... loading ...
باسط علی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ مسلم لیگ (ن) انتخابات کو اس وقت تک مؤخر کرنا چاہتی ہے جب تک معاشی صورتحال قابو میں نہ آجائے اور مہنگائی سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے کھوئی ہوئی سیاسی حمایت پارٹی کو دوبارہ حاصل نہ ہوجائے
٭ نون لیگی کچھ پارٹی رہنما نوازشریف کی واپسی اور عمران خان کی نااہلی سے قبل کسی بھی نئے انتخابات کے لیے تیار نہیں، ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ اس سیاسی پوزیشن کی اسٹیبلشمنٹ کتنی دیر تک حمایت کر سکے گی؟
٭مریم نواز اور نوازشریف کے حامی اندرونی حلقے میں بھی کچھ سمجھدار یہ یقین کرنے لگے ہیں کہ مریم نواز پارٹی کے لیے اثاثہ سے زیادہ بوجھ ہے اوروہ پارٹی پر اپنی گرفت قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گی
٭٭٭
موجودہ حکومت کے تمام اہم لوگ ملک سے باہر کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی دورے پر رہنے کا یوں بھی کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ مگر شریف خاندان کو لندن سے کچھ زیادہ ہی انسیت ہے۔چنانچہ لندن جانے کے لیے کسی بھی غیر اہم موقع تک کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کی زبوں حال معیشت میں سادگی کے دعووں کے باوجود وزیراعظم شہباز شریف شاہ چارلس سوئم کی رسم تاجپوشی سے کئی روز قبل ہی لندن پہنچ گئے ہیں۔ استعمار کی علامت اس منصب کے خلاف حریت پسندوں کی نفرت ظاہر وباہر ہے۔ مگر دوسری طرف دنیا بھر میں مٹھی بھر اشرافیہ ایسے مواقع کا للچائی نگاہوں سے انتظار کرتے ہیں۔ اِسے ایک تاریخی موقع باور کرایا جاتا ہے۔ اور ایسے دوروں کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔مسلمانوں پر سب سے زیادہ ظلم برطانوی بادشاہت کے ان ہی غلیظ ترین ادوار میں کیا گیا۔ مسلم سلطنتوں کو توڑنے اور اسرائیل کے قیام سے لے کر بالکانائزیشن کا پورا کھیل برطانوی بادشاہت کی اشیرباد سے ہوتا رہا۔ اب وزیراعظم شہباز شریف اس کھیل کے مرکز میں شاہ چارلس سوئم کی رسم تاجپوشی میں شرکت کریں گے۔ اس تاریخی پہلو سے قطع نظر وزیراعظم شہبازشریف کے لیے یہ دورہ سیاسی لحاظ سے بھی ایک تناظر رکھتا ہے۔ چنانچہ وزیراعظم شہباز شریف شاہ چارلس سوئم کی رسم تاجپوشی کی تقریب سے کئی دن پہلے ہی لندن روانہ ہوگئے۔ جہاں اُن کا ایئرپورٹ پر پاکستان کے ہائی کمشنر معظم احمد خان اور برطانوی سیکریٹری خارجہ کے خصوصی نمائندے ڈیوڈ گورڈن میک لیوڈ نے استقبال کیا۔افسوس ناک عمل یہ ہے کہ وزیراعظم کے استقبال کے لیے سیکریٹری خارجہ بھی موجود نہ تھے۔
وزیر اعظم 5 مئی کو لندن میں دولت مشترکہ کے رہنماؤں کی ایک تقریب میں شرکت کریں گے اور اگلے روز شاہ چارلس سوئم کی تاجپوشی کی تقریب میں شرکت کریں گے۔اس دوران اور بعد میں وہ اپنے بڑے بھائی اور سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف سے ملک کی سیاسی صورتحال پر مشاورت کریں گے۔شہبا ز شریف ایک ایسے موقع پر لندن پہنچے ہیں جب اُن پر توہین عدالت کی تلوار لٹک رہی ہے اور وہ عدالت کے خلاف ایک بڑا محاذ کھول چکے ہیں جس میں وہ پارلیمنٹ کو عدالت کے مقابل لے آئے ہیں۔ پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ کے خلاف تقاریر اب معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔ یہاں تک کہ توہین عدالت کے بالمقابل اب توہین پارلیمنٹ کی وضعی اصطلاح بھی باربار استعمال کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم شہبازشریف کے حوالے سے تجزیہ کاروں کی یہ رائے ہے کہ وہ اس پوری صورتِ حال میں اپنے بڑے بھائی نوازشریف کی مرضی اور اپنی رائے کے برخلاف بروئے کار ہیں۔ اس جنگ وجدل کے ہنگام مسلم لیگ نون کے سامنے اور بھی متعدد چیلنجز ہیں جن کا اس جماعت کو مسلسل سامنا ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ نون کی گرتی ہوئی ساکھ اور قریب الاختتام مقبولیت نے اس جماعت کے لیے اگلے کسی بھی انتخابات کے لیے جیت کے مواقع محدود کر دیے ہیں۔ ایسے میں باسی کڑھی میں ایک ابال کے لیے نواز لیگ کے اکثر ارکان خود نوازشریف کی ملک واپسی کے خواہاں ہیں۔ اس حوالے سے مریم نواز کی پاکستان میں موجودگی کوئی خاص نتائج پیدا کرنے میں کامیاب نہیں رہی۔ اور اب خود مریم نواز اور نوازشریف کے حامی اندرونی حلقے میں بھی کچھ سمجھدار عناصر یہ یقین کرنے لگے ہیں کہ مریم نواز پارٹی کے لیے اثاثہ سے زیادہ بوجھ ہے۔ اور مریم نواز کم ازکم پارٹی پر اپنی گرفت بھی قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔ جہاں اُنہیں پارٹی کے سینئر لوگوں کی طرف سے نظرانداز کیے جانے کا خطرہ بھی اُبھر رہا ہے۔ دوسری طرف اطلاعات ہیں کہ موجودہ مسلم لیگ نون کے انتخابی ٹکٹ بھی اب اپنی کوشش کھوتے جارہے ہیں۔ چنانچہ پنجاب میں بہت سے ایسے الیکٹ ایبلز ہیں جو مسلم لیگ نون کے ٹکٹ سے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں اب نون لیگ کے ٹکٹ میں کچھ زیادہ دلچسپی لیتے دکھائی نہیں دیتے۔ نون لیگ کے لیے خود اپنی جماعت کے یہ چیلنجز ایسے ہیں جس میں پارٹی کے اہم لوگ نوازشریف کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ مگر نواز شریف اس حوالے سے شہبازشریف سے جس ماحول کے طالب ہے وہ ماحول خود شہبازشریف بھی پیدا کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ چنانچہ نوازشریف پاکستان آنے سے گریزاں ہیں۔
دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت مخلوط حکومت اور عدلیہ اور اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کے درمیان محاذ آرائی اور پنجاب میں انتخابات کے انعقاد کے عدالتی حکم سمیت بہت سے دوسرے چیلنجز بھی ہیں، جس میں خود حکومت رہنے یا نہ رہنے کے علاوہ پی ڈی ایم کے تیرہ جماعتی اتحاد کا مستقبل بھی شکو ک کے گرداب میں ہے۔ یوں شہبازشریف اور نوازشریف کے درمیان ملاقات کے دوران میں ان تمام مذکورہ امور سمیت مسلم لگ (ن) کے مستقبل کے لائحہ عمل اور نواز شریف کی وطن واپسی سمیت کئی اہم امور زیربحث آنے کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے شہباز شریف 3 بار لندن کا دورہ کر چکے ہیں، آخری بار وہ نئے آرمی چیف کے تقرر سے قبل نومبر 2022 میں لندن گئے تھے۔ایسے وقت میں جب حکمران اتحاد اور پی ٹی آئی کے درمیان انتخابات کے لیے جاری مذاکرات کا مستقبل اب مشکوک ہوچکا ہے۔ اور تحریک انصاف 14/ مئی کے پنجاب انتخابات کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرچکی ہے۔ اب مستقبل کا سیاسی نقشہ ایک بار پھر خوف ناک بحرانوں کی لپیٹ میں ہے۔ چنانچہ وزیراعظم شہبازشریف دورہ لندن کے دوران اپنے بڑے بھائی کو ملک کی اس سیاسی صورتحال سے آگاہ کریں گے اور مستقبل کے لائحہ عمل پر ان سے مشاورت کریں گے۔تین بار وزیر اعظم بننے اور ایک تجربہ کار سیاستدان کے طور پر نواز شریف کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے مبصرین کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اپنے بھائی سے یہ مشورہ ضرور لینا چاہیں گے کہ 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کے لیے سپریم کورٹ کی ڈیڈ لائن کا ردعمل کیسے دیا جائے۔تاہم تجزیہ کاروں کا اس باب میں نوازشریف کے اُس کیفیت کا بھی پوری طرح اندازا ہے جس میں وہ موجودہ بحرانوں پر قابو پانے کے بجائے اُس کے بڑھنے کا خطرہ مول لے کر سخت رویہ اختیار کرنے کے قائل دکھائی دیتے ہیں۔ اس پوری کیفیت کے سیاسی حالات پر مرتب ہونے والے اثرات سمیت اس کی زد میں اسٹیبلشمنٹ بھی پوری طرح آچکی ہے جنہیں حالیہ دنوں میں شدید عوامی غضب کا سامنا ہے۔ اور عوامی حمایت میں پیدا ہونے والی گراؤٹ نے اُن کے اثرات کی کمی کو بھی ایک مسئلے کے طور پر اجاگر کیا ہے۔ یہ سارے معاملات انتخابات سے جڑے ہیں۔ جس سے مسلم لیگ نون اور موجودہ تیرہ جماعتی اتحاد اپنا دامن بچا رہا ہے۔ ایسے ماحول میں مسلم لیگ نون کے لیے خود جماعتی سطح پر یہ فیصلہ کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اب کیا کریں۔ اگرچہ انتخابات کی حتمی تاریخ کا فیصلہ پی ڈی ایم میں شامل اتحادیوں کی جانب سے مشترکہ طور پر کیا جائے گا لیکن مولانا فضل الرحمٰن اور آصف علی زرداری جیسے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ نواز شریف کے تعلقات ہی اتفاق رائے پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔جبکہ یہ امر واضح ہو چکا ہے کہ کسی بھی عدالتی فیصلے کے بعد اس پر اگر عمل درآمد کا مسئلہ ہوا تو موجودہ تیرہ جماعتی اتحاد اس پر متفق نہیں رہ سکے گا۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق شہباز شریف کے دورہ لندن کے دوران شہباز شریف اگر چہ اپنے بڑے بھائی سے اِن تمام مسائل پر بات کریں گے لیکن میاں صاحب ان تمام مسائل پر پہلے سے ہی مکمل طور پر آگاہ ہیں اور وہ آن لائن مختلف رہنماؤں کو الگ الگ ہدایات دیتے رہتے ہیں۔
سابق وزیراعظم نوازشریف عدلیہ کے ساتھ جاری کشمکش میں اپنی شدت پسندانہ رائے کا پہلے ہی اظہار کرچکے ہیں۔ اس لیے موجودہ عدلیہ اور حکومت کی جاری کشمکش میں نوازشریف کی جانب سے اختیار کی گئی حکمت عملی بالکل واضح ہے۔ نوازشریف عدلیہ کے احتساب کا مطالبہ پہلے ہی کر چکے ہیں۔ وہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر بھی مسلسل تنقید کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی اور وزیراعظم شہبازشریف کو مزاحمت کی پالیسی میں شدت لانے کا ہی کہیں گے۔
جہاں تک انتخابات کا تعلق ہے تو اب یہ امر واضح ہو چکا ہے کہ مسلم لیگ (ن) انتخابات کو اس وقت تک مؤخر کرنا چاہتی ہے جب تک معاشی صورتحال قابو میں نہ آجائے اور مہنگائی سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے کھوئی ہوئی سیاسی حمایت پارٹی کو دوبارہ حاصل نہ ہوجائے۔یہ معاملہ تقریباً ناممکن لگتا ہے۔ کیونکہ معاشی صورتِ حال پر قابو پانے کے کوئی آثار دور دور تک نظر نہیں آتے۔معاشی ماہرین کے مطابق اگلا بجٹ آئی ایم ایف کی مرضی سے بنے گا۔ جس میں عوام کو ریلیف دینا تقریباً ناممکن ہوگا۔ نون لیگ کے پاس ایسی کوئی جادوئی چھڑی نہیں جسے وہ گھما کر مہنگائی کا جن بوتل میں بند کرسکے۔ چنانچہ مسلم لیگ نون تیرہ جماعتی مخلوط حکومت کے اتحاد میں وہ جماعت ضرور ہے جو بہر صورت پنجاب میں انتخابات کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش میں ہے۔ اس کے برعکس دیگر جماعتیں پہلے سے ہی پنجاب میں کوئی عوامی نمائندگی نہ رکھنے کے باعث اس موقف میں کس حدتک آگے جانا چاہیں گے، وہ کہنا قبل ازوقت ہے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ نون پیپلزپارٹی کے حالیہ دنوں میں اختیار کیے گئے موقف پر بھی قدرے پریشان ہے جو سپریم کورٹ میں کسی ممکنہ عدالتی فیصلے کے بعد بالکل مختلف رویے کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ جبکہ نون لیگ میں موجود کچھ پارٹی رہنما نوازشریف کی واپسی اور عمران خان کی نااہلی سے قبل کسی بھی نئے انتخابات کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس سیاسی پوزیشن کی اسٹیبلشمنٹ کتنی دیر تک حمایت جاری رکھ سکے گی؟
٭٭٭
عزت اور طاقت تقسیم سے نہیں، محنت اور علم سے حاصل ہوتی ہے، ریاست طیبہ اور ریاست پاکستان کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے اور دفاعی معاہدہ تاریخی ہے، علما قوم کو متحد رکھیں،سید عاصم منیر اللہ تعالیٰ نے تمام مسلم ممالک میں سے محافظین حرمین کا شرف پاکستان کو عطا کیا ہے، جس قوم نے علم او...
حالات کنٹرول میں نہیں آئیں گے، یہ کاروباری دنیا نہیں ہے کہ دو میں سے ایک مائنس کرو تو ایک رہ جائے گا، خان صاحب کی بہنوں پر واٹر کینن کا استعمال کیا گیا،چیئرمین بیرسٹر گوہر کیا بشریٰ بی بی کی فیملی پریس کانفرنسز کر رہی ہے ان کی ملاقاتیں کیوں نہیں کروا رہے؟ آپ اس مرتبہ فیڈریشن ک...
دہشت گردی اور معاشی ترقی کی کاوشیں ساتھ نہیں چل سکتیں،شہباز شریف فرقہ واریت کا خاتمہ ہونا چاہیے مگر کچھ علما تفریق کی بات کرتے ہیں، خطاب وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ جادوٹونے سے نہیں ملک محنت سے ترقی کریگا، دہشت گردی اور معاشی ترقی کی کاوشیں ساتھ نہیں چل سکتیں۔ وزیراعظم شہ...
پی ٹی آئی ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے،اختیار ولی قیدی نمبر 804 کیساتھ مذاکرات کے دروازے بندہو چکے ہیں،نیوز کانفرنس وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے اطلاعات و امور خیبر پختونخوا اختیار ولی خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے ...
وزیر اعلیٰ پنجاب سندھ آئیں الیکشن میں حصہ لیں مجھے خوشی ہوگی، سیاسی جماعتوں پر پابندی میری رائے نہیں کے پی میں جنگی حالات پیدا ہوتے جا رہے ہیں،چیئرمین پیپلزپارٹی کی کارکن کے گھر آمد،میڈیا سے گفتگو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ملک میں ایک سیاسی...
قراردادطاہر پرویز نے ایوان میں پیش کی، بانی و لیڈر پر پابندی لگائی جائے جو لیڈران پاکستان کے خلاف بات کرتے ہیں ان کو قرار واقعی سزا دی جائے بانی پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی قرارداد پنجاب اسمبلی سے منظور کر لی گئی۔قرارداد مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی طاہر پرویز نے ایوان میں پیش کی...
شہباز شریف نے نیب کی غیر معمولی کارکردگی پر ادارے کے افسران اور قیادت کی تحسین کی مالی بدعنوانی کیخلاف ٹھوس اقدامات اٹھانا حکومت کی ترجیحات میں شامل ، تقریب سے خطاب اسلام آباد(بیورورپورٹ) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ وفاقی حکومت نیب کے ذریعے کسی بھی قسم کے سیاسی انتقام اور کا...
1971 میں پاک بحریہ دشمن کیلئے سمندر میں سیسہ پلائی دیوار تھی اور آج بھی آہنی فصیل ہے 8 جدید ہنگور کلاس آبدوزیں جلد فلیٹ میں آرہی ہیں،نیول چیف ایڈمرل نوید اشرف کا پیغام چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا کہنا ہے کہ 1971 میں پاک بحریہ دشمن کیلئے سمندر میں سیسہ ...
دینی درسگاہوں کے اساتذہ وطلبہ اسلام کے جامع تصور کو عام کریں، امت کو جوڑیں امیر جماعت اسلامی کا جامعہ اشرفیہ میں خطاب، مولانا فضل الرحیم کی عیادت کی امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ وسائل پر قابض مراعات یافتہ طبقہ اور افسر شاہی ملک کو اب تک نوآبادیاتی ...
تمام یہ جان لیں پاکستان کا تصور ناقابل تسخیر ہے،کسی کو بھی پاکستان کی خودمختاری، علاقائی سالمیت پر آنچ اور ہمارے عزم کو آزمانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، چیف آف ڈیفنس فورسز بھارت کسی خود فریبی کا شکار نہ رہے، نئے قائم ہونے والے ڈیفنس فورسز ہیڈ کوارٹرز میں بنیادی تبدیلی تاریخی ...
سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے سے کام نہیں چلے گا، کچھ فارم 47 والے چاہتے ہیں ملک کے حالات اچھے نہ ہوں، دو سال بعد بھی ہم اگر نو مئی پر کھڑے ہیں تو یہ ملک کیلئے بد قسمتی کی بات ہے پی ٹی آئی بلوچستان نے لوکل گورنمنٹ انتخابات کیلئے اپنا کوئی امیدوار میدان میں نہیں اتارا ،بانی پی ٹ...
بانی پی ٹی آئی کی بہنیں بھارتی میڈیا کے ذریعے ملک مخالف سازش کا حصہ بن رہی ہیں ثقافتی دن منانا سب کا حق ہے لیکن ریڈ لائن کراس کرنے کی کسی کو اجازت نہیں،بیان سندھ کے سینئر صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے کہاہے کہ ثقافتی دن منانا سب کا حق ہے لیکن کسی بھی جماعت کو ریڈ لائن کراس...