... loading ...
منظر نامہ
۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
بھارت میں نظریاتی دہشت گردی اور اقلیتوں کا گھٹتا ہوا سانس بھارتی معاشرہ میں نفرت، تشدد اور غنڈہ گردی کا راج ہے۔ ہندوتوا نظریہ بھارت میں انسانی حقوق کی شکست ہے۔ جب کسی ریاست کا اجتماعی شعور نفرت، تعصب اور اکثریتی جنون کے ہاتھوں یرغمال بن جائے تو وہاں قانون، آئین اور جمہوریت محض کاغذی اصطلاحات رہ جاتی ہیں۔ آج کا بھارت اسی فکری زوال کی ایک واضح مثال بن چکا ہے جہاں ہندوتوا نظریہ محض ایک سیاسی سوچ نہیں رہا بلکہ ایک جارحانہ، انتقامی اور اقلیت دشمن ذہنیت کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔ یہ کہنا اب مبالغہ نہیں رہا کہ بھارت نظریاتی طور پر ایک دہشت گرد ریاست کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے ، جہاں بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد اور دیگر انتہا پسند تنظیمیں کھلے عام غنڈہ گردی کر رہی ہیں اور ریاستی ادارے یا تو خاموش تماشائی ہیں یا عملی طور پر ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
بھارت جسے کبھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا تھا، آج نہ جمہوری اقدار کا امین رہا ہے اور نہ ہی سیکولر آئین کی روح کا محافظ۔ مسلمانوں اور عیسائیوں سمیت تمام اقلیتوں کے لیے یہ سرزمین ایک مستقل خوف، عدم تحفظ اور ذہنی اذیت کا استعارہ بن چکی ہے ۔ ہر دن کوئی نیا تماشا، کوئی نیا ظلم، کوئی نئی تذلیل سامنے آتی ہے ۔ مسلمان، جو کئی دہائیوں سے اپنی بھارتی شناخت اور ریاست سے وفاداری نبھاتے چلے آئے ہیں، آج بھی شک کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور دہشت گردی کے الزام کا بوجھ انہی کے سروں پر ڈال دیا جاتا ہے ۔ بھارت کے مسلمان ایک عجیب نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔ انہیں بار بار یہ ثابت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ وفادار ہیں، وہ محب وطن ہیں، وہ خطرہ نہیں۔ اس دباؤ نے ایک طبقے کو ذہنی غلامی تک پہنچا دیا ہے ، یہاں تک کہ بولی وڈ کے نامور اداکار، ادیب، دانشور اور سیاستدان اپنی بقا اور دولت کے حصول کے لیے مذہبی شناخت سے دستبردار ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ نام نہاد مسلمان کھلے یا چھپے طور پر ہندو مذہبی رسومات کا حصہ بنتے ہیں، پوجا پاٹ بھی کرتے ہیں اور اسلام کا لبادہ بھی اوڑھے رکھتے ہیں تاکہ دونوں طرف فائدہ حاصل کیا جا سکے ۔ یہ مذہب نہیں بلکہ مفاد کی سیاست ہے جس نے ایمان کو بھی بازار کی جنس بنا دیا ہے ۔
اسی فضا میں پاکستان مخالف ہرزہ سرائی کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ بنا دیا گیا ہے ۔ بھارتی میڈیا دن رات پاکستان کے خلاف جھوٹا بیانیہ بیچ
کر نہ صرف ریٹنگ کماتا ہے بلکہ نفرت کی آگ کو بھی ہوا دیتا ہے ۔ مسلمان اینکرز، تجزیہ کار اور نام نہاد دانشور پاکستان کو گالی دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بھارت کے وفادار ہیں، مگر اس کے باوجود ان کی زندگیوں سے خوف اور عدم تحفظ ختم نہیں ہوتا۔سب سے افسوسناک کردار وہاں کے بعض نام نہاد علماء اور مولوی حضرات کا ہے جو اسلام کو ہندوتوا نظریے کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اکثریتی طبقے کی خوشنودی حاصل کی جا سکے ۔ کہیں اذان کو مسئلہ بنا دیا جاتا ہے ، کہیں نماز کو، کہیں حجاب اور ٹوپی کو۔ مگر اس تمام خوشامد کے باوجود ان کی زندگیاں بھی آئے دن مشکلات، تضحیک اور تشدد سے بھری رہتی ہیں۔ ہندوتوا کا جنون کسی کو قبول نہیں کرتا، وہ صرف سر جھکانے کا مطالبہ کرتا ہے ۔
بھارت میں مسلمانوں کو روزانہ بول شری رام کہنے پر مجبور کیا جانا معمول بنتا جا رہا ہے ۔ انکار کی صورت میں تشدد اور اقدام قتل جیسے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ اذان دینے پر پابندیاں، گاؤ ہتیا کے جھوٹے الزامات، حجاب اور ٹوپی پر قدغنیں، یہ سب اب استثنا نہیں بلکہ روزمرہ کا حصہ ہیں۔ صدیوں پرانی مساجد کو یہ کہہ کر شہید کیا جا رہا ہے کہ یہاں پہلے مندر تھا، بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر اس انتہا پسند سوچ کی سب سے بڑی مثال ہے ۔لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کے خلاف منظم دہشت گردی کی جا رہی ہے ۔ شہروں، سڑکوں اور پبلک مقامات کے نام تبدیل کر کے ہندوانہ شناخت مسلط کی جا رہی ہے تاکہ بھارت کی تاریخ اور تہذیب کو مسخ کیا جا سکے ۔ اب سونے پر سہاگہ یہ کہ اولیاء کرام کے مزارات اور تاریخی مقامات بھی نشانے پر ہیں۔ تاج محل جیسے عالمی ورثے کو بھی متنازعہ بنا دیا گیا ہے ، حتیٰ کہ اس پر فلم بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہاں بھی مندر تھا۔ اس سے یہ خدشہ مزید مضبوط ہو جاتا ہے کہ اب تاج محل بھی ہندوتوا جنون سے محفوظ نہیں رہا۔مسلمانوں کے لیے حلال اشیاء کی فروخت تک مسئلہ بنا دی گئی ہے ۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے تہواروں پر پابندیاں، نماز کی ادائی میں رکاوٹیں اور مذہبی اجتماعات پر قدغنیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت اب مذہبی آزادی کا نہیں بلکہ مذہبی جبر کا ملک بنتا جا رہا ہے ۔ حالیہ کرسمس کے موقع پر یہ دوہرا معیار کھل کر سامنے آیا جب ایک طرف وزیر اعظم مودی چرچ میں کھڑا ہو کر سیکولر ہونے کا ڈراما کر رہا تھا اور دوسری جانب بجرنگ دل کے غنڈے چرچوں پر حملے کر رہے تھے ، کرسمس ٹری توڑے جا رہے تھے ، سانتا کلاز کی ٹوپیاں اتار کر پھینکی جا رہی تھیں اور مسیحی برادری کو زد و کوب کیا جا رہا تھا۔
تعلیم اور روزگار میں مسلمانوں کے لیے راستے تنگ کیے جا رہے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں، جامعات اور کاروباری مواقع میں امتیازی سلوک ایک کھلا راز ہے ۔ کھیل کے میدان بھی نفرت سے محفوظ نہیں رہے جہاں بھارتی کھلاڑیوں کی شر انگیزی اور تعصب بار بار دنیا کے سامنے آتا ہے ۔ اس سب کے باوجود یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بھارت میں ہندو خطرے میں ہیں، حالانکہ اکثریت، اقتدار، معیشت اور میڈیا سب ان کے ہاتھ میں ہے ۔بھارت کا یہ نظریاتی زوال صرف اقلیتوں کے لیے نہیں بلکہ خود بھارت کے مستقبل کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ہے ۔ نفرت، تشدد اور جھوٹ پر کھڑی ریاست زیادہ دیر قائم نہیں رہتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری اس صورت حال کا سنجیدگی سے نوٹس لے ، بھارتی سول سوسائٹی اپنے ضمیر کی آواز سنے اور وہاں کے عوام یہ سمجھیں کہ مذہبی جنون نے ہمیشہ معاشروں کو تباہ کیا ہے ۔ اقلیتوں کے تحفظ، آئین کی بالادستی، مذہبی آزادی اور حقیقی سیکولرزم کے بغیر بھارت نہ تو جمہوریت کہلا سکتا ہے اور نہ ہی ایک مہذب ریاست۔ اگر آج آواز نہ اٹھائی گئی تو کل تاریخ ایک بار پھر یہی سوال دہرائے گی کہ ظلم کے اس دور میں خاموشی کس جرم سے کم تھی۔
بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے تعلیم اور روزگار کے دروازے بتدریج بند کیے جا رہے ہیں۔ جامعات میں داخلوں سے لے کر سرکاری اور نجی ملازمتوں تک ایک غیر اعلانیہ مگر منظم امتیاز واضح دکھائی دیتا ہے ۔ اسکالرشپس، سرکاری نوکریاں اور ترقی کے مواقع
مخصوص طبقے تک محدود ہوتے جا رہے ہیں، جس کا مقصد اقلیتوں کو معاشی طور پر کمزور اور سماجی طور پر محتاج بنانا ہے ۔ کھیل کے میدان، جو کبھی نفرت سے بالاتر سمجھے جاتے تھے ، آج وہاں بھی تعصب اور شر انگیزی کھل کر سامنے آتی ہے ، جہاں بھارتی کھلاڑیوں کے رویے اور بیانات نفرت انگیز سوچ کی عکاسی کرتے ہیں اور یہ پیغام دیتے ہیں کہ تعصب اب ریاستی سرحدوں تک محدود نہیں رہا بلکہ قومی مزاج کا حصہ بن چکا ہے ۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بھارت میں ہندو آبادی واضح اکثریت میں ہونے کے باوجود یہ بیانیہ مسلسل دہرایا جا رہا ہے کہ ہندو خطرے میں ہیں۔ یہ وہی خوف کا مصنوعی تصور ہے جسے سیاسی مفادات کے لیے زندہ رکھا جاتا ہے تاکہ اکثریت کو مشتعل رکھا جا سکے اور اقلیتوں کے خلاف ہر ظلم کو جائز ٹھہرایا جا سکے ۔ حقیقت یہ ہے کہ خطرے میں ہندو نہیں بلکہ خود بھارت کا آئین، اس کی جمہوریت، اس کی تہذیبی شناخت اور وہ سیکولر روح ہے جس پر کبھی اس ریاست کو فخر ہوا کرتا تھا۔ اگر یہی روش جاری رہی تو بھارت کی تاریخ میں یہ دور ایک ایسے سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا جہاں اکثریت کے نام پر انسانیت کو کچلا گیا، اقلیتوں کی آواز دبائی گئی اور نفرت کو ریاستی نظریہ بنا دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔