... loading ...
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
بھارتی سیاست میں آر ایس ایس کی غیر مرئی گرفت مذہبی قوم پرستی اور ریاستی طاقت بھارت کی جمہوری ساکھ سیکولر شناخت کا بحران اقلیتوں کے لیے تشویش کا باعث ہے ۔بھارت جسے طویل عرصے تک جمہوریت، آئینی بالادستی اور مذہبی ہم آہنگی کی علامت سمجھا جاتا رہا، آج ایک گہرے فکری اور سیاسی بحران سے دوچار دکھائی دیتا ہے ، جہاں ریاستی طاقت اور اکثریتی قوم پرستی کا امتزاج سماجی توازن کو بگاڑ رہا ہے ۔ اس منظرنامے میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا کردار محض ایک سماجی تنظیم تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ ایک ایسے نظریاتی مرکز کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جس کے اثرات سیاست، تعلیم، میڈیا اور ریاستی اداروں تک پھیل چکے ہیں۔ آر ایس ایس کی بنیاد 1925میں ناگپور میں رکھی گئی، اور ابتدا میں اسے ایک ثقافتی اور رضاکارانہ تنظیم کے طور پر پیش کیا گیا، مگر وقت کے ساتھ اس کا فکری محور اس تصور کی طرف منتقل ہوتا گیا کہ انڈیا کو ایک ہندو راشٹر، یعنی ہندو ریاست، کی صورت میں تشکیل دیا جانا چاہیے ۔اسی نظریاتی پس منظر کے باعث آر ایس ایس پر یہ الزامات بھی عائد ہوتے رہے ہیں کہ اس نے انڈیا کی آزادی کی تحریک میں کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کیا، طویل عرصے تک انڈین قومی پرچم کو تسلیم کرنے سے گریز کیا، اور بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد خود کو اس فکری ماحول سے مکمل طور پر الگ ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ گاندھی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پر پابندی بھی عائد کی گئی تھی، جو بعد ازاں ہٹا لی گئی، مگر یہ واقعہ تنظیم کے ماضی، کردار اور نظریاتی سمت پر اٹھنے والے سوالات کو ہمیشہ کے لیے تاریخ کا حصہ بنا گیا۔
آر ایس ایس کو عموماً دنیا کی سب سے وسیع غیر سرکاری تنظیم قرار دیا جاتا ہے ، تاہم اس کے ارکان یا وابستگان کی درست تعداد کے بارے میں کوئی مستند یا سرکاری اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں۔ تنظیم اپنے تعارف میں خود کو ایک غیر سیاسی اور ثقافتی تحریک کے طور پر پیش کرتی ہے ، مگر عملی حقیقت یہ ہے کہ اسے بھارتی سیاست میں اثر و رسوخ رکھنے والی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا فکری اور تنظیمی سہارا سمجھا جاتا ہے ۔ بی جے پی، یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی، 1980میں قائم ہوئی، جس کے قیام کے وقت اس کے کئی بانی اور سرکردہ ارکان آر ایس ایس سے وابستہ تھے ۔ پارٹی کی نظریاتی بنیاد اور تنظیمی ڈھانچہ آر ایس ایس کے تربیتی ماڈل اور فکری اصولوں سے متاثر ہے ، جس کا مقصد ہندو تہذیب اور ثقافت کو سیاسی میدان میں ترجیح دینا اور ریاست میں اپنا اثر و رسوخ مضبوط کرنا تھا۔ اس تعلق نے بی جے پی کو بھارتی سیاست میں ایک مستحکم اور مؤثر جماعت بنانے میں مدد دی، جبکہ آر ایس ایس نے بطور فکری مرکز اپنا کردار برقرار رکھا۔طویل عرصے سے آر ایس ایس کے تربیت یافتہ کارکنان اور اس کے نظریاتی ڈھانچے پر انحصار کرتے رہے ہیں ، جہاں تنظیمی نظم، انتخابی حکمت عملی اور سیاسی بیانیہ ایک ہی فکری مرکز سے اخذ ہوتا ہے ۔ غیر سیاسی شناخت کے دعوے کے باوجود، آر ایس ایس سے وابستہ متعدد افراد براہِ راست انتخابی سیاست میں سرگرم دکھائی دیتے ہیں، جن میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے لے کر موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی تک کئی نمایاں شخصیات شامل ہیں۔
آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت مختلف مواقع پر یہ موقف اختیار کر چکے ہیں کہ انڈیا میں رہنے والے تمام لوگ ہندو ہیں، اور جو بھی ہندوستان کو اپنا گھر سمجھتا ہے وہ ہندو ہے ، چاہے اس کا مذہب کوئی بھی ہو۔ ان کے مطابق ہندو ہونا محض ایک مذہبی شناخت نہیں بلکہ ایک تہذیبی تصور ہے ۔ بھاگوت یہ بھی بارہا کہہ چکا ہے کہ ہندوستان ایک ہندو قوم ہے ، اور قومی شناخت کی بنیاد اسی تصور پر استوار ہونی چاہیے ۔ ناقدین کے نزدیک یہ بیانات بھارتی آئین میں درج سیکولر اصولوں سے واضح تصادم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں، جہاں ریاست کا فرض تمام شہریوں کو بلا امتیاز مساوی حیثیت دینا ہے ۔آر ایس ایس کے اقلیتی برادریوں، بالخصوص مسلمانوں اور مسیحیوں، کے حوالے سے رویے پر طویل عرصے سے سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ اس سوچ کی ایک واضح جھلک آر ایس ایس کے دوسرے سربراہ مادھو سداشیو راؤ گولوالکر کی کتاب بنچ آف تھاٹس میں دیکھی جا سکتی ہے ، جسے تنظیم کے فکری متون میں بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ گولوالکر اس کتاب میں یہ مؤقف اختیار کرتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان اور مسیحی دراصل بیرونی حملہ آوروں یا غیر ملکی مشنریوں کے ذریعے آئے ، اور وقت کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ مقامی آبادی کی مذہبی تبدیلی کے نتیجے میں ہوا۔ ان کے مطابق ایک ہی نسلی اور تہذیبی جڑ رکھنے والے لوگ مذہب بدل کر الگ شناختوں میں تقسیم ہو گئے ، جبکہ جو لوگ مذہب تبدیل نہ کر سکے وہ ہندو ہی رہے ۔اسی کتاب میں گولوالکر مسلمانوں، مسیحیوں اور کمیونسٹوں کو قوم کا اندرونی دشمن قرار دیتا ہے ، جو آر ایس ایس کے فکری ڈھانچے میں اقلیتوں کے حوالے سے پائی جانے والی بداعتمادی اور سخت گیر سوچ کو نمایاں کرتا ہے ۔ ناقدین کے مطابق یہی نظریاتی زاویہ بعد کے ادوار میں سماجی ، نظریاتی تقسیم
اور ریاستی رویوں میں سختی کا باعث بنا۔ گزشتہ برسوں میں مذہبی شناخت کی بنیاد پر تشدد، ہجوم کے ہاتھوں قتل، عبادت گاہوں سے متعلق تنازعات، اور اختلاف رائے کو قوم دشمنی سے جوڑنے کے رجحانات اسی فکری پس منظر میں پروان چڑھے ۔ بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق 2014 کے بعد مذہبی بنیادوں پر تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا، جس سے بھارت کی جمہوری ساکھ عالمی سطح پر متاثر ہوئی۔
جمہوری نظام میں اختلاف رائے کو قوت سمجھا جاتا ہے ، مگر موجودہ فضا میں اختلاف کو اکثر ریاست اور قوم کے خلاف بغاوت کے مترادف قرار دیا جاتا ہے ۔ جامعات میں فکری آزادی پر قدغنیں، صحافیوں اور دانشوروں پر دباؤ، اور سول سوسائٹی کی سرگرمیوں کو محدود کرنا اسی سوچ کا تسلسل دکھائی دیتا ہے ۔ فریڈم ہاؤس کی رپورٹ میں 2023 کے دوران بھارت کو مکمل جمہوریت کے بجائے جزوی طور پر آزاد ملک قرار دیا جانا اسی زوال کی ایک علامت ہے ۔اس صورتحال سے نکلنے کا راستہ محض سیاسی نعروں یا وقتی اقدامات میں نہیں بلکہ آئین کی بالادستی کو حقیقی معنوں میں تسلیم کرنے میں مضمر ہے ۔ ریاستی اداروں کی غیر جانبداری کو یقینی بنانا، تعلیمی نصاب میں تنقیدی فکر اور تاریخی توازن کو فروغ دینا، میڈیا کی آزادی کا تحفظ کرنا، اور مذہبی شناخت کو شہری حقوق سے الگ رکھنا وہ عملی اقدامات ہیں جو اس بحران کو کم کر سکتے ہیں۔ جب تک ریاست کسی ایک نظریے کے بجائے انسان اور شہری کو مرکز میں نہیں رکھے گی، جمہوریت کمزور اور سیکولرازم محض ایک رسمی دعویٰ بن کر رہ جائے گا۔اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے ۔آر ایس ایس کے قیام کے بعد بھارت میں دہشت گردی کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔ہر بھارتی شہری کو مذہبی آزادی ہونا چاہیے ۔
٭٭٭