... loading ...
کافی تگ و دو کے بعد بالآخر متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) بحال ہو گئی ہے، اصولی اتفاق تو شاید اسی وقت ہو گیا تھا جب جماعت اسلامی نے سید منور حسن کی جگہ سراج الحق کو اپنا امیر منتخب کر لیا تھا، سابق امیر جماعت کو اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بلکہ روڑا تصور کیا جاتا تھا، ان کی امارت کے دوران کتنی ہی مرتبہ کوششیں ہوئیں لیکن اس اتحاد کی بحالی ممکن نہ ہوئی، پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس اتحاد نے اپنی تشکیل سے لے کر تحلیل تک کس قسم کی سیاست کی پھر یہ غفرلہ، کیوں کر ہو گیا اور سیاسی موت مر جانے کے باوجود اسے بحال کرنا کیوں ضروری تھا اور ’’اصولی اتفاق‘‘ کے باوجود پہلے بحالی اور پھر عہدیداروں کے انتخاب میں اتنا وقت کیونکر لگ گیا۔ ایم ایم اے کی تشکیل 2002ء کے انتخاب سے پہلے ہوئی تھی جو اس عالم میں ہو رہے تھے کہ 2001ء کے نائن الیون کے بعد امریکی اور نیٹو افواج افغانستان میں موجود تھیں، افغانستان کی طالبان حکومت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور پاکستان سے بہت سے لوگوں کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا جا چکا تھا اور ان کے بدلے میں ڈالر وصول کیے جا چکے تھے۔ (ملاحظہ ہو سابق صدر پرویز مشرف کی کتاب ’’اِن دی لائن آف فائر‘‘ کا پہلا انگریزی ایڈیشن) یہ لوگ تو تفتیش کے لیے گوانتا ناموبے چلے گئے اور بہت سے بعد میں رہا بھی ہو گئے۔ اسلام آباد میں طالبان حکومت کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو بھی امریکیوں نے گرفتار کر لیا حالانکہ وہ سفیر تھے، انہیں سفارتی تحفظات بھی حاصل تھے، لیکن انہیں بھی گوانتاناموبے لے جایا گیا۔ تفتیش کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا، جس کے بعد انہوں نے اپنی گرفتاری کی کہانی لکھی جو اپنے وقت کی بیسٹ سیلر ثابت ہوئی، وہ اب بھی کابل میں رہتے ہیں۔
پاکستان سے جانے والے کئی صحافی وہاں ان سے ملاقات کرتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں جب پاکستان کے اندر انتخابات ہوئے تو صوبہ سرحد میں رائے عامہ کے جذبات افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کی وجہ سے سخت مشتعل تھے۔ انتخابات سے پہلے جو جائزے سامنے آئے، ان میں اگرچہ ایم ایم اے کی کامیابی کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا گیا تھا لیکن جو لوگ پشاور کے قصہ خوانی بازار، نمک منڈی، ہشت نگری اور پرانے شہر کے لوگوں سے ملتے تھے، انہیں یہ اندازہ تھا کہ ایم ایم اے صوبے میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی، اس وقت تک پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کا اتوار بازار نہیں لگا ہوا تھا اور نہ ہی شاہد مسعود جیسے نابغے چینلوں پر یہ دعوے کرتے پائے جاتے تھے کہ اگر ان کی خبر غلط ثابت ہو تو انہیں پھانسی پر لٹکا دیا جائے، زمینی حقائق پر نظر رکھنے والوں کو البتہ اچھی طرح اندازہ تھا کہ ایم ایم اے کافی نشستیں جیت جائے گی۔ نتیجے کے مطابق قومی اسمبلی میں ایم ایم اے دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری، پہلے نمبر پر اگرچہ مسلم لیگ (قائداعظم) تھی لیکن اس کے پاس بھی اکثریت نہیں تھی۔ اس لیے حکومت سازی سے پہلے بہت سی توڑ پھوڑ کرنی پڑی۔ پیپلزپارٹی کے دو ٹکڑے کیے گئے، سارے آزاد مسلم لیگ (ق) کی جھولی میں ڈالے گئے، پھر بھی میر ظفر اللہ جمالی ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیراعظم بن سکے۔ ایم ایم اے قومی اسمبلی میں موثر ترین اپوزیشن جماعت تھی تو صوبے میں اس نے اپنی حکومت بنائی جس کے وزیر اعلیٰ اکرم درانی تھے۔جنرل پرویز مشرف نے ایم ایم اے کے تعاون سے آئین میں سترھویں ترمیم منظور کرائی، جس کے ذریعے بہت سی شقوں میں اضافہ و تبدیلی کی گئی اورسب سے اہم بات یہ کہ صدر کا اسمبلی توڑنے کا وہ اختیار دوبارہ بحال کر دیا گیا جو نوازشریف نے دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد تیرھویں ترمیم کے ذریعے ختم کر دیا تھا۔ یہ اختیار اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے دوبارہ ختم کر دیا گیا۔
ایم ایم اے نے صوبے میں حکومت تو بنالی لیکن اس کا سفر زیادہ ہموار اور خوش گوار نہیں تھا، جلد ہی اتحاد کی دونوں بڑی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی کے درمیان اختلاف سامنے آنے لگے جو بڑھتے چلے گئے حتیٰ کہ ایسی خبریں آنے لگیں کہ شاید اتحاد ٹوٹ جائے۔ اتحاد تو لشٹم پشٹم چلتا رہا لیکن 2005ء کے بلدیاتی انتخابات دونوں جماعتوں نے الگ الگ لڑے۔ عجیب طرفہ تماشا تھا کہ جو جماعتیں صوبائی حکومت میں اکٹھی تھیں وہ شہری حکومتیں بنانے کے لیے خم ٹھونک کر ایک دوسرے کے مدمقابل آ گئی تھیں، نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہئے تھا یعنی دونوں ہار گئیں۔ اس کے بعد یہ کشمکش چل نکلی کہ وزیراعلیٰ اسمبلی توڑ دیں اور وزارت سے مستعفی ہو جائیں لیکن یہ نوبت نہ آئی اور حکومت نے اپنی مدت پوری کی، پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ایم ایم اے بھی ختم، صوبائی حکومت بھی ختم، 2008ء میں نیا سیاسی منظر سامنے آ گیا۔
اب دس سال بعد ایم ایم اے بحال ہوئی ہے تو پوچھا جا رہا ہے کہ کیا وہ دور واپس آ جائے گا، ایک لفظ میں اس کا جواب تو یہ ہے کہ ’’نہیں‘‘۔ اب ہوگا کیا اگلی سطور میں جائزہ لیتے ہیں۔ اتحاد کا اتنا فائدہ تو ضرور ہوگا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی، کے پی کے میں باہمی مقابلے پر نہ ہونے کی وجہ سے فائدہ اٹھائیں گی، اگر دونوں جماعتیں الگ الگ انتخاب لڑتیں اور اپنے اپنے امیدوار کھڑے کرتیں تو دونوں ہار جاتیں اور کوئی تیسرا فریق فائدہ اٹھا جاتا، اس عامل کی وجہ سے دونوں جماعتوں کو فائدہ ہوگا، باقی تین جماعتیں جمعیت اہلحدیث، جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) اور تحریک جعفریہ ہیں۔ مولانا سمیع الحق کی جماعت، جے یو آئی (س) اب کی بار اس کا حصہ نہیں بنی اور اس نے تحریک انصاف سے اتحاد کر رکھا ہے۔ 2002ء کے بعد ایم ایم اے اگر باہمی اختلافات کا شکار نہ ہوتی اور اپنے اتحاد کا دائرہ کار وسیع کرتی تو شاید اگلے انتخابات میں اپنی پوزیشن بہتر کر سکتی، لیکن ایسا نہ ہوا اور ترقی معکوس ہوئی، اب ایسے عالم میں یہ اتحاد بحال ہوا ہے جب دو دوسری مذہبی جماعتیں بھی انتخاب کے میدان میں اتر آئی ہیں۔ ایک تو تحریک لبیک ہے، جس کے سربراہ مولانا خادم حسین رضوی ہیں جو بہت جارحانہ سیاست کر رہے ہیں اور جن کا خیال ہے کہ ان کے نمائندے اگلے انتخابات میں پارلیمینٹ میں پہنچ جائیں گے، دوسری جماعت ملی مسلم لیگ ہے جو اہل حدیث مکتب فکر کی نمائندہ ہے۔ دونوں جماعتوں نے کئی ضمنی انتخابات میں حصہ لیا اور جماعت اسلامی کے امیدوار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے، اگرچہ ان کا کوئی امیدوار کامیاب تو نہ ہو سکا لیکن ووٹروں کا ان معنوں میں بھلا ہو گیا کہ ملی مسلم لیگ کا انتخابی نشان ’’انرجی سیور‘‘ بہت سے گھروں میں روشنی دینے لگا، دونوں جماعتوں کو اگر اگلے انتخابات میں زیادہ کامیابی نہیں بھی ہوتی تو بھی یہ کئی کامیاب امیدواروں کی راہ تو کھوٹی کر سکتی ہیں۔ اس لیے یہ بھی ’’کامیابی‘‘ ہی کی ایک قسم ہے، مین سٹریم پارٹیوں میں ہر مکتب فکر کے لوگ شامل ہو جاتے ہیں، ان جماعتوں میں مسلک کی تخصیص نہیں ہوتی، اس لیے ووٹر ان جماعتوں کی طرف راغب ہوتے ہیں۔
حکومت، پاک فوج کی کوششوں اور عوام کی ثابت قدمی سے پاکستان استحکام، عزت ووقار کی طرف بڑھ رہا ہے، غزہ میں فوری اور مستقل جنگ بندی، فلسطینی ریاستکیلئے ایک قابل اعتماد راستے کا مطالبہ آرمی چیف کی کمانڈرز کو میدان جنگ میں پیشہ ورانہ مہارت کے اعلیٰ ترین معیار کو برقرار رکھنے کی ہدایت...
عمران خان کا حکم آئے تو تیاری ہونی چاہیے، ہمارے احتجاج میں ایک گملا تک نہیں ٹوٹا ہمارے لیے لیڈر کا اشارہ کافی ، اسی دن لبیک کہا تھا، آئی ایس ایف کارکنان سے خطاب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل افریدی نے آئی ایس ایف کو اسٹریٹ موومنٹ کی تیاری کرنے کی ہدایت کردی، انہوں نے ک...
مئی کی جنگ میں آزاد کشمیر کے لوگ افواج پاکستان کی کامیابی کیلئے دعاگو تھے مقبوضہ کشمیر میں ہمارے بھائی بہن قربانیاں دے رہے ہیں، تقریب سے خطاب وزیراعظم محمد شہباز شریف کا کہنا ہے کہ مئی کی جنگ میں افواج پاکستان نے بھارت کو وہ سبق سکھایا کہ وہ ہمیشہ یاد رکھے گا۔مظفرآباد میں ط...
ہم خوشامدی سیاست کے قائل نہیں، حق بات کریں گے،ہماری پاکستان سے وفاداری اور دوستی کو تسلیم کیا جائے حکمران امریکا کی سوچ کو بغیر سمجھے اپناتے ہیں، حکمران اسلام کی پیروی کریں،دستار فضیلت کانفرنس سے خطاب جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہم اسٹیبلشمنٹ او...
نااہلی، بدترین گورننس، سیاسی بھرتیوں اور غلط انتظامی فیصلوں سے ادارے کو تباہ کیا قومی ائیرلائن کو برباد کرنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے،ایکس پراظہار خیال امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ پی آئی اے ایک شاندار اور بے مثال ادارہ، پاکستان کا فخر اور کئی بی...
سیاسی قوت کے طور پر مضبوط ہونا عوام اور سیاست دانوں کا حق ہے، فلسطین فوج بھیجنے کی غلطی ہرگز نہ کی جائے،نہ 2018 نہ 2024 کے الیکشن آئینی تھے، انتخابات دوبارہ ہونے چاہئیں کوئی بھی افغان حکومت پاکستان کی دوست نہیں رہی،افغانی اگر بینکوں سے پیسہ نکال لیں تو کئی بینک دیوالیہ ہوجائیں،...
ایف بی آر نے کسٹمز قوانین میں ترامیم کیلئے 10فروری تک سفارشات طلب کرلی فیلڈ فارمیشن کا نام، تجاویز، ترامیم کا جواز، ریونیو پر ممکنہ اثرات شامل ،ہدایت جاری نئے مالی سال کے بجٹ کی تیاریاں شروع کر دی گئیں، ایف بی آر نے نئے بجٹ کے حوالے سے ٹیکس تجاویز مانگ لیں۔ایف بی آر کے مطابق...
کراچی، حیدرآباد، سکھر، میرپورخاص، شہید بینظیر آباد اور لاڑکانہ میں مظاہرے بانی کی ہدایت پر اسٹریٹ موومنٹ کا آغاز،پوری قوم سڑکوں پر نکلے گی،حلیم عادل شیخ پاکستان تحریک انصاف کے سرپرستِ اعلی عمران خان، ان کی اہلیہ بشری بی بی، اور اس سے قبل ڈاکٹر یاسمین راشد، اعجاز چوہدری، میاں ...
عوام متحد رہے تو پاکستان کبھی ناکام نہیں ہوگا،ہماری آرمڈ فورسز نے دوبارہ ثابت کیا کہ ہماری سرحدیں محفوظ ہیں قوم کی اصل طاقت ہتھیاروں میں نہیں بلکہ اس کے کردار میں ہوتی ہے، کیڈٹ کالج پٹارو میں تقریب سے خطاب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کیڈٹ کالج پٹارو م...
تحریک تحفظ کانفرنس کے اعلامیے کا علم نہیں،غلط فیصلے دینے والے ججز کے نام یاد رکھے جائیں گے عمران کو قید مگر مریم نواز نے توشہ خانہ سے گاڑی لی اس پر کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟میڈیا سے گفتگو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے کہا ہے کہ مذاکر...
پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز کے تحت کراچی ایکسپو سینٹر میں جاری پانچ روزہ کراچی ورلڈ بک فیٔر علم و آگاہی کی پیا س بجھا تا ہو ا کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔ کراچی ورلڈ بک فیٔر نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ساڑھے 5لاکھ افراد نے پانچ روز...
اصل سوال یہ ہے کہ حکومت کس کی ہے اور فیصلے کون کر رہا ہے، آئین کیخلاف قانون سازی کی جائے گی تو اس کا مطلب بغاوت ہوگا،اسٹیبلشمنٹ خود کو عقل کل سمجھتی رہی ،سربراہ جمعیت علمائے اسلام عمران خان سے ملاقاتوں کی اجازت نہ دینا جمہوری ملک میں افسوس ناک ہے، میں تو یہ سوال اٹھاتا ہوں وہ گ...