وجود

... loading ...

وجود
وجود

جشن تشکیل پاکستان

جمعرات 17 اگست 2017 جشن تشکیل پاکستان

14 اگست پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل دن ہے 14 اگست1947 مطابق27 رمضان المبارک جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا یوں توہمیں ہر لمحہ رب کائنات کا شکر گزار رہنا چاہیے کہ اس کی شکر گزاری اس کی الوہیت میں اضافہ نہیں کرتی کہ وہ رب کائنات ہے۔
اطاعت کے لیے پیدا کیا انسان کو
ورنہ عبادت کے لیے کم نہ تھے جن ملک
برصغیر پر جب انگریز سامراج قابض ہوا تو اس وقت مغل فرماں روا بہادر شاہ ظفر کاحکم چلتا تھا اگرچہ اس وقت بھی مسلمان اکثریت میں نہیں تھے لیکن اسلامی عدل نے ملک کی اکثریت کو بھی مطمئن رکھا تھا ہندوستان کی ہندو اکثریت میں سے صرف ایک طبقہ تھا جو مسلمانوں کی حکمرانی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھا ہندو دھرم کے مطابق یہ وہ طبقہ تھا جس کو اس کا دھرم حق حکمران بخشتا ہے ہندو دھرم میں ذات پات کی تقسیم اس وقت سے ہی موجود ہے جس سے یہ دھرم معرض وجود میں آیا اس دھرم کی کتب کے مطابق ہندو چار بڑے طبقوں میں بٹے ہوئے ہیں اول برہمن جو پیدائشی حکمران ہوتے ہیں پنڈت جس کا کام مذہبی رسومات شادی کے پھیرے کرانا اور مر جانے والوں کا انتم سنسکار کرنا ہوتا ہے پھر کھتری ہیں جو کہ فوج اور امور مملکت چلانے میں برہمن کے مددگار ہوتے ہیں اور سب سے نچلا طبقہ شودر یا اچھوت اب انہیں ہریجن کہا جاتا ہے شودر یا اچھوت سے کمتری ظاہر ہوتی تھی اب ہریجن کہہ کر چانکیہ سیاست کے مطابق پردہ ڈالا گیا ہے لیکن عملاًآج بھی ہر طبقہ کا مندر علیحدہ ہے آج بھی ہریجن ،برہمن،پنڈت اور کھتری کے مندر میں پوجا نہیں کر سکتا بس سیکولر ازم کے پرچار کے لیے کبھی مسلمان اور کبھی ہریجن کو ہندوستان کا صدر بنادیا جاتا ہے ہندوستان کے دستور کے مطابق صدر کا عہدہ صرف رسمی عہدہ ہے تمام اختیارات کا مرکز وزیراعظم ہوتا ہے بات دوسری جانب نکل گئی لیکن جو بات راقم کرنا چاہتا ہے اس کے لیے یہ تمہید ضروری تھی کہ قارئین کے ذہنوں میں بات واضح ہو جائے قیام پاکستان کے وقت سن شعور کو پہنچی ہوئی نسل تقریباً ختم ہو چکی جو موجود ہیں یا تو وہ بٹوارے کے وقت کم سن تھے یا پھر جو سن شعور کو پہنچ چکے تھے وہ عمر کے اس حصہ میں پہنچ چکے کہ یادداشت کے پردہ پر دھند طاری ہو چکی۔
انگریز نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا اور ان کے اقتدار کے لیے مسلمان ہی سب سے بڑا خطرہ تھے یوں انگریزوں نے مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک وہ جن کا مقصد حیات ملک اور ملت نہیں ذات تھی اور دوسرے وہ جو قابضین کے خلاف سینہ سپر ہونے کے لیے تیار تھے جو اپنی ذات کے دائرے میں محدود تھے انہیں ملازمت ،اعزاز ، القاب اور جاگیروں سے نواز کر اپنا حامی بنایا اور جو ملک و ملت کا درد رکھتے تھے ان کے لیے سولیاں سجا دی گئیں شہر شہر چوک چوک پھانسی گھاٹ بنا دیئے گئے زندگی سے پیار انسان کی فطرت کا حصہ ہے یوں ملک وملت کے مصائب کا ادراک رکھنے والے کم سے کم ہوتے چلے گئے لیکن ناپید نہیں ہوئے بلکہ حالات کے مطابق حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے مصروف عمل رہے۔
انگریز اپنے ساتھ جمہوریت کا امرت دھارا بھی لائے تھے جس کے لیے مفکر اسلام علامہ محمد اقبال نے فرمایا
جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں
انسانوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
برصغیر کی ہندو اکثریت نے مستقبل کو بھانپ لیا تھا اور 1857 میں ہندوستان پر انگریزوں کے مکمل غلبہ اور دو/ تین سال میں حریت کے متوالوں کو خاموش کرنے کے بعد انگریزوں نے ہندوستان کے مستقبل کے نقشہ کی تیاری شروع کی اور انہی تیاریوں کے سلسلہ میں 1885 میں آل انڈیا کانگریس کا قیام عمل میں آیا جس کا پہلا سربراہ ایک انگریز تھا اور1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ڈھاکہ میں قیام عمل میں آیا 1922/23 تک مسلم لیگ بھی متحدہ ہندوستان کی حامی تھی لیکن جب تحریک بحالی خلافت میں ہندو انگریز کے ہمنوا ہوئے تو مسلم لیگ نے مسلمانوں کو علیحدہ قوم کے طور پر پیش کرنا شروع کیا لیکن مسلم لیگ کے پاس قومیت کے مروجہ تصور کے برعکس ایک ہی خطہ میں رہتے ہوئے مسلمانوں کو علیحدہ قوم کے طور پر تسلیم کرانا آسان نہ تھا مسلم لیگ کے سالانہ جلسہ1932 منعقدہ الہ آبادمیں علامہ اقبال نے یہ مسئلہ مسلم عمائدین کے سامنے رکھا اور اس کا جواب اور جواز تلاش کرنے کی اپیل کی جس پر سید ابوالااعلیٰ مودودی نے ایک کتاب لکھی” مسئلہ قومیت” اور یہ کتاب1933 کے سالانہ جلسہ میں علامہ اقبال کو پیش کر دی اس کتاب میں قومیت کی جو تعریف اور دوسری قومیتوں سے جدا ہونے کے جو دلائل پیش کئے گئے تھے یہ مسلم لیگ کے موقف کے عین مطابق تھے اور علامہ اقبال نے اس کتاب کے مطالعہ کے بعد مسلم لیگ کے ہر کارکن پر اس کتاب کا مطالعہ لازم قرار دیا تھا۔
جس وقت مسلم لیگ نے متحدہ ہندوستان کے اپنے موقف سے رجوع کیا تھا جس کے کچھ عرصہ بعد ہی ہندوستان میں ہندوؤں نے شدھی کی تحریک شروع کر دی تھی اس کا مقصد مسلمانوں اور دیگرمذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو زبردستی ہندو بنانا تھا ہندوستان میں آج کل اس تحریک کو شدھی کے بجائے ” گھرواپسی” کا نام دے دیا گیا ہے یوں ہندوؤں نے اپنے عزائم کا کھل کر اظہار کر دیا تھا کہ انگریز کے جانے کے بعد ہندوستان میں رہنا ہے تو ہندو بن کر رہنا ہو گا۔
اگرچہ مسلمانوں نے ہندوستان پر اپنے تقریباً ایک ہزار سالہ دور میں مقامی آبادی کو بالجبر تو کجا تبلیغ کے ذریعہ بھی مسلمان کرنے کی کوشش نہیں کی ورنہ اس طویل عرصہ میں ہندوستان میں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہوجاتی انگریز نے اپنے دور اقتدار میں جہاں کھلم کھلا ہندوؤں کی سرپرستی کی وہیں مسلمانوں میں بھی ایک ایسامفاد پرست طبقہ پیدا کر دیا جو تھا تومسلمان لیکن مسلمانوں کے اجتماعی مفاد سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا انگریز نے اس طبقہ کو نوازنے کے لیے اعزاز القاب اور جاگیروں سے نوازا 1940 کے مسلم لیگ کے سالانہ جلسہ منعقدہ لاہور جس میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے قیام کے لیے باقاعدہ مطالبہ کیا اور برصغیر کے طول وعرض میں مسلمانوں میں اس مطالبہ کو پذیرائی ملی تو یہ طبقہ بھی مسلم لیگ میں در آیا اب اس طبقہ کا اول مقصد نئے ملک میں اپنے مفادات کا تحفظ تھا۔
13 اگست1947 کی رات11 بجکر59 منٹ اور59 سیکنڈ تک دنیا کے نقشہ پر پاکستان نام کی کوئی ریاست ومملکت موجود نہیں تھی یوں 14 اگست1947 کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان تشکیل پایا تھا اور 15 اگست کو ہندوستان آزاد ہوا تھا کہ ہندوستان انگریز سامراج کا غلام تھا پاکستان نہیں لیکن اس طبقہ نے یوم تشکیل پاکستان کویوم آزادی کا نام دے دیا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے 14 اگست یوم تشکیل پاکستان ہے اور14 اگست1947 کو جس وقت پاکستان تشکیل پایا اس وقت رمضان المبارک کی 27 ویں شب تھی شب قدر کو رب کائنات نے ہزار ماہ سے بہتر اور افضل قرار دیا ہے او رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں اس کی تلاش کا حکم دیا ہے اجماع امت ہے کہ رمضان المبارک کی27 ویں شب ہی شب قدر ہے۔
سامراج کوئی بھی اس کا ایک اصول ہوتا ہے تقسیم کرو اور حکومت کرو انگریز سامراج بھی اس ہی اصول پر عمل پیرا ہے اس نے متحدہ ہندوستان میں تقسیم درتقسیم کا عمل کیا ہے ہندوؤں میں توتقسیم نہ صرف موجود تھی بلکہ اس کو مذہبی تقدس بھی حاصل تھا مسلمانوں میں مسلک اور فقہ کی بنیاد پر تقسیم کا عمل کیا گیا اس ہی طرح اپنے پروردہ عناصر کو مسلم لیگ میں شامل کرایا ان عناصر نے جو کہ ذہنی طور پر انگریز کے غلام تھے نے ایک ابہام پیدا کیا اور یوم تشکیل پاکستان کو یوم آزادی کا نام دے دیا 70 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کسی بھی صاحب علم نے اس جانب توجہ نہیں دی ہے جیسا کہ میں نے لکھا ہے اور تاریخی حقیقت بھی یہی ہے کہ13 اگست1947 کی رات11 بجکر 59 منٹ59 سیکنڈ تک پاکستان نام کے کسی ملک کو وجود نہیں تھا تو وہ غلام کیسے بنا اور آزاد کس طرح ہو گیا انگریز کے پردردہ ان عناصر نے بڑی ہوشیاری سے تشکیل پاکستان کو آزادی پاکستان کا نام دے دیا یوں گورے انگریز کے جانے کے باوجود کالے انگریزوں نے آزادی کا نام دیکر غلامی کا احساس زندہ رکھا ہے کہ اس طرح ہی پاکستان پر یہ کالے انگریز اپنا تسلط برقرار رکھ سکتے ہیں میری صاحبان علم سے استدعا ہے کہ اس جانب توجہ دیں اور” جشن آزادی” کو جشن تشکیل پاکستان کا درجہ دلانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی وجود منگل 30 اپریل 2024
قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار وجود منگل 30 اپریل 2024
بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مودی کاجنگی جنون اورتعصب وجود منگل 30 اپریل 2024
مودی کاجنگی جنون اورتعصب

پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر