وجود

... loading ...

وجود
وجود

ایک تاریخ ساز فیصلہ

هفته 03 اکتوبر 2015 ایک تاریخ ساز فیصلہ

pakistan-education

جج صاحب نے فیصلہ سنا دیا۔ عجیب فیصلہ تھا، کمرۂ عدالت میں موجود حاضرین نے انگلیاں دانتوں میں داب لیں۔ چند افراد کے چہروں پر فوراً مسکراہٹوں نے قبضہ جمالیا، جج صاحب نے ناک پر دھرے چشمے کو دائیں ہاتھ سے تھام کر خفیف سی جنبش دی، احاطے میں موجود افراد پر ایک طائرانہ نظر ڈالی، کرسی پیچھے کھسکائی کھڑے ہوئے اور اپنے چیمبر کی جانب چل دئیے۔ حاضرین احتراماً کھڑے ہوئے اور انہیں جاتے دیکھتے رہے۔ جسٹس سد ھیرا گروال کے فیصلے نے درحقیقت بھارت میں ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ 35صفحات پر مشتمل یہ تفصیلی فیصلہ 18اگست2015کو جاری کیا گیا جس کے آخری پیراگراف کو جسٹس سد ھیرا اگروال نے ’’اوپن کورٹ‘‘میں اناؤنس کیا تھا۔ اپنے فیصلے میں انہوں نے مجموعی طور پر 2013سے 2015کے دوران دائر کی گئی7مختلف رٹ پٹیشنز کو نمٹا ڈالا۔ اُن سات میں سے دو یکساں نوعیت کی پٹیشنز بھارت کے آئین کے آرٹیکل 226کے تحت دائر کی گئی تھیں۔ پٹیشن نمبر 57426/2013اور 28003/2015دونوں میں 17مختلف افراد نے اجتماعی طور پر ریاست یوپی میں اسکول کے اساتذہ کی بھرتی کیلئے حکومت کی جانب سے مقرر کردہ معیارات کو چیلنج کیا تھا اور استدعا کی تھی کہ اساتذہ کی بھرتی کیلئے میرٹ لسٹ کو محض ڈگریوں کی بنیاد پرنہیں بلکہ اہلیت کے امتحان میں حاصل کردہ نتائج کی بنیاد پر مرتب کرنے کے احکامات جاری کئے جائیں۔ جسٹس سد ھیراگروال نے اپنے فیصلے کے پیرانمبر 90میں جو کچھ لکھا، اسکا درخواست گذاروں کے مدّعا سے براہ راست کوئی تعلق تو نہ تھا مگر انہیں یوں لگا جیسے ساری دنیا کے خزانے ہاتھ لگ گئے ہو ں۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ نہ صرف سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی بھرتی کے معیار کو بہتر بنانے بلکہ پبلک سیکٹر میں تعلیم کی مجموعی زبوں حالی کے ازالے کیلئے ضروری ہے کہ صوبے کے تمام سرکاری افسران و ملازمین، صوبائی اسمبلی کے تمام اراکین، صوبے میں ہر سطح کے عوامی نمائندگان اور عدالتوں کے ججز سمیت ایسے تمام افراد جو قومی خزانے سے کسی نہ کسی شکل میں فنڈ لیتے ہیں، وہ اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں پرھائیں۔ جسٹس سد ھیر نے یوپی کے چیف سیکریٹری کو ہدایت کی کہ اس فیصلے کے بعد سرکاری خزانے سے تنخواہیں اور مراعات لینے والے تمام افراد آئندہ سال سے اپنے بچوں کو سرکاری اسکولز میں پڑھانے کے پابند ہیں۔ لہذا عملدرآمد نہ کرنے والے افراد کے خلاف انڈین پینل کوڈ کے تحت سخت کارروائی عمل میں لائی جائے اور انکی تنخواہیں اور ترقیاں روک لی جائیں۔ البتہ صرف ان افراد کو اپنے بچوں کو نجی اسکولز میں پڑھانے کے اجازت ہوگی، جو اسکول فیس کے مساوی رقم ہر ماہ قومی خزانے میں جمع کرانے پر راضی ہوں۔ یہ رقم سرکاری اسکولوں کی حالت زار بہتر بنانے پر خرچ کی جائے۔

پاکستان اور بھارت کے حالات بیشتر معاملات میں ایک جیسے ہی ہیں، بالخصوص تعلم کے شعبے میں سرکار ی کارکردگی دونوں جگہ ایک جیسی ہی ہے۔ گزشتہ ماہ اسلام آباد اور کراچی میں نجانے کہاں سے اچانک ’’پیرنٹس ایسوسی ایشنز‘‘ نمودار ہوئیں اور نجی اسکولز کی جانب سے فیسزمیں اضافے پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو ا۔ اُن کا کہنا تھا کہ موسم گرما کی تعطیلات کے بعد کھلنے والے اسکولز اب اگلے ماہ سے سوفیصد تک زائد فیسیں طلب کر رہے ہیں۔ انہیں اس ہوشربا اضافے سے روکا جائے۔ وزیر اعظم نے والدین کی جلد ہی سن لی۔ فیسوں میں کیا گیا اضافہ واپس لینے کی ہدایت کی اور احتجاج’’مُک‘‘ گیا مگر واقعتاایسا ہوا نہیں جیسا وزیر اعظم نے والدین کو یقین دلایاتھا۔ ملک بھر کے تقریباً تمام ہی اسکولوں نے ستمبر کے دوران کم از کم 13سے 30فیصد تک زائد شرح سے فیسیں وصول کیں جبکہ چند اداروں نے وزیر اعظم کی ہدایات بالکل ہی سنی ان سنی کردیں اور 50فیصد تک کئے گئے اضافے کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ والدین کی اکثریت نے بالاآخر ’’دے دِلا‘‘ کر جان چھڑالی ہے البتہ چند والدین اب بھی’’زورِ بازو‘‘ آزمانے پر بضد ہیں۔ جن کی مسلسل شکایات کی روشنی میں اب پرائیوٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن ریگولیٹری اتھارٹی (پیرا) نے باقاعدہ ایک سیل قائم کر دیا ہے اور آگاہ کیا ہے کہ فیسوں میں اضافہ واپس نہ لینے والے نجی تعلیمی اداروں کو سربمہر کر دیا جائے گا۔ پیرا نے یہ اعلامیہ 30؍ستمبر کو جاری کیا جس میں کہا گیا کہ وزیر اعظم نے فیسوں میں کمی واپس نہ لینے کی شکایات پر فوری نوٹس لے لیا ہے۔ اعلامیہ پڑھ کر اوّل اوّل تو وزیر اعظم کی’’ایفیشنٔسی‘‘(Efficiency) پر رشک آیا پھر خیال آیا کہ ’’مذطلہ العالیہ‘‘تو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب فر ما رہے ہیں۔ یقیناً پیرا کے حکام نے اس اعلامیے کو اپنے ’’حُسنِ ظن ‘ کی بنیاد پر وزیر اعظم سے منسوب کیا ہو گا، ورنہ ہمیں تو یہی ’’بدگمانی‘‘ ہے کہ میاں صاحب کو کم از کم ماہ ِرفتہ تک شاید یہ بھی صحیح طرح معلوم نہ تھا کہ اس طرح کا کوئی کاغذی ادارہ بھی اس ملک میں اپنا وجود رکھتا ہے اور بھی تو بہت جھمیلے ہیں بھئی۔

پاکستان میں تعلیم کے شعبے پر ہونے والے اخراجات کی شرح خام قومی پیداوار کے ڈھائی فیصد سے آگے کبھی نہیں بڑھی۔ پاکستان میں 70لاکھ بچے آج بھی اسکول جانے سے قاصر ہیں

پچھلی چار دہائیوں کے دوران کسی حکومت نے بنیادی تعلیم کو اہمیت نہیں دی، پاکستان میں تعلیم کے شعبے پر ہونے والے اخراجات کی شرح خام قومی پیداوار کے ڈھائی فیصد سے آگے کبھی نہیں بڑھی۔ پاکستان میں 70لاکھ بچے آج بھی اسکول جانے سے قاصر ہیں۔ 4 201ء کے اکنامک سروے کے مطابق پنجاب میں پرائمری اسکولوں میں تین سال تک کے بچوں کی نئی انرولمنٹ کی شرح 62فیصد، سندھ میں 52فیصد، کے پی میں 54فیصد اور بلوچستان میں 45فیصد رہی یعنی پنجاب میں سو میں سے 38بچوں، سندھ میں 48، کے پی میں 46 اور بلوچستان میں 55بچوں نے تین سال کی عمر کو پہنچنے کے باوجود اسکولز میں داخلہ حاصل نہیں کیا۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ملک میں خواندگی کی شرح مردوں میں 71فیصد اور خواتین میں 48فیصد تک ہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ شرح اوسط بنیادوں پر اخذ کی گئی ہے ورنہ اسلام آباد کے رہائشیوں میں خواندگی96فیصد اور ضلع کوہلو میں خواندگی 26فیصد ہے جبکہ قبائلی علاقوں میں خواندگی کی شرح صرف ساڑھے نو فیصد ہے۔ سرکاری شمار یاتی ادارے کے مطابق اس وقت ملک میں کل تقریباً 2لاکھ60ہزار تعلیمی ادارے ہیں۔ جن میں کل 4کروڑ طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ ان میں سے ایک لاکھ 80ہزار تعلیمی ادارے سرکاری ہیں جبکہ 80ہزار ادارے نجی شعبے میں قائم ہیں یعنی آج بھی ملک کے مجموعی نظام ِ تعلیم میں نجی شعبے کا حصّہ31 فیصد سے زیادہ نہیں۔ ملک میں اساتذہ کی مجموعی تعداد 15لاکھ کے لگ بھگ ہے اور ان میں سے بھی 70فیصد سے زائد سرکاری شعبے سے وابستہ ہیں مگر رونا تو تعلیم کے معیار اور انفرااسٹرکچر کا ہے۔ تعلیم کے بجٹ کا غالباً90فیصد حصّہ تنخواہوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ سرکاری اسکولوں میں بچوں کیلئے پینے کا پانی تک دستیاب نہیں ہوتا۔ بیت الخلاء کے قابل ِ استعمال ہونے کا تو کوئی تصور ہی نہیں۔ سندھ اور پنجاب میں اب بھی کئی سرکاری اسکولوں کی عمارتیں وڈیروں اور چوہدریوں کی اوطاقیں اور مویشیوں کے باڑے کے طور پر استعمال ہو تی ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے حوالے سے دستیاب اعدادوشمار کے مطابق پہلی جماعت میں داخلہ لینے والے بچوں کی کل تعداد میں سے صرف 20فیصد بچے پانچوں جماعت کے بعد تعلیم جاری رکھتے ہیں اور چھٹی جماعت میں داخلہ لینے والے محض 20فیصد ’’باقی ماندہ ‘‘ بچوں میں سے بھی آدھے بچے ہی میٹرک کا امتحان دیتے ہیں۔

تعلیم میں نجی شعبے نے اس وقت پیر جمانے شروع کئے ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی ’’نیشنلائزیشن‘‘پالیسی پر قدرے بیک فٹ پوزیشن اختیار کی اور 1974 ء میں اعلان کیا کہ اب مزید کوئی تعلیمی ادارہ سرکاری تحویل میں نہیں لیا جائے گا۔ 1975ء میں بیکن ہاؤس اسکول سسٹم اور 1978ء میں سٹی اسکول سسٹم کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے بعد چل سوچل۔ تعلیم کا رشتہ پیسوں سے جڑا تو پھر تو دال جوتوں میں بٹنا شروع ہو گئی۔ نجی اسکولزکُھمبیوں کی طرح اُگتے چلے گئے۔

پیرا کے 30ستمبر2015ء کے جاری شدہ اعلامیے سے قبل 28اور 29ستمبر کو نجی اسکولز کی جانب سے قومی اخبارات میں لاکھوں روپے کے نصف صفحے کے اشتہارات شائع کرائے گئے، جن میں کہا گیا کہ معیاری تعلیم دنیا میں کہیں بھی سستی نہیں، ۔ نجی شعبے میں کئی ادارے غیر نفع بخش ہو نے کے باوجود مہنگے ہیں۔ زیادہ تر نجی اسکولز کرائے کی عمارتوں میں قائم ہیں اور مالکان ہر سال کرایہ بڑھانے کے مطالبات کرتے ہیں۔ تین سے پانچ سال میعاد کے کرائے ناموں کی تجدید پر اسکولز مالکان کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر 50سے 100فیصد تک اضافے کے مطالبات کئے جاتے ہیں۔ ان من مانے کرایوں کو ریگولیٹ کرنے والا کوئی نہیں۔ اسکولوں کو بجلی کمرشل میٹر سے دی جاتی ہے جسکے نرخ دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کا عذاب الگ ہے اور جنریٹرز استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ ہر اسکول کو سیکورٹی کا مناسب بندوبست خود کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے جو اضافی بوجھ ہے جبکہ اسکولز کمرشل اداروں کے طور پر 33فیصد انکم ٹیکس اور 17فیصد جی ایس ٹی بھی ادا کرتے ہیں۔ ان اشتہارات میں خطرہ ظاہر کیا گیا کہ حکومت نے مناسب رویہ اختیار نہ کیا تو تعلیم کے معاملے میں نجی شعبے کا بھی وہی حشر ہو گا جو سرکاری شعبے کا ہے۔ پرائیوٹ اسکولز کے پیش کردہ بعض نکات واقعی قابل توجہ ہیں مگر انہی اشتہارات میں کسی بھی فورم پر ’’بامقصد‘‘مباحثے کیلئے تیار رہنے کے عزم کا اعادہ کرنے والے پرائیوٹ اسکولز مالکان نے اپنے ’’چونچلوں ‘‘ پر کوئی وضاحت پیش نہیں کی۔ فینسی ڈریس شو پر بھالو کا لباس پہن کر آنے کے مطالبات، ہینڈ واشنگ ڈے کے نام سے تشہیری مہم میں بچوں کی جبری شراکت، یونیفارم اور کتب حتیٰ کہ کاپیاں تک مخصوص مقررہ ڈیلرز سے من مانے نرخوں پر خریداری کی شرائط، پرائمری کے بچوں سے لائبریری چارجز کی وصولی سمیت ایک طویل چارج شیٹ ہے جو والدین گلے میں لٹکائے پھر رہے ہیں انکا جواب کون دے گا، پتہ نہیں۔ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانے کے خواہشمند والدین اس ’’ننّھی‘‘ سی خواہش کے ہاتھوں کس طرح پستے ہیں یہ سب جانتے ہی ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 25Aمیں لکھا ہے کہ ریاست 3سے 16سال تک کے ہر بچے کو مفت اور لازمی تعلیم دینے کی پابند ہے۔ شاید آئین کی پاسداری کی خواہش میں ہی میاں صاحبان نے اس مسئلے کا حل دانش اسکولز کی شکل میں ڈھونڈا تھا مگر یہ حل تواب خود مسئلوں کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے اور مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔ ملک میں کم و بیش 6علیحدہ علیحدہ تعلیمی نظام ہیں، کیمبرج سسٹم اور اس سے ملتے جلتے انگلش میڈیم کے علاوہ، فوجی بورڈز، آغا خان بورڈ اور اردو میڈیم سمیت مدارس کا نظام ِتعلیم بھی رائج ہے اس طرح ان چھ علیحدہ علیحدہ نظامات ِتعلیم سے نکلنے والے بچے واضح طور پر ملک میں طبقاتی تفریق کا نمونہ ہیں۔ نجی شعبہ ناگزیر ہے مگر ہونا یہ چاہیے کہ پو رے ملک میں کم از کم مڈل یا لوئر سیکنڈری یعنی آٹھویں جماعت تک ایک ہی نصاب ہو جو جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہو، ذریعہ تعلیم اردو ہو اور انگریزی بطور زبان اختیار ی مضمون کے طور پر شامل رکھی جائے۔ ملک بھر کے تمام اسکولوں کا یونیفارم اور ایجوکیشن کیلنڈر ایک ہی جیسا ہو اور پبلک سیکٹر میں اساتذہ کو کڑی نگرانی میں رکھ کر اپنی تدریسی سرگرمیاں انجام دینے کا پابند کیا جائے۔ سرکاری اسکولوں میں بنیادی ضروریات فراہم کرنا بھی ناگزیر ہے یعنی ایسے اقدامات کئے جائیں کہ نجی اور سرکاری اسکولوں میں اگر کوئی فرق رہ جائے تو وہ کم از کم معیارِ تعلیم کا نہ ہو خواہ غیر نصابی سرگرمیوں، تفریحی دوروں اور عمارتوں و غیرہ کا ہو، سو ہو۔ اس کے بعد بھی کچھ والدین اپنے بچوں کو نجی اداروں میں پڑھانا چاہیں تو انکی مرضی پھر نجی ادارے جتنی فیس بھی وصول کریں، بھلے ہی ان سے کچھ نہ پوچھا جائے۔

الہ آباد ہائیکورٹ کا حالیہ فیصلہ پبلک سیکٹر ایجوکیشن کے حوالے سے ایک نئی سمت کی جانب رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ جب تک مریم اور حمزہ کے بچے سرکاری اسکولوں میں نہیں پڑھیں گے انکی حالت نہیں سدھر سکتی۔


متعلقہ خبریں


میاں صاحب! پشت سیدھی کر لیں عبید شاہ - اتوار 20 ستمبر 2015

بات پرانی ہے مگر اچانک یاد آگئی۔ امریکی صحافی ڈینس برِیو (Dennis Breo) کو ایک بڑی دلچسپ کتاب تالیف کرنے کا اعزاز حاصل ہے ، انکی کتاب کا نام ہے ’’ایکسٹرا آرڈی نری کیئر‘‘یعنی غیر معمولی احتیاط۔ یہ کتاب درحقیقت ایسے ڈاکٹرز کے مشاہدوں پر مبنی ہے جو مشہور شخصیات کے معالج رہے ۔ ڈاکٹ...

میاں صاحب! پشت سیدھی کر لیں

ستمبر پھر آگیا! عبید شاہ - اتوار 06 ستمبر 2015

لہو کے آخری قطرے تک مادرِوطن کے دفاع کے جذبے سے سرشار قوم کی گرمجوشی دیدنی ہے ۔ 2015کا یہ ستمبر 1965کے ستمبرسے زیادہ مختلف نہیں ۔ تب بھی قوم کی امیدوں کا محورمسلح افواج تھیں اور آج بھی ایسی ہی صورتحال ہے ۔’’اے وطن کے سجیلے جوانوں‘‘ گانے کیلئے اب ملکۂ ترنم بقید ِحیات تو نہیں مگر ج...

ستمبر پھر آگیا!

مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر