... loading ...
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
آج کل شادیوں کا سیزن ہے ۔ شادی وہ لمحہ ہے جسے خوشیوں، سادگی اور اللہ کی برکتوں سے معمور ہونا چاہیے تھا، مگر ہمارے معاشرے میں یہ تقریب رفتہ رفتہ نمود و نمائش کی ایسی دوڑ میں بدل گئی ہے جس نے غریب کی جھونپڑی سے لے کر متوسط گھر کے آنگن تک بے شمار دکھ اور دباؤ پھیلا دیے ہیں۔ہمارے معاشرے میں یہ خوشی رفتہ رفتہ ایک ایسے بوجھ میں بدلتی جارہی ہے جو غریب متوسط طبقے کے لیے پریشانی کا باعث ہے ۔ایک طرف اشرافیہ کی شادیوں کا شاہانہ حسن، بے تحاشا اسراف اور غیر شرعی رسومات کی چمک دمک ہے ، اور دوسری طرف وہ گھرانے ہیں جو اپنی بیٹی کی رخصتی کے لیے قرض، ادھار اور معاشرتی دباؤ کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ بھارتی کلچر کی بڑھتی یلغار، اسپیکرز کا شور ، لمبی ڈشوں والی میزیں، اور مقابلے کی اس دوڑ نے سادگی کو جرم اور نمائش کو معیار بنا دیا ہے ۔ یہی تضاد وہ آگ ہے جو ہمارے معاشرتی توازن کو کھا رہی ہے اور اگر اب بھی ہم نے اس جلتی آگ پر پانی نہ ڈالا، تو آنے والی نسلیں اس بے اعتدالی کی قیمت بہت بھاری ادا کریں گی۔یہ المیہ اُس وقت مزید شدید ہو جاتا ہے جب اشرافیہ کی شادیوں میں نمود و نمائش، بے تحاشا اسراف، غیر شرعی رسومات اور بھارتی ثقافت سے متاثر فضول رواج ایک نیا معیار طے کر دیتے ہیں۔ پھر یہ معیار پورے معاشرے پر ایسے مسلط ہوتے ہیں کہ ایک عام گھرانے کے لیے اپنی بیٹی کی شادی کرنا عزت کا نہیں، بلکہ مقابلے کا مسئلہ بن جاتا ہے ۔ یہی وہ بنیادی عدم توازن ہے جس نے ہماری سماجی ساخت کو جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ دلہن کے لباس سے لے کر اسٹیج کی سجاوٹ تک، میوزک کی چیختی آوازوں سے لے کر کھانوں کی دسیوں ڈشوں تک، ہر چیز میں وہ دکھاوا شامل ہو چکا ہے جس نے ہمارے معاشرے کے سکون، اقدار اور دینی حدود کو بے دریغ پامال کیا ہے ۔گزشتہ چند برسوں میں شادیوں میں اسراف کا رجحان خطرناک حد تک بڑھا ہے ۔
شادی بیاہ کے تقریباً ہر مرحلے پر بھارتی کلچر کی جھلک نمایاں دکھائی دیتی ہے ۔ مہندی کی متعدد تقریبات، فوٹو شوٹس، ڈانس پرفارمنسز، اسٹیج انٹریز یہ سب وہ رسوم ہیں جن کا ہماری تہذیب سے کوئی تعلق نہیں، مگر انہیں اپناتے ہوئے ہم فخر محسوس کرنے لگے ہیں۔ یہ وہ ہندوانہ اثرات ہیں جو ہمارے سماجی جسم میں آہستہ آہستہ ناسور کی طرح پھیلتے جا رہے ہیں۔ شعائر اللہ کی تکریم اور اسلامی سادگی کا جو تصور ہمارے دین میں موجود ہے ، وہ اس نمود و نمائش میں کہیں کھو جاتا ہے ۔ مسئلہ یہ نہیں کہ شادی ایک خوشی کا موقع کیوں ہے ، بلکہ اصل زخم یہ ہے کہ ہم نے اس خوشی کو غیر ضروری مسابقت اور دکھاوے کے ساتھ اس قدر باندھ دیا ہے کہ سادگی کو حقارت سمجھا جانے لگا ہے ۔آئے دن نئی نئی چیزوں میں اضافہ ہو رہا ہے جسے دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے ۔ غریب اور متوسط طبقے کی مشکل یہ ہے کہ وہ ان فضول رسومات اور مہنگی تقریبات کی تقلید کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ اگر ایک محلے میں کسی شادی میں کھانے کی 15 ڈشیں ہوں، تو دوسرے گھر کی بیٹی کی شادی میں لوگ اُس سے کم کھانے کو ناکامی اور شرمندگی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح فارم ہاؤسز، کھلی فضا کی تقریبات، بے قابو میوزک، لیزر لائٹس، آتش بازی، بے جا خرچ یہ سب دکھاوے کے وہ پہلو ہیں جو غریب گھرانوں کے لیے نفسیاتی اذیت بنتے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ون ڈش پالیسی کی ضرورت صرف مالیاتی نظم کے لیے نہیں، بلکہ معاشرتی دباؤ کم کرنے کے لیے سب سے اہم قدم ہے ۔ جب ایک شادی میں صرف ایک ڈش ہوگی تو نہ کوئی مقابلہ رہے گا، نہ ہی کوئی احساس کمتری، اور نہ ہی کوئی خاندان قرضوں میں ڈوب کر اپنی بیٹیوں کی رخصتی کرے گا۔
پاکستان میں شادیوں پر ہر سال ان گنت رقم خرچ کی جاتی ہے ، جس کا ایک بڑا حصہ اسراف، نمائش اور غیر ضروری تقاریب پر ضائع ہوتا ہے ۔ کھانے کی بات کی جائے تو مختلف معاشرتی سروے کے مطابق شادیوں میں تیار ہونے والے کھانے کا تقریباً اندازے کے مطابق پاکستان میں شادیوں میں تیار ہونے والے کھانے کا تقریباً بیس پچیس فیصد حصہ ضائع ہو جاتا ہے ۔ زیادہ تر یہ ضیاع اس وقت ہوتا ہے جب مہمان پوری پلیٹ نہ کھائیں، کھانے کی مقدار ضرورت سے زیادہ تیار کی گئی ہو، یا کچھ حصہ زیادہ پکا ہوا یا بچا ہوا کھانا کی صورت میں رہ جائے ۔ چھوٹی شادیوں میں ضیاع نسبتاً کم یعنی تقریباً پندرہ بیس فیصد ہوتا ہے ، درمیانی شادیوں میں یہ بیس پچیس فیصد تک پہنچتا ہے ، اور بڑی یا شاندار تقریبات میں یہ 25فیصد کے قریب یا تھوڑا زیادہ بھی ہو سکتا ہے ۔شادیوں میں بچنے والا کھانا ہوٹلوں اور ریسٹورنٹوں پر فروخت کر دیا جاتا ہے جو کہ دوسرے دن مضر صحت ہو جاتا ہے ۔اس کھانے کو عام شہری بھی مہنگائی کے دور میں سستے داموں خرید کر کھاتے ہیں۔یہی وہ اسراف ہے جس پر قرآن نے سخت تنبیہ فرمائی ہے اور جو سماجی بے حسی کی سب سے بڑی مثال بن چکا ہے ۔ کھانوں کی لمبی فہرستیں، متنوع ڈشیں اور بے دریغ خرچ نہ صرف اللہ کی نعمتوں کی توہین ہیں بلکہ ایسے معاشرے میں ایک تلخ طنز بھی ہیں جہاں لاکھوں لوگ دو وقت کے کھانے کو ترستے ہیں۔
پنجاب حکومت نے حالیہ فیصلوں میں جو پالیسی مرتب کی ہے ، وہ بظاہر نہایت مثبت قدم ہے ۔ ون ڈش پالیسی کی پابندی، اونچی آواز کے میوزک پر پابندی، کھلی فضا اور فارم ہاؤسز کی تقریبات کو مقررہ وقت کے اندر ختم کروانے کی ہدایت، فضول خرچی کے خلاف کارروائی یہ سب فیصلے اگر صرف کاغذ پر نہ رہیں تو پورے معاشرے کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مسئلہ ہمیشہ عمل درآمد کا رہا ہے ۔ گزشتہ 20برس میں کئی بار یہی نعرے لگے ، یہی پابندیاں لگیں، مگر ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں نے خود ان احکامات کو سنجیدگی سے نہ لیا، نتیجتاً عوام نے بھی انہیں مذاق سمجھا۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک تبدیل نہیں ہوتا جب تک قانون نافذ کرنے والے ادارے یکساں اور بلا امتیاز سختی نہ دکھائیں۔ شادیوں کے نام پر رات گئے تک چلنے والے شور، بے ہنگم ٹریفک، نیند کی کمی، صحت کے مسائل اور سماجی پریشانیوں نے لوگوں کی زندگی مشکل بنائی ہوئی ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق مسلسل بلند آواز انسان کی ذہنی صحت کو متاثر کرتی ہے ، نیند پر برا اثر ڈالتی ہے اور دل کے امراض کا خطرہ 20فیصد تک بڑھا دیتی ہے ۔ ہمارے ہاں شادیوں میں آواز کی کوئی حد مقرر نہیں، اسپیکر اور ڈی جے اپنی مرضی سے گھنٹوں شور مچاتے ہیں، اور اسکول جانے والے بچوں سے لے کر دفاتر کے ملازمین تک سب اذیت برداشت کرتے ہیں۔ یہ قدم صرف مذہبی حدود کی حفاظت کے لیے نہیں بلکہ عوام کی جسمانی و ذہنی صحت کے لیے بھی ناگزیر ہے ۔
اشرافیہ کی شادیوں نے ایک اور سنگین مسئلہ پیدا کیا ہے ،طبقاتی تقسیم کی شدت۔ امیر طبقہ جس شان و شوکت سے اپنی تقریبات مناتا ہے ، وہ پورے معاشرتی ڈھانچے کو متاثر کرتی ہے ۔ لاکھوں روپے کے لوازمات، لاکھوں کی لائٹنگ، درجنوں کھانے ، ہزاروں روپے کا ایک پلیٹ سسٹم، ڈیزائنر ملبوسات، شاہانہ اسٹیجز، ڈرون فوٹوگرافی اور بے شمار دکھاوا یہ سب چیزیں ایک عام شخص کے لیے ذہنی بوجھ، سماجی دباؤ اور ناگواری کا سبب بن جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شادی کی وہ سادگی جو کبھی ہماری پہچان تھی، اب صرف کتابوں میں رہ گئی ہے ۔ غریب یہ سب دیکھ کر احساسِ کمتری میں مبتلا ہوتا ہے ، قرض لیتا ہے ، کئی سالوں تک ادائی کرتا ہے ، مگر اپنے بچوں کی شادی اشرافیہ جیسی بنانے کی کوشش میں اپنی زندگی کو مشکل بنا لیتا ہے ۔اگر یہ حکومتی پالیسی مستقل نفاذ کے ساتھ پورے صوبے اور پھر پورے ملک میں اپنالی جائے تو نہ صرف فضول خرچی کو روکا جا سکے گا بلکہ معاشرے میں اعتدال، سکون اور سادگی کا رجحان فروغ پائے گا۔ شادی کا مقصد دکھاوا نہیں، دو خاندانوں کا ملاپ ہے ۔ جب ہم اسراف کو کم کریں گے تو نہ صرف غربت میں کمی آئے گی بلکہ معاشرتی ہم آہنگی بھی پیدا ہوگی۔ سادگی کو ایک مضبوط روایت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ قانون بھی مضبوط ہو، انتظامیہ بھی سنجیدہ ہو اور عوام بھی اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں۔
اقدامات کے طور پر ریاست کو یہ بات مستقل طور پر یقینی بنانی چاہیے کہ ون ڈش پالیسی پر ہر جگہ یکساں عمل ہو، کہیں سیاسی اثر و رسوخ یا پیسہ اس قانون کو توڑنے کا ذریعہ نہ بن سکے ، تقریب کے مقررہ اوقات کی واقعی پابندی کروائی جائے تاکہ رات گئے تک شور نہ پھیلے ، غیر شرعی اور ہندوانہ رسومات کی حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ ہماری تہذیب کو بیرونی اثرات سے محفوظ رکھا جا سکے ، شادی ہالز، فارم ہاؤسز اور آؤٹ ڈور تقریبات کی کڑی نگرانی ہو، کھانے کے ضیاع کو روکنے کے لیے فوڈ بینکس یا عطیہ مراکز سے مربوط نظام نافذ کیا جائے ، اور عوامی سطح پر آگاہی پیدا کی جائے کہ سادگی کمزوری نہیں بلکہ وقار ہے ۔ جب اشرافیہ اس سادگی کو اختیار کرے گی تو یہی مثال پورے معاشرے میں ایک نئی مثبت روایت کی بنیاد رکھے گی۔
٭٭٭