وجود

... loading ...

وجود
وجود

گدھا لوجی

بدھ 23 ستمبر 2015 گدھا لوجی

donkey

ملک بھر میں ان دنوں جگہ جگہ مویشی منڈی سجی ہیں۔ ان منڈیوں سے جانور گلی گلی اور گھر گھر پہنچ رہے ہیں۔ خوب پزیرائی ہورہی ہے بچوں کی تو عید سے پہلے عید ہوگئی ہے اورلڑکے بالے دوڑیں لگاتے پھررہے ہیں۔ ٹی وی چینلز ہوں یا اخبارات دن رات مویشی منڈیوں کی خبریں دے رہے ہیں۔ کراچی کی منڈی کے متعلق دعوی ہے کہ ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی یہی ہے۔ اب دعوے کا کیاہے کوئی بھی کردے کچھ بھی کردے۔ ہمیں اس منڈی پر کوئی اعتراض ہے نہ دعوے پر۔۔ہمارا کہنایہ ہے کہ ایشیا کی دیگر منڈیوں کے بارے میں بھی قارئین کو بتایاجائے ! مثلا گائے، بکرے اور اونٹ کی اس منڈی کے بارے میں تو کہہ دیا گیا کہ یہ ایشیا کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ مگر کسی نے یہ نہیں بتایاکہ ایشیامیں گدھوں کی سب سے بڑی منڈی کب اور کہاں لگتی ہے ؟ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ ہم نے بحیثیت قوم گدھوں کو نرا گدھا ہی سمجھاہے۔ اُسے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔مغرب میں تو پہلے ہی گدھے کو دانشمندسمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ وہاں گدھوں کی تعداد اتنی نہیں جتنی مشرق میں ہے۔ اگر گدھوں کو دانشمند سمجھنے والوں کو بھی اس میں شمار کر لیا جائے تو پھر ترتیب بدل سکتی ہے۔

خیر گدھوں کی تعداد پر توبات ہوتی رہے گی۔ ہم ذکر کررہے تھے گدھوں کے میلے یا منڈی کا جو، ہرنئے ہجری سال کی نودس اور گیارہ تاریخ کو ٹنڈو غلام علی، ضلع بدین میں لگتی ہے۔میلہ اسپاں ومویشیاں تو ملک کے کئی مقامات پر منعقد ہوتے ہیں۔ ان کی سرکاری سرپرستی بھی کی جاتی ہے۔مگر گدھوں کوہر سطح پر نظرانداز ہی کیاجاتارہا۔ بدین میں گدھوں کے اس میلے کے منتظمین کا کہنایہ ہے کہ وہ برسوں سے یہ میلہ منعقد کرتے چلے آ رہے ہیں۔ بہرحال ہماری طرح اہل وطن کی اکثریت گدھوں کے حوالے سے اس صحت مندانہ سرگرمی سے بے خبرتھی اور ہے۔

ہارس ٹریڈنگ میں قیمت فی گھوڑا، ادا کی جا تی ہے جبکہ گدھے ہانکنے کے عمل میں پورے کے پورے غول ہانک لیے جاتے ہیں

ہمارے یہاں گدھوں کے بارے میں تاثر منفی ہی رہاہے اب جیسے بقر عیدمیں دیگر جانوروں کو ہار اور زیور پہنائے جارہے ہیں۔ اُسے کبھی ہار پہنانا تو دور کی بات ہے، عوام البتہ کبھی غم وغصے کا اظہار کریں تو کسی بھی ناپسندیدہ شخصیت کے نام کا طوق گدھے کے گلے میں ڈال کر اس پر جوتے یا انکے ہار ڈال دیتے ہیں۔ پھولوں کے ہا رتو گدھوں کو مراکش میں ہی پہنائے جاتے ہیں۔ جہاں ہرسال گدھوں کے میلے میں گدھے ہی مہمان خصوصی بنتے ہیں۔ بات گدھوں کی ہورہی ہے تو آپ کی توجہ رواں سال جون میں منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ کی جانب مبذول کر اتے ہیں۔ جس کے مطابق پاکستان میں گدھوں کی تعداد گز شتہ برس کے مقابلے میں ایک لاکھ بڑھ گئی ہے۔رپورٹ تو یہ اب آئی ہے۔ ہماری تو گزشتہ کئی برس سے ملک کے حالات اور اردگرگرد پر نظر ڈال کر یہ رائے مستحکم ہوگئی تھی کہ گدھوں کی تعدادبڑھتی ہی جارہی ہے مگر یہ بات کسی سے کہنے کی ہمت نہیں تھی۔ اکثر لوگوں کو گدھے اور اسکی اولاد کے حوالے سے الفاظ تکیہ کلام کے طور پر استعمال کرتے ہم دیکھتے رہے۔ لیکن کبھی لب کشائی نہ کی کہ اس قدر تعداد بڑھ گئی ہے کہ زبان زدعام ہے۔مبادا کوئی گدھایا اس کا بچہ اسے اپنی آبادی میں اضافے پر اعتراض سمجھے اورہمیں دو لتی ہی نہ جڑدے۔ پھر ہماری بات کوئی مانتا بھی تو کیسے ؟ نہ ہمارا خریات سے کوئی تعلق ہے نہ خرابات سے کوئی واسطہ۔نہ ہی علم گدھا لوجی پرکوئی دسترس۔ جب اس شعبے میں ہماری علمیت بلکہ کم علمی کایہ عالم ہوگاتو کوئی ہماری بات مانے گا ہی کیوں ؟بہرحال اب تو جورپورٹ آئی ہے اس پرتولوگ یقین کرہی لیں گے، یہ توبا لکل ایسے ہی ہے کہ جب کسی نے انکشاف کیاکہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ مرچ میں وٹامن سی ہوتاہے توایک علامہ نے اس پربرجستہ کہا کہ اب توسب مان ہی لیں گے وگرنہ ہم توکب سے مرچ کھاکرسی سی کررہے تھے اورآپ مان کر ہی نہ دیتے تھے۔خیر اس بار معاملہ الٹ ہورہاہے اب ہمیں اس رپورٹ کے اگلے مندرجات تسلیم کرنے میں تامل ہورہاہے جن کے مطابق پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور اقتدار میں گدھوں کی تعداد میں تین لاکھ کااضافہ ہوا۔ یہ کیسے ہوسکتاہے ؟ وجہ اس کی سیدھی اور صاف ہے کہ پیپلزپارٹی نے تو بھاری بھرکم اختیارات کے ساتھ وزارت بہبود آبادی کا قلمدان اپنی فعال وزیرڈاکٹرفردوس عاشق اعوان کو تھمایا تھا۔ پھرگدھوں کی آبادی میں اضافہ کیوں کرہوگیا؟ڈاکٹر صاحبہ کے مخالفین یہ کہیں گے جب وہ ترقی پاکر وزیراطلاعات بن گئیں تھیں تب یہ اضافہ ہوا۔ بہرحال وہ کچھ بھی کہیں ہم نہیں مانیں گے۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو ڈاکٹر صاحبہ کی وزارت جانے کے بعد یہ سوالات اٹھارہے ہیں جب وہ عہدے پر متمکن تھیں تو کسی کونظر اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی سوال توبہت آگے کی بات ہے۔

اقتصادی سروے رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ عہد پرویزی کے عشرے میں تو گدھوں کی تعداد چھ لاکھ ہی بڑھی حالانکہ وہ تو گدھوں کے بہت قدردان تھے۔ مگر ان کے دس برس میں گدھوں کی تعداد کچھ خاص نہ بڑھ سکی ان کے دور کی جہاں بے شمارباتیں قابل گرفت تھیں وہاں گدھوں سے انکی محبت ہمارے لیے ہمیشہ ہی اطمینان کا باعث بنی۔ وہ طویل عرصہ صدر رہے۔ تمام ہی وقت وہ گدھوں کی اور گد ھے انکی حمایت میں رینکتے ( ڈھینچوں ڈھینچوں کرتے )رہے۔ انہوں نے تو کئی مرتبہ کہا بھی انہیں گدھا گاڑی ریس بہت پسند ہے۔ بس اتنا نہ کہہ سکے وہ اسے قومی کھیل بنا دیں گے۔ البتہ عملی طور پر وہ اس کا مظاہرہ کرتے رہے۔انہوں نے ملک میں برسوں سے جاری ہارس ٹریڈنگ کو بھی روکا اور اسکے بجائے گدھے ہانکنے کا کھیل شروع کیا کیونکہ ہارس ٹریڈنگ میں قیمت فی گھوڑا، ادا کی جا تی ہے جبکہ گدھے ہانکنے کے عمل میں پورے کے پورے غول ہانک لیے جاتے ہیں۔ صاحبانِ ق اور حضرات ِپیٹریاٹ کی اس دلچسپی بجا مگر یہاں تفصیلات بتانے کا محل نہیں۔ ہماری تشویش گدھوں سے بے اعتنائی پر ہے اور وہ رہے گی۔ خواہش یہ ہے کہ بدین میں اگلے ماہ ہونے والے گدھوں کے میلے کی قومی سطح پرپزیرائی کی جائے حکومت بھی اس کی سرکاری سرپرستی کرے۔ نئے پیر صاحب پگارا بھی سرکار دربار میں بہت رسائی رکھتے ہیں۔ اس لیے سرکاری سطح پر گھوڑوں کی بے جا حمایت وسرپرستی کی جاتی ہے ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ تمام قسم کے گدھوں کو ووٹ کا حق دے دیا جائے تاکہ ملک میں بڑھتی گدھوں کی تعداد سے بھر پور فائدہ اٹھایا جا سکے۔ کم ازکم یہ توممکن ہے کہ کوئی سیاسی جماعت گدھے کو اپنا انتخابی نشان بنالے۔ آخر امریکا، جس کی تقلید میں ہم مٹے مرے جارہے ہیں، میں بھی تو ایک سیاسی جماعت کا نشان گدھا ہے۔پرویزمشرف خود امریکاکے عشق میں گرفتار رہے ہیں، وہ اپنی جماعت کے لیے اس انتخابی نشان میں پہل کریں۔

لیجیے صاحب ٹنڈو غلام علی کے گدھوں کے میلے کی دیگر تفصیلات بتانے کا موقع ہی نہ مل سکااور ساراکالم سیاسی گدھوں کی نذر ہوگیا۔خیر ابھی تو ایک ماہ باقی ہے۔ سو گدھوں پر بات بھی باقی!!!


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر