وجود

... loading ...

وجود
وجود

کراچی کا بلدیاتی درجہ حرارت

جمعرات 03 دسمبر 2015 کراچی کا بلدیاتی درجہ حرارت

karachi-LG-elections

کراچی نے بلدیاتی انتخابی مہم کا سب سے بڑا دن (اتوار)امن و امان سے گزار لیا ۔ہر سیاسی پارٹی نے طاقت دکھائی اورکراچی نے اِسے خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی مرکز کو رواں دواں رہنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی۔بلدیاتی انتخابی مہم کے دوران عجیب بات نظر آئی کہ عوام کسی بھی پارٹی کے لیے ماضی کی طرح جوش و خروش کے ساتھ نہیں نکلے۔غالباً اس لیے بھی کہ الیکٹرانک میڈیا سب کچھ گھر بیٹھے دکھا دیتا ہے، چنانچہ عوام دھوپ دھول اور مٹی میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عوام سیاسی جماعتوں کے اقدامات سے اس قدرمایوس ہیں کہ روٹھ کرگھربیٹھ رہے۔ پاکستان میں سیاست اور عوامی خدمت کاروبار بن گیا ہے۔الیکشن کے بعد سیاست کاروں کی بے رخی نے عوام کو سیاسی جماعتوں سے دور کردیا ہے جس کی تازہ جھلک اتوار کے روز کراچی میں نظر آئی۔گرما گرمی تو بہت تھی لیکن یہ بیانات اور تقاریر تک محدود رہی۔کارکنوں اورحامیوں نے پر جوش شرکت نہیں کی۔یہ رجحان آہستہ آہستہ لوگوں کو جمہوریت سے دور کرنے کا ’’سنہری موقع ‘‘فراہم کرنے کا باعث بن رہا ہے۔عمران خان نے تو یہ کہہ کرجلتی پر تیل ڈالا کہ’’اسمبلیوں‘‘ میں ڈاکو بیٹھے ہوئے ہیں۔ جمہوریت کے کسی بھی سرخیل نے اس بیان کی مذمت نہیں کی، خاموشی دلیل بن رہی ہے کہ یہ الزام سچ ہے۔پاکستان کے 73کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کرنے والے رضا ربانی بھی خاموش رہے لیکن کیا کراچی 5دسمبر کو بھی خاموش رہے گا؟ یا سیاسی کارکن ووٹرز کی بڑی تعداد کو پولنگ اسٹیشن تک لے آئیں گے۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کراچی کا ’’مختصر دورہ کیا۔‘‘وقت تو دو دن کا تھا لیکن جس نے بھی شیڈول ترتیب دیا وہ عمران خان کا خیرخواہ نہیں ہے، افراتفری کا عالم نظرا ٓیا،ہڑبونگ مچی رہی۔جہاں جانا تھا وہاں نہیں گئے جہاں نہیں رکنا تھا وہاں چار پانچ گھنٹے گزار دیئے۔داؤد چورنگی پر شرکا انتظار کرتے رہے۔مشتعل کارکنوں کے غیظ و غضب نے رہنماؤں کو’’روپوش‘‘ ہونے پر مجبور کردیالیکن تب تک کپتان ایئرپورٹ پہنچ چکے تھے۔لیاری کا جلسہ بھی توقع کے مطابق نہ تھا۔عوام کی تعداد کسی بڑی عمرکے سرکے سفید بالوں کی جھالر کی طرح نظر آرہی تھی۔عمران خان اردوبولنے والے علاقوں میں نہیں گئے ۔صرف فائیواسٹار چورنگی پر ہاتھ ہلانے کے لیے رکے اورتیزی سے نکل گئے۔کراچی کے عوام تو وزیر اعظم سے شکوہ کرتے تھے کہ وہ کراچی کا مختصر ترین دورہ کرتے ہیں۔اب وہ’’نیا کراچی‘‘ بنانے والے لیڈر سے بھی یہی گلہ کررہے ہیں ۔

غیر جانبدار تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ”ایم کیو ایم کی کامیابی میں ان کی طاقت کا اتنا بڑا دخل نہیں ہوگا جتنا ان کے مخالفین کی تنظیمی کمزوریاں اور غلطیاں اس کا سبب ہوں گی

پیپلز پارٹی نے اتوارکو شیری رحمن کی قیادت میں بلاول ہاؤس چورنگی سے سپارکو چورنگی تک ریلی نکالی ۔ پیر کو پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس اور بلدیاتی الیکشن کا’’ٹو ان ون ‘‘جلسہ ملیر میں ہوا۔جلسے سے بلاول بھٹو زرداری نے خطاب کیا ،یوں کراچی میں ایک بار پھر ان کی دستار بندی کی گئی لیکن یہاں بھی عوام کا وہ جوش وخروش نظر نہیں آیا جو پیپلز پارٹی کا خاصا رہا ہے۔ملیر اور لیاری میں پیپلز پارٹی نے کبھی راج کیا تھالیکن اب لیاری ہاتھ سے نکل گیا اور ملیر کو بچانے کی کوششیں میمن گوٹھ کے جلسے میں نظر آئیں۔

ایم کیو ایم کی انتخابی مہم میں بھی جوش و خروش کا فقدان تھا۔ایم کیو ایم کو بیک وقت مختلف اتحادوں اور’’نہ رکنے‘‘ والے آپریشن کا سامنا ہے۔ایم کیو ایم نے اپنی تنظیمی قوت سے کراچی میں اپنی طاقت کا جال بچھا رکھا ہے۔ ان کے پاس مہاجر قومیت اور علیحدہ صوبے کا مسحورکن نعرہ ہے۔کراچی میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس کارکنوں کی اتنی بڑی فوج نہیں جتنی اکیلے ایم کیو ایم نے جمع کررکھی ہے۔جماعت اسلامی ابتدا میں مہاجر جماعت تھی اور بھارت کے شہرحیدرآباد دکن سے آنے والے ان کے بانی کراچی میں کچھ دن قیام کے بعد لاہور منتقل ہوگئے کیونکہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی تھی کہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ پنجاب بننے والا ہے لیکن 1970 کے الیکشن میں جماعت اسلامی نے کراچی سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیت کر خود کو تقویت پہنچائی تھی اور بھٹو کے خلاف تحریک میں مہاجروں نے دل اور تجوری کھول کر ساتھ دیا تھا۔1977 میں جنرل ضیا الحق آئے اور انہوں نے بھی کہا کہ’’ میں مہاجر‘‘ ہوں لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ بات منظر عام پر آئی کہ وہ مسلم اقلیتی صوبوں کے نہیں جالندھر کے مہاجر ہیں۔جماعت اسلامی کراچی کی اس بدلی ہوئی فضا میں اپنی طاقت کو سمیٹ رہی تھی کہ افغانستان میں روس داخل ہوا اورافغان جہاد شروع ہوگیا۔ جماعت اسلامی نے پشاور سے اپنا امیر منتخب کرلیاتو کراچی کے مہاجر قومی سیاست میں تنہا ہوگئے۔ ابھی مہاجر اس صدمے سے نکلے بھی نہیں تھے کہ جماعت اسلامی نے کراچی کے میئر کی چابی عبدالستار افغانی کو دیدی ۔مرے کو مارے شاہ مدار!

کہا جانے لگا کہ مہاجروں کو اپنی قوت کو ’’ایٹمی طاقت ‘‘میں تبدیل کرنا پڑے گا۔ پورا شہر اور اندرون سندھ کی مہاجر آبادی الطاف حسین کے پیچھے چل پڑی۔عبدالستار افغانی نے ایک نئے آئیڈیا پر کام کیا۔کراچی کی سرکاری زمینوں پر قائم ہونے والی کچی آبادیوں کو’’مفت عوامی ‘‘نلکوں کے ذریعے پانی دینے کا اعلان کیا اور جہاں پائپ لائن نہیں تھی وہاں بھی ٹینکروں کے ذریعے مفت پانی سپلائی کیا گیا تاکہ ان کچی آبادیوں میں جماعت اسلامی کی طاقت کومنظم کیا جائے۔ابتدا میں جماعت اسلامی اس مشن میں کامیاب بھی ہوئی لیکن اس کی پکائی اس دیگ کو چٹ کرنے کے لیے اے این پی اور پنجابی پختون اتحاد آگے بڑھے۔جماعت اسلامی کے لیے یہ کٹھن مرحلہ تھا کہ’’دکھ‘‘ سہے بی فاختہ اور کوے انڈے کھانے آجائیں ۔اور ایسا ہوا بھی کوؤں نے مزے سے انڈے کھائے اور جماعت اسلامی کراچی کی سیاست سے کچھ اور دور کردی گئی۔ اگر اس وقت جماعت اسلامی کراچی کے مسائل کو لے کر آگے بڑھتی تو ایم کیو ایم کو اتنا موقع نہ ملتاکیونکہ ایم کیو ایم کی لیڈر شپ ابھی نووارد تھی ،تجربے کی کمی تھی، پیسہ اور وسائل بھی نہ ہونے کے برابر تھے مگر جماعت خود کو مذہبی سیاست تک محدود رکھ کر کراچی کی پالیٹکس پر قبضہ واپس لینا چاہتی تھی لیکن وقت اور حالات بدل گئے تھے۔آج بھی جماعت اسلامی یہ کہتی ہے کہ وہ عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کے دور کو واپس لانا چاہتی ہے۔ ان کا یہ بھی دعوی ہے کہ کراچی والے ان دونوں شخصیات جیسے میئر کا انتظار کررہے ہیں۔نعمت اللہ خان کی سوچ اور فکر کو سمجھنے کے لیے ان کے یہ ریمارکس ہی کافی ہیں کہ ’’کچی آبادیا ں ‘‘کراچی کے ماتھے کا جھومر ہیں ،جبکہ وہ خود کراچی کے پوش علاقے نارتھ ناظم آباد میں رہائش پذیر ہیں۔یہ اور بات ہے کہ جماعت اسلامی 5دسمبر کے بلدیاتی انتخابات کے لیے انتخابی مہم میں نعمت اللہ خان کو’’فاتح ‘‘کراچی کی حیثیت سے ا سٹیج پر اور عمران خان کے ساتھ ٹرک پرنہیں لائی جبکہ شخصی طور پر نعمت اللہ خان بہت نرم مزاج اور خوش اخلاق انسان ہیں اور اپنے مدمقابل کو قائل کرنے اور ساتھ لے کر چلنے کا فن بھی خوب جانتے ہیں۔یہ تو جماعت اسلامی ہی بتاسکتی ہے کہ اتنی اہم شخصیت جس کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی زبان نہیں تھکتی میدان میں کیوں نہیں لائی گئی ؟

ایم کیو ایم کے کارکن بلدیاتی انتخابی مہم کے لیے جب گھر گھر جاتے ہیں تو خواتین بڑے تیکھے سوالات کرتی ہیں ’’ ہم اپنا ووٹ‘‘ لندن والے بھائی کو دے دیں گے لیکن کم از کم میرے بیٹے کا چھینا ہواموبائل فون تو واپس دلوادیں

5 دسمبر کے انتخابات کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم اِس بار اتنی آسانی سے الیکشن نہیں جیت سکے گی اور ایم کیو ایم کے سب سے بڑے مخالف ذوالفقار مرزا کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ الیکشن تو جیتے گی لیکن مارجن اتنا بڑا نہیں ہوگا۔غیر جانبدار تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ”ایم کیو ایم کی کامیابی میں ان کی طاقت کا اتنا بڑا دخل نہیں ہوگا جتنا ان کے مخالفین کی تنظیمی کمزوریاں اور غلطیاں اس کا سبب ہوں گی۔ایم کیو ایم کے کارکن بلدیاتی انتخابی مہم کے لیے جب گھر گھر جاتے ہیں تو خواتین بڑے تیکھے سوالات کرتی ہیں ’’ ہم اپنا ووٹ‘‘ لندن والے بھائی کو دے دیں گے لیکن کم از کم میرے بیٹے کا چھینا ہواموبائل فون تو واپس دلوادیں۔یہ مخالفین کے جھوٹے پروپیگنڈے کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے لیکن ایم کیو ایم کو کئی مقامات پر کڑے سوالات اور رکاوٹوں کا سامنا ہے مگر ان کے مخالفین اس سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔کئی جگہ یہ بحث دیکھی گئی کہ جماعت اسلامی ایم کیو ایم کو سیدھا کرنے کیلئے اپنے ’’بڑے بھائی‘‘ تحریک انصاف کو لے آئی لیکن اتوار کے روز ریلی کے آدھے راستے سے عمران خان کاٹرک سے اتر جانا تجسس کا باعث بنا ہوا ہے۔کراچی کی انتظامیہ کا یہ مزاق بھی سمجھ نہیں آتا کہ عمران خان کو جیل کے پاس کیوں اتارا گیا ؟ وہ کیا پیغام دینا چاہتے تھے؟اور جماعت اسلامی کے امیر کو بچی کھچی ریلی کے ساتھ قائد اعظم کے مزار پر کیوں بھیج دیا گیا؟ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان دھرنے کے دنوں کے دوران’’لندن‘‘ والے سے آشیرواد لے کر مزار قائد کے قریب میدان میں جلسہ کرنے کے لیے آئے تھے ۔انتظامیہ نے مزار قائد کے دروازے کھلے رکھے لیکن وقت کی کمی نے اس لیڈر کو پاکستان کے سب سے بڑے لیڈر کی قبرپر نہیں جانے دیا۔

بلدیاتی انتخابات ایم کیو ایم کے لیے کیا نتیجہ لاتے ہیں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔1986 سے 2015 تک کراچی کی سیاست میں بلاشرکت غیرے غالب کردار ادا کرنے والی تنظیم کو اب اپنی کامیابیوں کے اسباب اور غلطیوں کے نتائج کا بھی جائزہ لینا پڑے گا۔ ایم کیو ایم کے اس نعرے نے کراچی میں بہت بڑی حمایت پیدا کردی ہے کہ ’’کام ‘‘تو اپنے ہی آتے ہیں ۔اس نعرے نے بکھرے ہوئے اردوا سپیکنگ لوگوں کو دوبارہ اکٹھا کردیا ہے لیکن انہیں بھی اپنا بن کر دکھانا پڑے گا نعرے کو عملی جامہ پہنانا پڑے گا ۔

سندھ حکومت نے بلدیاتی اداروں کے بہت سے اختیارات منتخب نمائندوں سے چھین کر ’’دیہی بیوروکریسی‘‘ کے ہاتھ میں دے دیئے۔لگتا ہے کہ یہ معاملہ کسی بڑی لڑائی کا نقطہ آغاز بنے گا۔خود فاروق ستار نے اپنے اگلے منشور کا اعلان اِن الفاظ میں کیا تھا کہ ’’میئر‘‘کے لیے وزیر اعلیٰ کو آدھے اختیارات چھوڑنا پڑیں گے ورنہ۔دوسری جانب سندھ حکومت کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کراچی کا پراپرٹی ٹیکس اور موٹر وہیکل ٹیکس جو بلدیہ کراچی کا حق ہے اس کے اکاؤنٹ میں نہیں جاتا۔اسی وجہ سے کراچی کی سڑکیں موئن جو دڑو کی سڑکوں کے سامنے بھی شرمندہ نظر آتی ہیں۔


متعلقہ خبریں


سندھ حکومت کراچی ، حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے پر بضد وجود - بدھ 02 نومبر 2022

سندھ حکومت نے کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن نہ کرانے کے حوالے سے اپنی ضد پر قائم ہے۔ سندھ حکومت کا الیکشن کمیشن کے خط کا جواب دیتے ہوئے کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کیلئے پولیس موجود نہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کیلئے سندھ حکومت...

سندھ حکومت  کراچی ، حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے پر بضد

بلدیاتی انتخابات : سندھ حکومت روڑے اٹکانے میں مصروف وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

حکومت سندھ نے ایک مرتبہ پھر بلدیاتی انتخابات میں روڑے اٹکاتے ہوئے الیکشن کمیشن کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی استدعا کر دی ہے۔ حکومت سندھ کی جانب سے الیکشن کمیشن کو 3 ماہ کے لیے انتخابات ملتوی کرنے کا مراسلہ لکھا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات ...

بلدیاتی انتخابات : سندھ حکومت روڑے اٹکانے میں مصروف

متحدہ قومی موومنٹ نے الیکشن کمیشن کی قانونی حیثیت کو عدالت میں چیلنج کردیا وجود - بدھ 08 جون 2022

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے الیکشن کمیشن کی قانونی حیثیت کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ بدھ کوسندھ ہائیکورٹ نے ایم کیو ایم پاکستان کی درخواست پرفریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان، الیکشن کمیشن اور دیگر سے جواب طلب کرلیا۔ جسٹس جنید غفار نے نوٹیفکیشن فوری معط...

متحدہ قومی موومنٹ نے الیکشن کمیشن کی قانونی حیثیت کو عدالت میں چیلنج کردیا

تاریخی کراچی کارواں، جماعت اسلامی کا چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری تک جدوجہد کا اعلان وجود - پیر 30 مئی 2022

شہر میں پانی کے شدید بحران، ٹینکرمافیا اور واٹر بورڈ کی ملی بھگت اور کراچی کے لیے 650 ملین گیلن کے K-4 منصوبے میں کٹوتی، سرکاری سرپرستی میں کے الیکٹرک کی ظلم وزیادتی، شدید لوڈشیڈنگ اورنرخوں میں اضافہ، کراچی کے نوجوانوں کی سرکاری ملازمتوں میں حق تلفی اور جعلی مردم شماری کے خلاف کر...

تاریخی کراچی کارواں، جماعت اسلامی کا چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری تک جدوجہد کا اعلان

پانی کا بحران' جماعت اسلامی نے 20مئی کو واٹر بورڈ ہیڈ آفس کے گھیراؤ کا اعلان کردیا وجود - منگل 10 مئی 2022

امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ واٹر بورڈ کرپشن کا اڈہ بن چکا ہے ، پانی لائنوں میں فراہم کرنے کے بجائے ٹینکروں کے ذریعے فروخت کیا جا رہا ہے ،شہریوں کے ساتھ واٹر بورڈ کے اس ظالمانہ سلوک ، شہر کے بیشتر علاقوں میں پانی کی عدم فراہمی اور بحران کے خلاف 20مئی جمع...

پانی کا بحران' جماعت اسلامی نے 20مئی کو واٹر بورڈ ہیڈ آفس کے گھیراؤ کا اعلان کردیا

بلدیاتی انتخابات، الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت سے فنڈز مانگ لیے وجود - جمعرات 17 فروری 2022

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب، سندھ، بلوچستان اور اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے لیے وفاقی حکومت سے 18 ارب روپے سے زائد کے فنڈز مانگ لئے۔ چیف الیکشن کمشنر کی منظوری کے بعد کابینہ ڈویژن کو بھجوائی گئی سمری میں کہا گیا ہے کہ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور وفاقی دارالحکومت میں بلد...

بلدیاتی انتخابات، الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت سے فنڈز مانگ لیے

حکومت ہٹاؤ مہم،آصف زرداری لاہور میں متحرک ،ملتان روانگی بھی موخر وجود - بدھ 09 فروری 2022

حکومت ہٹاؤ مہم کے سلسلے میں آصف زرداری لاہور میں متحرک ہوگئے ہیں۔ سابق صدر اور شریک چیئرمین پی پی آصف زرداری نے حکومت ہٹاؤ مہم کے باعث ملتان روانگی بھی موخرکردی ہے۔ ذرائع کے مطابق سابق صدر آصف زرداری نے سیاسی میدان میں ایک اور انٹری کی تیاری کرلی ، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق...

حکومت ہٹاؤ مہم،آصف زرداری لاہور میں متحرک ،ملتان روانگی بھی موخر

بلدیاتی انتخابات میں شکست کا خوف،پی ٹی آئی کا جلسے شروع کر نے کا فیصلہ وجود - منگل 08 فروری 2022

پاکستان تحریک انصاف نے بڑے پیمانے پر جلسے شروع کر نے کا فیصلہ کیا ہے جس کی منظوری وزیراعظم عمران خان نے دیدی ہے ۔ پیر کو وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں پنجاب،کے پی بلدیاتی انتخابات کی حکمت عملی پر غورکیاگیا۔ اجلاس میں پی ٹی آئی کا بڑے پیم...

بلدیاتی انتخابات میں شکست کا خوف،پی ٹی آئی کا جلسے شروع کر نے کا فیصلہ

جماعتِ اسلامی،حکومتِ سندھ کا معاہدہ سامنے آگیا وجود - هفته 29 جنوری 2022

سندھ ترمیمی بلدیاتی قانون 2021 میں تبدیلی کے لیے جماعتِ اسلامی اور حکومت سندھ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی تفصیلات منظر عام پر آگئی ہیں۔ اس معاہدے کے نتیجے میں جماعتِ اسلامی نے 29 روز سے سندھ اسمبلی پر جاری اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ جماعتِ اسلامی اور حکومتِ سن...

جماعتِ اسلامی،حکومتِ سندھ کا معاہدہ سامنے آگیا

وزارتِ سائنس کی اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات میں ای وی ایم مشینوں کی فراہمی سے معذرت وجود - جمعه 28 جنوری 2022

وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ (ای وی ایم) مشینیں فراہم کرنے سے معذرت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو جوابی خط ارسال کردیا۔ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے موصول ہونے والے خط کے جواب میں اسلام آباد ب...

وزارتِ سائنس کی اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات میں ای وی ایم مشینوں کی فراہمی سے معذرت

جماعت اسلامی اور سندھ حکومت کے بیک ڈور مذاکرات میں اہم ترین پیش رفت وجود - جمعرات 27 جنوری 2022

شہر قائد میں ستائیس روز سے جاری جماعت اسلامی کا دھرنا رنگ لانے لگا ہے، جماعت اسلامی اور سندھ حکومت کے بیک ڈور مذاکرات میں اہم ترین پیشرفت ہوئی ہے۔ذرائع کے مطابق سندھ حکومت نے بعض اہم بلدیاتی ادارے میئر کے ماتحت کرنے کا عندیہ دے دیا ہے، بلدیاتی قانون میں کم از کم 3 اہم شعبے میئر ک...

جماعت اسلامی اور سندھ حکومت کے بیک ڈور مذاکرات میں اہم ترین پیش رفت

جماعت اسلامی کا حکومت کے خلاف فیصلہ کن تحریک کا اعلان، اسٹیٹ بینک کے گھیراؤ کا اشارہ وجود - اتوار 02 جنوری 2022

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ آج ہمارا اسٹیٹ بینک اب ہمارا نہیں، گورنر اسٹیٹ بنک آئی ایم ایف کو جوابد ہے، اس سے استعفیٰ لیا جائے، اگر گورنر سٹیٹ بنک کو نہ ہٹایا گیا تو ہم سٹیٹ بنک کا گھیراؤ کر سکتے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کرپٹ حکمرانوں اور سودی نظام کی وجہ سے ہے۔آج ملک می...

جماعت اسلامی کا حکومت کے خلاف فیصلہ کن تحریک کا اعلان، اسٹیٹ بینک کے گھیراؤ کا اشارہ

مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر