... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
یونائیٹڈ کرسچن فورم (یو سی ایف) کے کنوینر اے سی مائیکل کادعویٰ ہے کہ نریندر مودی کے دور حکومت میں عیسائیوں کے خلاف حملوں میں 500 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ان کے مطابق، 2014میں 139تشدد کے واقعات بڑھ کر 2024تک 834ہو گئے یعنی تقریباً 500 فیصد کااضافہ ہوا۔ اسی لیے عیسائی تنظیموں کی مشترکہ کال پر29نومبر 2025کو تقریباً 3,500عیسائی ایوانِ پارلیمان کے قریب احتجاج کے لیے جمع ہوئے ۔ یو سی ایف کے مطابق، گزشتہ 10سالوں میں عیسائیوں کے خلاف جملہ 4,959واقعات رپورٹ ہوئے ۔ مائیکل نے بتایا کہ تقریباً ہر معاملے کی ابتدا مذہبی انتہا پسندوں سے منسلک نگرانی گروپ کی دھمکی سے ہوتی ہے پھرزورزبردستی اور تشدد تک بات پہنچ جاتی ہے ۔انہوں نے الزام لگایا تھا کہ مرکزی حکومت ملک بھر میں ان کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد اور امتیازی سلوک کوروکنے میں ناکام رہی ہے ۔ مائیکل کے مطابق ‘وزیراعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور قومی اقلیتی کمیشن سے تشدد کو روکنے کے لیے بار بار اپیل کی گئی، لیکن اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے ‘۔
مذکورہ بالا صورتحال سے بے نیازوزیر اعظم نریندر مودی مسیحی برادری کی مذہبی تقریبات میں باقاعدگی سے شریک ہو رہے ہیں۔ 2023 میں انہوں نے دہلی کے سیکرڈ ہارٹ کیتھیڈرل میں ایسٹر تقریب کے اندر شرکت کی تھی۔ اس کے بعد کرسمس 2023کے موقع پر انہوں نے 7 لوک کلیان مارگ یعنی اپنی رہائش گاہ پر خصوصی جشن کا اہتمام کیا تھا۔ سال 2024میں وہ مرکزی وزیر جارج کوریان کی رہائش گاہ پر عشائیے اور کیتھولک بشپس کانفرنس آف انڈیا کے زیر اہتمام ایک پروگرام میں بھی گئے تھے ۔ اس بار وزیر اعظم مودی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر عوام کو کرسمس کی مبارکباد دیتے ہوئے امن، ہمدردی اور امید کی نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات معاشرے میں ہم آہنگی اور بھائی چارے کو مضبوط کرتی ہیں۔ وزیر اعظم کی مجبوری یہ ہے کہ انہیں الیکشن لڑنا پڑتا ہے ۔ ان کا ہندو ووٹر کم ہورہا ہے مسلمان جھانسے میں آنے سے رہے اس لیے عیسائی رائے دہندگان کو رجھایا جارہا ہے مگر بجرنگ دل کی ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے اس لیے وہ ظلم و جبر کا بازار گرم کرتے رہتے ہیں ۔
کرسمس تہوار کے موقع پر ہر سال ملک کے مختلف حصوں سے مخالفت اور تشدد کی خبریں سامنے آ تی ہیں مگر اس بار ان کی شدت میں خاطر خواہ اضافہ نظر آیا ۔ کئی مقامات پر تہوار منانے یعنی پارٹی کرنے سے منع کیا گیا تو کچھ جگہوں پر مار پیٹ تک کی نوبت آ گئی۔ کیرالہ جیسے صوبے میں جہاں عیسائیوں کا کافی اثر و رسوخ ہے بچوں کے ‘کرسمس کیرول’ گروپ پر حملہ کرکے انہیں زدوکوب کیا گیا۔ اوپر سے بی جے پی رہنما سی کرشنا کمار نے حملے کو جائز قرار دینے کی کوشش فردی۔ مودی جی اگر اپنے بیانات میں سچے ہیں تو کرشنا مورتی پر کارروائی کروائیں ورنہ ان کی نوٹنکی بے معنیٰ ہے ۔اترا کھنڈ شمالی ہندوستان میں ہندوتوا کی لیباریرٹری بنا ہوا ہے ۔ وہاں پر ہندوتوا نواز تنظیموں کے اعتراض کی وجہ سے ہری دوار کے ہوٹل بھاگیرتھی میں 24دسمبر کو ہونے والی کرسمس تقریب منسوخ کر دی گئی ۔ ہوٹل انتظامیہ اتیشے کمپنی کے جی ایم نونیت سنگھ کو پریس کانفرنس کرکے تقریب کی منسوخی کا اعلان کرنے پر مجبور کیا گیا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے جس دارالخلافہ دہلی میں خوب مگر مچھ کے آنسو بہائے وہ بھی حملوں سے محفوظ نہیں رہا۔ دہلی کے ایسٹ آف کیلاش علاقے کی مارکیٹ میں درجن بھر خواتین اور بچے کرسمس سے قبل سانتا کلاز کی سرخ ٹوپیاں پہنے تہوار کی معلومات پر مبنی پمفلٹ تقسیم کر رہے تھے ۔ وہاں موجود لوگوں نے اس پر اعتراض کیا اور خواتین کو مارکیٹ سے بھگا دیا ۔ اس واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوئی مگر بی جے پی کے کسی رہنما نے اس کی مذمت نہیں کی۔وزیر اعظم نریندر مودی نے کرسمس کے موقع یہ مشورہ دیا کہ ”یسوع مسیح کی تعلیمات سے معاشرے میں ہم آہنگی کے جذبے کو مضبوط کریں”۔مگر وہ صدابصحرا ثابت ہوا ۔ بجرنگ دل کے غنڈے مودی کی نصیحت پر عمل کرنے کے بجائے سماجی خیر سگالی کو برباد کرنے کا کام کرتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں سب سے پہلی تو یہ کہ نفرت کے جذبے سے سرشار بجرنگیوں کو مودی کی منافقت پر بہت غصہ آتا مگر وہ ان کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے اس لیے سارا نزلہ عیسائی سماج پر اتارا جاتا ہے ۔ اس کی دوسری وجہ ہے کہ وہ لوگ بیروزگار ہیں ۔ مودی سرکار بھی چاہتی ہے کہ ان کے پاس روزگار نہ ہو تاکہ ان کو اس طرح کی تخریبی سرگرمیوں میں مصروف رکھا جاسکے ۔
مودی سرکار اس غنذہ گردی کو نہیں روکتی کیونکہ ان کے سبب دیگر اندھے بھگتوں کا غصہ کم کرنے کا کام لیا جاتا ہے ۔ ان کو جب مودی کی منافقانہ مجبوریوں پر غصہ آتا ہے تو انہیں ایسی ویڈیوز دکھائی جاتی ہیں تاکہ اطمینان ہوجائے کہ وزیر اعظم کے وہ سارے کام دکھاوے کے ہیں۔ وہ عیسائیوں کے خلاف مظالم کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرکے اپنے من کی بات عملاً کہہ دیتے ہیں ظاہر ہے عمل کو زبان پر فوقیت حاصل ہے ۔ اس طرح بھگتوں کو فرقہ پرستی کے نشے میں نڈھال کردیا جاتا ہے ۔ بجرنگیوں کی ان برائیوں کے ذریعہ مودی اپنے خیر کو ڈھانپنے کا کام کرتے ہیں مثلاً چرچ میں گئے اور عالمی ساکھ کو سدھارنے کے لیے جو چکنی چپڑی باتیں کہی گئیں ان کو گرجا گھروں پر حملہ کرواکے ڈھانپ دیا گیا۔ اجمیر شریف میں چادر بھجوائی تو اس کو اتر پردیش میں قدیم مزار کی توڑ پھوڑ کروا کر اور اس کی ویڈیو کو مشتہر کرکے چھپا دیا گیا۔اس طرح کی غنڈہ گردی سے سرکار کی ناکامیوں کو چھپانے کا کام بھی لیا جاتا ہے مثلاً یوپی میں کلدیپ سینگر کی رہائی اور محمد اخلاق کے مجرمین کو چھڑانے کی کوشش میں ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے کرسمس کی تعطیل ختم کرکے بھگتوں کا دھیان بٹایا گیا۔ یوگی کا بودا جواز تھا کہ اٹل بہاری واجپائی کی جینتی منانے کے لیے طلبا اسکول میں آئیں۔ ٧ سال قبل یوگی نے دینی مدارس کو ہندو تہواروں پر چھٹی کرنے کی تلقین کی تھی اب وہ اپنے تھوکے کو چاٹ کر کرسمس کی چھٹی منسوخ کررہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں اندھیر نگری چوپٹ راج۔ اپنی داخلی سیاست کے چکر میں مودی سرکار نے عالمی سفارتکاری کا ستیا ناس کردیا۔ ان فیصلوں اور ویڈیوز کو ساری دنیا دیکھ رہی ہے اور تھوک رہی ہے لیکن موجودہ بے حیا سرکار کو ملک و قوم کا خیال ہی کب ہے ۔ ہندوستان کے پانچ کروڈ سے زیادہ لوگ عیسائی اور مسلم اکثریتی ممالک میں رہتے ہیں اگر اس کے خلاف خدا نخواستہ سخت ردعمل ظاہرہونے لگے تو لینے کے دینے پڑجائیں اور غیرملکی ہندوستانی اس کی بھاری قیمت چکائیں گے ۔
ملک کے مختلف حصوں میں کرسمس کے موقع پر عیسائی برادری پر ہونے والے حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوے کانگریس کی ترجمان سپریہ شرینیت نے ‘ایکس’پر لکھا کہ ”نریندر مودی اور بی جے پی نے پورے ہندوستان میں نفرت پھیلائی ہے ۔امن اور ہم آہنگی پھیلانے والے کرسمس کاخوبصورت تہوار منانے والے عیسائیوں کو دائیں بازو کے غنڈے حملہ کرکے ڈرا ر ہے ہیں”۔ انہوں نے وزیر اعظم کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے لکھا کہ ”مودی تصویر کھنچوانے کے لیے پوپ کو گلے لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا عیسائی برادری کے ساتھ پرانا رشتہ ہے ۔ اس کے باوجود، کچھ دائیں بازو کے غنڈے اور کچھ بی جے پی کارکنان کے ذریعہ کرسمس منانے والوں کو ڈرا نے دھمکانے پر حکومت خاموش ہے ”۔ سپریہ نے دہلی میں ایسٹ آف کیلاش کے علاوہ اوڈیشہ کے اندر سانتا کلاز کی ٹوپیاں بیچنے والے ایک غریب خاندان کو ہراساں کرکے وہاں سے بھگا نے کا بھی ذکر کیا۔ سپریہ شرینیت نے اپنے بیان میں کیرالہ اور ہری دوار کی یاد دلانے کے ساتھ مدھیہ پردیش میں جبل پورکے سانحہ بھی یاد دلایا۔
جبل پور میں معذور بچوں کے لیے منعقدہ کرسمس پروگرام کے دوران، بی جے پی کی نائب ضلعی صدر انجو بھارگو کے ایک نابینا بچی کے ساتھ سنگدلی کا مظاہرہ کی پر زور مذمت کی۔ اس میں وہ دحشی خاتون کہتی ہے ”تم اب بھی اندھی ہو اور اگلے جنم میں بھی اندھی ہی رہو گی”۔ یہی ناقص عقیدہ ہندوتوا نوازوں کو معذوروں کی خدمت سے روکتا ہے کہ یہ سارے معذور اپنے پچھلے جنم کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اس لیے ان کی مدد کرنا گویا سزا کی تخفیف ہے ۔ اس کے برعکس جو لوگ اپنی اخروی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے سماج کے دبے کچلے لوگوں کی مدد کرتے ہیں تو انہیں اس میں سازش کی بوُ آنے لگتی ہے ۔ یہ ان پر خدمت کی آڑ میں تبدیلیٔ مذہب کا الزام لگاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہندوتوانوازوں کوا ن کی خدمت سے کون سی چیزروکتی ہے ۔ یہ لوگ فی الحال دنیوی وسائل سے مالا مال ہیں ۔ان کے پاس بے شمار چندہ ہے۔ سرکاری خزانہ بھی ہے لیکن اس کا استعمال صرف انتخاب جیتنے اور اقتدار کے حصول یا قائم رکھنے کی خاطر ہوتا ہے ۔ ایسے میں جب کوئی اور اس خلاء کو پُر کرتا ہے تو یہ بغض و حسد کی آگ میں جلنے لگتے ہیں۔ فلسفۂ تناسخ کے چکر میں پھنسے ہوئے یہ درندے خود تو انسانیت کے کسی
کام نہیں آتے الٹا دوسروں کو خدمتِ خلق سے روکتے ہیں یعنی خود فلاح وبہبود کا کام کریں اور نہ کسی کو کرنے دیں گے کی منفی حکمت عملی پر گامزن رہتے ہیں۔
٭٭٭