وجود

... loading ...

وجود

کراچی کا بچہ اور گٹر کا دھکن

هفته 13 دسمبر 2025 کراچی کا بچہ اور گٹر کا دھکن

روہیل اکبر

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں ایک دوسرے کے سہارے اقتدار میں ہیں لیکن تنقید کا بھی کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لاہور زندہ دلوں کا شہر ہے تو کراچی روشنیوں کا شہرہے ساتھ میں یہ خوابوں کی بستی اور پاکستان کا دھڑکتا دل بھی ہے مگر آج اس شہر کی گلیاں اور نالیاں ایک ایسے المیے کی گواہ بن چکی ہیں جو دل دہلا دیتا ہے گٹروں کے غائب ڈھکن ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو سننے میں چھوٹا لگتا ہے مگر اس کی قیمت کئی گھروں نے اپنے بچوں کی زندگی سے ادا کی ہے ۔کتنے ہی معصوم بچے کھیلتے کھیلتے ان کھلے منہ والے گٹروں میں گر کر اپنی زندگی گنوا بیٹھے۔ کچھ حادثے ایسے بھی ہوئے جہاں بچے ماں باپ کے سامنے دم توڑ گئے مگر ریاست اور انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔گلیوں میں پانی، نالیوں کا تعفن، گندے نالوں پر تنبو ڈال کر زندگی گزارنے والے لوگ یہ سب کچھ ایک ایسے شہر کا حال بیان کرتا ہے جو کبھی پاکستان کی ترقی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ شکر ہے کہ پنجاب میں صورتحال اس سے یکسر مختلف ہے ۔لاہور میں گٹروں کے ڈھکن غائب ہونے کی خبریں شاذ و نادر ملتی ہیں اور اگر کہیں کوئی شکایت سامنے آتی بھی ہے تو اس پر فوراً کارروائی ہوتی ہے۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی واضح اور دو ٹوک ہدایات ہیں کہ گٹروں کے ڈھکن غائب نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ شہریوں کی جان و مال کا تحفظ اولین ترجیح ہے ۔اس لیے غیر ذمہ داری برداشت نہیں کی جائے گی۔ اسی پالیسی کا عملی ثبوت ڈپٹی کمشنر لودھراں کو عہدے سے ہٹانا بھی ہے ۔یہ فیصلہ محض ایک افسر کی تبدیلی نہیں بلکہ انتظامی مشینری کے لیے ایک پیغام ہے کہ اگر عوامی مسائل پر غفلت برتی گئی تو کسی کو بھی رعایت نہیں ملے گی۔ سندھ اور پنجاب میں واحد فرق یہی ہے کہ پنجاب میں حکومت کی جانب سے اس معاملے کو انتظامی غفلت کے بجائے انسانی زندگی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، اسی وجہ سے پنجاب آج ترقیاتی کاموں میں سندھ سے کہیں آگے ہے۔ چاہے وہ سڑکوں کی تعمیر ہو، سیوریج سسٹم کی بہتری ہو، صفائی ہو، یا شہری سہولتیں لاہور کے مقابلہ میں کراچی میں تو نالے چوک بنے ہوئے ہیں اور ڈھکن غائب ہیں مگر لاہور، فیصل آباد، ملتان، ساہیوال اور سرگودھا جیسے شہروں میں سڑکوں کی مرمت وقت پر،سیوریج لائنز کی نگرانی،شکایات کا ڈیجیٹل حل اور ضلعی انتظامیہ پر سخت مانیٹرنگ یہ سب کچھ ایک بہتر نظام کی نشاندہی کرتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کراچی جیسے شہر میں یہ بنیادی کام کیوں نہیں ہو پاتے ؟ کیا انسانی زندگیاں اہم نہیں؟کیا بچے گٹروں میں گرتے رہیں گے اور کوئی نہیں پوچھے گا؟کیا شہر کی بڑی جماعتیں صرف تقریروں اور پریس کانفرنسوں تک محدود رہیں گی؟جس دن سندھ بھی اپنی انتظامیہ سے وہی جواب طلبی کرے گا جو پنجاب میں ہو رہی ہے تب شاید سندھ کے شہری بھی محفوظ ہو جائیں کیونکہ مسئلہ سیاست کا نہیں ترجیح کا ہے ۔پنجاب نے ثابت کیا ہے کہ اگر ترجیح شہریوں کی زندگی ہو اگر حکومت جاگتی ہو اور انتظامیہ جواب دہ ہو تو وہ کام بھی ممکن ہو جاتا ہے جن پر دوسرے صوبوں میں برسوں صرف باتیں ہوتی رہتی ہیں۔
کراچی کی وہ شام آج بھی سوال بن کر فضا میں تیر رہی ہے جب ایک باپ نے اپنے ہاتھوں میں دم توڑتے ہوئے اپنے معصوم بچے کو تھام رکھا تھا۔ گلی کے نکڑ پر کھلا گٹر، اندھیری کھائی میں منہ پھاڑے کھڑا تھا،جہاں بچہ کھیلتے کھیلتے قدم پھسلنے سے گٹر میں گرا اور پھر زندگی بجھ گئی اسی طرح وہ ننھا سا بچہ بھی سب کو یاد ہوگا جو ماں کے سامنے گٹر میں گر کر اللہ کو پیارا ہوگیا۔ماں کی چیخیں، باپ کی سسکیاں، اہلِ محلہ کا ہجوم سب ایک ہی فریاد کرہے تھے کہ یہ گٹر بند کیوں نہیں ہوتے ؟ لیکن اس سوال کا جواب دینے والا کوئی نہیں کیونکہ کراچی کے گلی محلوں میں غفلت پھیلی ہوئی ہے جسکی وجہ سے گٹروں کے ڈھکن غائب ہیں۔
یہ کوئی ایک واقعہ نہیں تھایہ شہرِ قائد کے کونے کونے میں پھیلا ہوا المیہ ہے ہر چند دن بعد ایک نئی خبرکے ساتھ ایک نیا جنازہ ہورہا ہوتا ہے کراچی میں صورتحال مسلسل بگڑ رہی ہے۔ اس کے باوجودکوئی بھی ماں اپنے بچے کو کھیلنے سے منع نہیں کرتی لیکن ماں کی مامتا اس وقت دھاڑیں مار کر روتی ہے جب وہی بچہ شہر کی غفلت کی بھینٹ چڑھ جائے کراچی کے معصوم بچے صرف اس لیے مر رہے ہیں کہ کسی نے ڈھکن نہیں لگایا، کسی نے چیکنگ نہیں کی ،کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی، کیا ریاست اتنی کمزور ہے ؟کیا شہری اپنی جان کے تحفظ کے بھی محتاج رہیں گے ؟کیا کراچی کا بچہ پنجاب کے بچے سے کم قیمتی ہے ؟ایک لمحے کی غفلت کئی گھروں کی زندگیاں نگل لیتی ہے یہ وہ سوال ہیں جو سندھ کے لوگ حکومت سے پوچھ رہے ہیں۔ کراچی کے والدین اب یہ برداشت کرنے کے قابل نہیں کہ ان کے بچے کھلے گٹروں میں مر جائیں اور میزوں پرپڑی فائلوں پر گرد جمع ہوتی رہے جبکہ سندھ کے مقابلہ میں پنجاب کی موجودہ صورتحال قابل تعریف ہے مگر یہ بہتری مسلسل رہنے کی طالب ہے۔ یہاں سب ٹھیک نہیں مگر بہت کچھ بہتر ہوا ہے اور مزید بہتری کی گنجائش بھی ہے لیکن سندھ کے لیے یہ گنجائش نہیں بے شک گٹر کا ڈھکن چند سو روپے کا ہوتا ہے لیکن جب وہ غائب ہو جائے تو اس کی قیمت ایک معصوم بچے کی جان بن جاتی ہے ۔اس لیے ہر شہر کی گلی میں پہلا حق عوام کا ہے اگر انکی حفاظت نہیں ہوسکتی تب تک ملک کی ترقی کے دعوے ادھورے رہیں گے۔ پاکستان بدل سکتا ہے بس شرط یہ ہے کہ حکمران عوام کی جان کی حفاظت کو سیاست سے زیادہ اہم سمجھیں جب تک وہ دن نہیں آتا تب تک ماؤں کے جگر گوشوں کے جنازے اٹھتے رہیں گے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کراچی کا بچہ اور گٹر کا دھکن وجود هفته 13 دسمبر 2025
کراچی کا بچہ اور گٹر کا دھکن

بھارتی الزام تراشی پروپیگنڈا کی سیاست وجود هفته 13 دسمبر 2025
بھارتی الزام تراشی پروپیگنڈا کی سیاست

مقبوضہ کشمیر میں مودی کی روایتی جارحیت وجود هفته 13 دسمبر 2025
مقبوضہ کشمیر میں مودی کی روایتی جارحیت

جب خاموشی محفوظ لگنے لگے! وجود جمعه 12 دسمبر 2025
جب خاموشی محفوظ لگنے لگے!

ایک نہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے! وجود جمعه 12 دسمبر 2025
ایک نہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر