وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارت میں بَلاَتکَار(۱)

جمعرات 24 دسمبر 2015 بھارت میں بَلاَتکَار(۱)

اداروں کے ذریعے فراہم کی جانے والی امداد اور انصاف میں ایک بنیادی دشواری یہ ہے کہ اسے سب سے زیادہ مستحق فر د یا گروہ تک پہنچانا ہی سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔کچھ ایسا ہی معاملہ بھارت میں ان مَہِلَاوں( خواتین ) کا بھی ہے جو بَلَاتکاَر (ریپ ) کا شکار ہوئیں۔پاکستان کی بھی تاریخ اس حوالے سے کچھ بہت امید افزا نہیں مگر ہمارا میڈیا اس حوالے سے کمزور اور سول سوسائٹی بھی ایسے سانحات اور واقعات پر وقتی رد عمل سے آگے اور ذاتی مفادات اور شہرت کی ہوس سے آگے کچھ کرتی دکھائی نہیں دیتی۔

پچھلے دنوں میڈیا پر پنجاب کے شہر قصور میں جنسی زیادتی اور اس کے حوالے سے بنائی جانے والی گندی فلموں اور بلیک میلنگ کا ایک بڑا واقعہ سامنے آیا۔ اس پر چند دن میڈیا پر بہت واویلا ہوا اور پھر جب نئے موضوعات ہاتھ لگ گئے تو سب چپ کرگئے۔پاکستان میں ابھی تک ٹیلی ویژن چینلز اور اس کا غریب اور ناتواں مائی باپ پیمرا پوری طرح سوشل میڈیا اور ٹویٹر کے دباؤ میں نہیں آیا۔ یوں عوامی مسائل ان چینلز پر بھی اس شد و مد سے بیان نہیں ہوتے۔ یوں بھی سر شام ہر سیاسی پارٹی کے درجہ دوم قسم کے سیاست دان جن کا پارٹی میں فیصلہ سازی سے دور رور تک کوئی علاقہ نہیں ہوتا اور وہ محض اپنی چرب زبانی اور چھوٹی چھوٹی خود فریب چالاکیوں سے اور ناک نقشے کی درستگی کی وجہ سے اپنے ان داتاؤں کی آشیر باد سے ٹاک شوز کی چوپال میں آکر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے اپنے رہنماؤں اور پارٹی کے اقدامات کا ایسا دفاع کرتے ہیں کہ لگتا ہے پاکستان میں دروغ گوئی،مکر و فریب، اچھے بُرے کی تمیز اور دنیا کی چند آسائشوں کے پیچھے شرف انسانی کے اعلیٰ اصول ان کے آگے کچھ بھی نہیں۔

بھارت میں پچھلے دس برسوں میں صرف والدین کے ہاتھوں ایک کروڑ سے زائد لڑکیوں کو بذریعہ اسقاط حمل ان کی مادر رحمی میں ولادت سے پہلے اورجنس کے فوری تعین کے بعد مار دیا گیا یا پیدائش کے فوراً بعد انہیں ہلاک کردیا گیا۔

بھارت سے چونکہ ہم دینی طور پر بہت جدا مگر معاشرتی سوچ میں بہت قریب ہیں۔ لہذا قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کے حوالے سے یہ جائزہ لینا بہت مفید ہوگا کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ بھارت میں بَلاَتکَار کے تین بڑے واقعات نے نہ صرف وہاں بہت اودھم مچایا بلکہ اس تلخ حقیقت کو بھی بہت کھول کر سامنے رکھ دیا ۔(پاکستانی میڈیا پر ان دنوں اس ترکیبی الفاظ کو ننگا کرکے رکھ دیا ،بے دریغ استعمال ہو رہا ہے جو قطعی مہذب پیرایۂ گفتگو نہیں ) اس سلسلے میں طاقتور خواتین بالخصوص ممبران پارلیمنٹ کا کردار بھی مجرمانہ حد تک غفلت شعاری اور نری بے حسی کی تصویر ہے۔ یہ تین واقعات بالترتیب پھولن دیوی، بھانوری دیوی اور نربھیا کے ریپ کے ہیں۔ان دنوں نربھیا کے مدّعے کو لے کر بھارت میں مظاہروں کی نئی لہر اٹھی ہوئی ہے اور ساتھ ہی ایک نئی بحث چھڑی ہوئی ہے کیوں کہ اس جرم میں ملوث سب سے چھوٹے مجرم کو بیس دسمبر کو سپریم کورٹ نے رہا کردیا ہے۔

 نربھیا کیس کے ملزمان

نربھیا کیس کے ملزمان

ان تین سانحات میں سب سے اہم واقعہ نربھیّا کا ہے۔ نربھیا سنسکرت میں بے خوف کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ یہ لڑکوں کا نام ہے۔مگر اس نام کو ایک عالم میں شہرت یوں ملی کہ 16 ؍دسمبر 2012 ء کو ایک نوجوان جوڑا دہلی میں سفید رنگ کی بس میں سوار ہوا ۔ یہ جنوبی دہلی کے ایک سنیما سے رات گئے فلم دیکھ کر نکلے تھے ۔ لڑکی فیزیو تھراپسٹ تھی اور اس کا دوست اروندا پانڈے ایک سوفٹ ویئر انجینئر۔ بس میں سوار دیگرچھ افراد بشمول ڈرائیور رام سنگھ اور اس کا بھائی۔یہ سب کے سب ایک دوسرے کے واقف تھے۔ اور ان کا تعلق بے حد غریب خاندانوں سے تھا ۔ان سب نے مل کر لڑکی کو نہ صرف اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنایابلکہ ان کی درندگی اس حد تک بڑھ گئی کہ ان میں سے سب سے کم سن لڑکے نے ایک Crank Rod کی مدد سے لڑکی کی آنتیں تک باہر کھینچ لی تھیں۔اس واقعے پر شدید احتجاج کی ایک لہر اٹھی اور نربھیا کو سنگاپور منتقل کردیا گیا جہاں وہ دو دن بعد اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی۔ نربھیا کا واقعہ اور اس پر ہونے والا شدید احتجاج ایک بڑے جرم کو کھلے عام سڑکوں پر لے آیا۔بھارت میں چونکہ قانونی طور پر اس بات کی پابندی ہے کہ بَلاَتکَار کے شکار فرد کا نام عزت نفس کی خاطر نہ بتایا جائے۔ لہذا جیوتی سنگھ کا نام بہت عرصہ تک صیغۂ راز میں ہی رہا۔

ھارت کے دارالخلافہ دہلی کی مرکزی شاہراہ راج پاتھ پر مظاہرہ

بھارت کے دارالخلافہ دہلی کی مرکزی شاہراہ راج پاتھ پر مظاہرہ

بھارت کے دارالخلافہ دہلی کی مرکزی شاہراہ جسے راج پاتھ کہتے ہیں اور جہاں ہر سال یوم جمہوریہ پر بھارت اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ ایک بڑی پریڈ کی صورت میں کرتا ہے، اسی شاہراہ پر آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن اور آل انڈیا ڈیموکریٹک ایسوسی ایشن (پاکستان میں ایسی کوئی مرکزی رہ نماجماعتیں نہیں) نے ایک بڑے مظاہرے کا اہتمام کیا۔ جو دہلی کی چیف منسٹر محترمہ شیلا ڈکشٹ اور پولیس ہیڈ آفس کے سامنے ہوا ،جس میں بہت سر پھٹول ہوئی ۔ان مظاہروں کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ اب دو افراد کے درمیان مخاصمت یا ذات پات کے الزامات سے بڑھ کر ایک قابل توجہ عوامی مسئلہ بن گیا۔ ملزمان کی گرفتاری بھی فوری طور پر عمل میں آئی مقدمہ ایکFast Track Court میں چلا۔ایسی چھ عدالتیں دہلی کی چیف منسٹر صاحبہ کی سفارش پر دہلی ہائی کورٹ نے بنالیں جن میں سے پہلی عدالت کا باقاعدہ افتتاح ہندوستان کے چیف جسٹس ایلتمش کبیر نے دو ہفتے کے اندر دہلی میں کردیا ۔

جیوتی سنگھ اور ڈرائیور رام سنگھ

ڈرائیور رام سنگھ اور جیوتی سنگھ

ان میں سے ملزم ڈرائیورر ام سنگھ کی موت تو تہار جیل میں دوران سماعت ہی ہوگئی، چار کو پھانسی کی سزا ہوئی اور قانونی طور پر ایک نابالغ جس کا نام نربھیا کی طرح اس لیے گپت (پوشیدہ) رکھا گیا کہ وہ juvenile offender کی فہرست میں آتا ہے ۔اسے تین سال کی سزا پوری ہونے پر بھارت کی سپریم کورٹ کے حکم پر 20 دسمبر کو رہائی دی گئی ۔سرکار نے رہائی سے قبل اس ملزم کو اس کے موجودہ مقام حراست یعنی اصلاح گھر میں مزید دو برس قید رکھنے کی استدعا بھی عدالت سے کی مگر چونکہ ان کی اور ہماری طرف کی عدلیہ Healing Justice (مرہمی انصاف) سے زیادہ Legal Justice (قانونی انصاف) پر یقین رکھتی ہے۔ لہذا عدالت نے رہائی دیتے وقت اس قانونی رکاوٹ کو سامنے رکھا کہ

نربھیا کیس کا مجرم جسے تین سال کی سزا پوری ہونے پر بھارت کی سپریم کورٹ کے حکم پر 20 دسمبر کو رہائی دی گئی

نربھیا کیس کا مجرم جسے تین سال کی سزا پوری ہونے پر بھارت کی سپریم کورٹ کے حکم پر 20 دسمبر کو رہائی دی گئی

. “Under what jurisdiction can we extend his detention?” “If anything has to be done, it has to be done according to the law. We have to enforce the law.”

( ہم کس قانون کے تحت اس عرصۂ حراست کو طول دیں۔ہم جو بھی عمل کرتے ہیں وہ عین قانون کے
مطابق ہوتا ہے،ہمارا کام صرف قانون پر عمل درآمد کرنا ہے۔)

لوگ اس دلیل پر سیخ پا ہوگئے کیوں کہ لڑکی کے دوست کے مجسٹریٹ کے سامنے ضابطہ فوجد اری کی دفعہ 164کے بیان ، مرنے والی جیوتی کے Dying Declaration کی روشنی میں یہ نابالغ مجرم ہی سب زیادہ خطرناک اور سفاک ہے اور اسی نے جیوتی سنگھ کی آنتیں Crank Rod کی مدد سے باہر کھینچ لی تھیں ۔ یہی وہ سفاکی تھی جس کی پیچیدگی جیوتی سنگھ کی موت کا باعث بنی۔ اس نابالغ کی رہائی پر بھارت میں نئے سرے سے پر زور صدائے احتجاج بلند ہوئی۔مظاہروں کے دوران جیوتی سنگھ کا نام اس کی والدہ نے پہلی دفعہ باقاعدہ طور پر اس واشگاف انداز میں لیا کہ انہیں اپنی بیٹی کے بارے میں کوئی ندامت نہیں کہ اس کا نام چھپایا جائے۔وہ معصوم اور مظلوم تھی۔مظاہروں میں باقاعدہ شریک ہونے کے باعث دیگر مظاہرین کے ساتھ ساتھ انہیں پولیس کے لاٹھی چارج سے زخمی بھی ہونا پڑا اور تھانے بھی جانا پڑا ۔

سپریم کورٹ نے حکومت کی اپیل کو رد کرتے وقت اپنے فیصلے میں ایک ایسا نکتہ اٹھایا جس پر بھارت میں بہت ہی لے دے ہورہی ہے وہ قانونی نکتہ یہ ہے کہ ’’ عدلیہ بھارتی آئین کی دفعہ اکیس کی رو سے کسی سے جینے کاحق نہیں چھین سکتی‘‘سپریم کورٹ کی آئین کی اس لنگڑی لولی تاویل کے جواب میں کسی نے تبصرہ کیا کہ جس اپرادھی (مجرم) کو جینے کا حق دینے کے بارے میں عدلیہ یوں بے کل ہو رہی ہے تو وہ یہ کیوں نہیں سوچ رہی کہ یہ ان سب میں سفاک ترین مجرم تھا اور اگر اس کو جینے کا حق ہے تو اس سے زیادہ جینے کا ادھیکار (حق) جیوتی سنگھ کو بھی تھا جس کے بارے میں بھارت کی مقننہ اور عدلیہ دونوں ہی مجرمانہ بے حسی کے شکار ہیں۔کم سن مجرم کے حوالے سے پاکستان میں بھی پچھلے دنوں ایک قاتل شفقت حسین کو ایک چھوٹے بچے کے ساتھ بدفعلی اور قتل کے الزام میں سزا ئے موت کے بارے میں بہت تھکافضیحتی ہوئی۔آدھی روٹی پر دال گھسیٹنے والی ایسی کئی این جی اوز پاکستان میں موجود ہیں جو مکر و فریب اور اپنے ذاتی مقاصدکے حصول میں ہمارے اہل سیاست کی خالائیں ہیں۔ انہوں نے اس معاملے میں پھانسی کی سزا پر عمل درآمد میں رکاوٹیں ڈالنے میں خوب کھل کے فریب دیا۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ جیوتی سنگھ کے بَلاَتکَار پر اتنا ہنگامہ کیوں ہوا؟جمہوریت اور جنسی آزادی کی مملکت بھارت میں جہاں کرشنا کا بندرا بن کی گوپیوں کے سنگ کھلواڑ اور کاما سوترا کے لطف و کرم کے پینتروں کے چرچے بہت عام ہیں ۔وہاں عورتوں پر مظالم اپنی انتہا پر پہنچے ہوئے ہیں۔اس مملکت میں اقوام متحدہ کی سن کی ایک 2006 رپورٹ کے مطابق :

  • ہر بارہ سیکنڈ بعد ایک لڑکی یا تو اسقاط حمل کے ذریعے ہلاک کردی جاتی ہے یا پیدائش کے فوراً بعد اس کا گلا گھونٹ کر نتھنوں میں ریت بھر کر یا ان میں تمباکو کا پانی ڈال کراسے مار دیتے ہیں ۔( یہ رپورٹ میں بیان کردہ حقائق ہیں)
  • ہر بیس منٹ بعد ایک مہِلا کی عزت لوٹ لی جاتی ہے ۔
  • بھارت کی ایک اہم سابق وزیر محترمہ رینوکا چوہدری کا بیان ہے کہ پچھلے دس برسوں میں صرف والدین کے ہاتھوں ایک کروڑ سے زائد لڑکیوں کو بذریعہ اسقاط حمل ان کی مادر رحمی میں ولادت سے پہلے جنس کے فوری تعین کے بعد مار دیا گیا یا پیدائش کے فوراً بعد انہیں ہلاک کردیا گیا۔محترم وزیر صاحبہ اس کو ایک قومی سانحہ قرار دیتی ہیں۔
  • اسی بھارت میں 1992 میں بھاٹیری گاؤں کی کمہارن بھانوری دیوی کی اونچی ذات کے پانچ ہندو مردوں نے عزت اُس کے شوہر کے سامنے لوٹ لی کہ وہ گاؤں میں بچوں کی شادی کی مخالفت کرتی تھی۔عدالت نے اس کا کیس تمام تر شواہد کے باوجود محض اس لئے باہر پھینک دیا کہ وہ ایک untouchable طبقے کی فرد ہے اور کوئی اونچی ذات کا ہندو ایسی کسی مہِلاکو چھونے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
  • اسی مملکت میں سن اسی کی دہائی میں پھولن دیوی کو اونچی ذات کے راجپوتوں کے ہاتھوں اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لئے ڈاکو بننا پڑا تھا اور اسے اور بھانوری دیوی کو کبھی انصاف نہیں مل پایا۔اس نے ایک ہی دن میں بیس ٹھاکر لائن سے گولی سے اڑادیئے تھے۔
  • اسی دیش کی ریاست بنگال کی ہر دل عزیز چیف منسٹر محترمہ ممتا بینرجی نے کلکتہ میں ایک ایسے ہی جرم کی شکار لڑکی کو نہ صرف جھوٹی اور ان کے سیاسی حریفوں کی آلۂ کار قرار دیا بلکہ اس پولیس افسر کو بھی سزا کے طور پر معطل اور تبدیل کردیا جس نے بہت تندہی اور فرض شناسی سے اس کیس میں تفتیش کی اور ملزمان کو گرفتا ر کرلیا تھا۔

ہندوستان میں ہونے والے ان واقعات کی روشنی میں جہاں جرم کی سفاکیت بذات خود ایک بہت بھیانک پہلو کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے وہیں دو اور نکات بہت اہم ہیں اور اس میں پاکستان کے لئے قانون سازی عوامی ردعمل کے حوالے سے بہت اہم اور امید افزا دواسباق ہیں۔

پہلا نکتہ تو یہ تھا کہ عوام کی طاقت فرد واحد کے خلاف ہونے والے ظلم پر نہ صرف متحد ہوسکتی ہے بلکہ قوانین اور سست اور پیچیدہ عدالتی طریق کار میں تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے۔آپ کو تو یاد ہی ہوگا کہ اس سانحے کے فوراً بعد ہی بھارت میں چھ عدد برق رفتار کورٹس بن گئی تھیں جن میں سے ایک نے اسی ہفتے میں ریاست ہریانہ میں ایک نیپالی خاتون کو ریپ اور ہلاک کرنے کے جرم میں اس مقدمے میں فیصلہ سناتے ہوئے خاتون جج سیماسین گھل نے اس بدنصیب عورت کے ساتھ مجرموں کے بھیانک سلوک پر بھارت کی عدالتی تاریخ کی سخت ترین سزا سنائی ہے۔

نیپالی خاتون کو ریپ اور ہلاک کرنے کے جرم میں سزا پانے والے مجرم

نیپالی خاتون کو ریپ اور ہلاک کرنے کے جرم میں سزا پانے والے مجرم

سیشن جج صاحبہ نے صرف ان نو میں سے سات ملزمان کو سزائے موت سنائی بلکہ ان پر بھاری جرمانہ بھی عائد کیا۔ یہ تعداد کی مناسبت سے نو سے سات اس لیے شمار کیے گئے کہ ایک مجرم نے تو گرفتاری کے خوف سے خودکشی کرلی اور ایک ملزم کی عمر کل پندرہ سال تھی جس کی رہائی مروجہ قانون کی رو سے دو سال بعد متوقع ہے۔ فیصلہ سناتے ہوئے جج صاحبہ نے اس طرح کے جرائم کی مملکت ہند میں کثرت پر احتجاجی علامت کے طور پر اپنا قلم بھی کھلی عدالت میں توڑ دیا تھا۔ (جاری ہے)


متعلقہ خبریں


مارکیٹ پر غلبے کیلئے ناجائز ہتھکنڈوں کا استعمال، بھارت میں گوگل پر 16 ملین ڈالر جرمانہ وجود - هفته 22 اکتوبر 2022

بھارت میں مارکیٹ پر غلبے کیلئے ناجائز ہتھکنڈوں کے استعمال کے الزام میں گوگل پر 161 ملین ڈالر (13 ارب بھارتی روپے) کا جرمانہ عائد کردیا گیا۔ کمپیٹیشن کمیشن آف انڈیا نے بیان میں الزام عائد کیا کہ گوگل اپنے اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کے متعدد اسمارٹ فونز، ویب سرچز، برازنگ اور ویڈیو ہوسٹ...

مارکیٹ پر غلبے کیلئے ناجائز ہتھکنڈوں کا استعمال، بھارت میں گوگل پر 16 ملین ڈالر جرمانہ

چین کے خلاف چار ملکی اتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے مذاکرات کا آغاز وجود - هفته 12 فروری 2022

امریکا، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت کے اعلیٰ سفارت کاروں کی میلبورن میں اپنے چار رکنی اتحاد(کواڈ)کی نشست ایشیا پیسفک خطے میں چین کی بڑھتی طاقت کو ختم کرنے کے لیے امریکا، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت کے اعلی سفارت کاروں نے میلبورن میں اپنے چار رکنی اتحاد(کواڈ) کو مزید مضبوط کرنے کے...

چین کے خلاف چار ملکی اتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے مذاکرات کا آغاز

سعودی عرب اور بھارت کے تعلقات پر ایک تحقیقی کتاب کی اشاعت وجود - منگل 08 فروری 2022

سعودی عرب کے سینٹر فار ریسرچ اینڈ نالج کمیونیکیشن نے سعودی عرب اور بھارت کے تعلقات پر ایک تحقیقی کتاب شائع کی ہے، عرب ٹی وی کے مطابق اس مطالعہ کا مقصد سعودی عرب اور ہندوستان کے درمیان موجودہ تعلقات کا تجزیہ اور اس کے تاریخی تناظر کو دیکھتے ہوئے دونوں ممالک جن حالات سے گزرے ہیں او...

سعودی عرب اور بھارت کے تعلقات پر ایک تحقیقی کتاب کی اشاعت

بھارت،کرناٹکا میں ایک اور کالج میں باحجاب طالبات کا داخلہ بند وجود - هفته 05 فروری 2022

بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹکا میں طالبات کو کالجوں میں حجاب سے روکنے کا مسئلہ گھمبیر ہوگیا ، ایک اور کالج میں مسلمان طالبات کو حجاب کے ساتھ داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق کرناٹکا کے ضلع اڈوپی کے ساحلی علاقے کنڈاپور میں 27 طالبات کو سرکاری کالج میں داخلے سے ...

بھارت،کرناٹکا میں ایک اور کالج میں باحجاب طالبات کا داخلہ بند

قومی سلامتی پالیسی میں بھارت سے امن کی خواہش، مسئلہ کشمیر تعلقات کا مرکزی نکتہ قرار وجود - هفته 15 جنوری 2022

حکومت کی طرف سے جاری کی گئی ملکی تاریخ میں پہلی بار قومی سلامتی پالیسی میں دفاع ، داخلہ، خارجہ اور معیشت جیسے شعبو ں پر مستقبل کا تصوردینے کی کوشش کی گئی ہے۔قومی سلامتی پالیسی میں سی پیک سے متعلق منصوبوں میں دیگر ممالک کو سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی ہے، نئی پالیسی کے مطابق کشمیر ب...

قومی سلامتی پالیسی میں بھارت سے امن کی خواہش، مسئلہ کشمیر تعلقات کا مرکزی نکتہ قرار

پاکستانیوں نے خوش ہونے میں بھارتیوں اور افغانوں کو پیچھے چھوڑ دیا، گیلپ سروے وجود - بدھ 29 دسمبر 2021

پاکستانیوں نے خوش رہنے میں بھارتی اور افغان شہریوں کو پیچھے چھوڑدیا،تمام مسائل کے باوجود 65 فیصد پاکستانی خوش ہیں۔ گیلپ پاکستان کے نئے سروے کے مطابق 65 فیصد پاکستانی ہر حال میں خوش ہیں جبکہ 23 فیصد نے ناخوش ہونے کا اظہار کیا ہے۔ گیلپ سروے کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ خوش افرا...

پاکستانیوں نے خوش ہونے میں بھارتیوں اور افغانوں کو پیچھے چھوڑ دیا، گیلپ سروے

بھارت میں پاکستان کی جیت کا جشن منانے پر غداری کے مقدمے کا سامنا وجود - جمعه 29 اکتوبر 2021

بھارت کے خلاف فتح پر پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کو سراہنے والے بھارتی ریاست اترپردیش کے عوام کو پاکستان کی فتح پر جشن منانے کی صورت میں غداری کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔یہ اطلاعات ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہیں جب پاکستان کی فتح پر جشن منانے والے تین طلبا کی ویڈیو سوشل میڈی...

بھارت میں پاکستان کی جیت کا جشن منانے پر غداری کے مقدمے کا سامنا

پاکستان نے بھارت کو 10وکٹوں سے شکست دیکر تاریخ بدل دی وجود - پیر 25 اکتوبر 2021

ٹی20 ورلڈ کپ کے سپر 12 راؤنڈ کے میچ میں شاہین شاہ آفریدی کی عمدہ بالنگ اور اوپنرز محمد رضوان اور بابر اعظم کی شاندار بیٹنگ کی بدولت یکطرفہ مقابلے کے بعد پاکستان نے ورلڈ کپ میں پہلی مرتبہ بھارت کو 10 وکٹوں سے شکست دیکر تاریخ بدل دی ، بھارتی ٹیم نے مقررہ اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان ...

پاکستان نے بھارت کو 10وکٹوں سے شکست دیکر تاریخ بدل دی

وزیر اعظم بھارت کیخلاف میچ میں پاکستان کی جیت کیلئے پرامید وجود - هفته 23 اکتوبر 2021

وزیراعظم عمران خان بھی قومی کرکٹ ٹیم کی ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پاکستان کی جیت کیلئے پرامید ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے قریبی رفقا سے کرکٹ سے متعلق گفتگو میں کرکٹ ٹیم کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔عمران خان نے کہا کہ ٹیم میں ٹیلنٹ موجود ہے، بھارت کیخلاف کامیاب ...

وزیر اعظم بھارت کیخلاف میچ میں پاکستان کی جیت کیلئے پرامید

بھارت، مسجد میں قرآن پڑھنے والا شہید کردیاگیا وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع سدھارتھ نگر میں نامعلوم مسلح افراد نے مسجد میں عبادت میں مصروف 55سالہ مسلمان کو گولی مارکر شہید کردیا۔بھارتی ٹی وی کے مطابق ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ پولیس سریش چند راوت نے میڈیا کو بتایا کہ ضلع کے علاقے چلیہ کے گاؤں کولوا میں نامعلوم افراد نے نماز فجر کی اد...

بھارت، مسجد میں قرآن پڑھنے والا شہید کردیاگیا

لداخ میں چینی فوج کی تعیناتی پر بھارت کا اظہارِ تشویش وجود - اتوار 03 اکتوبر 2021

بھارتی فوجی سربراہ نے کہاہے کہ لداخ کے سرحدی علاقوں میں چینی افواج کی تعیناتی کا سلسلہ بھارت کے لیے تشویش کی بات ہے۔تاہم بھارت اس وقت کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے بھی کافی تیار ہے۔ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل منوج مکند نروانے نے خطہ لداخ کے دو روزہ دورے کے بعد ہفتے کے روز بھارت...

لداخ میں چینی فوج کی تعیناتی پر بھارت کا  اظہارِ تشویش

بھارت جارحیت سے باز رہے، چین کی تنبیہ وجود - هفته 02 اکتوبر 2021

چین نے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ لداخ میں اس کے علاقوں پر قبضے کی کوششوں سے باز رہے ورنہ کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ عالمی میڈیا کے مطابق چین نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ لداخ سرحد پر مزید نفری کی تعیناتی اور چینی علاقوں پر قبضے کی کوششوں سے باز رہے ورنہ کارروائی کا...

بھارت جارحیت سے باز رہے، چین کی تنبیہ

مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر