وجود

... loading ...

وجود
وجود

نوازشریف پر استعفیٰ کے لیے شدید دباؤ، سیاسی اقتدار ڈانواڈول

جمعه 14 جولائی 2017 نوازشریف پر استعفیٰ کے لیے شدید دباؤ، سیاسی اقتدار ڈانواڈول

پاناما کیس پر عدالت عظمیٰ کے حکم پر قائم جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ نے حکمران خاندان کے سیاسی اقتدار کو ڈانواڈول کردیا ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے مختلف پہلوؤں نے وزیراعظم نوازشریف ہی نہیں اُن کے پورے خاندان کے لیے نہ ختم ہونے والے سوالات پیدا کردیے ہیں۔ جس کے باعث حکمران اتحادی جماعتوں کی طرف سے خاموشی اختیار کر لی گئی ہے تو دوسری طرف حزب اختلاف کی باہم متحارب جماعتیں بھی نواز شریف کے استعفیٰ کے واحد نقطہ پر اتفاق قائم کرتی نظر آتی ہیں۔اس صورتِ حال نے حکمران خاندان کو اندرونی طور پر خاصا پریشان کردیا ہے۔ تاہم شریف خاندان تاحال یہ تاثر برقرار رکھنے میں کامیاب ہے کہ مسلم لیگ نون کے اندر کوئی دراڑ قائم نہیں ہوسکی۔ مگر کیا حقیقی صورتِ حال بھی یہی ہے؟ اس حوالے سے انتہائی اہم خبریں مسلسل زیر گردش ہیں۔
نوازشریف اور اُن کے خاندانی سطح پر پہلے مرحلے میں غوروفکر کا ایک سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔ جہاں نوازشریف اپنے ہاتھوں سے کچھ بھی پھسلنے دینا نہیں چاہتے۔ کیونکہ وہ سیاسی دنیا کے اِن بے رحم حقائق کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کے سیاسی افق پر ڈولنے والی چیزیں بآلاخر ڈوب جاتی ہیں۔ چنانچہ وزیراعظم نوازشریف کسی بھی طرح استعفیٰ دینے کے آپشن پر نہیں سوچ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے جے آئی ٹی پر اپنے ابتدائی ردِ عمل میں ہی اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے یہ واضح کردیا تھا کہ نوازشریف استعفیٰ نہیں دیں گے۔ وزیرا عظم اور ان کا خاندان جے آئی ٹی کی تحقیقات کے بعد رونما ہونے والی صورتِ حال پر جس بنیادی حکمت عملی پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسے ایک سیاسی جنگ میں تبدیل کردیا جائے۔ اور اس حوالے سے اُٹھنے والے مالیاتی بدعنوانیوں کے سوالات کو اس سیاسی جنگ میں اوجھل کردیا جائے۔ اس ضمن میں بھی مریم نواز کا ایک پیغام نہایت اہم ہے۔نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے گزشتہ دنوں اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا تھاکہ’ ’اگر آپ نے اسے ایک سیاسی جنگ بنا دیا ہے، تو مسلم لیگ (ن) سے بہتر اسے کوئی نہیں لڑسکتا ہے۔‘‘پاکستان کی بحران زدہ تاریخ میں یہ حیرت انگیز نہیں کہ یہ معاملہ ملک کا سب سے بڑا سیاسی مقدمہ بنا دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہوا تو اس کا سب سے بڑا فائدہ نوازشریف ہی اُٹھا سکیں گے۔ کیونکہ وزیراعظم اور اُن کے خاندان کے لیے یہ مقدمہ قانونی اور ثبوتوں کی بنیاد پر عدالت کے اندر لڑے جانے کے بجائے اسے سیاسی نعروں اور بیانات کی بنیاد پر عوامی سطح پر لڑنا زیادہ آسان ہے۔ اگر یہ مقدمہ کسی بھی طرح سے ثبوتوں اور شہادتوں کے ساتھ قانونی سطح پر لڑا جاسکتا ہوتا تو شریف خاندان جے آئی ٹی کی سطح پر اِ سے بآسانی بہتر طور پر برت سکتے تھے۔ مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ اگر چہ وزیراعظم اور اُن کا مقدمہ لڑنے والے وزراء یہی تاثر دے رہے ہیں کہ وہ اس مقدمے کا عدالتی سطح پر سامنا کریں گے اور جے آئی ٹی کی رپورٹ کو عدالت میں غلط ثابت کریں گے۔ مگر درحقیقت یہ تاثر بھی سیاسی نوعیت کا ہی ہے۔ کیونکہ تمام قانونی ماہرین کا یہ خیال ہے کہ اس مرحلے پر نوازشریف خاندان کے لیے عدالتِ عظمیٰ میں کوئی بہتر قانونی دفاع ممکن نہ ہوسکے گا۔
ان حالات میں حکمراں جماعت کے اندر مسلسل مشاورتوں کا ایک بظاہر نہ ختم ہونے والا سلسلہ کئی سطحوں پر جاری ہے۔ ہر قسم کے میڈیا پر کڑی نظر بھی رکھی جا رہی ہے۔ جماعت کے اندر مختلف رہنما اور دھڑے مختلف مشورے اور تجاویز دے رہے ہیں لیکن اطلاعات کے مطابق کلیدی فیصلے پارٹی قائد نواز شریف چند قریبی ساتھیوں کی مدد سے ہی کر رہے ہیں۔اس ضمن میں دو اہم نکات پر طویل مشاورت جاری ہے ۔ مسلم لیگ نون کے اندر ایک دھڑا کسی اچھی ساکھ کے وکیل کے ذریعے جے آئی ٹی کے اب تک کے قابل اعتراض اور بقول ان کے قابل گرفت اقدامات کو چیلنج کرنے کی تجویز دے رہا ہے۔اس پر جماعت کے اندر اتفاق رائے نہیں ہوسکا ہے۔ تاہم مسلم لیگ نون کا کوئی ایک رہنما بھی ایسا نہیں جس کے ذہن میں یہ سوال نہ ہو کہ اگر عدالت عظمیٰ سے شریف خاندان کچھ حاصل نہیں کرسکا تو پھر کیا ہوگا؟مثلا ایک دور کا سوال مسلم لیگ نون کے اندرونی حلقوں میں یہ بھی زیربحث ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی صورت میں عام انتخابات کے بارے میں کیا حکمت عملی ہوگی؟ جماعت کے اندر ابھی بعض حلقے اسے قبل از وقت بحث قرار دے رہے ہیں لیکن عدالتی فیصلہ جو بھی سامنے آئے مسلم لیگ کو ایک بڑا فیصلہ کرنا ہوگا جس پر اس کے انتخابی مستقبل کا دارومدار ہوگا۔اس ضمن میں یہ سوال اہم ہے کہ عدالتی فیصلہ نواز شریف کے حق میں یا مخالفت میں ہونے کی صورت میں کیا فوری عام انتخابات جماعت کے حق میں ہوں گے یا نہیں۔ بعض لوگوں کے خیال میں یہ مسلم لیگ نون کے فائدے میں ہوگا کہ اگر وہ دونوں صورتوں میں جلد انتخابات کا بندوبست کرلیں۔مگر ایسا شاید ہی ہو سکے کیونکہ نوازشریف ہر صورت میں اسی اسمبلی کومارچ تک لے جانا چاہیں گے۔ کیونکہ مارچ میں سینیٹ کے انتخابات میں وہ اپنی سینیٹ کی اکثریت کو ہر صوررت میں محفوظ بنانا چاہیں گے۔ مگر مسلم لیگ نون کے ایک پارٹی رہنما کا خیال تھا کہ اس طرح چلنے سے بہتر ہے عوام سے نیا مینڈیٹ لے لیا جائے۔ ’ایک سال بعد کیا حالات ہوں گے کسے معلوم۔ موجودہ حالات میں تو ہم ترقیاتی کاموں پر توجہ ہی نہیں دے رہے ہیں۔‘مذکورہ رہنما کے بقول آئندہ برس مارچ میں سینیٹ کے انتخابات کا انتظار بھی بہتر نہیں ہوگا۔ ’اگر عام انتخابات میں اچھے نتائج سامنے آتے ہیں تو سینیٹ کے الیکشن زیادہ اچھے انداز میں اور زیادہ اعتماد کے ساتھ کرواسکیں گے۔‘مسلم لیگ نون کے کچھ رہنماؤں کا خیال ہے کہ پارٹی ورکر اس وقت شریف خاندان کے ساتھ ہونے والے ’کڑے احتساب پر نالاں اور غصے میں‘ ہے۔اور اس کا فائدہ فوری انتخابات میں ہی اُٹھایا جاسکتا ہے۔
اس کے بالکل برعکس یہ رائے بھی موجود ہے کہ مسلم لیگ نون کے لیے ایسی مہم جوئی شاید فائدہ مند ثابت نہ ہو۔ یہ اداروں کے خلاف ایک برہنہ لڑائی میں تبدیل ہو سکتی ہے ا ور حکمران شریف خاندان اس وقت اخلاقی طور پر نہایت کمزور پوزیشن پر ہے جس میں اُن کے لیے اپنا دفاع ممکن نہ ہو۔ یہ بھی سمجھا جارہا ہے کہ عوامی مہم جوئی کا دوسرا مطلب وہی لیا جاسکتا ہے جو اس سے قبل سپریم کورٹ پر حملے کی صورت میں لیا گیا تھا۔ لہذا حکمران شریف خاندان خود کو اس نئے امتحان میں شاید نہ ڈالے۔ جس میںایک خطرہ یہ بھی بہرحال موجود ہے کہ مسلم لیگ نون عوامی سطح پر اگر کوئی بڑی حرکت یا ہلچل پیدا نہ کرسکی تو یہ اُس کی عوامی حمایت میںکمی پر محمول کیا جائے گا۔ دوسری طرف یہ اندیشہ بھی ہے کہ متحدہ حزب اختلاف اپنی پوری عوامی قوت کے ساتھ میدان میں آجائے۔ یہ ایک خطرناک صورتِ حال ہوگی جس کا سامنا نوازشریف موجودہ حالات میں کرنے کے قابل نہیں۔
وزیر اعظم نوازشریف کو اس وقت جس شدید دباؤ کا سامنا ہے وہ دو طرح کے ہیں۔ قانونی طور پر سپریم کورٹ میںجے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد کے حالات کا مقابلہ کرنا اور سیاسی طور پر اپنے استعفیٰ کے مطالبے سے نمٹنا۔وزیرا عظم دونوں طرح کے دباؤ سے نبرد آزما ہونے کے لیے طویل مشاورت کے ایک سلسلے میں بندھے ہوئے ہیں۔ جہاں تک قانونی سطح پر مقدمے کے دباؤ کا سامنا ہے تو یہ شریف خاندان کی اب تک کی تاریخ میں مکمل طور پر ایک بند مٹھی کا کھیل رہا ہے مگر جے آئی ٹی نے اِسے بیچ چوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ چنانچہ عدالتی معاملات میں شریف خاندان کے لیے اب پہلے جیسی کامیابی کے امکانات بہت محدود ہو چکے ہیں۔ جہاں تک استعفیٰ کا تعلق ہے تو یہ اب براہِ راست نوازشریف کی جانشینی کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے۔ جس میں نوازشریف ایک اندرونی خاندانی دباؤ کا بھی سامنا کررہے ہیں۔ اُنہوں نے اب تک مریم نواز کو سیاسی جانشین کے طور پر آگے بڑھانے کا فیصلہ کررکھا تھا۔ مگر جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں نوازشریف کی اس اُمید کو بھی شدید دھچکا پہنچا دیا ہے۔
وزیراعظم کے لیے استعفیٰ کی صورت میں یہ فیصلہ کرنا انتہائی اہم ہو گا کہ وہ اس منصب کے لیے کس کا نام آگے بڑھاتے ہیں۔اگر وزیراعظم کے طور پر شہباز شریف کا نام سامنے آتا ہے تو بڑی حد تک پارٹی محفوظ رہے گی مگر نوازشریف کے اپنے خاندان میں ا س کا کیا اثر پڑے گا، اس بارے میں فی الحال کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن اگر نوازشریف اس سلسلے میں پارٹی کے اندر سے کوئی بھی دوسرا نام آگے بڑھاتے ہیں تو پھر پارٹی کے اندر رھڑے بندی کا واضح طور پر خطرہ ہے۔ انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق نوازشریف کو پارٹی کے اندر سے سینئر رہنماؤں کے ایک حلقے کی طرف سے یہ رائے دی گئی ہے کہ استعفیٰ کی صورت میں وہ بہت سے نئے مسائل سے بچ سکتے ہیں۔ مگر وزیراعظم نوازشریف تاحال ایک ایسے راستے کی تلاش میں ہے جس میں استعفیٰ دیے بغیر وہ معاملات کو آگے دھکیل سکیں۔ تاہم اس پورے معاملے میں ایک پہلو ایسا بھی ہے جسے یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف استعفیٰ کے بعد خاندانی اور اپنی جماعت کی اندرونی صورتِ حال کے ممکنہ خطرات سے بچنے کے لیے عارضی طور پر اپنی کسی سیاسی اتحادی جماعت کے رہنما کابھی نام وزیراعظم کے طور پر آگے بڑھا سکتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی ا سمگلنگ میں اضافہ وجود - جمعه 03 مئی 2024

ایرانی تیل کی پاکستان میں اسمگلنگ پر سیکیورٹی ادارے کی رپورٹ میں اہم انکشافات سامنے آگئے ۔پاکستان میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ کے بارے میں رپورٹ منظرعام پر آگئی ہے جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر ایرانی تیل اسمگل کیا جاتا ہے اور اسمگلنگ سے قومی خزانے کو سالان...

انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی ا سمگلنگ میں اضافہ

رینجرز تعیناتی کی مدت میں 180 دن کا اضافہ، سندھ کابینہ کی منظوری وجود - جمعه 03 مئی 2024

سندھ کابینہ نے رینجرز کی کراچی میں تعیناتی کی مدت میں 180 دن کے اضافے کی منظوری دے دی۔ترجمان حکومت سندھ نے بتایا کہ رینجرز کی کراچی میں تعیناتی 13 جون 2024 سے 9 دسمبر 2024 تک ہے ، جس دوران رینجرز کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت اختیارات حاصل رہیں گے ۔کابینہ نے گزشتہ کابینہ ا...

رینجرز تعیناتی کی مدت میں 180 دن کا اضافہ، سندھ کابینہ کی منظوری

انتخابی حربے، مودی کی بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کو دھمکی وجود - جمعه 03 مئی 2024

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی انتخابات میں کامیابی کے لیے بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کو دھمکی دے رہے ہیں ۔ دی وائر کے مطابق بی جے پی نے آفیشل انسٹاگرام ہینڈل کے ذریعے مودی کی ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں مودی کہتے ہیں کہ اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ ہندؤں کی جائیداد اور دولت م...

انتخابی حربے، مودی کی بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کو دھمکی

نیتن یاہو کا جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار وجود - جمعه 03 مئی 2024

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کسی بھی صورت غزہ میں جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے ملاقات میں انہوں نے کہا کہ کوئی ایسا معاہدہ تسلیم نہیں جس میں جنگ کا خاتمہ شامل ہو۔اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حماس نے جنگ ...

نیتن یاہو کا جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار

جمعیت علماء اسلام کو کراچی میں جلسے کی اجازت نہیں ملی وجود - جمعه 03 مئی 2024

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)کو کراچی میں جلسے کی اجازت نہیں ملی اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر شرقی نے بتایا کہ جے یو آئی کو ایس ایس پی ایسٹ کی رپورٹ پر جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایس ایس پی ایسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہر میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر بڑے عوامی اجت...

جمعیت علماء اسلام کو کراچی میں جلسے کی اجازت نہیں ملی

عمران خان نے بات چیت کا ٹاسک دیا ہے ، وزیر اعلیٰ کے پی وجود - جمعرات 02 مئی 2024

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ کوئی بات ہوگی تو سب کے سامنے ہوگی اور کوئی بات چیت کسی سے چھپ کر نہیں ہوگی،بانی پی ٹی آئی نے نہ کبھی ڈیل کی ہے اور نہ ڈیل کے حق میں ہیں، یہ نہ سوچیں کہ وہ کرسی کیلئے ڈیل کریں گے ۔میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گن...

عمران خان نے بات چیت کا ٹاسک دیا ہے ، وزیر اعلیٰ کے پی

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کیخلاف طلبہ کا احتجاج یونان اور لبنان تک پہنچ گیا وجود - جمعرات 02 مئی 2024

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف طلبہ کے احتجاج کا سلسلہ دنیا بھر کی جامعات میں پھیلنے لگا۔امریکا، کینیڈا، فرانس اور آسٹریلیا کی جامعات کے بعد یونان اور لبنان کی جامعات میں بھی طلبہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرہ کیا۔امریکی جامعات میں احتجاج کا سلسلہ تیرہویں روز بھی...

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کیخلاف طلبہ کا احتجاج یونان اور لبنان تک پہنچ گیا

کے ایف سی بائیکاٹ جاری، ملائیشیا میں 100سے زائد ریستوران بندکرنے پر مجبور وجود - جمعرات 02 مئی 2024

غزہ میں مظالم کے خلاف اسرائیل کی مبینہ حمایت کرنے والی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی مہم میں شدت آتی جا رہی ہے ۔ معروف امریکی فوڈ چین کے ایف سی نے ملائیشیا میں اپنے 100 سے زائد ریستوران عارضی طور پر بند کرنیکا اعلان کر دیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ملائیشیا میں امریکی فوڈ چین کی فرنچائز کم...

کے ایف سی بائیکاٹ جاری، ملائیشیا میں 100سے زائد ریستوران بندکرنے پر مجبور

پتا نہیں وہ ہمیں ڈانٹ رہے تھے یا اپنے سسرال والوں کو؟فضل الرحمان کا کیپٹن صفدر کے خطاب پر طنز وجود - جمعرات 02 مئی 2024

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو طنز کا نشانہ بنایا ہے ۔لاہور میں فلسطین کانفرنس سے خطاب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ یہاں بلاوجہ شہباز شریف کی شکایت کی گئی اس بیچارے کی حکومت ہی...

پتا نہیں وہ ہمیں ڈانٹ رہے تھے یا اپنے سسرال والوں کو؟فضل الرحمان کا کیپٹن صفدر کے خطاب پر طنز

کرپشن کا ملک سے خاتمہ ہونے والا ہے ، شہباز شریف وجود - جمعرات 02 مئی 2024

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کرپشن کا ملک سے خاتمہ ہونے والا ہے ، ہم سب مل کر پاکستان کو انشااللہ اس کا جائز مقام دلوائیں گے اور جلد پاکستان اقوام عالم میں اپنا جائز مقام حاصل کر لے گا۔لاہور میں عالمی یوم مزدور کے موقع پر اپنی ذاتی رہائش گاہ پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ ا...

کرپشن کا ملک سے خاتمہ ہونے والا ہے ، شہباز شریف

ووٹ دیں یا1947 جیسی صورتحال کیلئے تیار رہیں،بی جے پی کی مسلمانوں کو دھمکیاں وجود - جمعرات 02 مئی 2024

غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بی جے پی کے رہنما راجوری اور پونچھ میں مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ یا تو سنگھ پریوار کے حمایت یافتہ امیدوار کو ووٹ دیں یا1947 جیسی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق 1947میں جموں خطے میں ہن...

ووٹ دیں یا1947 جیسی صورتحال کیلئے تیار رہیں،بی جے پی کی مسلمانوں کو دھمکیاں

تحریک انصاف کا مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ وجود - بدھ 01 مئی 2024

پی ٹی آئی نے جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ کیا ہے ۔ذرائع کے مطابق تحریک انصاف نے مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ کیا ہے ، جے یو آئی ف کے سربراہ کو احتجاجی تحریک میں شامل ہونے کے لیے باقاعدہ دعوت دی جائے گی۔ذرائع کے مطابق مذاکراتی ک...

تحریک انصاف کا مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ

مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر