... loading ...
ماحولیات کے خطرات سے سب سے زیادہ دوچار ممالک میں پاکستان ساتویں نمبر پر کھڑاہے،جرمن واچ کی رپورٹ ، اس تبدیلی کی وجہ سے پانی کے وسائل ختم یااس طرح تباہ ہورہے کہ زیر زمین پانی بھی ناقابل استعمال ہوتاجارہا ہے
ماحولیات سے متعلق امور کے ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ پاکستان میں غربت کا ایک بڑا سبب ماحولیاتی تبدیلی میں مسلسل اضافہ ہے، جس کی وجہ سے قدرتی وسائل ختم یاتباہ ہوتے جارہے ہیں اور اس صورت حال سے سب سے زیادہ دیہی علاقوں کے لوگ متاثر ہورہے ہیں ۔کیونکہ اس تبدیلی کی وجہ سے پانی کے وسائل ختم یااس طرح تباہ ہورہے کہ زیر زمین پانی بھی ناقابل استعمال ہوتاجارہا ہے۔جنگلوں کی بے تحاشہ کٹائی اور شجرکاری نہ ہونے یاکم ہونے کی وجہ سے قدرتی وسائل اور جنگلی حیات کے ساتھ ہی مویشیوں کے چارے کے وسائل کم بلکہ ختم ہوتے جارہے ہیں، سرسبز کھیتوں کو کنکریٹ کی فلک بوس عمارتوں میں تبدیل کئے جانے کے رجحان کے سبب قابل کاشت اراضی روز بروز کم ہوتی جارہی ہے جبکہ آبادی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے اشیائے خوردونوش ، اجناس ، سبزیوں اور پھلوں کی طلب میں اضافہ ہورہاہے جس کے لئے اب ہمیں درآمدات کاسہارا لینا پڑ رہاہے۔
ماحولیات کے خطرات کاتجزیہ کرنے والے جرمنی کے ادارے جرمن واچ کی 2017 کی رپورٹ کے مطابق ماحولیات کے خطرات سے سب سے زیادہ دوچار ممالک میں پاکستان ساتویں نمبر پر کھڑاہے۔یہ تجزیاتی رپورٹ پوری دنیا کے مختلف ممالک کو 1996 سے 2015 کے درمیان پیش آنے والے خطرات کاتجزیہ کرنے کے بعد تیار کی گئی تھی۔رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیاہے کہ پاکستان کو اس عرصے کے دوران 133 مرتبہ قدرتی آفات کاسامنا کرناپڑا جس سے ملک کو مجموعی طورپر 3 ارب82 کروڑ31 لاکھ70 ہزار ڈالر کانقصان برداشت کرنا پڑا۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کے بارے میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ ہمارے ملک کے غریب لوگوں خاص طورپر دیہی علاقوں کے باشندوں کی زندگی کا دارومدار بڑی حد تک پانی کے نظام پر ہے اب ملک میں پانی کا نظام ہی تباہ ہوجائے تو پھر یہ غریب کہاں جائیں؟
ماحول کی اس تبدیلی کی وجہ سے جہاں ایک طرف ملک مسلسل قدرتی آفات، طوفانوں ، آندھیوں ،بارشوں اور سیلابوں کا شکار رہتا ہے وہیں اس کی وجہ سے ملک کا وسیع علاقہ شدید خشک سالی کابھی شکار ہورہا ہے کیونکہ مون سون کی ہوائیں جن درختوں سے ٹکراکر ہماری زمین کو سیراب کرتی تھی اب درخت کاٹ دئے جانے کے سبب بغیر برسے گزر جاتی ہیں اور ہمارے حصے میں صرف ان تیز ہوائوں سے ہونے والی تباہ کاریاں رہ جاتی ہیں۔اس صورتحال سے ہماری شہری اوردیہی دونوں ہی جگہ کی معیشت بری طرح متاثر ہوتی ہے اور غربت میں کمی ہونے کے بجائے اس میں مسلسل اضافہ ہوتاجارہاہے ۔کسان کی خوشحالی داستان پارینہ بنتی جارہی ہے اور زرعی زمین کا مالک بادشاہ ہوتاہے جیسی کہاوتیں داستانوں کاحصہ بن چکی ہیں اور اب حقیقت یہ ہے کہ زرعی زمین کامالک بیٹھا رو رہاہوتاہے۔
ماحولیاتی تبدیلی میں اضافہ اور ہماری جانب سے جاری ماحول مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے ملک پر پڑنے والے اثرات کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ پاکستان کو 1992 ،2003 ، 2007،2010،2011 ،2013اور 2015 میں شدید بارشوں اور سیلابی کیفیت کاسامنا کرنا پڑا لیکن پانی ذخیرہ کرنے کاکوئی انتظام نہ ہونے کے سبب ہم ان بارشوں اور سیلابوںکی تباہ کاریاں سہنے پر تو مجبور ہوئے لیکن اس اضافی پانی کو اپنے مستقبل کی ضرورت کیلئے محفوظ کرنے اور اس کے ذریعے زیادہ اور بہتر کاشت کے ذریعے ان نقصانات کاازالہ کرنے میں ناکام رہے نتیجہ یہ ہوا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونچی سے محروم ہوکر سڑکوں پر آگئے ۔
ان قدرتی آفات نے ہماری دیہی معیشت کاتانا بانا ہی بکھیر کر رکھ دیا،اس سے ہمارا رہا سہا انفرااسٹرکچر بھی تباہ ہوگیا اور دیہی علاقوں سے شہروں تک رسائی کے راستے مسدود ہوکر رہ گئے جس کا براہ راست اثر بحیثیت مجموعی پوری ملکی معیشت پر پڑا اور ملکی معیشت کی ترقی کی رفتار کم ہوگئی ۔
اس حوالے سے افسوسناک امر ہے کہ ان تباہ کاریوں اور نقصانات کے باوجود حکومت نے ماحول کو بچانے اور محفوظ کرنے کیلئے اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔یہی نہیں بلکہ حکومت میں موجود مقتدر ماہرین ارضیات اور ماحولیات نے عوام کو یہ بتانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ انھیں جن قدرتی آفات کاسامنا کرنا پڑا ہے اور جس کی وجہ سے تم اپنی تمام جمع پونجی سے محروم ہوگئے ہو وہ خود تمہاری لائی ہوئی تباہی ہے اگر ابتدا ہی سے ماحول کو آلودگی اور تباہی سے بچانے کیلئے ہر ایک اپنا کردار ادا کرتا تو شاید ملک کو اتنی بڑی تباہکاری کاسامنا نہ کرنا پڑتا۔
اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ جنگلات کی کٹائی کاعمل جاری ہے ،اور اس کے مقابلے میں ہماری شجر کاری مہم صرف کاغذوں کی حد تک ہی محدود نظر آتی ہے کیونکہ گزشتہ 10سال کے دوران ملک میں جنگلات کے رقبے میں نہ صرف یہ کہ ایک انچ کا بھی اضافہ نہیں ہواہے بلکہ جنگلوں کی بے تحاشہ کٹائی کے سبب اس میں مسلسل کمی آتی جارہی ہے۔گندے پانی کی ری سائکلنگ اوراس کی نکاسی کاکوئی مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے گندہ پانی جوہڑوں کی شکل میں قابل کاشت اور زرخیز زمینوں پر جمع ہوکر انھیں بھی ناقابل کاشت بنارہاہے جبکہ اس کی وجہ سے زیر زمین پانی کے ذخائر بھی آلودہ ہوکر ناقابل استعمال ہوتے جارہے ہیں۔سیم وتھور کے مسائل میں اضافہ ہورہاہے ،جس کی وجہ سے چراگاہیں ختم ہوتی جارہی ہیںجس کی وجہ سے مویشی پالنا مشکل تر ہوتاجارہاہے اور قابل کاشت اراضی میں مسلسل کمی اور فی ایکڑ پیداوار میں کمی کے مسلسل رجحان کے سبب چھوٹے کاشتکاروں کیلئے زندگی گزارنا کٹھن سے کٹھن تر ہوتاجارہاہے۔
آبی آلودگی کا اثر بحری حیات پر بھی پڑرہاہے اور پانی کے ذخائر میں کمی اور پانی میں آلودگی کی شرح میں مسلسل اضافے کی وجہ سے مچھلیوں کی افزائش بری طرح متاثر ہورہی ہے اور دیہی علاقوں میں ندی نالوں اورجھیلوں سے مچھلیاں پکڑ کر گزار ا کرنے والی ماہی گیر روٹیوں کو محتاج ہوتے جارہے ہیں جبکہ دیہی آبادی مچھلی جیسی سستی خوراک سے بھی محروم ہوتی جارہی ہے۔اس صور ت حال کی وجہ سے مچھلیاں پکڑ کر گزارا کرنے والے ماہی گیر دیہی علاقوں سے نقل مکانی کرکے قریبی قصبوں اور شہروں میں سکونت تلاش کرنے پر مجبور ہوتے جارہے ہیں۔
ماحول کی آلودگی میں اضافے سے ہونے والی ان تباہ کاریوں کااولین اور بڑا شکار اس ملک کا غریب ترین طبقہ ہوتاہے جو پہلے ہی غربت کی نچلی ترین لکیر کے قریب گزر بسر کررہاہے ، اس سے غربت کی لکیر کے قریب گزر بسر کرنے والا طبقہ غربت کی نچلی ترین لکیر سے بھی نچلی سطح پرچلاگیاہے ، اس طرح غربت روکنے کے حکومت کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں اور ملک میں غربت میں کمی کے بجائے بتدریج اضافہ ہی ہوتاجارہاہے۔
عالمی بینک نے 2015 میں مقامی حکام کے ساتھ مل کر ایک سروے کیاتھا جس کی رپورٹ میں یہ انکشاف کیاگیاتھا کہ آلودگی کے مسئلے پر قابو پانے میں ناکامی کے سبب آنے والے سیلابوں اور طوفانوں کی وجہ سے وفاقی بجٹ کو 3-4فیصد سالانہ تک کانقصان اٹھانا پڑ رہاہے۔اس سے ملک کی مجموعی ملکی پیداوار اعشاریہ8 فیصدتک متاثر ہورہی ہے اور ملکی معیشت کو سالانہ کم وبیش ایک ارب 20 کروڑ سے ایک ارب 80کروڑ روپے تک کانقصان برداشت کرناپڑرہاہے۔
اس صورت حال کاتقاضہ ہے کہ پاکستان میں نچلی سطح پر لوگوں کو ماحول کی آلودگی کے نقصانات اور خود ان کی اپنی زندگی پر پڑنے والے منفی اثرات سے آگاہ کیاجائے اور سرکاری سطح پر آلودگی کے خاتمے کیلئے قابل عمل حکمت عملی تیار کی جائے تاکہ زیر زمین آبی وسائل کو تباہی سے بچایاجاسکے اور ملک کو قدرتی آفات کی تباہکاریوں سے بچانے کیلئے ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں ۔تاہم یہ کام اسی وقت ہوسکتاہے جب ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کے خلاف پوائنٹ اسکورنگ کے موجودہ کھیل سے ہٹ کر حقیقی معنوں میں عوام اور ملک کی فلاح وبہبود پر توجہ مرکوز کرنے پر تیار ہوں جس کا دور دور تک کوئی امکان اور شائبہ تک نظر نہیں آتا۔
ابن عماد بن عزیز
توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت کے بعد پی ٹی آئی کارکنان آپے سے باہر ، قیادت کی جانب سے کارکنان کو نہیں روکا گیا تشدد کسی صورت قبول نہیں،پی ٹی ائی کا معافی مانگنے اور واضع لائحہ عمل نہ دینے تک بائیکاٹ کرینگے، صحافیوں کا اعلان توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنان...
پہلے ہی اِس معاملے پر بہت تاخیرہو چکی ہے ، فوری طور پر اقوام متحدہ جانا چاہیے، پاکستان کے دوست ممالک مدد کرنا چاہتے ہیں سیلاب متاثرین کے نقصانات کا ازالہ ہوناچاہیے، ملک میں زرعی ایمرجنسی لگائی جانی چاہیے، ملتان میں متاثرین سے خطاب چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا ...
محکمہ موسمیات نے اگلے 2 روز میں مزید موسلادھار بارشوں کا امکان ظاہر کردیا،شہریوں کو محتاط رہنے کی ہدایت پورٹ قاسم سمندر میں ماہی گیروں کی کشتی الٹ گئی، ایک ماہی گیر ڈوب کر جاں بحق جبکہ تین کو بچا لیا گیا، ریسکیو حکام کراچی سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں بارش کا سلسلہ وقفے وقفے...
قدرتی آفات کو ہم اللہ تعالیٰ کی آزمائش سمجھ کر اِس سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ، امیر جماعت اسلامی چالیس سال سے مسلط حکمران طبقے سے صرف اتنا پوچھتا ہوں کہ یہ کس کو بے وقوف بناتے ہیں، گفتگو امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ سیلاب کے نقصانات میں ہمارے حکمرانوں کی...
کسی بھی معاہدے میں اسرائیل کا فلسطین سے مکمل انخلا شامل ہو نا چاہئے ہم اپنے عوام پر جارحیت کو روکنے کی ہر کوشش کا خیرمقدم کرتے ہیں، بیان فلسطینی تنظیم حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دی گئی آخری وارننگ کے بعد فوری طور پر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے تی...
بھارت نے دریائے ستلج میں مزید پانی چھوڑ دیا، مزید سیلابی صورت حال کا خدشہ،متعلقہ اداروں کا ہنگامی الرٹ جاری،ملتان میں ریلے سے نمٹنے کیلئے ضلعی انتظامیہ نے ایک عملی منصوبہ تیار کر لیا ،وزارت آبی وسائل صوبے بھر میں مختلف مقامات پر طوفانی بارشوں کا خطرہ ،پنجاب سے آنیو...
نماز فجر کے بعد مساجد اور گھروں میں ملکی ترقی اورسلامتی کیلئے دعا ئیں مانگی گئیں، فول پروف سکیورٹی انتظامات کراچی سے آزاد کشمیر تک ریلیاں اورجلوس نکالے گئے، فضائوں میں درود و سلام کی صدائوں کی گونج اٹھیں رحمت اللعالمین، خاتم النبیین، ہادی عالم حضرت محمد ﷺ کی ولادت ...
قوم کو پاک فضائیہ کی صلاحیتوں پر فخر ہے،پاک فضائیہ نے ہمیشہ ملکی حدود کا دفاع کیا،صدرآصف علی زرداری پاکستانی فضائیہ ہمیشہ کی طرح ملکی خودمختاری، جغرافیائی سرحدوں اور سالمیت کا بھرپور دفاع کرتی رہے گی،شہبازشریف صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے ...
افواج پاکستان نے 6 ستمبر 1965 کو بھارت کے ناپاک عزائم خاک میں ملائے،امیر جماعت اسلامی پاکستان کسی ایکس وائی زی صدر وزیراعظم یا بیوروکریٹ کا نہیں ہے بلکہ پاکستانیوں کا ہے،میڈیا سے گفتگو لاہور(بیورورپورٹ) جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ بھارت کان کھول ...
6ستمبرشجاعت اور بہادری کاتاریخ ساز دن،شہدا اور غازیوں کے ورثے سے ملنے والی طاقت ، جذبہ اور شجاعت ہماری اصل قوت ہے،محسن نقوی یومِ دفاع ہماری جرات کی روشن علامت ہے،پاک فوج نے ایک طاقت رکھنے والے دشمن کو شکست دی ،غرور کو توڑ کر ملک کا نام روشن کیا،مصطفی کمال وفاقی وزرا نے کہا ہے...
ایٔر فورس ڈے پر پاک فضائیہ کے شہداء کو خراج عقیدت اور غازیوں کی جرأت کو سراہتا ہوں، چیئرمین پیپلز پارٹی 7 ستمبر ہماری تاریخ میں جرأت، قربانی اور پاکستان ایٔر فورس کی بے مثال پیشہ ورانہ صلاحیت کا دن ہے،پیغام پاکستان پیپلز پارٹی کے چیٔرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکس...
پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس کیوں نہیں بلایا گیا؟سپریم کورٹ رولز کی منظوری سرکولیشن کے ذریعے کیوں کی گئی؟اختلافی نوٹ کو جاری کرنے سے متعلق پالیسی میں تبدیلی کیلئے انفرادی طور مشاورت کیوں کی گئی؟ ججز کی چھٹیوں پر جنرل آرڈر کیوں جاری کیا گیا؟ آپ ججز کوکنٹرولڈ فورس کے طور پ...