی کی حکومت طالبان کے سامنے بے بس

اتوار 03 جنوری 2016 اشرف غنی کی حکومت طالبان کے سامنے بے بس

ashraf-ghani

افغانستان میں داعش کے اثر و رسوخ کے تدارک کے حوالے سے روسی صدر ولاد میر پیوٹن کی امارت اسلامیہ افغانستان کے امیر ملا اختر منصور سے براہ راست ملاقات محض کسی کے منہ سے نکلی ہوئی بات لگتی ہے ،لیکن اسے قطعی رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔عالمی ذرائع ابلاغ بھی اس بابت گویا ہوئے ہیں۔ اور روس کے ایک خصوصی ایلچی’’ ضمیر کابلوف‘‘نامی شخص کی طرف سے بھی رابطے کی تصدیق ہوئی ہے۔البتہ امارت اسلامیہ نے تاجکستان میں ہونے والی اس ملاقات اور روسی حکام سے رابطوں کی تردید کر دی ہے۔ یہ ملاقات یارابطہ اگر ہو بھی تو اس میں کوئی قباحت نہیں،بلکہ بات چیت ہونی چاہئے۔

طالبان کہتے ہیں کہ افغانستان میں داعش کی موجودگی کا پروپیگنڈہ بڑھا چڑھا کر کیا جا رہا ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ افغانستان میں جہاں بھی داعش کے نام سے مسلح گروہ نے سر اُٹھایا ،ان کے خلاف طالبان نے قوت کا استعمال کیا ہے

روس کا طالبان قیادت سے روابط کا افشاء ہونا اس امر پردلالت کرتا ہے کہ روس طالبان کو افغانستان کے اندر فی الواقع ایک بڑی سیاسی و مزاحمتی قوت تسلیم کر تا ہے۔ پیش ازیں امریکا اور افغان حکومت امارت اسلامیہ کو حز ب اختلاف کہہ چکی ہے۔عالمی سیاست رُخ بدل چکی ہے ،روس پھر سے پاؤں پر کھڑا ہوگیا ہے۔ حالات اور سیاست کے اس بدلاؤ میں افغانستان کی اہمیت دو چند ہے، اور افغانستان میں طالبان ایک مسلمہ حقیقت ہیں۔جبکہ اس حقیقت کو جھٹلانا حماقت ہے۔امارت اسلامیہ افغانستان داعش کے بارے میں کسی تردّد میں مبتلا نہیں بلکہ انہیں اپنی قوت پر یقین ہے اور سمجھتے ہیں کہ انہیں افغان عوام کی حمایت حاصل ہے۔ طالبان قرار دے چکے ہیں کہ انہیں داعش کے خلاف کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔اس فتنہ کو مٹانے پر وہ نہ صرف قادر ہیں بلکہ کافی حد تک ان کی سرکوبی بھی کر دی گئی ہے۔ طالبان کہتے ہیں کہ افغانستان میں داعش کی موجودگی کا پروپیگنڈہ بڑھا چڑھا کر کیا جا رہا ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ افغانستان میں جہاں بھی داعش کے نام سے مسلح گروہ نے سر اُٹھایا ،ان کے خلاف طالبان نے قوت کا استعمال کیا ہے۔ اس گروہ میں طالبان سے منحرف ہونے والے افراد بھی شامل ہوئے ہیں،جنہوں نے لوگوں کو اپنا مطیع اور زیر دست بنانے کی خاطر عام افغانوں اور،علماء و معتبرین کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ ہزارہ قبائل کے افراد اور خواتین کا اغواء اور قتل جیسی وارداتیں بھی امارت اسلامیہ یعنی طالبان کو قبول نہ تھیں۔چنانچہ داعش سے منسلک ان افراد کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔ امارت اسلامیہ کا افغانستان کے اندر’’ مقاومت‘‘ غیر ملکی افواج کے انخلاء اور ایک خود مختار افغان حکومت کیلئے جاری ہے۔ طالبان کوئی بیرونی ایجنڈہ نہیں رکھتے۔ امارت اسلامیہ ہمسایہ ممالک اور روس کو بھی نقصان نہ پہنچانے کا یقین دلا چکی ہے۔ طالبان ہمسایہ اور خطے کے دیگر ممالک سے پر امن بقائے باہمی کی بنیاد پر روابط اور تعلقات کے خواہاں ہیں۔یہ بات طے شدہ ہے کہ کوئی بھی ملک اگر افغانستان پر اپنی مرضی کی حکومت اور نظام مسلط کرنے کی کوشش بزور طاقت کرے گا تو ان کے خلاف اسی شدت سے مزاحمت بھی ہو گی۔روس اس مداخلت کا مزہ چکھ چکا ہے۔ اپریل 1978ء کا انقلاب در اصل ایک فتنہ تھا جس نے ہنستے بستے افغانستان کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔روسی فوجی حکام اور دفاعی تجزیہ کار تسلیم کر چکے ہیں کہ افغان معاشرے کیلئے انقلابِ اپریل جیسی تبدیلی قبل از وقت تھی اور 1979ء میں سوویت افواج کو افغانستان بھیجنے کا فیصلہ اس سے بھی بڑی سیاسی و عسکری غلطی تھی۔افغانستان کھنڈرتو بن گیا مگر اس کا نقصان سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کی صورت میں سامنے آیا۔یہ اشتراکی فوجی یلغار افغانستان کے مذہبی ،سیاسی ،معاشی اور ثقافتی حالات کی یکسر ضد تھی۔روسی اعتراف کرتے ہیں کہ ایسے اقدامات اُٹھانے کی ضرورت تھی جو افغان عوام کے ذہنی معیار کے لئے قابل قبول ہوتے۔اگر ان انقلابی اقدامات کو عوام کی اکثریت کی حمایت ہوتی تو جنگ کی نوبت آتی اور نہ ہی وہاں سویت فوج بھیجنے کی ضرورت پیش آتی۔جبکہ اس کے برعکس افغانوں پر سوشلسٹ نظام نافذ کرنے کی کوشش کی گئی۔ایک روسی جنرل ’’محموت احمدووِچ گارییف ‘‘کہہ چکا ہے کہ یہ طویل تاریخی المیہ افغان عوام پر غیر مرئی نظام میں زندگی بزور قوت مسلط کرنے کی کوشش کا شاخسانہ تھا۔امریکی حملہ اور قبضہ تاریخ کا ایک اور سیاہ باب بن چکا ہے۔ امریکی دانشور و اہل علم قبضے اور جارحیت کی اس پالیسی کو درست تسلیم نہیں کرتے۔ روس اب اشتراکی نہیں رہا اس ملک کو افغان سیکولر اور اشتراکی لیڈروں کی وسعت و فکر ،سنجیدگی اور اخلاص کا بھی نا خوشگوار تجربہ ہو چکا ہے۔ افغان پولیس اور افواج روس کے دور میں بھی اخلاص،نظریاتی اور وطنی جذبہ سے عاری تھی۔ پیشہ وارانہ اہلیت حتیٰ کہ دفاعی مشینری استعمال کرنے کی بھی اہل نہ تھی۔آفیسرز عیش و عشرت میں مبتلا تھے اور عام سپاہی چوکیوں کے آلات و سامان چرانے سے گریز نہیں کرتے تھے۔خندقوں اور مورچوں میں استعمال ہونے والی لکڑی ایندھن کے طور پر جلا ڈالتے ،یعنی ملک کے دفاع سے پوری طرح غافل تھے۔روسی فوجی حکام اعتراف کرتے ہیں کہ افغان فوج سویت افواج کے شانہ بشانہ لڑنے میں ہمیشہ سرد مہری کا مظاہرہ کرتی تھی۔ ان کے مقابلے میں مجاہدین نہ صرف منظم تھے بلکہ خالص عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر لڑ رہے تھے ،افغان پولیس اور افواج کا آج بھی وہی عالم ہے۔

اشرف غنی کی حکومت بٹی ہوئی ہے ،فوج اور پولیس میں طالبان کے مقابلے کی سرے سے سکت اور اہلیت نہیں۔سنگین پر قبضہ طالبان کی قوت کا نمونہ ہے۔ اس نوعیت کی پیشرفت افغانستان کے طول و عرض میں دیکھی جا سکتی ہے۔ کوئی قومی فوج ہوتی تو برطانوی افواج کی مزید کمک ہلمند میں طلب نہ کی جاتی۔روس کے سابق صدر ’’میخائل گور باچوف‘‘ تک نے افغانستان میں مداخلت اور انقلاب کو غلط اقدام قرار دیا۔حیرت ہمارے سیاستدانوں اور دانشوروں کی عقلوں پرہے جو اب تک ’’ثور انقلاب‘‘ کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں۔ذہنی خباثت دیکھئے کہ آج بھی افغانستان کو آزاد اور جمہوری ملک کہنے کی گردان کرتے رہتے ہیں۔گویا ولادمیر پیوٹن تو طالبان کو سیاسی قوت ماننے کو تیار ہو گئے ہیں ،پر ہمارے ہاں لوگوں کے قلب و نگاہ کو لا حق ضمیر فروشی جیسی مہلک بیماری کا علاج آج بھی نہ ہو سکا۔اقوام عالم کو ڈرانے کے بجائے سیاسی اور جمہوری جدوجہد پر یقین رکھنے والی اسلامی تحریکات کے ساتھ تعاون اور روا داری پر مبنی تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت بڑی طاقتوں کیلئے بھی سود مند ثابت نہیں ہوئی ہے۔ افغانستان میں داعش کی بیخ کنی کی خاطرطالبان بلا جھجھک روس سے بات چیت کریں۔ کیونکہ داعش کا قوت میں آنا در اصل امارت اسلامیہ سمیت افغانوں کے رسم و رواج اور دینی عقائد کیلئے سنگین خطرہ ثابت ہوگا۔


متعلقہ خبریں


افغان طالبان اور امریکا کی ایک دوسرے کو یقین دہانیاں وجود - منگل 18 اکتوبر 2022

افغان طالبان نے امریکا کو یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ امریکی حکام نے بھی طالبان کو یقین دہانی کرائی کہ وہ افغانستان میں کسی عسکری گروہ کی مالی امداد نہیں کریں گے۔ افغان طالبان کے اعلیٰ سطح کے وفد نے دوحہ میں امریکی حکام س...

افغان طالبان اور امریکا کی ایک دوسرے کو یقین دہانیاں

تمام سرکاری دفاتر سے افغانستان کا جھنڈا اتارنے کا حکم وجود - پیر 21 مارچ 2022

افغان طالبان نے ملک بھر کے تمام سرکاری دفاتر پر امارات اسلامیہ افغانستان کا سفید رنگ کا پرچم لہرانے کا حکم جاری کردیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق سرکاری حکم نامے میں کہا گیا کہ افغانستان کے تین رنگوں والے پرچم کی جگہ امارات اسلامیہ افغانستان کا پرچم لہرایا جائے۔ یاد رہے کہ طالبان کے افغ...

تمام سرکاری دفاتر سے افغانستان کا جھنڈا اتارنے کا حکم

اقوام متحدہ نے سابق افغان صدر محمد اشرف غنی کا نام سربراہان مملکت کی فہرست سے نکال دیا وجود - بدھ 23 فروری 2022

اقوام متحدہ نے سابق افغان صدر محمداشرف غنی کا نام سربراہان مملکت کی فہرست سے نکال دیا ہے۔اقوام متحدہ کی آفیشل ویب سائٹ پر چند روز قبل 15 فروری کو نظرثانی شدہ اور ترمیم شدہ فہرست میں افغانستان کی خاتون اول کے طورپر سابق صدراشرف غنی کی اہلیہ رولا غنی(بی بی گل) کا نام بھی ہٹادیا گیا...

اقوام متحدہ نے سابق افغان صدر محمد اشرف غنی کا نام سربراہان مملکت کی فہرست سے نکال دیا

افغان طالبان کی پوسٹرز کے ذریعے خواتین کو پردہ کرنے کی ترغیب، شہریوں کے ملے جلے جذبات وجود - اتوار 09 جنوری 2022

افغان طالبان کی مذہبی پولیس نے دارالحکومت کابل میں پوسٹرز آویزاں کر دیے جس میں افغان خواتین کو پردہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ طالبان کی جانب سے خواتین سے متعلق عائد کی گئیں حالیہ متنازع پابندیوں میں سے ایک ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق پوسٹر، جس میں ایک چہرے کو برقع سے ڈ...

افغان طالبان کی پوسٹرز کے ذریعے خواتین کو پردہ کرنے کی ترغیب، شہریوں کے ملے جلے جذبات

بیلاروس کے صدر2021کے کرپٹ پرسن آف دی ایئر قرار وجود - بدھ 29 دسمبر 2021

آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ (او سی سی آر پی)نے سال 2021 کی کرپٹ ترین شخصیات کی فہرست جاری کردی۔غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق یورپی ملک بیلاروس کے صدر الیگزینڈر جی لوکاشینکو کو منظم مجرمانہ سرگرمیوں اور بدعنوانی کو آگے بڑھانے پر 2021کا کرپٹ پرسن آف دی ایئر قرار دیا گ...

بیلاروس کے صدر2021کے کرپٹ پرسن آف دی ایئر قرار

افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ وجود - هفته 18 دسمبر 2021

حکومت نے افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت افغانستان پر اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی، اجلاس میں افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع نے ب...

افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ

اشرف غنی کے کابل چھوڑنے سے قبل پاکستان سے فون کال آئی تھی، امریکی میگزین وجود - بدھ 15 دسمبر 2021

پاکستانی نمبر سے موصول ہونے والے ایک ٹیکسٹ میسج اور فون کال سے سابق مشیر قومی سلامتی حمد اللہ محب، سابق صدر اشرف غنی کے ساتھ اہلِ خانہ کے ہمراہ افغانستان چھوڑنے پر آمادہ ہوئے۔امریکی میگزین کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان جنگجوئوں کے کابل پر قبضے والے روز، 15 اگست کو تقریبا ایک...

اشرف غنی کے کابل چھوڑنے سے قبل پاکستان سے فون کال آئی تھی، امریکی میگزین

محکمہ خارجہ، دفاع افغانستان سے متعلق معلومات چھپا رہے ہیں، امریکی نگراں ادارہ وجود - اتوار 31 اکتوبر 2021

امریکی حکومت کے ایک نگران ادارے نے امریکی محکمہ خارجہ اور پینٹاگون پر الزام عائد کیا وہ افغانستان کی سابق حکومت اور فوج کے خاتمے اور امریکی فوجیوں کے ہنگامی انخلا سے متعلق معلومات فراہم کرنے سے گریزاں ہیں۔ برطانوی میڈیا رپورٹ کے مطابق محکمہ خارجہ اور پینٹاگون کی جانب سے فراہم کرد...

محکمہ خارجہ، دفاع افغانستان سے متعلق معلومات چھپا رہے ہیں، امریکی نگراں ادارہ

امریکا جنگ ہار رہا تھا، اس لیے طالبان سے مذاکرات کئے،زلمے خلیل وجود - بدھ 27 اکتوبر 2021

سابق امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے اعتراف کیا ہے کہ امریکا افغانستان میں جنگ ہار رہا تھا، اس لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے۔اشرف غنی حکومت کے افراد کو نئی حکومت میں شامل کیے جانے کا امکان تھا مگر اشرف غنی کے ملک سے فرار ہونے سے سب ختم ہو گیا۔امریکی میڈیا کو انٹرویو میں زل...

امریکا جنگ ہار رہا تھا، اس لیے طالبان سے مذاکرات کئے،زلمے خلیل

اشرف غنی کے خلاف 16کروڑ ڈالر چوری کا الزام، محافظ نے تصدیق کردی وجود - پیر 11 اکتوبر 2021

سابق افغان صدر اشرف غنی کی سیکیورٹی عملے کے ایک سینئر رکن نے امریکا کی سرکاری ایجنسی کے دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے پاس مبینہ چوری کے ویڈیو شواہد موجود ہیں۔امریکی ایجنسی نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق افغان صدر کابل سے فرار ہوتے وقت اپنے ساتھ 16 کروڑ 90 لاکھ ڈالر لے گئے تھے...

اشرف غنی کے خلاف 16کروڑ ڈالر چوری کا الزام، محافظ نے تصدیق کردی

امریکی وفد سے نئی شروعات پر بات ہوئی، مولوی امیر خان متقی وجود - اتوار 10 اکتوبر 2021

افغانستان کے نگراں وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے کہا ہے کہ امریکی وفد سے نئی شروعات پر بات ہوئی ہے۔ قطر کے دارالحکومت دوحا میں طالبان اور امریکا کے 2 روزہ مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے۔عرب میڈیا سے گفتگو میں مولوی امیر خان متقی نے کہا کہ امریکی وفد سے افغان امریکا تعلقات کی نئی شر...

امریکی وفد سے نئی شروعات پر بات ہوئی، مولوی امیر خان متقی

طالبان کا داعش کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم وجود - جمعرات 30 ستمبر 2021

افغانستان میں طالبان نے اپنی اسپیشل فورسز کو داعش کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے داعش کے جنگجوؤں کو چن چن کر نشانہ بنائیں۔جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے طالبان کے ایک ترجمان بلال کریمی کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان فورسز نے داعش کے متعدد اراکین...

طالبان کا داعش کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم

مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر