... loading ...
حمیداللہ بھٹی
بنگلہ دیش میں عام انتخاب آمدہ برس بارہ فروری کوہونے ہیں جس کی سیاسی صف بندی جاری ہے۔ نئے اتحادمعرضِ وجود میں آرہے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ملک کی 54 سالہ تاریخ میں عوامی لیگ کے بغیر انتخابی عمل مکمل ہوگا ۔سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء کا انتقال ہو چکا ہے مگر اُن کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی سب سے بڑی اور مقبول قوت ہے نیزپورے ملک میں فعال ہے جس کی قیادت کے لیے اُن کابیٹا موجودہے اِس لیے سیاسی دنگل حیران کُن ہونے کے باوجود دلچسپ ہوسکتاہے۔
بنگلہ دیش کا موجودہ سیاسی مزاج اِس بناپر اہم ہے کہ جماعتِ اسلامی سے پابندی ختم ہوچکی ہے وہ انتخابی قوت بننے کی سرتوڑ کوشش میں ہے اورانتخاب جیت کر حکومت تشکیل بنانے کی آرزومندہے ۔جماعت ِاسلامی کی قیادت میں آٹھ جماعتی اتحاد بن چکا ہے اِس جس کی خاص بات یہ ہے کہ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی)اور طلبا کی نئی سیاسی جماعت نیشنل سٹیزن پارٹی(این سی پی) اِس میں شامل ہو چکی ہیں ۔ اِس اتحاد کا دعویٰ ہے کہ ملک کے تمام تین سو حلقوں کے لیے مشاورت سے امیدواروں کی حتمی فہرست مکمل کرلی ہے جوایک تیزرفتار پیش رفت ہے۔ ایسی کوششوں کے مثبت نتائج آنے سے جماعتِ اسلامی ملکی منظرنامے میں اہم حیثیت اختیار کر سکتی ہے کیونکہ عبوری حکومت کی توجہ انتخابی عمل کو شفاف اور منصفانہ بنانے پر ہے ۔وہ کسی سیاسی پلڑے میں وزن نہیں ڈال سکتی جس سے غیرجانبدارانہ تشخص داغدار ہو۔
جماعت ِاسلامی کی قیادت میں بننے والے اتحاد کا اہم پہلویہ ہے کہ وہ طلبا رہنمااِس کاحصہ بن چکے جنھوں نے سوابرس قبل ایک زوردار تحریک سے حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تھا ۔ طلبا تحریک کے صف ِاول کے رہنما شریف عثمان ہادی کو دارالحکومت ڈھاکہ میں مارنے سے لوگوں میں غم وغصہ ہے ۔اب تو شائبہ نہیں رہا کہ بنگلہ دیش میں انقلاب مانچا کے ترجمان شریف عثمان ہادی کا قتل منصوبہ بندی سے کیا گیا۔ دونوں قاتلوں کی فیصل کریم مسعود اورعالمگیر شیخ کے نام سے پولیس نے شناخت بھی کر لی ہے۔ بقول پولیس دونوں قاتل اِس وقت بھارتی ریاست میگھالیہ میںہیں۔ سیاسی نبض شناسوں کا خیال ہے کہ یہ واقعہ طلبا رہنمائوں سے عوامی ہمدردی بڑھائے گا مگر اکثر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تمام ترمقبولیت اور ہمدردیوں کے باوجود اکثریت کی توقع رکھنا غلط ہے جس کے کئی عوامل ہیں ایک تو یہ کہ طلباکی ایسی جماعت جوابھی نو آموز ہے جس کی پورے ملک میں تنظیم سازی تک نہیں ہوسکی، لہذا ملک گیر جماعت نہیں کہاجا سکتا ۔دوم۔ شہروں جیسی مقبولیت دیہات میں ناپید ہے ۔علاوہ ازیں جماعت ِاسلامی ایک مخصوص سوچ و فکر کی مقیدہے۔ اِس کی شناخت سیاسی سے زیادہ ایک مذہبی جماعت کی ہے اور باوجود کوشش یہ مقبول عوامی جماعت نہیں بن پائی۔ اِن عوامل کی بناپر جیت کااندازہ غلط ثابت ہوسکتاہے۔
بظاہر امکان ہے کہ سابق وزیرِ اعظم خالدہ ضیا کے صاحبزادے طارق الرحمٰن اکثریت سے انتخاب جیت جائیں گے جو حال ہی میں برطانیہ سے اپنی سترہ سالہ جلاوطنی ختم کرکے 25 کوڈھاکاآئے ہیں جن کا لاکھوں لوگوں نے فقید المثال استقبال کیا ہے۔ اِس سے قبل حسینہ واجد جب برطانیہ سے بنگلہ دیش واپس آئیں تو اُن کے لیے بھی عوامی جوش وخروش کم و بیش ایسا ہی تھا۔ انھوں نے عوامی لیگ کی قیادت سنبھال کر انتخاب میں حصہ لیا اور 2008 میں اکثریت سے حکومت بنائی اورملک کی وزیرِ اعظم بن کر مقدمات اور گرفتاریوں سے مخالفین کاناطقہ بندکردیا۔ جب خالدہ ضیا کی جماعت اور جماعتِ اسلامی کے رہنمائوں کی بے جا گرفتاریاں ہونے لگیں اورپھربے بنیاد مقدمات سے مخالفین کو پھانسی لگایاجانے لگا تو خالدہ ضیا توملک میں ہی رہیں لیکن اپنے فرزندطارق الرحمٰن کو برطانیہ بھیج دیا۔ حسینہ واجد تو ممکن ہے خالدہ ضیاکو بھی پھانسی لگوادیتیں مگر وہ شاید عورت ہونے کی وجہ سے بچ گئیں لیکن اب ملک کا سیاسی منظر نامہ بدل چکا ہے ۔ملک کے بدلے سیاسی مزاج میں حسینہ واجد اقتدار سے محروم اور بھارتی ریاست تری پورہ کے دارلحکومت اگرتلہ میں پناہ گزین ہیں ۔نیز عوامی لیگ بھی کالعدم قراردی جاچکی ہے ۔اُن کی طویل ترین اقتدار کی منصوبہ بندی ناکامی سے دوچارہوئی ہے ۔سیاسی مخالفین کو ختم کرتے کرتے آج وہ خود ملکی منظر نامے سے غائب ہیں اِس لیے بھلے خالدہ ضیااب موجود نہیں لیکن اُن کا بیٹاسیاست کے ایک ماہر کھلاڑی کے طورپرموجود ہے ۔اُسے اپنے والد کی صدارت اوروالدہ کی وزارتِ عظمیٰ کے ادوار کاتجربہ ہے۔ اِس لیے انتخابی موشگافیوں اور چالوں سے بخوبی آگاہ ہوگا۔اِس لیے آٹھ جماعتی اتحادکو شہ مات دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عام قیاس یا اندازہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے اگلے وزیرِ اعظم طارق الرحمنٰ ہو سکتے ہیںجن کی ایک خامی جو کھٹکتی ہے وہ یہ کہ اپنی والدہ کی طرح چین اور پاکستان پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ اِس کے برعکس بھارت سے بھی تعلقات بڑھا سکتے ہیں۔
یہ تیسری دنیا کے ملکوں کی بدقسمتی ہے کہ سیاسی رہنما عوامی بہبود پر توجہ دینے یا ملکی معیشت مضبوط کرنے پر حریف سیاستدانوں کی تذلیل کو ترجیح دیتے ہیں۔اپنا ذاتی کردار ٹھیک نہیں کرتے۔ جیبیں بھرنے اور نفرت پھیلانے کوہی اصل سیاست سمجھ بیٹھتے ہیں ۔اسی بناپر نہ صرف عوام میں اجتماعی سوچ پیدا نہیں ہوتی بلکہ ملک بھی سیاسی استحکام اورحقیقی جمہوریت سے محروم رہتا ہے اور ترقی کی شاہراہ پر سفر کرنے کے قابل نہیں رہتا۔جنوبی ایشیا کی بدقسمتی یہ ہے کہ پہلے برطانیہ نے یہاں لڑائو اور حکومت کروکی بنیادپر طویل عرصہ حاکمیت کی ۔اب بھارت کی شدت پسند حکومت خطے میں بالادستی کے لیے کوشاں ہے اور دہشت گردی سے ہمسایہ ممالک میں عدمِ استحکام کوفروغ دے رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں حکمران کا فیصلہ کرنا عوام کا حق ہے لیکن بھارت ایسا نہیں چاہتا ۔اگروہ حسینہ واجد کودوبارہ حکومت دلانے کے لیے سازشیں چھوڑ دے اور خون خرابہ کرانے سے دستکش ہوجائے تو ممکن ہے دونوں ممالک کے تعلقات میں جنم لینے والی سرد مہری ختم ہوجائے۔ لیکن بالادستی کا بھوت اُسے پُرامن بقائے باہمی سے آگے بڑھنے پر اُکساتا ہے۔ برطانیہ سے ڈھاکہ آنے والے طارق الرحمن بھارت سے رابطے میں ہیں لیکن عوام کے موجودہ سیاسی مزاج سے لگتا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کو بھارت کی طفیلی ریاست نہیں دیکھناچاہتے ،بلکہ ایک آزاد وخودمختارملک کاتشخص دینا چاہتے ہیں۔ اِن حالات میں طارق الرحمٰن کو تمام ترمقبولیت کے باوجود محتاط چلنا ہوگااگربھارت سے بے جاگرمجوشی دکھائی تو بنگلہ دیش کے عوام شاید ہی زیادہ دیر برداشت کرے ۔ویزہ اور قونصلر خدمات کی بندش سے واضح ہوگیاہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات بدترین گراوٹ کا شکار ہیں انتخابات سے قبل تعلقات کوبہتر بنانے کی کوئی کوشش عوامی نفرت کوجنم دے سکتی ہے۔
٭٭٭