... loading ...
محمد آصف
افغانستان گزشتہ کئی دہائیوں سے عالمی سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے ، جہاں طاقت، مفادات اور جغرافیائی حکمتِ عملی کی ایک مسلسل کشمکش جاری ہے ۔ اس خطے کی جغرافیائی اہمیت، قدرتی وسائل، اسٹریٹجک لوکیشن اور عالمی طاقتوں کے مفادات نے افغانستان کو ہمیشہ ایک ”جیو پولیٹیکل بیٹل گراؤنڈ” بنائے رکھا۔ سوویت یونین کی مداخلت سے لے کر امریکی فوجی موجودگی تک، اور اب طالبان کے دورِ حکومت تک، افغانستان مسلسل طاقت کی نئی صف بندیوں، اتحادوں، دشمنیوں اور پراکسی جنگوں کا مرکز رہا ہے ۔ اسی ماحول میں بھارت نے گزشتہ بیس برسوں میں نہایت منظم، حکمت عملی پر مبنی اور توسیع پسندانہ کردار ادا کیا ہے ۔ اس کا مقصد صرف افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا نہیں، بلکہ پاکستان کو اس کے مغربی بارڈر پر سفارتی، سیاسی اور سکیورٹی دباؤ میں رکھنا بھی ہے ۔ بھارت کی بڑھتی ہوئی موجودگی جنوبی ایشیا کی طاقت کے توازن کو بدلنے کی کوشش ہے جو مستقبل کی علاقائی سیاست کے لیے اہم اور پیچیدہ سوالات پیدا کرتی ہے ۔ افغانستان میں طاقت کی کشمکش کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ یہاں مختلف گروہ، مختلف نظریات اور مختلف بیرونی قوتیں اثرورسوخ کے لیے سرگرم ہیں۔ طالبان کی حکومت آگے بڑھتی ہے تو افغان عوام کا بڑا طبقہ اسے قبول کرتا ہے جبکہ کچھ گروہ اس سے اختلاف رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ داعش خراسان، القاعدہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کی موجودگی اس خطے کو مزید غیر مستحکم بناتی ہے ۔ اسی غیر یقینی صورتحال میں عالمی طاقتیں بھی اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ امریکہ کی واپسی کے بعد پیدا ہونے والی خلاء کو چین، روس، ایران اور بھارت نے اپنے اپنے انداز سے پُر کرنے کی کوشش کی۔ خاص طور پر بھارت نے افغانستان میں سفارت کاری، معاشی معاونت، تعمیراتی منصوبوں، تعلیمی اسکیموں اور انٹیلی جنس روابط کے ذریعے اپنے اثرورسوخ کو مضبوط کیا۔
بھارت کی یہ حکمت عملی افغانستان کے اندر ایک نرم مگر دیرپا طاقت (Soft Power) کے طور پر سامنے آئی ہے ۔بھارت کا افغانستان میں اثر بڑھانے کا سب سے بڑا مقصد پاکستان کو علاقائی سطح پر کمزور کرنا ہے ۔ بھارت جانتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے تاریخی، مذہبی، سیاسی اور ثقافتی تعلقات گہرے ہیں، اور افغانستان میں پاکستان کے بغیر کوئی دیرپا پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے بھارت نے افغانستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی، تعمیراتی منصوبوں میں حصہ لیا، مثلاً سلما ڈیم،پارلیمنٹ بلڈنگ، سڑکوں کے جال اور تجارتی راہداریوں کے منصوبے ، تاکہ افغان عوام کے دلوں میں اعتماد پیدا ہو اور پاکستان کے مقابلے میں ایک مضبوط سفارتی بنیاد قائم ہو سکے ۔ مزید یہ کہ بھارت نے افغانستان میں موجود اپنے قونصل خانوں اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کے ذریعے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا، دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی اور عدم استحکام کے مواقع تلاش کیے ، جس کے شواہد پاکستان کئی بار عالمی سطح پر پیش کر چکا ہے ۔ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد بھارت کے لیے افغانستان میں اپنا اثر برقرار رکھنا آسان نہیں رہا۔ طالبان حکومت پاکستان کے ساتھ بظاہر بہتر تعلقات چاہتی ہے ، مگر بھارت نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ نرم سفارت کاری کا آغاز کر دیا ہے ۔ بھارت نے دوحہ میں طالبان کے نمائندوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں، انسانی امداد کے بہانے نئی راہیں نکالیں، اور افغانستان میں اپنی محدود مگر مؤثر موجودگی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ بھارت کا اصل مقصد یہ ہے کہ طالبان حکومت کو پاکستان کے مکمل اعتماد میں نہ آنے دیا جائے ، اور افغانستان میں اپنی جگہ برقرار رکھی جائے تاکہ خطے میں طاقت کا توازن اس کے حق میں رہے ۔ بھارت کی یہ حکمت عملی
مستقبل میں مزید شدت اختیار کر سکتی ہے کیونکہ طالبان ابھی بھی بین الاقوامی سطح پر مکمل قبولیت حاصل نہیں کر سکے ، اور بھارت اس صورتحال کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے ۔
افغانستان میں بھارت کا بڑھتا ہوا کردار صرف سفارتی یا معاشی نہیں بلکہ عسکری اور انٹیلی جنس مفادات سے بھی جڑا ہوا ہے ۔ بھارت افغانستان کو پاکستان کے خلاف ایک”اسٹریٹجک پریشر پوائنٹ” کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے ۔ بھارتی خفیہ ایجنسیاں افغان سرزمین کو پاکستان مخالف عناصر کی تربیت، فنڈنگ اور پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کا طویل تاریخ رکھتی ہیں۔ سابقہ افغان حکومتوں، خاص طور پر اشرف غنی کے دور میں، بھارت کے یہ روابط انتہائی مضبوط تھے ۔ طالبان کی واپسی نے وقتی طور پر بھارت کے منصوبوں کو دھچکا ضرور پہنچایا، لیکن بھارت کی پالیسی یہ ہے کہ افغانستان کے بدلتے حالات میں بھی کوئی نہ کوئی ایسا راستہ رکھا جائے جس کے ذریعے پاکستان کے خلاف دباؤ برقرار رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت مسلسل افغانستان کے سیاسی ڈھانچے ، علاقائی اتحادوں اور عالمی فورمز میں اپنا اثر قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے ۔
افغانستان کے معاملات میں بھارت کی بڑھتی مداخلت کے پاکستان پر واضح اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ بھارت افغانستان میں پاکستان مخالف لابی بنانے میں کامیاب نہ ہو جائے ۔ پاکستان کی مغربی سرحد پر امن اور استحکام قومی سلامتی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر بھارت افغانستان میں سیاسی اثرورسوخ بڑھاتا ہے تو پاکستان کو اپنے دفاعی اور سفارتی محاذ پر اضافی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ مزید یہ کہ افغانستان میں کسی بھی قسم کا عدم استحکام براہ راست پاکستان کو متاثر کرتا ہے ، جس کا تجربہ پاکستان پچھلے چالیس برسوں میں کر چکا ہے ۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ طالبان حکومت کے ساتھ مثبت روابط اور اعتماد سازی کو مضبوط کرے ، سرحدی انتظام کو بہتر بنائے ، اور علاقائی قوتوں کے ساتھ مل کر بھارت کے یک طرفہ اثر کو متوازن کرے ۔
افغانستان کے مستقبل کا انحصار اندرونی استحکام، علاقائی تعاون اور عالمی سفارتی حکمت عملی پر ہے ۔ اگر افغانستان ایک مستحکم، خودمختار اور امن پسند ریاست بن جائے تو پورے خطے کو فائدہ ہوگا۔ پاکستان، چین، ایران اور وسط ایشیائی ممالک کی یہ کوشش ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو تاکہ تجارتی راہداریوں، توانائی منصوبوں اور علاقائی ترقی کے راستے کھل سکیں۔ اس کے برعکس بھارت افغانستان میں اپنے سیاسی عزائم کے ذریعے اس خطے کو ایک نئی سرد جنگ کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اس ماحول میں ضروری ہے کہ علاقائی قوتیں مشترکہ مفادات کے تحت ایک مضبوط پالیسی ترتیب دیں، تاکہ افغانستان کی سرزمین دوبارہ کسی بیرونی طاقت کی پراکسی جنگ کا میدان نہ بنے ۔
آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ افغانستان میں طاقت کی کشمکش ابھی ختم نہیں ہوئی اور بھارت کا بڑھتا ہوا کردار اس خطے کے مستقبل کے لیے اہم سوالات اٹھا رہا ہے ۔ اگر افغان قیادت، علاقائی قوتیں اور عالمی برادری مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھیں تو افغانستان کو پائیدار امن اور ترقی کا راستہ دکھایا جا سکتا ہے ۔ لیکن اگر مفادات کی اس جنگ میں افغانستان کو ایک بار پھر عالمی طاقتوں کی کھیل گاہ بنا دیا گیا تو اس کے اثرات نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے پر مرتب ہوں گے ۔ اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ افغانستان کو استحکام، امن اور ترقی کی طرف لانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں، اور بھارت سمیت تمام ممالک کو افغانستان کی خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے خطے میں تعاون اور امن کو ترجیح دینی چاہیے ۔
٭٭٭