... loading ...
پاکستان کے مرکزی ذرایع ابلاغ کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ چنانچہ یہاں ہر چیز غیر یقینی ہوتی ہے۔ ٹیلی ویژن کی چکاچوند دنیا میں تو روز نیے نیے شگوفے پھوٹتے ہیں۔ اب نیا کھڑاگ خود کھڑاگ کھڑے کرنے کے شوقین مشہور ٹی وی میزبان افتخار احمد کے متعلق ہی کھڑا ہوا ہے۔افتخار احمد نے دنیا ٹی وی سے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ اُنہوں نے اپنے “ٹوئیٹ ” میں یہ کہا ہے کہ اُن کے لیے یہ ایک تاریخی تجربہ تھا۔ مگر دنیا ٹی وی کے اندرونی حالات کو جاننے اور سمجھنے والے بخوبی آگاہ ہے کہ وہاں آدمی کے لیے کوئی تجربہ نہیں ہوتا بلکہ خود آدمی دنیا ٹی وی کی انتظامیہ کے لیے ایک تجربہ ہوتا ہے۔ زیادہ بہتر الفاظ میں دنیا ٹی وی کی انتظامیہ کے لیے خو دافتخار احمد ایک تاریخی تجربہ ثابت ہوئے ہوں گے۔
دنیا ٹیلی ویژن سے ہی “مستعفی” ہونے والے ایک اور میزبان سمیع ابراہیم نے استعفے کی اندرونی وجوہات آشکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افتخار احمد 11 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے لیے قائم سیل کے نگران تھے۔ یہ سیل کل اکیاون افراد پر مشتمل تھا ۔ مگر وہ اس میں کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکے ۔ اور نتائج دینے میں دیگر ٹیلی ویژن کے مقابلے میں کوئی پہل کاری نہیں کر سکے۔
وجود ڈاٹ کام کو اپنے ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ افتخار احمد کے مراسم ٹی وی انتظامیہ سے پہلے ہی خراب ہو چکے تھے۔ افتخار احمد جیو سے وابستہ تھے۔ جہاں اُن کے معاملات جیو کے مالکان سے خراب ہوگیے تھے۔(یہاں اس کی تفصیلات کی ضرورت نہیں) اس دوران میں مصنوعی اور ناقابل عمل دعووؤں کے ساتھ ابھرنے والے ایک نیے میڈیا ہاؤس “بول “کے لیے اُنہوں نے اڑان بھری۔ جیو کے مالک میر شکیل الرحمان ایک سال سے اپنے ہی ملازمین کے دباؤ کے شکار تھے اور بول کے آنے کے باعث تنخواہوں میں اضافوں سے اپنے چمکتے ملازمین کو مسلسل روک رہے تھے۔افتخار احمد جیو میں بھی الیکشن سیل کے نگران ہوتے تھے۔جہاں اُن کے مسائل جیو کے ایک اور منفرد میزبان سہیل ورائچ سے رہتے تھے۔ سہیل ورائچ جو اپنی مخصوص آواز کے زیروبم اور رُکتے رڑکتے لہجے کے باعث دنیا کے کسی بھی ٹیلی ویژن کے کسی بھی پیمانے پر پورے نہیں اُتر سکتے تھے، پاکستان میں نہ صرف مشہور ہوئے بلکہ سب سے زیادہ اُن کی آواز کی پیروڈی بھی کی گئی۔ مگر اس کے باوجودیہ ایک سچ ہے کہ وہ کسی بھی نوع کے انتخابات پر سب سے زیادہ گہری نظر رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور پاکستان کے انتخابات کے اسرارورموز اور حلقوں کی سیاست کو خوب سمجھتے ہیں۔ افتخار احمد اس باب میں قدرے کمزور ثابت ہوتے رہے ہیں۔ مگر وہ الیکشن سیل کے معاملات کی نگرانی اپنے پاس رکھنے میں جیو میں کامیاب رہتے تھے۔ جیو ایک وسیع تر نیٹ ورک کے علاوہ پاکستانی سیاست کو سمجھنے کی پاکستان جتنی ہی تاریخ کا حامل ایک ایسا ادارہ ہے جس سے ہر ٹیلی ویژن نیٹ ورک مقابلہ کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے افراد کو توڑ لینے سے وہ بھی جیو پر سبقت حاصل کرسکتے ہیں۔ اس باب میں وہ یہ نظرانداز کر جاتے ہیں کہ یہ ایک ادارتی عمل ہے اور مسلسل مشق کا نتیجہ ہے۔ جس میں افراد ایک “برانڈ” کی شکل میں پائے جاتے ہیں۔ مگر وہ حتمی اثر ڈالنے یا پیدا کرنے والی حیثیت نہیں رکھتے۔ جیو کو سمجھنے میں ناکامی کے باعث دوسرے ٹیلی ویژن نیٹ ورک مسلسل ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں۔ دنیا ٹی وی کے سارے تجربات اسی سوچ کا نتیجہ ہے جس میں اُن کی تازہ ناکامی افتخار احمد کی صورت میں سامنے آئی ہے۔افتخار احمد کی ساری گونج گمک جیو کا نتیجہ تھی۔ بول نے ان ناموں کو خریدتے ہوئے یہ بات فراموش کردی اور اب دنیا بھی بول کے راستے آتے ہوئے ان جیو کے میزبانوں سے وہی اُمیدیں لگائے بیٹھا ہے جو جیو پر سبقت کے حوالے سے بہت پُرانی ان میں موجود ہیں۔
دنیا میں افتخار احمد کا معاملہ اس حوالے سے زیادہ بھیانک ہے کہ وہ دنیا کے اپنے مزاج اور ادارتی نمونے کے تحت ایک سیمسٹر بھی پورا نہ کرسکے۔ اور صرف دو ماہ سے بھی کم عرصے میں ادارے سے نکال باہر کیے گئے۔ اگر چہ افتخار احمد نے دنیا سے استعفی دیا ہے۔ مگر اس کی تفصیلات سے اندازا ہوتا ہے کہ دراصل معاملہ کیا ہوا ہے؟
افتخار احمد کو دنیا کی انتظامیہ نے ضمنی انتخابات کے اگلے روز یعنی 12 اکتوبر کو طلب کیا اور اُن سے پوچھا کہ وہ الیکشن سیل سے نتائج میں سبقت کیوں نہیں لے سکے؟ پھر اُن کے دیئے گیے نتائج غلط بھی ثابت کیوں ہوتے رہے؟ اُن پر ایک الزام یہ بھی لگایا گیا کہ اُنہوں نےاکیاون رکنی الیکشن سیل میں اپنے صاحبزادے سمیت زیادہ تر رشتہ داروں کو بھرتی کیوں کیا؟ظاہر ہے کہ افتخارا حمد نے الزامات کی وضاحت کے بجائے استعفے کا راستا چنا۔
ان الزامات کو دیکھنے کے دو زاویئے ہیں۔ پہلا زاویہ تو یہ ہے کہ افتخار احمد اپنے مشہو ر پروگرام جوابدہ میں پاکستان کے تقریباً تمام اہم سیاست دانوں سے اُن کے اقتدار کے زمانے میں اقرباپروری کے بارے میں سوالات کرتے رہے ہیں۔ مگرجب اُنہیں ایک “چھوٹے” ادارے کے نہایت “چھوٹے لوگوں “کے درمیان ایک” چھوٹے سے عرصے” کے لیے بہت ہی “چھوٹے سے اختیارات “ملے تو وہ خود بھی اقرباپروری کے شکار ہوئے۔ جب ایک الیکشن سیل کے قیام میں اقرباپروری سے وہ خود کو بچا نہیں پاتے تو پھر الیکشن کے بعد آنے والے اپنے زیادہ بڑے اقتدار میں سیاست دان خود کو کیسے بچا پائیں گے؟ یہ معاملہ قوت کے بارے میں رائج اس تصور کے عین مطابق ہے کہ کم طاقت کم خرابیوں کو جنم دیتی اور زیادہ طاقت زیادہ بڑی خرابیوں کو جنم دیتی ہے۔
افتخار احمد کی حد تک تو اس معاملے کا یہ زاویہ ہے مگر خود دنیا ٹیلی ویژن کی انتظامیہ کے لیے ایسے الزامات کسی اور پر لگانا اس لیے موزوں نہیں ہے کہ وہ دن رات ، اور نیچے سے اوپر تک سارے کام خود اسی طرح کرتے ہیں۔ دنیا کی ادارہ جاتی بناؤٹ میں یہ الزامات افتخار احمد کے ساتھ مخصوص نہیں کیے جاسکتے۔ دنیا کی انتطامیہ نے یہ ادارہ کسی اُصول پر چلانے کے بجائے اسے محض اپنی خواہشات ، سفارشات اور تعلقات کی آکاس بیل سے باندھے رکھا ہے۔ جس میں افراد کا آنا جانا اور اُن کی قیمت کا مول تول ایک منڈی کی طرح لگا رہتا ہے۔وجود ڈاٹ کام سے دنیا ٹی وی کی انتظامیہ میں اوپر کی سطح پر کام کرنے والے ایک اہم ترین سابق افسر نے کہا کہ “مجھے لگتا ہے کہ افراد کو لانے اور نکال باہر کرنے میں دنیا کی انتظامیہ کے لیے کوئی نفسیاتی تسکین کا سامان بھی ہوتا ہے۔” جب اُن سے پوچھا گیا کہ نفسیاتی تسکین سے اُن کی کیا مراد ہے؟ تو اُن کا جواب تھا کہ “وہ افراد جو کبھی آپ کے لیے بہت اہم اور ناقابل رسا رہے ہو اگر دولت کے بل بوتے پر آپ کے رحم وکرم پر آجائیں تو اُن کو لانا اور لے جانا بس قربانی کے جانو ر کی طرح کا معاملہ ہو جاتا ہے۔ ”
شاید اسی وجہ سے دنیا ٹی وی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس کا معاملہ بھی عارضی دنیا کی طرح ہے۔عارضی دنیا کی واحد یقینی چیز اُس کی غیر یقینیت ہے ۔ اسی طرح دنیا ٹی وی کا معاملہ بھی یہی ہے۔ بہرحال افتخار احمد کے معاملے نے دوباتیں ایک بار پھر ثابت کیں :
اول:دنیا ،ٹیلی ویژن اور اخبارات کی دنیا میں پھلنے پھولنےکے باوجود ابھی تک یہ ایک ادارہ جاتی شکل میں نہیں ڈھل سکا اور یہ تاحال افراد کو لانے اور فارغ کرنے کے لیے جانچ پڑتال کے ایک معیار ی نظام کی تشکیل میں ناکام رہا ہے۔ اس باب میں کانا پھوسی اور خواہشات کی پیروی ہی واحد محرک ہے۔
ثانیاً: جیو ٹیلی ویژن میں ایک عرصہ تک کام کرنے والے افراد کے جسم کہیں پر بھی چلے جائیں ، اُن کی روح جیو ٹیلی ویژن کے اندر ہی بھٹکتی رہتی ہے۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو نائب وزیراعظم مقرر کر دیا۔وزیراعظم نے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو نائب وزیراعظم مقرر کرنے کی منظوری دی۔کابینہ ڈویژن نے اس ضمن میں نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے ۔وزیر خارجہ اس وقت وزیراعظم کے ہمراہ سعودی عرب کے دورے پر ہیں۔ حکومت پاکستان...
وزیراعظم شہبازشریف اور عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کے درمیان سعودی عرب میں جاری عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس کے دوران غیررسمی اہم ملاقات ہوئی جہاں پاکستان کے ایک اور قرض پروگرام میں داخل ہونے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔تفصیلات کے مطا...
غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں امریکا سے شروع ہونے والا طلبہ کا احتجاج مزید وسیع ہوگیا ہے ۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اب برطانیہ، اٹلی، فرانس اور آسٹریلیا کے طلبہ بھی میدان میں آگئے ، انہوں نے اسرائیلی کمپنیوں سے تعلقات منقطع کرنے کی حمایت کی ہے۔ ادھر کولمبیا یونیورسٹی ...
حساس ادارے نے چھاپہ مار کارروائی میں کراچی اور بلوچستان کی پولیس کو انتہائی مطلوب دہشت گرد سمیت 3 افراد کو گرفتار کر کے اسلحہ برآمد کر لیا، گرفتار دہشت گرد کالعدم بی ایل اے کے لیے ریکی اور دہشت گردی کی متعدد واردتوں میں ملوث رہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق دہشت گرد اور اس کے ساتھی کو اب...
درآمد شدہ گندم مقررہ ضرورت و اجازت سے زائد منگوائے جانے اورپرائیویٹ سیکٹر کو نوازے جانے کا انکشاف ہوا ہے ،بیوروکریسی کے غلط فیصلوں سے قومی خزانہ کو ایک ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا ہے ۔ ذرائع کے مطابق نیشنل فوڈ سکیورٹی نے ضرورت سے زیادہ گندم ہونے کے باوجود 35 لاکھ 87 ہزار ٹن گندم د...
سکھ فار جسٹس نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف عالمی عدالت میں جانے کا اعلان کیا ہے ۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکا میں بھارت کی ناکام قاتلانہ سازش کا شکار سکھ رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ بھارتی وزیر اعظم مودی کے خلاف عالمی عدالت میں جائیں گے...
پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے اپنی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ اور دیگر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی اجازت دے دی۔پاکستان تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے آمادہ ہے، تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز نے عمران خان کی جانب سے مذاکرات کی اجازت دیے جانے کی تصدیق ک...
امریکا کی مختلف جامعات میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف مظاہروں میں گرفتار طلبہ اور اساتذہ کی تعداد ساڑھے پانچ سو تک جا پہنچی ۔ کولمبیا یونیورسٹی نے صیہونیوں کیخلاف نعروں پر طلبہ کو جامعہ سے نکالنے کی دھمکی دے ڈالی ۔ صہیونی ریاست کیخلاف احتجاج آسٹریلیا کی جامعات تک پھیل گئے ۔ سڈن...
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے کراچی تجاوزات کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیاہے۔سپریم کورٹ نے ملک بھر سے سڑکوں اور فٹ پاتھوں سے تجاوزات ختم کرنے کا حکم دے دیا ہے۔حکم نامے کی کاپی اٹارنی جنرل، تمام ایڈووکیٹ جنرلز اور تمام سرکاری اداروں کو بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے۔پیمرا کو اس ضمن میں ...
کراچی پولیس کا اسپیشلائزڈیونٹ مسروقہ گاڑیاں برآمد کرنے میں ناکام ہو گیا ہے، اے وی ایل سی کی جانب سے شہریوں کی مسروقہ گاڑیوں کو برآمد کرنے میں روایتی سستی کا مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔کراچی کے علاقے گلشن حدید میں اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل(اے وی ایل سی)گاڑی چوروں کی سہولت کار بن گئی ...
کراچی میں ناکے لگا کر شہریوں کے چالان کرنا ٹریفک پولیس اہلکاروں کو مہنگا پڑ گیا۔تفصیلات کے مطابق ڈی آئی جی ٹریفک پولیس احمد نواز نے ٹریفک پولیس اہلکاروں کی جانب سے غیر قانونی چیکنگ پر ایکشن لے لیا۔ڈی آئی جی نے ایس او محمود آباد اور ریکارڈ کیپر سمیت 17افسران و اہلکاروں کو معطل ...
آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی ہدایت پر ضلع شکارپور سے کراچی رینج میں تبادلہ کیے جانے والے پولیس افسران کے خلاف شوکاز نوٹس جاری کردیے گئے ہیں۔آئی جی سندھ غلام نبی میمن کے مطابق اِن اہلکاروں کو کراچی میں کوئی پوسٹنگ نہیں دی جائیگی۔ترجمان پولیس کے مطابق اہلکاروں کے خلاف ملزمان کے سات...