وجود

... loading ...

وجود
وجود

حُسن اور محبت کا شاعر ذوالفقار عادل

اتوار 17 دسمبر 2017 حُسن اور محبت کا شاعر ذوالفقار عادل

فراست رضوی

پاکستان میں اُردو غزل کئی ادوار اور اسالیب سے گزر کر اب ایک نیا تخلیقی موڑ کاٹ رہی ہے۔ قمرؔ جلالوی کی زبان سے لطف پیدا کرنے والی غزل،فیض ؔکے نیم غنودہ لہجے کی رومانی غزل،حفیظؔ ہوشیارپوری کی روایتی احیاء کے غزل،ناصرؔ کاظمی کی اُداس اور رفتگاں زدہ غزل،محشر ؔبدایونی کی ہجرت اور سیاسی موضوعات کو برتنے والی نوکلاسیکی غزل،سلیم ؔاحمد کی بیاض والی اینٹی غزل،شہزادؔ احمد کی پختہ کار فکری غزل،عزیز حامد مدنیؔ کی فارسی ڈکشن سے مرصع غزل،منیرؔ نیازی کی جمالِ یار کے رنگوں میں ڈوبی،ویران بستیوں کے مناطر دکھاتی غزل، احمد فرازؔ کی نوعمری کے عشقیہ جذبات سے لبریز،دلفریب غزل، رساؔ چغتائی کی زندگی سے جڑی سادہ و پُرکارغزل، ظفرؔ اقبال کی لسانی تشکیلات کے زیراثر،زبان کی توڑ پھوڑ والی غزل،احمد مشتاقؔ کی یادِ رفتہ کی پرچھائیاں لیے دل سوز غزل،جونؔ ایلیا کے تیکھے لہجے والی پُر خیال غزل،انور شعور ؔکی داغ دہلوی کا رنگ لیے عاشقانہ غزل،ثروتؔ حسین کی شدت حسن سے جگمگاتی غزل،افضال احمد سید کی فارسی لفظیات اور عربی کلچر سے گندھی ہوئی غزل اور صابر ظفرؔ کی لوک ادب سے متاثر تجرباتی غزل۔بلاشبہ، غزل کے ان سارے اسالیب نے پاکستانی غزل کے سرمائے میں بیش بہا اضافہ کیا ہے۔لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ سارے دائرے اپنے امکانات پورے کر چکے ہیں۔
اب نئی اُردو غزل، اکبر معصومؔ،خالدؔ معین،شاہینؔ عباس،ادریس بابرؔ،شاہدؔ ذکی، انعام ندیمؔ،کاشف حسین غائرؔ، سیدکامیؔ شاہ،توقیرؔ تقی،شبیر نازشؔ،دلاور علی آزرؔ اور ذوالفقار عادلؔ کی غزل ہے۔غزل کا یہ شجرِ تروتازہ ایک نئی آب وہوا میں پلا بڑھا ہے ۔ یہ نئی آب وہوا،بے یقینی، دہشت گردی،مذہبی انتہا پسندی، جھوٹ اور زر پرستی پر قائم معاشرے کی آب و ہو اہے۔ یہ الیکٹرونک میڈیا سے پیدا ہونے والے ذہنی انتشار اور ہولناکی کا دور ہے۔ یہ سچی شاعری سے بے اعتنائی کا زمانہ ہے۔یہ ایک بڑا چیلنج ہے، جسے پرانے لکھنے والوں نے شاید اِس طرح faceنہیں کیا ہوگا، جیسے آج کا نوجوان تخلیق کارfaceکررہا ہے۔
ذوالفقار عادل ایک ایسا ہی نوجوان شاعر ہے جواِس عہد ِ بے اماں میں صلے اور ستائش کی پروا کیے بغیر اپنے عہد کا نوحہ بھی لکھ رہا ہے اور اپنی ذات کا دکھ بھی۔وہ جانتا ہے یہ معاشرہ اسے کچھ نہیں دے گا،سوائے بے توجہی کے اور بے اعتنائی کے۔اس کے لیے سچا شعر لکھنے کی مسرت ہی سب سے بڑا صلہ ہے۔اس کی شاعری میں جھوٹ کا مکروہ چہرہ کہیں نظر نہیں آتا۔اس کی تازہ شعری کتاب’’شرق مرے شمال میں‘‘ معاشرے کی منافقت اور تضادات کی طرف بہت کھل کر اشارے کرتی ہے۔اس کی غزل نئے گلوبل ویلیج کی فضا سے ابھری ہے۔ اسی لیے اسے سرمایہ دارانہ نظام سے ظہور پذیر ہونے والی بیگانگی اور نا انصافی کا پورا ادراک ہے۔’’شرق مرے شمال میں ‘‘کا ٹکڑا جو اس شعری مجموعے کا نام ہے۔ جس شعر سے لیا گیا ہے اسے دیکھیے تو سماجی ناانصافی پر کیے گئے اس طنز کی کاٹ آپ کو اپنے دل پر محسوس ہوگی۔
نکلا ہوں شہرِ خواب سے کیسے عجیب حال میں
غرب مرے جنوب میں، شر ق مرے شمال میں
ذوالفقار عادل کی نگاہ میں عہدِ جدید کے انسان کی پناہ گاہ صرف شہرِ خواب رہ گئی ہے کیونکہ جب بھی ہم اِس شہرِ خواب سے باہر نکلیں گے تو بدلی ہوئی قدریں ہمارے دُکھوں میں اضافہ کردیں گی۔مفاد پرست اپنے ذاتی فائدے کے لیے ہر شے کی صورت کو مسخ کررہے ہیں۔ اب جنوب کو مشرق کہا جا رہا ہے اور شمال کو مغرب، ایسا حقیقت میں تو ممکن نہیں ہے مگر طاقت کے زور پر اس عہد میں ایسا ہی کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک مثال ہے انتہائی سچی اور سفاک مثال۔ آج جہالت علم کے درجے پر فائز ہے اور علم کو جہل کہ اس کا مذاق اُڑایا جارہا ہے۔ شرافت جرم ہے اور عیاری اور منافقت کو سیاست کا نام دیا جاتا ہے۔بے گناہوں کے قتلِ عام کو جہاد کہا جاتا ہے،دیانتداری حماقت سے موسوم ہے۔ سماجی نا انصافی کی ایسی ہزاروں شکلیں ہم اس شعر میں دیکھ سکتے ہیں۔ معنی کی یہی کثرت اس شعر کی خوبی ہے۔
ارسطو نے بوطیقا میں لکھا ہے’’جدید لفظ وہ نہیں ہے جو پہلے استعمال نہ ہُوا ہو بلکہ وہ پرانا لفظ ہے جس کے نئے معنی شاعر نے دریافت کیے ہوں‘‘۔ ہندوستان کے معروف نقاد ڈاکٹر انیس اشفاق جنھوں نے ’’اردو غزل میں علامت نگاری‘‘ کے موضوع پر لکھنو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا ہے، اپنی تازہ کتاب’’غزل کا نیا علامتی نظام‘‘ میں، پرانی علامتوں میں نئی معنویت اور نئے تلازمات تشکیل دینے کے حوالے سے فیض ؔکی شاعری کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’ اپنی شاعری میں وسیع تر معنوی امکانات پیدا کرنے کی غرض سے فیضؔ اُن علامتوں کی طرف متوجہ ہوئے، جو کہنے کو تو پرانی تھیں لیکن جن میں نئے معانی کی جستجو بہ آسانی کی جاسکتی تھی، اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبالؔ کے بعد فیضؔ شعوری طورپر علامتی شاعری کی طرف متوجہ ہوئے اور پرانی علامتوں میں نئے مفاہیم کی جستجو کے ذریعے انھوں نے پرانی علامتوں کی معنویت کو بدل ڈالا۔‘‘
اس میں شک نہیں کہ فیضؔ صاحب ہمارے عہد کے وہ پہلے شاعر تھے، جنھوں نے پرانے استعاروں کو نئے سیاسی اور سماجی مفاہیم میں استعمال کِیا اور پرانے استعاراتی نظام کی بنیاد پر ایک نیا شعری نظام بنایا۔ ذوالفقار عادل کی غزلوں میں بھی ہمیں عہدِ حاضر کی معروف شعری لفظیات کو نئے معانی دینے کی کوشش واضح طورپر نظر آتی ہے۔
ذوالفقار عادل کے خون میں کچھ درویشی بھی شامل ہے۔ تصوف کا ایک مدھم سا رنگ اس کے شعری مزاج کا حصہ ہے، جو اسے ورثے میں ملا ہے۔ تصوف کے اس ورثے نے اس میں ایک ایسی نظر پیدا کردی ہے جو اشیاء میں مادی اشکال سے پرے کسی نادیدہ حقیقت کو دیکھ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔یہی وہ بات ہے جو اسے اپنے ہم عصر نوجوان شعراء سے ممتاز کرتی ہے۔ اور اس کی شاعری میں اکہرے پن کے بجائے ایک نوع کی کثیرالمعنویت پیدا کردیتی ہے۔ یہی وہ شعری رویہ ہے جو اسے الفاظ کے متعین معنوں کے اس پار نظارہ کرنے پر اُکساتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ دل کا لفظ فارسی اور اردو غزل میں کثرت سے استعمال ہونے والا لفظ ہے۔ تصوف کے اصطلاحات کی مشہور نعت’’سرِ دلبراں‘‘ میں حکیم ذوقی شاہ نے فرمایا ہے کہ ’’ دل کے معنی یہ ہیں کہ وہ وجود کے حقائق کا آئینہ ہے،کیونکہ عالم کے تغیرات دل میں منعکس ہوتے رہتے ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ سارا عالم دل کا آئینہ ہے،کیونکہ دل اصل ہے اور عالم اس کی فرع۔صوفیا کی نظر میں دل کے سوا کوئی چیز نہیں جو ذاتِ باری کے اسماء و صفات کے ذائقوں کو محسوس کرسکے۔‘‘
یوں تو ذوالفقار عادل کی غزلوں میں بہت سے ایسے لفظ ہیں جو لغت کی حدوں کو پھلانگ کر معنویت کی نئی وادیوں میں جابسے ہیں،لیکن میں فی الوقت لفظِ دل کی مثال دوں گا۔ دل کے لفظ کو ذوالفقار عادل نے جہاں بھی استعمال کیا ہے ،اس میں تصوف کا رنگ نمایاں ہے۔ہر بار دل کا لفظ ایک نئے معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔مجموعی طورپر غورکریں تودل اس کے یہاں پوری انسانیت سے محبت کی علامت ہے۔یہ ساری حقیقتوں کا محورومرکز ہے۔ یہ لفظِ دل اس کی شاعری میں دنیا کی ساری سازشوں،نفرتوں اور ہوسِ زر کی ضد ہی نہیں بلکہ یہ تسلیمِ حق اور بلند انسانی اقدار پر اس کے ناقابل شکست یقین کا استعارہ بھی ہے۔ اس حوالے سے اس کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:
دن میں شب کا بوجھ اٹھایا،دن میں شب بیداری کی
دل پر دل کی ضرب لگائی ایک محبت جاری کی
ہم انصاف نہیں کرپائے، دنیا سے بھی،دل سے بھی
تیر ی جانب مڑ کر دیکھا یعنی جانب داری کی
۔۔۔
دائرہ اس مثلث کے باہر بھی ہے اور اندر بھی ہے
ایک نقطہ ہے دل، لطف ہر مسئلے کا اٹھاتا ہُوا
رات پکڑا گیا اور باندھا گیا، اور مارا گیا
ایک لڑکا سا دل، میرؔ کے باغ سے پھل چراتا ہُوا
۔۔۔
ہر حسرت پر ایک گرہ سی پڑجاتی تھی سینے میں
رفتہ رفتہ سب نے مل کر دل سی شکل بنالی ہے
۔۔۔
ہر اک وقت کے بادشہ سے الگ
یہ دل ایک بے وقت کا بادشہ
۔۔۔
اگر جلایا گیا ہے کہیں دیے سے دیا
تو کیا عجب کہ کبھی دل سے دل بنایا جائے
۔۔۔
دل تختی پر،عشق زباں میں،پلکوں سے اور اشکوں سے
کہے حسین فقیر سئیں دا،عادلؔ لکھتا جائے نیں
۔۔۔
ذوالفقار عادل دراصل انسانی رشتوں کے احترام کا شاعر ہے۔ اس کے لیے سب کچھ انسانی رشتے ہیں۔ زندگی کا سارا حُسن اسے فطرت کے مناظر اور انسانی رشتوں میں دکھائی دیتا ہے۔ اُس کے دوست اور اس کے خاندان والے اس کا آئینہ ہیں،جس میں وہ اپنے آپ کو دیکھتا ہے۔ان کے بغیر اس کا وجود دھند میں لپٹا ایک ایسا پیکرہے جس کی کوئی معنویت نہیں۔یہی رشتے اس کے شعری ادراک اور اس کے تخلیقی عمل کی قوت ہیں، اس نے اپنے نانا بشیر احمد کے لیے لکھا:
ایک سفر میں سارا عالم اور فنا درپیش
جن کا کام محبت، باقی ان کے نام ہمیش
ایک دعا سے کھل سکتے ہیں یہاں ہزاروں پھول
اس مٹی کے نیچے ہے اک دریا ،اک درویش
اس نے اپنی نانی اماں کے لیے لکھا:
سورج مکھی کا پھول تھا دل تازہ تم سے تھا
دنیا میں شرق و غرب کا اندازہ تم سے تھا
اس نے اپنے دادا حسن محمد کے لیے لکھا:
دھوپ دیکھی ہی نہیں تھی، بارشوں کا ڈر نہ تھا
آج سب دیکھا ہے، جب اک سائباں سرپر نہ تھا
اس نے اپنے والدِ گرامی کے لیے لکھا:
میں کہ نام و نشان ہوں اس کا
میرا مسکن مرا پتا وہ ہے
اس کی آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں
میری آنکھوں میں دیکھتا وہ ہے
اپنی والدہ کے لیے اس نے لکھا:
دنیا کی سب سے خوبصورت چیز
میری ماں کی ہنسی ہے
اس میںچاروں سمتیں اور تینوں زمانےموجود ہیں
یہ انسانی رشتے اس کی روح سے لپٹے ہوئے ہیں۔وہ ایک ایسا پرندہ ہے جو جلتے ہوئے شجر کے ساتھ جل جاتا ہے،مگر اپنا مسکن نہیں چھوڑتا۔اسی لیے اس نے بڑے دکھ کے ساتھ یہ شعر لکھا:
کچھ پرندوں کو یہ معلوم نہیں تھا عادلؔ
جل رہا ہو تو شجر چھوڑ دیا جاتا ہے
ناؤ،پانی ، خاموشی،خواب،دریا،دل اور پرندے ذوالفقار عادل کے بینادی استعارے ہیں۔ یہ استعارے ایک آبادی میںظہور کرتے ہیں،اس آبادی میں کہیں کہیں کھنڈر بھی ہیں اور ویرانے بھی۔پاس اک قدیم دریا بہتا ہے۔ یہ آبادی ایک شہر ہے، متضاد احساسات اور گل رنگ مناظر سے سجا ہوا۔۔۔۔یہ شجاع آباد ہے جو اس کے تخیل میں جاکر ایک شہرِ طلسمات میں تبدیل ہوگیا ہے۔ یہ بستی اس کی شاعری میں محبت کرنے والے معصوم لوگوں کی بستی کا استعارہ بن گئی ہے۔یہاں اکی اُجلی اور آہستہ خرام صبحیں،اُداس دوپہریں، پُر اسرار شامیں اور سکون،امید،ڈر اور خوابوں سے بھری راتیں،اس کی شاعری میں بڑے حُسن اور رنج کے ساتھ جھلکتی ہیں۔ جیتے جاگتے منظروں کے یہ ٹکڑے اس کی شاعری کاloud scapeبناتے ہیں۔یہ اس کی شاعری کے اسٹیج پر لگا ہوا ’’پینا فلیکس‘‘ ہے۔ سارے انسانی رشتے اور کردار اسی’’پینا فلیکس‘‘ کے پس منظر میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اگر اس کی شاعری کے اسٹیج سے ہم یہ ’’پینا فلیکس‘‘ اُتار لیں تو پھر ہم اس کی شاعری کو نہیں سمجھ سکیں گے۔ اس ساری صورت ِ حال میں اہم بات یہ ہے کہ اگر یہ literalاور بے تخیل ہوتا تو اس کی محدودیت باقی رہتی،لیکن چونکہ یہ سب کچھ ایک علامتی پیرائے میں ہے اس لیے اس کے سرے آفاقیت کو چھونے لگتے ہیں۔ اِس پس منظر میں اس کے چند اشعار دیکھیے:
وہ شہر کسی شہر میں محدود نہیں تھا
اس میں وہ سبھی کچھ تھا، جو موجود نہیں تھا
گم ہوگئی زنجیر کی آواز میں آواز
افسوس کہ ہم میں کوئی داؤد نہیں تھا
۔۔۔
اسٹیشن پر آتی جاتی گاڑی کی آواز
جیسے اگلی پچھلی ساری صدیوں کی ہمراز
قبرستان کے اک کونے میں گورکنوں کے گھر
موت انھیں زندہ رکھتی ہے مٹی ان کا زر
۔۔۔
گرد کوزوں سے ہٹانے کے لیے آتا ہے
کوزہ گر شکل دکھانے کے لیے آتا ہے
یوں ترا خواب ہٹا دیتا ہے سارے پردے
جس طرح کوئی جگانے کے لیے آتا ہے
ایک کردار کی امید پہ بیٹھے ہیں یہ لوگ
جو کہانی میں ہنسانے کے لیے آتا ہے
۔۔۔
کچھ خاک سے ہے کام ، کچھ اس خاک داں سے ہے
جانا ہے دور اور گزرنا یہاں سے ہے
دل اپنا رائیگانی سے زندہ ہے اب تلک
آباد یہ جہاں بھی غبارِ جہاں سے ہے
۔۔۔
اس کی شاعری میں جہاںبھی کوئی مکانی حوالہ آتا ہے۔ وہاں اس کے اندر آباد اس بستی کی جھلک ضرور نظر آتی ہے۔اس بستی کو وہ اپنی ساری شاعری میں شہرِ خواب کہتا ہے۔ وہ اس شہرِ خواب سے باہر نہیں آنا چاہتا لیکن زندگی کا جبر اسے شہرِ خواب سے باہر آنے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔
ذوالفقار عادل کی شاعری میں احساس اور جذبے کی چنگاریوں کے ساتھ فکر کی روشنی بھی ہے۔ وہ بہت سے عصری مسائل کو غزل کی اشاریت میں چھپاکر پیش کرتا ہے۔ چونکہ سوالات اتنے بڑے اور اہم ہیں کہ پوری طرح چھپ نہیں پاتے۔ ایک صاحب نظر قاری ان سماجی حقیقتوں کے خدوخال کو فوراً شناخت کرلیتا ہے۔ مثلاً یہ اشعار:
کسی کا خواب، کسی کا قیاس ہے دنیا
مرے عزیز یہاں کس کے پا س ہے دنیا
یہ خون اور پسینے کی بو نہیں جاتی
نہ جانے کس کے بدن کا لبا س ہے دنیا
۔۔۔
دیکھنے والوں کو پہچانیں ،اُن کے ساتھ رہیں
رینگنے والے، دوڑنے والوں سے محتاط رہیں
فرش پہ رکھ کر، خوابوں، چہروں اور لکیروں کو
ہم کچھ دیر اجازت ہوتو خالی ہاتھ رہیں
۔۔۔
جتنا ان سے بھاگ رہاہوں اتنا پیچھے آتی ہیں
ایک صدا جاروب کشی کی، اک آواز بھکاری کی
اپنے آپ کو گالی دے کر گھوررہا ہوں تالے کو
الماری میں بھول گیا ہوں پھر چابی الماری کی
۔۔۔
کہیں صندوق ہی تابوت بن جائے نہ اک دن
حفاظت سے رکھی چیزوں کو پھیلانا پڑے گا
۔۔۔
سرکار! ہر درخت سے بنتے نہیں ہیں تخت
قربان آپ پر مرے اوزار اور میں
۔۔۔
شاعری کے پاریکھ کہتے ہیں ہر شاعر کا ایک majer problemہوتا ہے۔ایک مرکزی غم، ایک کلیدی مسئلہ، اس کے بغیر کوئی جینوئن شاعر اپنا تخلیقی سفر جاری نہیں رکھ سکتا۔ جسے فراقؔ صاحب کی زبان میں آپ روک کہہ سکتے ہیں۔ ان کے نزدیک فن کی بقا کے لیے تخلیقی فنکار کے ساتھ کوئی نہ کوئی فکری یا جذباتی روگ لگا ہونا ضروری ہے۔اس حوالے سے ذوالفقار عادل کی شاعری کا جائزہ لیجیے تو آپ کو اس کی غزلوں میں ایک ہی غم نظر آئے گا،وقتِ گزراں کا غم۔گزرتا ہوا وقت ہر چیز کو کھا جاتا ہے۔بہاریں رخصت ہوجاتی ہیں، پھول رزقِ خاک ہوجاتے ہیں۔ویرانے بستیاں اور بستیاں بڑے بڑے شہروں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ چاہنے والے لوگ اچانک بچھڑ جاتے ہیں۔ بس یہی احساس ہے جو ذوالفقار عادل کو افسردہ رکھتا ہے۔ لیکن اس کا اظہار وہ براہِ راست نہیں کرتا، وہ غزل کی رمزیت میں اس دکھ کے رنگین زہر کو اتار دیتا ہے، یوں اس کے لفظوں میں سچائی کا جادو اپنی تابانی دکھانے لگتا ہے۔ اس حوالے سے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:
اشک گرتے نہیں ہیں یوں شاید
ہوچکی سیرِ اندروں شاید
ہر کہانی اداس کرتی ہے
ختم ہونے کو ہے جنوں شاید
آگرا ہوں کسی ستارے پر
منہدم ہوگئے ستوں شاید
۔۔۔
شکر کیا ہے ان پیڑوں نے ،صبر کی عادت ڈالی ہے
اس منظر کو غور سے دیکھو، بارش ہونے والی ہے
سوچا یہ تھا وقت ملا تو ٹوٹی چیزیں جوڑیں گے
اب کونے میں ڈھیر لگا ہے باقی کمرا خالی ہے
۔۔۔
عمریں گزار کر یہاں پیڑوں کی دیکھ بھال میں
بیٹھے ہیں ہم نشیں مرے سایۂ ذوالجلال میں
زخم کا رنگ اور تھا، داغ کا رنگ اور ہے
کتنا بدل گیا ہوں میں عرصۂ اندمال میں
۔۔۔
چرچ کی سیڑھیاں، وائلن پر کوئی دُھن بجاتا ہوا
دیکھتا ہے مجھے اک ستارہ کہیں ٹمٹماتا ہوا
۔۔۔
مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ ذوالفقار عادل کی شاعری عامیانہ ہجرو وصال کی شاعری نہیں ہے۔ اس کا تصورِ ہجرووصال اپنے اندر بہت سی تجریدی جہتیں رکھتا ہے۔ ان تصورات میں ایک الوہی وسعتِ نظر بھی ہے۔ اس کا ہجر، آدم کا خدا سے ہجر ہے۔اس کا وصال اپنے آپ کو پالینے کا وصال ہے۔ کیونکہ اس کا عشق جذباتی نوعیت کا سطحی اور پایاب عشق نہیں ہے۔ اس کا عشق کائنات،خدا اوراپنے اردگرد پھیلی ہوئی خوبصورتی سے ہے۔۔۔یہ عشق دراصل شاعر کا اپنے خارج کی دنیا سے ایک سچا اور گہرا تعلق ہے، اس رنجِ آگہی کے ساتھ کہ ہر شے بدل رہی ہے اور یہ عالمِ اشیاء اور یہ کاروانِ انسانی ہر لمحہ فنا کی وادی کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔اس گہرے احساس نے اس سے بہت اچھے شعر لکھوائے ہیں۔اس کے بہترین اشعار کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ میں ان سب کو اس مضمون میں quotنہیں کرسکتا۔اِس کے لیے آپ کو اس کا شعری مجموعہ’’شرق مرے شمال میں‘‘ پڑھنا پڑے گا۔
مرزا غالبؔ کو اٹھارویں صدی کا دلی شہر رہنے کو ملا تو وہاں رہ کر اس نابغۂ سخن نے یہ شعر لکھا:
بناکر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
ذوالفقار عادل کو اکیس ویں صدی کا شجاع آباد رہنے کو ملا تو اس نے یہ شعر لکھا:
اپنی چھت پر اداس بیٹھے ہیں
ہم پرندوں کا روپ دھارے ہوئے
ذرا غور کیجیے، اس شعر میں یہ چھت کیا ہے؟ یہ چھت درحقیقت ہمارا عہد ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کے بے ہنگم شور سے بھرا ہوا سگانِ زر کا عہد، ایسا ترقی یافتہ عہد جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا دیو ہماری اخلاقی قدار کو کھاگیا ۔ اس شعر میں پرندے تخلیقی فنکار ہیں،شاعر ہیں، مجسمہ ساز ہیں،مصور ہیں، گیت گانے والے ہیں۔ یہ انسان ہیں مگر استعماریت اور عالمگیریت کے ماہر شکاریوں کے ستم کا مشاہدہ کرنے کے لیے یہ پرندے بن گئے ہیں۔ان کا روپ پرندوں جیسا ہے مگر یہ اُڑ نہیں سکتے۔کیونکہ ہوا میں بھی جال پھیلے ہوئے ہیں۔یہ عہدِ نو میں ایک فنکار کا المیہ ہے جسے ذوالفقار عادل نے کس بلاغت اور سادگی کے ساتھ لکھ دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ’’شرق مرے شمال میں‘‘ محض ذوالفقار عادل کے تجربات اور خوابوں کی دستاویز ہی نہیں یہ ہمارے عہد کا زندہ تصویر خانہ بھی ہے۔ جس میں ہم اپنا چہرہ اور اپنے عہد کے اجتماعی رویوں کی تصویریں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ میں ذوالفقار عادل سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مستقبل میں اپنے شعری معیار کو نہ صرف قائم رکھیں گے بلکہ اس میں مزید اضافہ کریں گے۔
گماں مبر کہ بہ پایاں رسیدِ کارِ مغاں
ہزار بادۂ ناخوردہ در رگِ تاک است


متعلقہ خبریں


جھوٹی خبر پر 30 لاکھ ہرجانہ، پنجاب اسمبلی میں ہتک عزت قانون منظور وجود - منگل 21 مئی 2024

پنجاب حکومت نے ہتک عزت قانون 2024 ایوان سے منظور کروالیا۔تفصیلات کے مطابق ہتک عزت قانون کا بل وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے ایوان میں پیش کیا، جس پر صحافیوں نے پریس گیلری سے احتجاجا ًواک آؤٹ کیا جبکہ اپوزیشن نے بھی اسے مسترد کردیا۔بل کا اطلاق پرنٹ، الیکٹرونک اور سوش...

جھوٹی خبر پر 30 لاکھ ہرجانہ، پنجاب اسمبلی میں ہتک عزت قانون منظور

شاعراحمد فرہاد کی بازیابی، یہ ملک قانون کے مطابق چلے گا یا ایجنسیوں کی طریقے سے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ وجود - منگل 21 مئی 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کی درخواست پر سیکریٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ کو (آج) منگل کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کی درخواست پر جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی۔اس موقع پر احمد فرہاد کی اہلیہ کے وکیل ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ...

شاعراحمد فرہاد کی بازیابی، یہ ملک قانون کے مطابق چلے گا یا ایجنسیوں کی طریقے سے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ

آئین میں ہائبرڈ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ،شاہدخاقان عباسی وجود - منگل 21 مئی 2024

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ آئین میں ہائبرڈ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ، جب تک بڑے پیمانے پر نظام کی تبدیلی نہیں کریں گے ملک نہیں چلے گا،سیاسی جماعت ایک دن میں نہیں بنتی، اگلے ماہ تک سیاسی جماعت وجود میں آجائے گی اور پورے پاکستان سے لوگ ہمارے ساتھ شامل ہوں گے ۔پیرک...

آئین میں ہائبرڈ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ،شاہدخاقان عباسی

دنیا کی طرح ہماری فوج بھی آئینی حدود میں رہے ، محمود اچکزئی وجود - منگل 21 مئی 2024

تحریک تحفظ آئین پاکستان کے صدر محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ جب ہم آئین کی بات کرتے ہیں تو بعض ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے خلاف بات کر رہے ہیں ہم چاہتے ہیں جس طرح دنیا بھر کی افواج اپنی آئینی حدود میں کام کرتی ہیں آپ بھی اسی حدود میں کام کریں۔تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ...

دنیا کی طرح ہماری فوج بھی آئینی حدود میں رہے ، محمود اچکزئی

عمران خان 9 مئی اور آزادی مارچ سمیت 3 مقدمات میں بری وجود - منگل 21 مئی 2024

عدالتوں نے عمران خان کو 9 مئی اور آزادی مارچ سمیت 3 مقدمات میں بری کردیا۔اسلام آباد کی مقامی عدالت نے نو مئی ، آزادی مارچ توڑ پھوڑ کیس اور دفعہ ایک سو چوالیس کی خلاف ورزی سمیت تین کیسز میں بانی پی ٹی آئی کو بری کردیا ۔ عدالت نے شیخ رشید ، فیصل جاوید کو بھی تھانہ کوہسار اور تھانہ ...

عمران خان 9 مئی اور آزادی مارچ سمیت 3 مقدمات میں بری

ایرانی صدر اور وزیر خارجہ سمیت 8 افراد ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق وجود - پیر 20 مئی 2024

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی، اُن کے چیف گارڈ، وزیر خارجہ، صوبے مشرقی آذربائیجان کے گورنر، آیت اللہ خامنہ ای کے نمانندہ خصوصی، اور ہیلی کاپٹر عملے کے 3 ارکان حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ایرانی وزیر داخلہ نے گزشتہ شب لاپتا ہونے والے ہیلی کاپٹر کا ملبہ تبریز سے 100 کلومیٹر دور ایک گھنے ج...

ایرانی صدر اور وزیر خارجہ سمیت 8 افراد ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق

قبائلی عمائدین کی مدد سے جرگہ، پاکستان، افغانستان کا جنگ بندی پر اتفاق وجود - پیر 20 مئی 2024

خیبر پختونخوا میں سرحد پر 4روز تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد پاکستان اور افغانستان کے قبائلی عمائدین اور حکام پر مشتمل ایک جرگے نے جنگ بندی پر اتفاق کرلیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق جمعہ کو پاکستان اور افغانستان کی افواج کے درمیان جھڑپوں میں اضافے کے باعث کرم میں خرلاچی بارڈر کراسنگ ...

قبائلی عمائدین کی مدد سے جرگہ، پاکستان، افغانستان کا جنگ بندی پر اتفاق

پنشن سسٹم خطرناک ، دس برسوں میں لاگت100کھرب تک پہنچنے کا خطرہ وجود - پیر 20 مئی 2024

ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کے پنشن سسٹم کے اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر فوری اقدامات نہیں کیے گئے تو یہ لاگت اگلے 10 سالوں میں 100 کھرب تک پہنچ جائے گی۔جارجیا میں میڈیا بریفنگ کے دوران ایشیائی ترقیاتی بینک کے سینئر ماہر اقتصادیات ایکو ککاوا نے کہا کہ پاکستان میں پنشن ...

پنشن سسٹم خطرناک ، دس برسوں میں لاگت100کھرب تک پہنچنے کا خطرہ

وزیراعظم شہباز شریف کاکرغزستان میں پاکستانی سفیر سے رابطہ وجود - پیر 20 مئی 2024

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کرغزستان میں پاکستان کے سفیر حسن علی ضیغم سے ٹیلی فونک رابطہ کر کے پاکستانی طلبا ء کو واپس لانے والے خصوصی طیارے کے حوالے سے ضروری انتظامات کرنے کی ہدایت کی۔وزیراعظم کی ہدایت پر خصوصی طیارہ بشکیک کرغزستان کے لئے روانہ ہو گا اور 130 پاکستانی طلبا کو لے ...

وزیراعظم شہباز شریف کاکرغزستان میں پاکستانی سفیر سے رابطہ

وزیرِ اعلیٰ نے ایس ایچ او کورنگی انڈسٹریل ایریا کو معطل کر دیا وجود - پیر 20 مئی 2024

وزیرِ اعلیٰ سندھ سیدمراد علی شاہ نے کورنگی انڈسٹریل ایریا کے ایس ایچ او کو معطل کر دیا۔اتوارکی صبح وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی میں جاری مختلف پروجیکٹس کا دورہ کیا، صوبائی وزراء شرجیل میمن، ناصر شاہ، سعید غنی اور میئر کراچی مرتضیٰ وہاب بھی ان کے ہمراہ تھے ۔مراد علی شا...

وزیرِ اعلیٰ نے ایس ایچ او کورنگی انڈسٹریل ایریا کو معطل کر دیا

پاکستان کو تباہ و برباد کرنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے ،نواز شریف وجود - هفته 18 مئی 2024

(رپورٹ: ہادی بخش خاصخیلی) پاکستان مسلم لیگ (ن ) کے قائد نواز شریف کا کہنا ہے کہ بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پیٹھ میں چھرا گھونپا، ساتھ چلنے کی یقین دہانی کروائی، پھر طاہرالقادری اور ظہیرالاسلام کے ساتھ لندن جاکر ہماری حکومت کے خلاف سازش کا جال بُنا۔نواز شریف نے قوم س...

پاکستان کو تباہ و برباد کرنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے ،نواز شریف

سیاسی پارٹیاں نواز شریف سے مل کر چلیں، شہباز شریف وجود - هفته 18 مئی 2024

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں قوم کے لیے نواز شریف سے مل کر چلیں، نواز شریف ہی ملک میں یکجہتی لا سکتے ہیں، مسائل سے نکال سکتے ہیں۔ن لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ نواز شریف کو صدارت سے علیحدہ کر کے ظلم کیا گیا تھا، ن لی...

سیاسی پارٹیاں نواز شریف سے مل کر چلیں، شہباز شریف

مضامین
نیتن یاہو کی پریشانی وجود منگل 21 مئی 2024
نیتن یاہو کی پریشانی

قیدی کا ڈر وجود منگل 21 مئی 2024
قیدی کا ڈر

انجام کاوقت بہت قریب ہے وجود منگل 21 مئی 2024
انجام کاوقت بہت قریب ہے

''ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنا رہے ہیں ؟''کے جواب میں (1) وجود منگل 21 مئی 2024
''ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنا رہے ہیں ؟''کے جواب میں (1)

انتخابی فہرستوں سے مسلم ووٹروں کے نام غائب وجود منگل 21 مئی 2024
انتخابی فہرستوں سے مسلم ووٹروں کے نام غائب

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر