وجود

... loading ...

وجود
وجود

روس ترکی تنازع ۔ (۲)

جمعه 04 دسمبر 2015 روس ترکی تنازع ۔ (۲)

turkey-russia

آج کل ترکی اور روس کے قصے بہت چل رہے ہیں سوشل میڈیا پر اور کچھ لال بجھکڑ تو بہت دور کی کوڑی لائے ہیں ،جن میں داعش کا ترکی کے ساتھ تیل کی تجارت کا معاہدہ بھی شامل ہے جو انہوں نے دستخط کیا اور فرانسیسی خود کش حملہ آوروں کے پاسپورٹ کی طرح ہمارے کچھ دوستوں کے لئے چھوڑ گیے۔

روس ترکی تنازع کو سمجھنے کے لئے اگر آپ کچھ دیر کے لئے نیشنل جیوگرافک جیسے ٹی وی کو ذہن میں لائیں اور تصور کر لیں کہ تمام شیروں نے مل کر ایک سانڈ کا شکار کر لیا ہے، جی ہاں یہ وہی سانڈ ہے جو جنگل میں ڈکراتا پھرتا تھا اور کبھی کبھار اکیلا ہی ریوڑ سے دور بھی نکل جایا کرتا تھا، کبھی کبھار رتو شیروں کی بھی کُٹ لگا دیا کرتا تھا۔شیروں نے اس کو تاک کر نشانے پر رکھا تھا اور جیسے ہی موقع ملا، تمام شیروں نے مل کر اسے شکار کیا ہے اور اب اس کی دعوت اڑا نے کی تیاری ہو رہی ہے۔ کبھی کبھار ان کی اس سانڈ کی لاش کے مختلف حصوں پر دعوے کے حوالے سے آپس میں ہلکی پھلکی لڑائی بھی ہو جاتی ہے، ایک ہی خاندان کے یہ شیر چند لمحوں کے لئے دانت نکال کر ایک دوسرے پر غراتے ہیں ، چلاتے ہیں لیکن پھر دوبارہ کھانے میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔لیکن بات غرانے سے آگے نہیں بڑھتی ۔ ہاں البتہ لگڑ بگڑ (ہائی نوز) جو کہ ارد گرد ہی منڈلا رہے ہوتے ہیں، وہ کبھی ادھر آنے کی کوشش کرے توکھانے میں مصروف شیروں میں سے ایک آدھ شیر نہ صرف ان کے پیچھے بھاگتاہے بلکہ ان میں سے قابو آ جانے والے کو ایک آدھ چانٹا مارنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔

اگر ذہن پر تھوڑا سا زور ڈالیں تو نوے کی دہائی میں امریکی اقتصادیات شدید مندی کا شکا رتھی، مختلف اداروں کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ لیکن پھر اچانک خلیج میں واقع عراق نے کویت پر قبضہ کر لیا، اور امریکابہادر بھاگابھاگا کویت کی آزادی بحال کروانے آیا، چند ایک بم داغے، سی این این کی ایرانی نژاد جنگی نمائندہ کرسٹینا ایمن پور نے وہاں سے لائیو نشریات کر کے ہم جیسے تیسری دنیا کے جاہل عوام کو بتایا کہ امریکانے کویت کی آزادی بحال کر دی ہے ، اور اس جنگ کے دوران جو ڈیڑھ دو درجن پٹاخے امریکیوں نے چلائے تھے ، اور کچھ ہوائی فائرنگ کی تھی اس کے بدلے میں جاتے جاتے احتیاطاًآئندہ تیس سال کے لئے کویت کا سارا تیل اپنے نام کروا گیا ہے اور یوں امریکی معیشت پھر بحال ہو گئی۔لیکن امریکانے جاتے جاتے اس خطے میں اپنی دوبارہ واپسی کی بنیاد کچھ یوں رکھی کہ عراق پر معاشی اور اقتصادی پابندیاں لگوا دیں جس کے نتیجے میں عراق مسلسل نہ صرف کمزور ہوتا رہا بلکہ ارد گرد کے ممالک کی بھی اندھی لگی رہی ، جو عراقی تیل کی آمدنی سے ہاتھ دھوتے رہے۔ عراق کے ’’تیل برائے خوراک ‘‘کے پروگرام کے بارے میں تو آپ کو یاد ہی ہوگا کہ بھارتی وزراء سے لے کر بے نظیر بھٹو صاحبہ تک سب کے نام آئے تھے!

امریکا، برطانیا ، نیٹو کے بعد عالمی گاؤں کے دو ابھرتے شکاریوں ، چین اور روس نے بھی شام کے اس شکار پر ہاتھ رکھ دیا ہے ، اس لئے نئے اور پرانے عادی شکاری اس شکار کے مختلف حصوں پر ابھی ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر غرارہے ہیں۔

یورپی یونین نے اب دیکھا کہ کویت میں تو امریکی اکیلے ہی شکار کر کے نکل گئے، اور انہوں نے اس شکار کو سمیٹنے کے لئے پرانے تعلقات کی بناء پر صرف برطانیا کو ہی دعوت دی، تو جب افغانستان پر حملہ کرنے کی باری آئی تو یورپی یونین بھاگ کر بغیر دعوت کے ہی اس میں شریک ہو گئے اور افغانستان میں پہنچ کر ایرانی سرحد کے ساتھ والے افغانستان کے تمام صوبوں پر قبضہ کر لیا کہ کوئی بھی طور کوئی گولی یا بم راستہ بھول کر بھی ایران کی طرف نہ جانے پائے۔

شروع میں ہمارا یہ خیال تھا امریکی اور نیٹو یہاں کی معدنیات پر قبضہ کرنے آئے ہیں اور یہ ایک طویل المدتی معاہدے کے تحت رو بہ عمل ہیں۔ لیکن وہاں پر لیڈ سے لے کر لوہے تک ہر معدن ایسی تھی کہ جس کو نکالنے اور استعمال میں لانے میں ایک دہائی کا عرصہ درکار تھا، اسی لئے پاکستان میں سابقہ سرخوں حال مقیم امریکی فنڈڈ این جی اوز (سی آئی اے فنڈنگ براستہ ناروے اور سویڈن)نے بغلیں بجاتے ہوئے ہم جیسے رجعت پسندوں کو بتایا کہ امریکااور اس کے اتحادی یہاں طویل المدتی منصوبے کے تحت آئے ہیں، اس لئے آپ کو مبارک ہو کہ آپ امریکا اور یورپ کے ہمسائے ہو گئے ہیں۔

مگر امریکیوں کے پاس چونکہ زیادہ وقت نہیں تھا اس لئے انہوں نے جلدی جلدی میں منشیات کی منافع بخش صنعت بحال کی ، اور پورے افغانستان میں افیون کی کاشت کچھ یوں ہوئی کی ایک وقت میں امریکیوں کی وہاں موجودگی میں افغانستان دنیا کو نوے فی صد منشیات فراہم کرنے والا ملک بن گیا جو طالبان دور میں صفر فی صد افیون کاشت پر چلا گیا ۔ اس دوران امریکیوں نے یہ شکار کھاتے ہوئے کچھ چچوڑی ہوئی ہڈیاں ہمارے اداروں کی طرف بھی ڈال دیں جس کے نتیجے میں ہم نے ’’پاکستان اینٹی نارکوٹکس فورس ‘‘جیسے ادارے بنا کر اس بات کو یقینی بنایا کہ منشیات کی جو بھی ’برآمد ‘ہو وہ امریکا اور نیٹو بہادر براہِ راست ہی کریں ، ڈیورنڈ لائن کے اس طرف سے نہ تو کوئی اس کاروبار میں مداخلت کرے اور نہ ہی امریکی(نیٹو) ڈیپارٹمنٹل ا سٹور کے باہر کوئی اپنا چھابڑہ لگانے کی جرات کرے۔ شائد یہی وجہ تھی کہ منشیات کے دھندے میں ملوث و مطلوب بڑے بڑے اِدھر کے لوگوں کی اکثریت سیدھی جا کر امریکی عدالتوں میں پیش ہوئی ، اپنی بے گناہی ثابت کروائی اور واپس آ کر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دوبارہ ’’سہولت کاری ‘‘میں مصروف ہو گئی۔

جملہ معترضہ ہے کہ پاکستان فوج کی طرف سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شروع کئے گئے کسی بھی آپریشن میں کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ کسی آپریشن میں منشیات سازی کی کوئی فیکٹری تباہ ہوئی ہو یا پھر فوج نے کسی منشیات کے اسمگلر کو گرفتار کیا ہو یا اس کا ڈیرہ یا گھر تباہ کیا ہو۔ ہاں البتہ اس مقامی فوجی آپریشن کے آغاز سے پہلے اس طرح کی خبریں بڑے تسلسل کے ساتھ آیا کرتی تھیں۔ ظاہر ہے یہ آپریشن منشیات کے خلاف تھوڑا ہی ہے؟

امریکی اداروں کی اپنی رپورٹ کے مطابق اس وقت امریکا کی اپنی آبادی میں منشیات استعمال کرنے والی آبادی کی شرح 68 فی صد ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے سکون آور ادویات استعمال کرتے ہیں۔ اتنی بڑی مارکیٹ کو کیا کبھی بھی کوئی تاجرانہ ذہنیت نظر انداز کر سکتی ہے؟ اور یوں امریکیوں نے منشیات کی آمدنی سے اپنی معیشت بحال کر لی۔ منشیات کی اس آمدن سے عراق کی جنگ کا میدان سجایا گیا اور حیرت انگیز طور پر عراق میں جمہوریت کی بحالی کے لئے جو لوگ برسرِ اقتدار آئے وہ وہی تھے جن کے نام جناب خمینی صاحب نے 1979میں فرانس سے تہران انقلاب لے کر پہنچتے ہی جاری کئے تھے۔ یعنی شکار سے گوشت نوچ کر اس کا انجر پنجر کھانے کے لئے ایران کو دے دیا گیا۔

اب شام کے معاملے میں صورتِ حال کچھ پیچیدہ ہو گئی ہے۔ امریکا، برطانیا ، نیٹو کے بعد عالمی گاؤں کے دو ابھرتے شکاریوں ، چین اور روس نے بھی شام کے اس شکار پر ہاتھ رکھ دیا ہے ، اس لئے نئے اور پرانے عادی شکاری اس شکار کے مختلف حصوں پر ابھی ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر غرارہے ہیں۔ لیکن ایک بات بڑی انوکھی ہے، کہ ایک دوسرے پر آنے والا سارے کا سارا غصہ نکالا اسی شکار پر ہی جا رہا ہے۔ یعنی روس کو امریکا اور ترکی پر غصہ آتا ہے تو وہ بمباری شام پر کرتا ہے، فرانس کو غصہ آتا ہے تو بمباری کرتا ہے کیوں کہ یہ کسی بھی شکار میں پہلی دفعہ اپنے حصے کا طالب ہے ، شام کے شکار پر سب سے زیادہ پنجے ایران اور امریکامار رہے ہیں ۔

دوسری طرف ترکی بھی ایک لگڑ بگڑ کی طرح ایک کونے میں سے سر نکال کر اپنا حصہ لینا چاہتا ہے۔ اس کا بھی خیال ہے شام کی حدود کے اندر واقع الطاقیہ کی بندرگاہ دراصل کوہِ ترکستان کے سلسلے میں واقع ہے اور ترکستان جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ماضی میں سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ رہا ہے۔ لہٰذا اگر شام کے شکار کے ٹکڑے ہونا ہیں تو یہ پورا پہاڑی سلسلہ اور سے ملحقہ بندرگاہ پر ترکی کا حق ہے۔ اب ترکی کو اُس کی اوقات یاد دلانے کے لئے روس میدان میں آکر دانت نکوس رہا ہے، شام کے شکار پر پنجے مار رہا ہے۔ امریکا نے ترکی کو روسی چارٹر طیارے کے بارے میں اطلاعات فراہم کر کے اس امر کا اہتمام کر دیا ہے کہ روس بھی شام کو تھوڑا سا سبق سکھا دے تا کہ شکار پر دعویدار کم ہو سکیں۔ اب روس کی بھی محلے میں تھوڑی بہت عزت ہے۔ وہ ترکی کی اینٹ سے اینٹ تو بجا نہیں سکتا جس طرح لیبیا کی ایک طیارہ گرائے جانے پر امریکا کی طرف سے بجائی گئی تھی۔

اب ایرانی کھیل کی حالت بہت عجیب ہے کیوں کہ عراق پر ایران کے قبضے کے لئے تووہاں پرمقاماتِ مقدسہ کی دلیل تراشی گئی تھی لیکن اب شام پر قبضے کا کیا جواز تراشا جائے گا؟ ان جوازیوں کے دلیل سے ہم جیسے لوگ آج کل باقاعدہ یرکے ہوئے ہیں کیوں کہ اگر یہی رحجان ِدلیل رو بہ عمل ہونا ہے تو پھر لاہور کے نواح میں شاہدرہ کے مقام پرتودخترِایران ،جہانگیر کی ملکہ نورجہاں کا مزار بھی واقع ہے۔کل کو یہاں پرکارروائی اور قبضے کا یہ جواز بھی تراشا جا سکتا ہے ۔ایران کی خواہش تو یہی ہے کہ شام کے معاملے کے انجام تک پہنچنے سے پہلے روس اپنے ہاتھوں سے ترکی کا ٹنٹا نکال دے تا کہ پھرسنجیاں ہو جان گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے۔لیکن

ہزراوں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے


متعلقہ خبریں


انٹربینک میں ڈالر مزید سستا وجود - منگل 02 نومبر 2021

انٹر بینک میں ڈالر 1.29روپے سستا ہو گیا۔فاریکس ڈیلرزایسوسی ایشن کے مطابق 1.29روپے قیمت کم ہونے کے بعد انٹربینک میں ڈالر170 روپے29 پیسے کا ہو گیا ۔26 اکتوبرکوڈالرکی قیمت نے تاریخی بلندی 175 روپے27 پیسوں کوچھولیا تھا۔26 اکتوبرسے تک ڈالرکی قیمت میں 4 روپے98 پیسوں کی کمی ریکارڈ کی گئ...

انٹربینک میں ڈالر مزید سستا

انٹربینک میں ڈالر مزید مہنگا وجود - پیر 18 اکتوبر 2021

انٹربینک میں ڈالر 173.24 روپے کا ہو گیا۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ، خام تیل کی عالمی قیمت میں اضافے سے درآمدی بل اور مہنگائی میں مزید اضافے جیسے عوامل کے باعث انٹربینک مارکیٹ میں کاروباری ہفتے کے پہلے روز ڈالر کی اونچی اڑان کے نتیجے میں انٹربینک نرخ 173 روپے سے بھی تجاوز کرگئے او...

انٹربینک میں ڈالر مزید مہنگا

شوکت ترین وزیراعظم کے مشیر خزانہ و ریونیو مقرر، نوٹیفکیشن جاری وجود - پیر 18 اکتوبر 2021

شوکت ترین کو ایک مرتبہ پھر مشیر خزانہ وریونیو تعینات کردیا گیا۔ شوکت ترین کی تقرری کے حوالے سے باقاعدہ نوٹیفکیشن کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری کردیا گیا ۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر اعظم عمران خان کی ایڈوائس پر شوکت ترین کی تقرری کی منظوری دی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق شوکت ترین...

شوکت ترین وزیراعظم کے مشیر خزانہ و ریونیو مقرر، نوٹیفکیشن جاری

حکومت کی نئی پریشانی، تیل کے درآمدی بل میں مسلسل اضافے سے تجارتی خسارے کا سامنا وجود - پیر 18 اکتوبر 2021

ملک کے تیل کی درآمد کا بل رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 97 فیصد سے بڑھ کر 4.59 ارب ڈالر ہو گیا جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 2.32 ارب ڈالر تھا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی اضافے کی وجہ بنی ہے۔تیل کے درآمدی بل میں مسلسل ...

حکومت کی نئی پریشانی، تیل کے درآمدی بل میں مسلسل اضافے سے تجارتی خسارے کا سامنا

آئی ایم ایف کی قرض فراہمی کے لیے مستثنیٰ اشیا پر17فیصد سیلز ٹیکس کی شرط وجود - جمعه 15 اکتوبر 2021

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے قرض پروگرام بحال کرنے کیلئے پاکستان کے سامنے نئی شرط رکھ دی ہے۔ آئی ایم ایف نے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے سخت شرط رکھی ہے جس کے تحت حکومت نے جن اشیا پر ٹیکس چھوٹ دے رکھی ہے ، ان پر بھی 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانا ہوگا۔آئی ایم ایف کی نئی شرط کے تحت ...

آئی ایم ایف کی قرض فراہمی کے لیے مستثنیٰ اشیا پر17فیصد سیلز ٹیکس کی شرط

لبنان قحط کے دہانے پر، لوگ فیس بک پراعضا فروخت کرنے لگے وجود - منگل 12 اکتوبر 2021

عرب دنیا کے پیرس کہلانے والے لبنان میں گزشتہ کچھ عرصے سے معاشی حالات اس تیزی کے ساتھ ابتر ہوئے ہیں کہ ملک قحط کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ عوام کی زندگی مشکلات سے دوچار ہوگئی ہے اور سنہ 2019 کے اختتام کے بعد سے معاشی حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کوروز مرہ ایندھن ، ادویات ...

لبنان قحط کے دہانے پر، لوگ فیس بک پراعضا فروخت کرنے لگے

مرکزی بینک آف انڈیاا سٹیٹ بینک آف پاکستان کا 45 کروڑ 60 لاکھ کا مقروض نکلا وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

مرکزی بینک آف انڈیا اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا 45 کروڑ 60 لاکھ کا مقروض نکلا۔ تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک آف انڈیا کا اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مقروض ہونے کا انکشاف ہوا ہے، ممبر قومی اسمبلی رانا تنویر حسین کی زیر صدارت پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا، قیام پاکستان کے وقت پاکستان چھو...

مرکزی بینک آف انڈیاا سٹیٹ بینک آف پاکستان کا 45 کروڑ 60 لاکھ کا مقروض نکلا

ڈالر مافیا کے 54 افراد میں سے 37 کا تعلق خیبر پختون خوا سے نکلا وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

ڈائریکٹر ایف آئی اے ناصر محمود ستی نے انکشاف کیا ہے کہ ڈالر مافیا کے 54 افراد میں سے 37 کا تعلق خیبر پختون خوا سے ہے۔ تفصیلات کے مطابق ہنڈی اور کرنسی کاروبار میں گرفتار ملزمان کے کیس کی پشاور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی ے نے عدالت کو بتایا کہ ملک بھر میں 54 افراد ا...

ڈالر مافیا کے 54 افراد میں سے 37 کا تعلق خیبر پختون خوا سے نکلا

پینڈورا لیکس میں شامل افراد کے اثاثے ضبط کرنے کا مطالبہ،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کاوزیراعظم کو خط وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لیکس میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے، 2016میں پاناما پیپرزمیں 4500 پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق پٹشنز دائر ہوئیں،ایس ای سی پی ،اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، عدالت ...

پینڈورا لیکس میں شامل افراد کے اثاثے ضبط کرنے کا مطالبہ،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کاوزیراعظم کو خط

شوکت ترین سے وزارتِ خزانہ واپس لینے کا فیصلہ،مشیر خزانہ کے طور پر کام کریں گے وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

حکومت نے شوکت ترین سے وزارت خزانہ واپس لے کر انہیں مشیرخزانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع کے مطابق 16 اکتوبرکوشوکت ترین سے وفاقی وزیرکا عہدہ واپس وزیراعظم کے پاس چلا جائیگا۔ آئین کے تحت وزیراعظم کسی غیرمنتخب شخص کو 6 ماہ کے لیے وفاقی وزیر بنا سکتے ہیں۔ذرائع کے مطابق شوکت ترین بطور...

شوکت ترین سے وزارتِ خزانہ واپس لینے کا فیصلہ،مشیر خزانہ کے طور پر کام کریں گے

بینک صارفین کی بینکوں کی خدمات سے متعلق شکایات بڑھ گئیں وجود - جمعرات 07 اکتوبر 2021

ڈیجیٹل ادائیگیوں، ای کامرس اور آن لائن بینکاری کی سہولت کے استعمال کے ساتھ بینک صارفین کی بینکوں کی خدمات سے متعلق شکایات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔بینکنگ محتسب کو گزشتہ سال جنوری تا دسمبر 2020کے دوران بینکوں سے متعلق صارفین کی 24750شکایات موصول ہوئی تھیں تاہم رواں سال پہلے ...

بینک صارفین کی بینکوں کی خدمات سے متعلق شکایات بڑھ گئیں

کوئلہ مہنگا،سیمنٹ کی پیداواری لاگت میں اضافہ کھپت 12 فیصد کم وجود - منگل 05 اکتوبر 2021

کوئلہ مہنگا، اضافی کرایہ اور روپے کی گرتی قدر نے سیمنٹ کی پیداواری لاگت بڑھا اور کھپت 12 فیصد گھٹا دی۔آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچرز ایسوسی ایشن کے مطابق رواں سال ستمبر میں سیمنٹ کی کھپت 45 لاکھ 89 ہزار ٹن رہی، جو ستمبر 2020 کے مقابلے میں 12 فیصد کم ہے۔رواں سال ستمبر میں سیمنٹ کی مق...

کوئلہ مہنگا،سیمنٹ کی پیداواری لاگت میں اضافہ کھپت 12 فیصد کم

مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر