وجود

... loading ...

وجود

شاہد حیات کی پریس کانفرنس: جوابات نے اُلٹے سوال اُٹھا دیئے!

منگل 01 مارچ 2016 شاہد حیات کی پریس کانفرنس: جوابات نے اُلٹے سوال اُٹھا دیئے!

shahid and jahangeer

اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ

ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ شاہد حیات نے ایک پریس کانفرنس میں اُن خبروں کی تردید کی ہے جو اُن کے متعلق مختلف حلقوں میں زیر گردش ہیں۔ شاہد حیات نے اپنی پریس کانفرنس میں اپنے متعلق اُٹھائے گئے جن سوالات کے جواب دیئے ہیں ، اُس نے اُن کے متعلق مزید سوالات گہرے کر دیئے ہیں۔ شاہد حیات کی پریس کانفرنس کے چیدہ چیدہ نکات کا ذیل میں ایک جائزہ لیا جارہا ہے!

۱۔مجھ پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے!

شاہد حیات نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ’’ ایف آئی اے کا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے ۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے مجھ پر اور ایف آئی اے پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے۔ ‘‘شاہد حیات نے اس طرح اُن پر اُٹھائے گئے سوالات کو ایف آئی اے پر کیچڑ اچھالنے کے مترادف بنا دیا ہے۔ اور میڈیا میں اُن پر اُٹھنے والے نہایت جائز سوالات کو میڈیا ٹرائل قراردے دیا ہے۔ اُنہیں ایک طویل عرصے سے ذرائع ابلاغ میں ایک ’’ایماندارافسر‘‘ کے طور پر یاد کیے جانے کی ایک عادت سی پڑ گئی ہے۔ مگر وہ اس بات سے بے خبر رہے کہ ذرائع ابلاغ میں کچھ ایسے بھی افراد رہے ہیں جنہوں نے معروضیت کا خیال رکھتے ہوئے کسی افسر کے لئے کبھی ایمانداری کی سندیں نہیں بانٹیں۔ جنگ اور جیو گروپ کی سرپرستی کے باعث وہ خود کی امیج بلڈنگ کرانے کی کوششوں میں کا میاب ضرور رہے ، مگر اُن پر ہمیشہ سے جائز سوالات بھی اُٹھتے رہے۔ سوال یہ ہے کہ اُن کے انتہائی مہنگے لائف اسٹائل پر سوا ل اُٹھانا کون سا میڈیا ٹرائل ہے؟ اُن کے شہر کے اندر مختلف کاروباری حلقوں سے منفعت بخش تعلقات کی بابت دریافت کرنا کون سا میڈیا ٹرائل ہے؟ شاہد حیات غالباً میڈیا ٹرائل کا مطلب نہیں سمجھتے! دنیا بھر میں کون سے تحقیقاتی ادارے الزامات کی بنیا دپر ملزمان کے خلاف اس طرح پریس کانفرنسیں کرتے ہیں، جس طرح شاہد حیات جیو گروپ کی سرپرستی میں کرتے ہیں۔ اُنہوں نے ایگزیکٹ کے خلاف اپنی پریس کانفرنس میں جو جو الزامات عائد کیے اُس کو ایک چارج شیٹ کی شکل میں آج تک عدالت میں جمع نہیں کراسکے مگر اس پر اُنہوں نے متعدد مرتبہ پریس کانفرنسیں کیں ۔ کیا یہ میڈیا ٹرائل نہیں؟

ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ شاہد حیات کے معاملات انتہائی مشتبہ ہو چکے ہیں اور اس کی انکوائری نہ کرنے کا مطلب دراصل وزارت داخلہ کا اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑنا ہوگا۔

شاہد حیات نے اے کے ڈی سیکورٹیز کے تین افراد کو گرفتار کر لیا۔ اس حوالے سے اُنہوں نے ایک پریس کانفرنس بھی کر ڈالی۔ کیا الزامات ثابت کیے بغیر افراد کے خلاف اس طرح پریس کانفرنس کرنا میڈیا ٹرائل کے ذمرے میں آتا ہے یا نہیں؟ اس ضمن میں وہ پاکستان کے قوانین کی ماں کہلانے والے برطانوی قوانین پر ایک نگاہ ڈالے اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کے قواعد تفتیش اور طریقہ کار کو بھی دیکھیں۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات کررہی ہے مگر اسکاٹ لینڈ یارڈ نے آج تک کسی بھی حوالے سے اپنے الزامات کی تشہیر نہیں کی ، اپنی تفتیش سے قبل کسی ملزم کے حقوق اور شہرت کو داغدار نہیں کیا۔ یہ شاہد حیات کے لئے ہی نہیں خود وزیرداخلہ چودھری نثار کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کیوں ایم کیوایم کے قائد اور اُس کے مختلف عہدیداران اپنے خلاف جاری تفتیش کے باوجود کھلے عام یہ کہتے ہیں کہ اُنہیں برطانوی اداروں پر پورا اعتماد ہے۔ اس لئے کہ برطانیا میں کوئی بھی شخص قانون کو موم کی ناک نہیں بنا سکتا۔

شاہد حیات جنگ اور جیو گروپ کی سرپرستی کے باعث خود کی امیج بلڈنگ کرانے کی کوششوں میں کا میاب ضرور رہے ، مگر اُن پر ہمیشہ سے جائز سوالات بھی اُٹھتے رہے۔

درحقیقت کوئی بھی شخص شاہد حیات کا میڈیا ٹرائل نہیں کررہا بلکہ خود شاہد حیات نے اپنے ہاں زیر تفتیش مقدمات میں اب تک بے گناہ افراد سمیت اُن کے اداروں کا میڈیا ٹرائل کیا ہے۔

2۔ میرے خلاف کوئی انکوائری نہیں چل رہی!

یہ اس ملک کے قانون کے لئے ایک شرم کی بات ہے کہ اس کے نفاذ کے ذمہ دار اور احترام کے حامل اداروں کے مشکوک افسران کو پریس کانفرنسوں میں آکر یہ بتانا پڑتا ہے کہ اُن کے خلاف کوئی انکوائری نہیں ہورہی۔ سندھ میں ہی نہیں ملک بھر میں ایسے لوگ اہم ترین سرکاری مناصب پر فائز ہیں جو مختلف الزامات میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں خود وزیراعظم کے سیکریڑی فواد احمد فواد کا نام بھی قابل ذکر ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات کہہ دینا کافی ہے کہ اُن کے خلاف کوئی انکوائری نہیں ہورہی۔ یہ تو خود ملک کے تفتیشی اداروں کی نیک نامی کا مزاق اڑانے کے مترادف ہے کہ ایک شخص جو دوسروں کی بدعنوانیوں کے خلاف تفتیش کررہا ہو، اُس پراتنے الزامات عائد کیے جاچکے ہو اور اُس کی انکوائری بھی نہ ہورہی ہو۔ دراصل شاہد حیات کو آگے بڑھ کر خود کو انکوائری کے لئے پیش کرنا چاہئے اور اُنہیں یہ ثابت کرنا چاہئے کہ وہ ایگزیکٹ اور اے کے ڈی سیکورٹیز کے خلاف بنائے گئے مقدمے میں کسی چمک ، کسی دباؤ، یا کسی اثرورسوخ کے شکار نہیں ہوئے؟ اُنہیں اپنے پُرتکلف لائف اسٹائل کی بھی وضاحت کرنی چاہئے کہ وہ ایک سرکاری نوکری کی تنخواہ میں ایسی بھرپور زندگی کیسے گزار سکتے ہیں؟ اُنہیں جہانگیر صدیقی کے ساتھ اپنے مراسم کی وضاحت کے لئے بھی انکوائری کا خیرمقدم کرنا چاہئے کہ کیا وہ جہانگیر صدیقی کے ساتھ مراسم کی ایک تاریخ رکھتے ہیں، اور اُن کے کارباری حریفوں کو پریشان کرنے کے لئے اپنی سرکاری پوزیشن کا ایک طویل عرصے سے استعمال کرتے آئے ہیں یا نہیں؟ اگر شاہد حیات کو ایسے واقعات یاد نہ آرہے ہو تو وجود ڈاٹ کام رضاکارانہ طور پر اُن کی یادداشت کے لئے ایسے واقعات تفصیل سے پیش کرسکتا ہے۔

شاہد حیات کو جہانگیر صدیقی کے ساتھ اپنے مراسم کی وضاحت کے لئے بھی انکوائری کا خیرمقدم کرنا چاہئے کہ کیا وہ جہانگیر صدیقی کے ساتھ مراسم کی ایک تاریخ رکھتے ہیں، اور اُن کے کارباری حریفوں کو پریشان کرنے کے لئےاپنی سرکاری پوزیشن کا ایک طویل عرصے سے استعمال کرتے آئے ہیں یا نہیں؟

شاہد حیات کے اس موقف کے بعد کہ اُن کے خلاف کوئی انکوائری نہیں چل رہی، وزارت داخلہ کو بھی اپنے حصے کی وضاحت کرنی چاہئے کہ کیا واقعی وہ شاہد حیات کے خلاف کوئی انکوائری نہیں کر رہی؟ وزارت داخلہ کے پاس شاہد حیات کے بہت سے معاملا ت کے حوالے سے کافی تفصیلات موجود ہے۔ اگر اُن تفصیلات کے باوجود وہ شاہد حیات کے خلاف کوئی انکوائری بھی نہیں کررہی تو پھر مان لینا چاہیے کہ قانون طاقت کی ادنیٰ کنیز ہے۔ اور وزیر داخلہ کی طرف سے سچائی برتنے کے دعوے دراصل بے وقعت الفاظ سے زیادہ کچھ نہیں۔

ڈاکٹر عاصم حسین سے کوئی تعلق نہیں!

ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ شاہد حیات نے کہا ہے کہ اُن کا ڈاکٹر عاصم حسین سے کوئی تعلق نہیں۔ شاہد حیات کے پورے کیرئیر پر اگر ایک نگاہ ڈالی جائے تو اُن کا ہر دور میں کسی نہ کسی سے کوئی تعلق تو ضرور رہا ہے۔ مرتضیٰ بھٹو کیس میں وہ یہ کہتے ہوئے پائے جاتے تھے کہ اُن کا آصف علی زرداری سے کوئی تعلق نہیں۔ اے کے ڈی سیکورٹیز کے معاملے میں اُنہیں یہ وضاحت کرنا پڑی کہ اُن کا جہانگیر صدیقی سے کوئی تعلق نہیں۔ اور اب اُنہیں یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اُن کا ڈاکٹر عاصم حسین سے کوئی تعلق نہیں۔ کچھ عرصے کے بعد شاید اُنہیں یہ بھی کہنا پڑے کہ اُن کا فواد احمد فواد سے کوئی تعلق نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہر دور میں اُنہیں اس قسم کی وضاحتیں کیوں کرنا پڑتی ہے کہ اُن کا فلاں سے تعلق ہے اور فلاں سے نہیں؟ اس کا ایک سادہ جواب تو یہ ہے کہ آج تک وہ ایسے معاملات میں ملوث رہے ہیں جس میں وہ کسی کا نقصان کسی کو فائدہ پہنچانے کے لئے کرتے رہے ہیں ۔ اے کے ڈی سیکورٹیز کے معاملے میں وہ جہانگیر صدیقی کے لئے بروئے کار آئے ۔ یہ اُن کا احساس گناہ ہے کہ جو اُن کی زبان سے اس قسم کے جملوں سے ادا ہوتا ہے کہ ’’میں کسی کا نوکر نہیں۔‘‘ ماہرین نفسیات یہ کہتے ہیں کہ کسی کا نوکر ہی ہمیشہ یہ کہتا ہے کہ میں کسی کا نوکر نہیں۔ ایک آزاد منش شخص کی زبان پر عام طور پر اس قسم کے فقرے کبھی نہیں آتے!

مقدمات کی تفتیش آخر تک لے کر جائیں گے!

شاہد حیات نے اپنی وضاحت کے اس نکتے میں تو ’’اخیر‘‘ ہی کردی۔ آٹھ ماہ سے جاری ایگزیکٹ کے مقدمے کی تفتیش کو یہ ابھی اتنا بھی آگے نہیں بڑھا سکے کہ اس کا حتمی چالان ہی پیش کردیتے ۔ اے کے ڈی سیکورٹیز کے معاملے میں شاہد حیات نے بات ریسرچ رپورٹ سے شروع کی تھی، جب یہ نکتہ شرمناک حد تک کمزور ثابت ہوا تو موصوف نے کمپنی کی ’’ لسٹنگ ‘‘ کا مسئلہ اُٹھا دیا۔ جب اُنہیں تمام متعلقہ اداوں نے بتایا کہ لسٹنگ کے معاملے میں قواعد کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی تو وہ اب مختلف جگہوں سے فائلوں کے کیڑے نکالنے میں مصروف ہیں۔ کیا ایک تفتیشی ادارے کو پریس کانفرنس میں کسی بھی ملزم کے خلاف یہ کہنے کا حق ہے کہ وہ مقدمے کو آخر تک لے کر جائیں گے۔ یہ جملہ تو بجائے خود یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ تفتیش میں متعصب ہیں اور پہلے سے نتائج ذہن میں لے کر بیٹھے ہیں۔ایک آزاد تفتیش کو بغیر کسی متعین ذہن کے جہاں وہ جارہی ہو اُسے جانے دینا چاہئے نہ کہ تفتیش سے پہلے اس کے حتمی نتائج لانے کے دھمکی آمیز دعوے کرنے چاہئے۔

آخری بات

شاہد حیات کی اس پریس کانفرنس کا وزیر داخلہ چودھری نثار کو سختی سے نوٹس لینا چاہئے کہ ایک سرکاری منصب پر فائز شخص کس طرح اپنی ذاتی وضاحتیں پیش کر سکتا ہے اور وہ کس طرح ایک ایسی زبان کو استعمال کرنے کا مرتکب ہو سکتا ہے جو اُس کے تعصب کو ظاہر کرتی ہو۔ اور کسی بھی ملزم کی تفتیش سے پہلے تقدیر کی وضاحت کرتی ہو۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ شاہد حیات کے معاملات انتہائی مشتبہ ہو چکے ہیں اور اس کی انکوائری نہ کرنے کا مطلب دراصل وزارت داخلہ کا اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑنا ہوگا۔ اس ضمن میں یہ تحقیق بھی کرلینی چاہیئے کہ آخر شاہد حیات کو اس پریس کا نفرنس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا ڈاکٹر شاہد مسعود کا پروگرام اس مقصد کوپورا کرنے کے لئے سوچا گیا تھا تاکہ اُسے بنیاد بنا کر شاہد حیات کے لئے ایک وضاحتی پریس کانفرنس کا موقع نکالا جائے؟


متعلقہ خبریں


سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش وجود - بدھ 30 اپریل 2025

  پیچیدہ مسائل بھی بامعنی اور تعمیری مذاکرات کے ذریعے پرامن طور پر حل کیے جا سکتے ہیں،یو این سیکریٹری کا مقبوضہ کشمیر واقعے کے بعد پاکستان، بھارت کے درمیان کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کم کرنے اور بات چیت کے دوبارہ آغاز کے لیے کسی بھی ایسی ک...

سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل وجود - بدھ 30 اپریل 2025

  پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاقائی حریفوں کی بیرونی معاونت سے کیا گیا تھا۔اقوام متحدہ میں دہشت ...

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے وجود - بدھ 30 اپریل 2025

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاق...

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے

جعفر ایکسپریس حملے میں بیرونی معاونت کے ٹھوس شواہد ہیں،پاکستان وجود - بدھ 30 اپریل 2025

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گنا...

جعفر ایکسپریس حملے میں بیرونی معاونت کے ٹھوس شواہد ہیں،پاکستان

دو دہائیوں کی نسبت آج کی ڈیجیٹل دنیا یکسر تبدیل ہو چکی ، وزیراعظم وجود - بدھ 30 اپریل 2025

زراعت، صنعت، برآمدات اور دیگر شعبوں میں آئی ٹی اور اے آئی سے استفادہ کیا جا رہا ہے 11 ممالک کے آئی ٹی ماہرین کے وفود کو پاکستان آنے پر خوش آمدید کہتے ہیں، شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے ، دو دہائیوں کی نسبت آ...

دو دہائیوں کی نسبت آج کی ڈیجیٹل دنیا یکسر تبدیل ہو چکی ، وزیراعظم

عوامی احتجاج کے آگے حکومت ڈھیر، متنازع کینال منصوبہ ختم وجود - منگل 29 اپریل 2025

  8 رکنی کونسل کے ارکان میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا اسحٰق ڈار، خواجہ آصف اور امیر مقام شامل ، کونسل کے اجلاس میں 25 افراد نے خصوصی دعوت پر شرکت کی حکومت نے اتفاق رائے سے نہروں کا منصوبہ واپس لے لیا اور اسے ختم کرنے کا اعلان کیا، نہروں کی تعمیر کے مسئلے پر...

عوامی احتجاج کے آگے حکومت ڈھیر، متنازع کینال منصوبہ ختم

دو تین روز میں جنگ چھڑ نے کا خدشہ موجود ہے ،وزیر دفاع وجود - منگل 29 اپریل 2025

  دونوں ممالک کی سرحدوں پر فوج کھڑی ہے ، خطرہ موجود ہے ، ایسی صورتحال پیدا ہو تو ہم اس کے لیے بھی سو فیصد تیار ہیں، ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو بھرپور جواب دیں گے ، تینوں مسلح افواج ملک کے دفاع کے لیے تیار کھڑی ہیں پہلگام واقعے پر تحقیقات کی پیشکش پر بھارت کا کوئی جواب نہ...

دو تین روز میں جنگ چھڑ نے کا خدشہ موجود ہے ،وزیر دفاع

بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، اراکین سینیٹ وجود - منگل 29 اپریل 2025

مودی نے سیاسی حکمت عملی یہ بنائی کہ کیسے مسلمانوں کا قتل عام کرنا ہے، عرفان صدیقی بھارت کی لالچی آنکھیں اب جہلم اور چناب کے پانی پر لگی ہوئی ہیں، سینیٹر علی ظفر سینیٹ اجلاس میں اراکین نے کہاہے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی دہشت گردی ہو اس کی مذمت کرتے ہیں، پہلگام واقعہ بھارت کی سو...

بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، اراکین سینیٹ

چین نے پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا وجود - منگل 29 اپریل 2025

پاکستان کی خودمختاری و سلامتی کے تحفظ کی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں پاکستان کے جائز سکیورٹی خدشات کو سمجھتے ہیں ،پہلگام واقعے کی تحقیقات پر زور چین نے پہلگام واقعے کے معاملے پر پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا۔چین کے وزیر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے ...

چین نے پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا

پاکستان و بھارت دونوں سے رابطے میں ہیں،امریکہ وجود - منگل 29 اپریل 2025

مل کر مسئلے کا ذمہ دارانہ حل تلاش کیا جائے،مختلف سطح پر سنجیدہ بات چیت جاری ہے امریکہ نہیں سمجھتا اس میں پاکستان ملوث ہے، سعودیہ و ایران ثالثی پیشکش کرچکے ہیں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حالیہ واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کے درمیان امریکا کا ...

پاکستان و بھارت دونوں سے رابطے میں ہیں،امریکہ

سیکیورٹی فورسزکی کارروائی، افغانستان سے دراندازی کرنے والے 54دہشت گرد ہلاک وجود - پیر 28 اپریل 2025

  بھارت کے پاکستان پر بے بنیاد الزامات کے وقت ، کارروائی سے واضح ہے یہ کس کے اشارے پر کام کر رہے ہیں، دہشت گردی کے خلاف مہم میں کسی ایک کارروائی میں یہ سب سے زیادہ ہلاکتوں کا ریکارڈ ہے دہشت گرد اپنے غیر ملکی آقاؤںکے اشارے پر پاکستان میں بڑی دہشت گرد کارروائیاں کرنے کے ...

سیکیورٹی فورسزکی کارروائی، افغانستان سے دراندازی کرنے والے 54دہشت گرد ہلاک

ایدھی رضا کاروں پر حیدرآباد میں شرپسندوں کا شدید تشدد وجود - پیر 28 اپریل 2025

ٹنڈو یوسف قبرستان میں لاوارث میتوں کی تدفین سے روک دیا، ایدھی ترجمان کا احتجاج قبرستان کے گورکن بھی تشدد کرنے والوں میںشامل، ڈپٹی کمشنر حیدرآباد سے مداخلت کی اپیل حیدرآباد کے ٹنڈویوسف قبرستان میں لاوارث میتوں کی تدفین کرنے والے ایدھی رضاکاروں پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا، ج...

ایدھی رضا کاروں پر حیدرآباد میں شرپسندوں کا شدید تشدد

مضامین
بھارت کیا چاہتا ہے؟؟ وجود جمعرات 01 مئی 2025
بھارت کیا چاہتا ہے؟؟

انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب وجود جمعرات 01 مئی 2025
انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب

پاکستان میں بھارتی دہشت گردی وجود جمعرات 01 مئی 2025
پاکستان میں بھارتی دہشت گردی

بھارت کی بین الاقوامی میڈیا میں سبکی وجود بدھ 30 اپریل 2025
بھارت کی بین الاقوامی میڈیا میں سبکی

مسئلہ بلوچستان پر سردار نواب بخش باروزئی کی فکر انگیز باتیں وجود بدھ 30 اپریل 2025
مسئلہ بلوچستان پر سردار نواب بخش باروزئی کی فکر انگیز باتیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر