... loading ...
نواب ثناء اللہ زہری نے وزارتِ اعلیٰ کا حلف اُٹھا لیا ۔ان کی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ اور حلف برداری بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔ یہ مبارک دن ہے خود نواب زہری نے بھی تقدس والے اس دن بارِ حکومت اُٹھانے کو اپنے لئے اعزاز کہا۔راحیلہ دُرانی کا بطور اسپیکر انتخاب بھی ہوا ۔سیاسی عہد یعنی مری معاہدے کا وفا ہونا اور راحیلہ دُرانی کا اسپیکر بننا خوشگوار تبدیلی ہے ۔میں ذاتی طور پر راحیلہ دُرانی کی بطور رُکن اسمبلی کارکردگی کا ہمیشہ معترف رہا ہوں۔ یہ خاتون 2002سے اب تک تیسری بار خواتین کی مخصوص نشست پر منتخب ہوئی ہیں۔پچھلے دو ادوار میں سیاسی وابستگی مسلم لیگ قائد اعظم سے تھی ۔نواب رئیسانی کی حکومت کے آخری ایام میں اپنی جماعت سے اس قدر دلبرداشتہ ہوئی کہ ایک طرف جا کر بیٹھ گئیں،وجہ یہ تھی کہ ق لیگ کے مرد اراکین ان کے حصے کا فنڈ بھی ہڑپ کرتے رہے ۔ان کے اس طرز عمل پر راحیلہ دُرانی نے خاموش احتجاج کیا۔ان کے پاس پراسیکیوشن کی وزارت تھی ۔ راحیلہ دُرانی نے اپنا فنڈ ہمیشہ ٹھیک ٹھیک جگہ اور اچھے مقصد کیلئے استعمال کیا ہے ۔لیگی چاہ رہے تھے کہ وہ اُن کی کٹھ پُتلی بن کر رہیں جو راحیلہ کو گوارا نہ تھا۔ق لیگ سے علیحدگی کے بعد مسلم لیگ نواز میں شامل ہوئیں اور تیسری بار رُکن منتخب ہوئیں۔اُنہوں نے ترقیاتی کام ، تعلیم ،صحت ،کھیل ،سماجی اور تفریحی سرگرمیوں کی بہبو د پر ہمیشہ توجہ مرکوز رکھی ہے۔مختلف کھیلوں کی اچھی کھلاڑی ہیں ۔آغاز میں صحافت کا شغل اپنایااور لمبا عرصہ وکالت بھی کرتی رہیں۔نیک نام اور ایک ہمدرد عوامی پارلیمنٹرین ہیں۔ان کا اسپیکر بنایا جانا بلاشبہ صائب فیصلہ ہے ۔ راحیلہ اپنے منصب کے ساتھ ، انصاف کا ہنر بھی جانتی ہیں۔بلوچستان کی پہلی خاتون اسپیکر کا اعزاز بھی حاصل کر لیا۔24
دسمبر کا دن بڑا مصروف تھا شہر میں جگہ جگہ ربیع الاول کے جلوس تھے ، بلوچستان اسمبلی میں بھی صبح سے شام تک ہلچل مچی ہوئی تھی۔ اسپیکر کے کاغذات نامزدگی اور حلف برداری پھر اسمبلی کارروائی اورایک سے دو بجے تک وزارت اعلیٰ کیلئے کاغذات نامزدگی ، جانچ پڑتال اور اعتراض کا مرحلہ،مابعد ایوان سے اعتماد کا ووٹ اور منتخب ہونا ۔ اسمبلی کے احاطہ میں سرکاری و نجی محافظین، پارٹی کارکنوں اور لوگوں کا ہجوم رہا۔ وزارت اعلیٰ کا کوئی اور امیدوار سامنے نہ آیا البتہ جمعیت علمائے اسلام کے مفتی گلاب اسپیکر کیلئے کاغذات جمع کرانے پہنچ گئے، تب تاخیر ہو چکی تھی چونکہ کاغذات جمع کرانے کا وقت نو سے دس بجے تک کا مقرر تھا۔جے یو آئی نے قانونی نکتہ اُٹھایا وہ یہ کہ اسمبلی قواعد و ضوابط کے تحت اجلاس کیلئے اڑتالیس گھنٹے قبل ارکان کو تحریری طور پر اطلاع دی جاتی ہے اور ساتھ یہ اعتراض بھی اُٹھایا کہ اسپیکر کے انتخاب کیلئے شیڈول جاری کیا گیا نہ ہی پریزائیڈنگ آفیسر کا نوٹیفکیشن جاری ہوا۔ چناچہ نواب زہری کے کہنے پر جے یو آئی نے مزید اَڑ جانے سے احتراز کیا۔ بطور وزیر اعلیٰ ،نواب ثناء اللہ زہری نے اپنے خطاب میں ترجیحات اور پالیسی واضح کی۔کوئٹہ کی ’’دُرگت‘‘ ختم کرنے کا گویا مصمم عزم کا اظہار کیا ۔اس شہرِ خرابہ کیلئے وزیر اعظم پانچ ارب روپے کا پیکیج دیں گے ۔نواب رئیسانی کے دور میں بھی ایک پیکیج کا اعلان ہوا تھا ، جو شاہراہوں کی تعمیر کی بجائے ان پر کالک مل کر خرچ ہوا اور شہر اور اس کے مسائل جوں کا توں ہی رہ گئے۔کوئٹہ کے باسیوں کیلئے پینے کے صاف پانی کا حصول سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے،شہر پرائیویٹ ٹیوب ویلز اور ٹینکر ز مافیا کے رحم و کرم پر ہے ۔منگی ڈیم کا افتتاح تو ہوا مگر اس کی تعمیر اور تکمیل کب ہو گی، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔نواب زہری کے سامنے دریائے بولان سے پانی پائپوں کے ذریعے کوئٹہ لانے کی تجویز ہے ،پر لگتا نہیں کہ حکومت ان سنگلاخ پہاڑوں اور وادیوں سے کوئٹہ تک پانی پہنچانے کے منصوبے میں کامیاب ہو۔جبکہ فاصلہ بھی بہت طویل ہے۔بولان کا پانی کوئٹہ فراہم بھی ہو تو بولان کے وسیع رقبے پر واقع زراعت اور لوگوں کی ضروریات کا کیا ہو گا؟۔کہتے ہیں کہ اس پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے کوہ مردار کے پہاڑوں پر ٹنکیاں تعمیر کی جائیں گی۔کچھی کینال کو ڈیرہ بگٹی، نوتال اور جھل مگسی تک لے جانا ،پٹ فیڈر کینال کی توسیع، ڈاکٹروں کو اپنے اپنے اضلاع میں ڈیوٹیوں پر مامورکرنا،بد عنوانی کا خاتمہ اور امن و امان کا قیام سرِ دست ترجیح میں رکھا ہے ۔نیز کہا کہ تیس دسمبر کو وزیر اعظم میاں نوازشریف ژوب سے اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کا افتتاح کر یں گے ۔بیرون ملک بیٹھے بلوچ رہنماؤں سے بات چیت ہو گی البتہ مشروط ہو گی۔ بقول نواب زہری کے ان سے بات آئین ِپاکستان کے اندر ہو گی۔مطلب یہ ہوا کہ مفاہمت کا عمل تب بڑھایا جائے گا جب ان کی جانب سے علیحدگی کا مطالبہ ترک کیاجائے گا ۔وزیر اعلیٰ کا یہ بھی فرمانا ہے کہ تخریب کاری اور دہشت گردی کرنے والوں سے وہ کسی قسم کی رعایت نہیں کریں گے۔اقتدار نواب زہری کیلئے بھی کانٹوں کی سیج ہے، اڑھائی سال خود کو سرخُرو رکھنا امتحان ہی ہے ۔ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے تعاون کا یقین دلایا،چنانچہ اتحادیوں کو اپنے ساتھ رکھنے کا انحصار ان کے رویے اور قائدانہ بصیرت پر ہے ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ حکومت ’’سب اچھا‘‘ کے واویلا سے اچھی نہیں بنتی بلکہ اس سے ہو تی ہے کہ وہ کرتی کیا ہے ۔اچھی حکومت کی خوبیاں عملی اور قابل محسوس ہو تی ہیں اوربرائیاں بلند و بالا بیانات ،جذبات اور کشش سے پُرتقاریر ہو تی ہیں ۔اچھی حکومت پر خدمت کا جذبہ غالب ہو تا ہے ،جس کا سربراہ حاکم کے بجائے خادم کی حیثیت سے کام کرتا ہے ۔اچھی حکمرانی مستقبل کے دروازے’’ وا ‘‘کرتی ہے۔ اور بہتر کام کبھی چھپتا نہیں جسے نمایاں کرنے کی خاطر صحافیوں کو نوازنے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی انہیں خصوصی طیارے کے ذریعے بلانے کی نوبت آئے گی۔بہر حال یہ تھکا دینے والا دن تھاخصوصاً گورنر ہاؤس میں افراتفری کا عالم تھا۔عقبی گیٹ پر مامور اہلکاروں کی بد انتظامی دیکھی گئی،لیگی کارکنوں اور نواب زہری کے بہی خواہوں کا ہجوم تھا،کئی معزز شخصیات کو اس دھکم پیل میں اند ر جانا پڑا،صحافیوں کی بڑی تعداد کو اندر جانے کے لئے انتظار کرنا پڑا ،گورنر ہاؤس سے جاری کئے گئے کارڈ کے باوجود عملہ انہیں اندرنہ چھوڑنے پر بضد تھا۔مجھ سمیت کئی صحافی ٹھٹھرتی سردی میں کھڑے رہے، موجود عملہ کسی کی سننے کو تیار نہ تھا۔اور پھر اچانک ہجوم کو جانے دیا گیا جن کی اکثریت بغیر کارڈ کے تھیں جنہوں نے وہاں گورنر ہاؤس کے احترام کو پامال کیا۔زبردستی اندر جانے کی کوشش کی ،جہاں ہال میں حلف برداری کی تقریب ہو رہی تھی۔روزنامہ مشرق کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کامران ممتاز اور میں نے دور کھڑے ہونے میں ہی عافیت جانی۔