وجود

... loading ...

وجود

وزیر اعلیٰ پنجاب نئے کالجوں کے قیام سے گریزاں کیوں؟

پیر 29 مئی 2017 وزیر اعلیٰ پنجاب نئے کالجوں کے قیام سے گریزاں کیوں؟

پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کے برادر خورد بلکہ ٹیلنٹیڈ برادر نے پنجاب میں تعلیم عام کرنے کے عزم کااظہار کرتے ہوئے پڑھا لکھا پاکستان کا نعرہ بلند کیا تھا جس پر پاکستان کے دیگر تمام صوبوں کے عوام نے پنجاب کے عوام کی قسمت پر رشک کا اظہار کیا تھا اور یہ تصور کیاجارہاتھا کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف اپنی اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر پورے پنجاب میں اسکولوں اور کالجوں کاجال بچھا دیں گے اور اب پنجاب کے کسی گاﺅں گوٹھ کے کسی غریب کا بچہ بھی تعلیم سے محروم نہیں رہے گا۔
جہاں تک پنجاب کے دارالحکومت لاہور کا تعلق ہے تو لاہور نہ صرف پاکستان کا اہم تجارتی اور ثقافتی مرکز ہے بلکہ اسے ملکی سیاست میں بھی اہم مقام حاصل ہے۔ لاہور کو کئی حوالوں سے یاد کیا جاتا ہے، جیسے باغوں کا شہر، زندہ دلوں کا شہر، اسی طرح لاہور کو کالجوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے،یہ شہر قیام پاکستان سے قبل ہی علم وادب کامرکز ومحور تصور کیاجاتاتھا اور پنجاب کے دور دراز علاقوں کے لوگ بھی معیاری تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور کارخ کیاکرتے تھے ،کیوں کہ لاہور میں کسی زمانے میں بیشمار کالج موجود تھے جو لاہور کے ساتھ ساتھ دیگر اضلاع کے تشنگانِ علم کی پیاس بجھایا کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ لاہور کو پنجاب میں کالجوں کے شہر کالقب مل گیاتھا۔لاہور میں بڑھتی آبادی اور تیزی سے ہونے والی نقل مکانی نے جہاں بے شمار چیزوں کا فقدان پیدا کیا وہاں سرکاری کالجوں کی کمی کا مسئلہ بھی پیدا ہوا۔ لاہور میں اس وقت 56 کے قریب سرکاری کالج موجود ہیں جس میں 34 لڑکیوں کے اور 22 لڑکوں کے کالجز ہیں۔ان تمام کالجوں میں طلبہ کی کل گنجائش 49 ہزار ہے۔ جبکہ صرف لاہور بورڈ سے ہر سال ایک لاکھ40 ہزار سے زائد طالب علم پاس ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال 2016 ءکے میٹرک کے نتائج کے مطابق لاہور بورڈ کے زیر اہتمام امتحان میں 2 لاکھ 14 ہزار 711 طلبہ نے شرکت کی تھی، اور تقریباً 71 فی صد نے کامیابی حاصل کی۔ یعنی ایک لاکھ 53 ہزار کے قریب طالب علم پاس ہوئے۔یعنی صرف لاہور بورڈ کے تقریباً ایک لاکھ سے زائد پاس ہونے والے طالب علموں کے لیے کسی سرکاری کالج میں کوئی گنجائش نہیں۔ اب وہ یا تو کسی نجی کالج میں داخلہ لے، یا اگر غریب ہے اور نجی تعلیم کا خرچ نہیں اٹھا سکتا تو اپنی تعلیم کو خیرباد کہہ دے۔خیال رہے کہ لاہور کے کالجوں میں صرف لاہور بورڈ کے کامیاب طلبہ و طالبات ہی داخلہ نہیں لیتے، بلکہ پنجاب کے دیگر شہروں کے ساتھ ساتھ، فاٹا، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کی بڑی تعداد بھی لاہور کے کالجوں میں زیر تعلیم ہے۔طالب علموں کی اتنی بڑی تعداد (ایک سے ڈیڑھ لاکھ) کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پرائیویٹ شعبے میں 120 سے زائد کالجز قائم ہیں جو تجارتی بنیادوں پر کام کرتے ہیں۔
موجودہ حکومت نے لاہور میں نئے کالجزکیو ں قائم نہیں کئے؟
لاہور میں 1982ءسے مسلم لیگ کی حکومت قائم ہے۔ اگرچہ لاہور میں ترقیاتی کام ہوا ہے، ٹریفک کے مسائل کو کم کرنے کے لیے کئی سڑکوں کو کشادہ کیا گیا، کئی انڈر پاس اور اوور ہیڈ بِرج تعمیر کیے گئے۔اب کئی سو ارب روپے کی لاگت سے اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ بھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے، لیکن پتہ نہیں اس بات کی اصل وجہ کیا ہے کہ کیوں لاہور میں (ضرورت کے مطابق) سرکاری کالجوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا گیا، کچھ لوگوں کی رائے میں اس کی اصل وجہ صوبائی حکومت کی عدم توجہی ہے، جس کی وجہ سے شعبہ تعلیم کو مطلوب وسائل ہی فراہم نہیں کیے جاتے؟
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے کئی بار خود اعلان کیا ہے کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کی ترقی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے گزشتہ الیکشن سے قبل ذہین طالب علموں میں کئی ارب روپے کے لیپ ٹاپ اور سولر لیمپ وغیرہ مفت تقسیم کیے، نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان کے پوزیشن ہولڈرز طلبہ و طالبات کو دنیا کے کئی ممالک کی سیر کروائی۔ لیکن بنیادی سطح پر جو کام ہونا چاہیے، وہ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نجی کالجوں کی انتظامیہ کافی بااثر ہے اور وہ صوبائی حکومت کے اہم افراد کو نئے کالج قائم کرنے سے روک دیتی ہے تاکہ ان کا کاروبار پھلتاپھولتا اور قائم و دائم رہے۔ جبکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نجی کالجوں کی انتظامیہ کے بااثر ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں نجی اسکول اور کالج چلانے والے کئی اداروں میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے اپنے صاحبزادے حمزہ شہباز اور ان کے بھانجوں، بھانجیوں اور کئی دوسرے قریبی رشتہ داروں کی شیئرز ہیں اور انہیں ا س کے عوض کچھ کیے بغیر ہر مہینے لاکھوں روپے منافع کے طورپر ادا کیے جاتے ہیں ۔ لاہور کے لوگوں کاکہناہے کہ جس طرح عام آدمی دودھ، اور پولٹری کے کام میں شہباز شریف اور نواز شریف کے مفادات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اسی طرح انہیں تعلیم کو تجارت بنانے کے حوالے سے شریف برداران کے کارناموں کا بھی کوئی علم نہیں ہے۔لاہور کے باوثوق اطلاعات رکھنے والے حلقوں کاکہناہے کہ تعلیمی شعبے کو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی بنانے والی شریف فیملی اب نئے لوگوں کو اس شعبے میں قدم جمانے کا موقع نہیں دے رہی ہے اور اس شعبے پر شریف برادران کی اسی گرفت اور اس سے وابستہ ان کے مفادات کی وجہ ہی سے پنجاب میں تعلیم کاکاروبار کرنے والے نجی شعبے کی نگرانی کا کوئی انتظام ہے اور نہ ہی کوئی قاعدہ اور قانون اور اگر ایسا ہے بھی تو وہ یقیناً فائلوں کی حد تک ہی محدود ہے کیونکہ آج تک کسی نے ان پر نہ تو عملدرآمد ہوتے دیکھا ہے اورنہ کسی کو اس پر عملدرآمد کراتے ہوئے دیکھا ہے۔
لاہور شہر میں جو نجی کالج ہیں وہ ہر چیز سے آزاد ہیں، فیسوں کا تعین ہو، اساتدہ کی بھرتی، کالج بلڈنگ کے بائی لاز، ہوسٹلز، لائبریری، تجربہ گاہ، پارکنگ، یا پھر کھیلوں کے میدان، ہر جگہ وہ صرف اپنے مفادات کا خیال پہلے رکھتے ہیں۔ فیسوں، یونیفارم، کتابوں، امدادی کتب کے علاوہ ہر ماہ کوئی نہ کوئی نیا خرچہ تیار کر لیا جاتا ہے کیونکہ ان کی مانیٹرنگ (نگرانی) کے لیے کوئی ادارہ یا تو قائم ہی نہیں یا پھر اپنا کام نہیں کر رہا ہے۔
نجی کالجوں کی فیس اور اس کے عوض طلبہ کو فراہم کی جانے والی سہولتیں
لاہور میں قائم نجی تعلیمی کالجوں کی سالانہ فیس اور دیگر اخراجات ایک لاکھ سے تین لاکھ روپے تک ہےں۔ اس طرح والدین کے ایک بچے کی دو سالہ تعلیم پر 2 سے 6 لاکھ تک خرچ ہو جاتے ہیں۔ لاہور میں نجی کالجوں کی اکثریت نے اپنے طالب علموں کے لیے کوئی ہاسٹل قائم نہیں کیے۔ جس کی وجہ سے دوسرے شہروں کے طلبہ وطالبات شہر میں قائم چھوٹے چھوٹے ہاسٹلز (جو عموماً پانچ /دس مرلہ) کے پرانے رہائشی مکان ہیں میں رہتے ہیں۔کالجوںمیں پڑھانے والے اساتدہ کا کوئی خاص معیار نہیں، اگر ایف اے /بی اے پاس صاحب کو کالج انتظامیہ ایم ایس سی/ایم فل قرار دے تو آپ کو یقین کرنا ہوگا۔
کھیل کے میدان کا بیشتر نجی کالجوں میں کوئی تصور نہیں، زیادہ تر کالجوںکے پاس صرف اپنی عمارت کا صحن ہے جو پانچ دس مرلے پر مشتمل ہوتا ہے۔ (شاید کالج انتظامیہ یہ سوچتی ہے کہ آپ کے بچے اتنے پیسے خرچ کر کے کالج پڑھنے آتے ہیں نہ کہ کھیلنے کے لیے لائبریری اور سائنس کے مضامین کے لیے تجربہ گاہ تو ہوتی ہے، لیکن صرف نام کی کیونکہ جناب کورس کی کتابیں تو مکمل ہوتی نہیں کون مزید کتابوں اور پریکٹیکل کے چکر میں پڑے۔بعض کالجوں کی انتظامیہ بورڈ کے عملی امتحانات کے لیے خاص اہتمام کرتی ہے۔ جس کے لیے طالب علموں کو مزید کچھ رقم خرچ کرنا ہوتی ہے۔ آخر اچھے گریڈز بھی تو لینے ہیں نا!
نجی کالجوں میں مستقل فیکلٹی کا فقدان
نجی کالجوں میں عام طورپرکوئی بھی استاد مستقل نہیں ہوتا بلکہ بعض کالجوں میں تو ماہانہ کی بجائے اساتدہ کو فی پیریڈ پڑھانے کے حساب سے معاوضہ دیا جاتا ہے۔ کئی نجی کالجوں میں سابقہ طلبہ اور غیر تجربہ کار افراد کو بطور اساتذہ بھرتی کر لیا جاتا ہے۔ٹیچرز ٹریننگ کا سرے سے کوئی نظام موجود نہیں، اساتذہ کی تنخواہیں کم ہوتی ہیں۔ نیز چھٹیوں کے دوران اساتذہ کو کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ جب کہ طلبہ سے بھاری فیسیں وصول کی جاتی ہیں۔ چونکہ اساتذہ کی معاشی حالت بہت خراب ہوتی ہے، اس لیے وہ بھی عدم دلچسپی سے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں۔
اگر حکومت کے پاس فنڈز کی کمی ہے تو، یقیناً نئے کالج قائم کرنے کے لیے بھی کافی وسائل کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ بات حیران کن ہے کہ سابقہ صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں وزیر تعلیم ڈاکٹر عطا الرحمٰن کی ہدایت پر ملک بھر میں بے شمار ایسے اسکول جن میں مطلوبہ سہولتیںمیسر تھیں، ان اسکولوںکو ہائیر سکینڈری اسکولوں کا درجہ دیا گیا تھا، جس سے اس علاقے کے طلبہ و طالبات اپنے اسکول سے ہی 12 سالہ تعلیم (ایف اے، ایف ایس سی) مکمل کرتے تھے، لیکن موجودہ حکومت نے ان ہائیر سیکنڈری اسکولوں کواپنے مفادات کے منافی تصور کرتے ہوئے انتہائی غیر محسوس انداز میں کوئی وجہ بتائے بغیر لاہور میں ان تمام ہائیر سکینڈری اسکولوں کو آہستہ آہستہ بند کر دیا۔ حالانکہ وزیر اعلیٰ پنجاب اگر واقعی پنجاب میں تعلیم عام کرنے اور غریبوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں مخلص ہوتے تو وہ پنجاب میں موجود ان ہائیر سیکنڈری اسکولوں کو بند نہ ہونے دیتے۔ اگر ان میں کچھ خامیاں تھیں تو انہیں دور کرنے کی کوشش کرتے اور اگر تعلیمی وسائل موجود نہیں تھے تو موجودہ وسائل کو لیپ ٹاپ تقسیم کر کے تصاویر شائع کرانے کے بجائے کالج میں داخلہ لینے کے خواہشمند مستحق طالب علموں کے اچھے نجی کالج داخلہ کے اخراجات پر خرچ کرتے۔ پنجاب میں تعلیم کے کاروبار سے موجودہ حکومت کی گہری وابستگی کا پتہ اس بات سے بھی چلتاہے کہ صوبائی حکومت ایسے کالج بھی نہ تو قائم کرتی ہے اور نہ ان کے قیام کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جو نفع، نقصان کے بغیر چلائے جائیں، یعنی طالب علموں سے صرف اتنی ہی فیس لی جائے جس سے عمارت کا کرایہ، اسٹاف کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات پورے ہوسکیں، یہ فیس پھر بھی نجی کالجوںکی فیس سے کم ہوگی۔ اس طرح کم آمدنی اور متوسط طبقے کے بہت سے بچے اور بچیاں معیاری تعلیم حاصل کر پائیں گے اور تعلیم حاصل کرنا ان کی ناتمام حسرت اور خواہش نہیں بن کر رہ جائے گی۔ لیکن اس طرح کے کالجوں کے قیام سے نجی کالجوں کاکاروبار بری طرح متاثر ہونے کے اندیشے کے تحت ایسا نہیں کیاگیا اور اس کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کا رویہ اختیار کیاجارہاہے۔یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ موجود صوبائی حکومت کے پاس نئے کالج قائم کرنے کے لیے وسائل نہیں لیکن یہ بات قابل قبول نہیں کہ موجود تعلیمی وسائل کو مستحق طلبہ پر خرچ کرنے کے بجائے ’لیپ ٹاپ اسکیم یا پوزیشن ہولڈز کو بیرون ممالک کی سیر‘ پر ضائع کر دیا جائے۔شاید اس سے بڑا ظلم لاہور کے شہریوں کے ساتھ اور کوئی نہیں۔


متعلقہ خبریں


دفاعی قوت کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں ،فضل الرحمان وجود - منگل 23 دسمبر 2025

سیاسی قوت کے طور پر مضبوط ہونا عوام اور سیاست دانوں کا حق ہے، فلسطین فوج بھیجنے کی غلطی ہرگز نہ کی جائے،نہ 2018 نہ 2024 کے الیکشن آئینی تھے، انتخابات دوبارہ ہونے چاہئیں کوئی بھی افغان حکومت پاکستان کی دوست نہیں رہی،افغانی اگر بینکوں سے پیسہ نکال لیں تو کئی بینک دیوالیہ ہوجائیں،...

دفاعی قوت کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں ،فضل الرحمان

نئے مالی سال 2026-27، بجٹ کی تیاریاں شروع ،ٹیکس تجاویز مانگ لیں وجود - منگل 23 دسمبر 2025

ایف بی آر نے کسٹمز قوانین میں ترامیم کیلئے 10فروری تک سفارشات طلب کرلی فیلڈ فارمیشن کا نام، تجاویز، ترامیم کا جواز، ریونیو پر ممکنہ اثرات شامل ،ہدایت جاری نئے مالی سال کے بجٹ کی تیاریاں شروع کر دی گئیں، ایف بی آر نے نئے بجٹ کے حوالے سے ٹیکس تجاویز مانگ لیں۔ایف بی آر کے مطابق...

نئے مالی سال 2026-27، بجٹ کی تیاریاں شروع ،ٹیکس تجاویز مانگ لیں

عمران اور بشریٰ کیسزاؤں کیخلاف سندھ بھر میں احتجاج وجود - منگل 23 دسمبر 2025

کراچی، حیدرآباد، سکھر، میرپورخاص، شہید بینظیر آباد اور لاڑکانہ میں مظاہرے بانی کی ہدایت پر اسٹریٹ موومنٹ کا آغاز،پوری قوم سڑکوں پر نکلے گی،حلیم عادل شیخ پاکستان تحریک انصاف کے سرپرستِ اعلی عمران خان، ان کی اہلیہ بشری بی بی، اور اس سے قبل ڈاکٹر یاسمین راشد، اعجاز چوہدری، میاں ...

عمران اور بشریٰ کیسزاؤں کیخلاف سندھ بھر میں احتجاج

پاکستان مضبوط ، پرعزم اپنی خود مختاری کی حفاظت کرنا جانتا ہے، بلاول بھٹو وجود - منگل 23 دسمبر 2025

عوام متحد رہے تو پاکستان کبھی ناکام نہیں ہوگا،ہماری آرمڈ فورسز نے دوبارہ ثابت کیا کہ ہماری سرحدیں محفوظ ہیں قوم کی اصل طاقت ہتھیاروں میں نہیں بلکہ اس کے کردار میں ہوتی ہے، کیڈٹ کالج پٹارو میں تقریب سے خطاب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کیڈٹ کالج پٹارو م...

پاکستان مضبوط ، پرعزم اپنی خود مختاری کی حفاظت کرنا جانتا ہے، بلاول بھٹو

مذاکرات کی بات کرنیوالے عمران کے ساتھی نہیں،علیمہ خانم وجود - منگل 23 دسمبر 2025

تحریک تحفظ کانفرنس کے اعلامیے کا علم نہیں،غلط فیصلے دینے والے ججز کے نام یاد رکھے جائیں گے عمران کو قید مگر مریم نواز نے توشہ خانہ سے گاڑی لی اس پر کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟میڈیا سے گفتگو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے کہا ہے کہ مذاکر...

مذاکرات کی بات کرنیوالے عمران کے ساتھی نہیں،علیمہ خانم

پانچ روزہ کراچی ورلڈ بک فیئر کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا وجود - منگل 23 دسمبر 2025

  پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز کے تحت کراچی ایکسپو سینٹر میں جاری پانچ روزہ کراچی ورلڈ بک فیٔر علم و آگاہی کی پیا س بجھا تا ہو ا کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔ کراچی ورلڈ بک فیٔر نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ساڑھے 5لاکھ افراد نے پانچ روز...

پانچ روزہ کراچی ورلڈ بک فیئر کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا

حکومت کا مینڈیٹ جعلی،عمران خان گرفتار کیوں ہیں،مولانا فضل الرحمان وجود - جمعه 19 دسمبر 2025

اصل سوال یہ ہے کہ حکومت کس کی ہے اور فیصلے کون کر رہا ہے، آئین کیخلاف قانون سازی کی جائے گی تو اس کا مطلب بغاوت ہوگا،اسٹیبلشمنٹ خود کو عقل کل سمجھتی رہی ،سربراہ جمعیت علمائے اسلام عمران خان سے ملاقاتوں کی اجازت نہ دینا جمہوری ملک میں افسوس ناک ہے، میں تو یہ سوال اٹھاتا ہوں وہ گ...

حکومت کا مینڈیٹ جعلی،عمران خان گرفتار کیوں ہیں،مولانا فضل الرحمان

سہیل آفریدی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری وجود - جمعه 19 دسمبر 2025

سہیل آفریدی اور ان کے وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوئے،تفتیشی افسر پیش سینئر سول جج عباس شاہ نے وزیراعلیٰ پختونخوا کیخلاف درج مقدمے کی سماعت کی خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کے خلاف ریاستی اداروں پر گمراہ کن الزامات اور ساکھ متاثر کرنے کے کیس میں عدم حاضری پر عدالت ن...

سہیل آفریدی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری

آسٹریلیا کا نفرت پھیلانیوالوں کے ویزے منسوخ کرنے کا فیصلہ وجود - جمعه 19 دسمبر 2025

حکومت ایک نیا نظام تیار کرے گی، وزیرِ داخلہ کو نئے اختیارات دیے جائیں گے، وزیراعظم تشدد کو فروغ دینے والوں کیلئے نفرت انگیز تقریر کو نیا فوجداری جرم قرار دیا جائیگا،پریس کانفرنس آسٹریلوی حکومت نے ملک میں نفرت پھیلانے والے غیر ملکیوں کے ویزے منسوخ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔...

آسٹریلیا کا نفرت پھیلانیوالوں کے ویزے منسوخ کرنے کا فیصلہ

سڈنی حملہ،بھارت دہشت گردی کا مرکز قرار،عالمی سطح پر ریاستی سرپرستی بے نقاب وجود - بدھ 17 دسمبر 2025

حملہ آور کا تعلق حیدرآباد سے تھا، ساجد اکرم آسٹریلیا منتقل ہونے کے بعدجائیداد کے معاملات یا والدین سے ملنے 6 مرتبہ بھارت آیا تھا،بھارتی پولیس کی تصدیق ساجد اکرم نے بھارتی پاسپورٹ پر فلپائن کا سفر کیا،گودی میڈیا کی واقعے کو پاکستان سے جوڑنے کی کوششیں ناکام ہوگئیں، بھارتی میڈی...

سڈنی حملہ،بھارت دہشت گردی کا مرکز قرار،عالمی سطح پر ریاستی سرپرستی بے نقاب

سہیل آفریدی کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع وجود - بدھ 17 دسمبر 2025

سہیل آفریدی، مینا آفریدی اور شفیع اللّٰہ کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کی جا رہی ہے عدالت نے متعدد بار طلب کیا لیکن ملزمان اے ٹی سی اسلام آباد میں پیش نہیں ہوئے وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا سہیل آفریدی کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کردی گئی۔اسلام آباد کی انسدادِ...

سہیل آفریدی کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع

سڈنی حملہ،آسٹریلیا میں مسلمانوں کے قبرستان کی بے حرمتی وجود - بدھ 17 دسمبر 2025

سور کے سر اور اعضا رکھ دیے گئے، قبرستان کے دروازے پر جانوروں کی باقیات برآمد مسلم رہنماؤں کا حملہ آوروں کی میتیں لینے اوران کے جنازے کی ادائیگی سے انکار آسٹریلیا کے بونڈی بیچ پر حملے کے بعد سڈنی میں موجود مسلمانوں کے قبرستان کی بے حرمتی کا واقعہ سامنے آیا ہے۔جنوب مغربی س...

سڈنی حملہ،آسٹریلیا میں مسلمانوں کے قبرستان کی بے حرمتی

مضامین
پاک بنگلہ دو قومی نظریہ سے جڑے ہیں وجود منگل 23 دسمبر 2025
پاک بنگلہ دو قومی نظریہ سے جڑے ہیں

طاقت اور جہالت وجود منگل 23 دسمبر 2025
طاقت اور جہالت

آخراس سے نیچے ہم کہاں جائیں گے! وجود منگل 23 دسمبر 2025
آخراس سے نیچے ہم کہاں جائیں گے!

یہ کھیل اب اختتام چاہتا ہے ! وجود منگل 23 دسمبر 2025
یہ کھیل اب اختتام چاہتا ہے !

سڈنی حملہ، بھارتی میڈیا اور پروپیگنڈے کا بے نقاب چہرہ وجود پیر 22 دسمبر 2025
سڈنی حملہ، بھارتی میڈیا اور پروپیگنڈے کا بے نقاب چہرہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر