... loading ...
حمیداللہ بھٹی
حکومتی استدلال کے مطابق پاکستانیوں کوپی آئی اے جیسے بوجھ سے آزادکرانے پرستائش و تحسین نہ کرنازیادتی ہے۔ حاکمانِ وقت کی چوکھٹ پر سجدہ ریز قلمکارتوپی آئی اے کی نجکاری کوایک معرکہ ثابت کرنے میں مصروف ہیں لیکن واقفانِ حال اِس نجکاری کو شفاف کی بجائے طے شدہ قرار دیتے ہیں۔ اپنے اِس دعوے کودرست ثابت کرنے کے لیے خریدار کو دی جانے والی ایسی مراعات کاتذکرہ کرتے ہیں جن کا سرے سے مطالبہ ہی نہیں کیا گیا،نیز یہ کوشش کہ چاہے حکومت کو وصولی نہ بھی ہولیکن خریدار کسی صورت خسارے میں نہ رہے ۔
نجکاری کا عمل غلط یاغیرقانونی نہیں اکثر حکومتیں خسارے والے اِداروں کو نجی تحویل میں دیکر نفع بخش بناتی ہیں بھارت،برطانیہ ، پرتگال، جاپان ،یونان سمیت کئی ممالک خسارے والی فضائی کمپنیوں سے نجات پا چکے ہیں۔ پی آئی اے بھی دو عشروں سے خسارے میں ہے ، اِس کی یک بڑی وجہ تو پیپلزپارٹی کا نااہل جیالوں کوبے جا نوازنا ہے یوں پی آئی اے میں ضرورت سے زائد ایسے ملازمین کی بھرتی ہوگئی جو کام کرنے کی بجائے صرف تنخواہیں اور مراعات لینے تک محدود تھے، ایسی نوازشات سے 2013کے اختتام تک خسارے کی رقم 44ارب تک جا پہنچی ۔مزیدستم یہ کہ ن لیگ کے ادوار میں اندرونی اور بیرونی دوروں کے لیے پی آئی اے کو بے دریغ استعمال کیاگیا۔اکثرنئے جہازصرف حکمرانوں کے دوروںکے لیے وقف ہو کررہ گئے جبکہ پُرانے جہازوں کی بروقت مرمت کرانے سے بھی کوتاہی کی گئی۔ اِس طرح یہ اِدارہ فضائی سروس دینے میں ناکام ہوتا گیا۔مزید ایک وجہ ن لیگ کے کچھ اہم لوگوں کااپنی فضائی کمپنی ائیر بلیو کو کامیاب کراناہے جس کانتیجہ یہ نکلا کہ خسارہ پچاس ارب زائد ہوگیا۔اِ س کے بعد پی ٹی آئی کی ذہین اور دیانتدار حکومت نے تو حد ہی کردی ۔اس جماعت کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے شہرہ آفاق بیان داغا کہ ہمارے تواکثر پائلٹوں کے لائسنس ہی جعلی ہیں جس سے ڈرکر لوگ پی آئی اے پر سفر کرنے سے کترانے لگے اور یورپی یونین نے بھی پابندی لگادی۔ مسافرکم ہونے کے ساتھ کئی منافع بخش روٹ ختم ہو ناایسا بھاری نقصان تھا جس سے پھر یہ اِدارہ سنبھل نہ سکااورپچاس ارب کا خسارہ اچانک 88ارب کے ہندسے کوچھونے لگا۔
اب جبکہ یورپی یونین نے پابندی ہٹادی ہے اور پی آئی اے کے جہاز امریکہ ، یورپ تک جانے لگے ہیں اوراِس کادوبارہ نفع میں جانا یقینی ہے تو حکومت 75 فیصد حصص 135 ارب میںبیچ کرکچھ اِس طرح الگ ہو گئی ہے کہ پی آئی اے کے ذمہ واجب الادا 650ارب اپنے ذمے لے لیے ہیں۔ نئے جہازوں کی خریداری یا لیز پر عائد 18فیصد جی ایس ٹی کی پندرہ برس تک چھوٹ الگ دے دی ہے ۔اِس اِدارے کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن ،میڈیکل بِل اور مفت فضائی ٹکٹ جیسے اخراجات سے نئے مالکان کو آزادکرتے ہوئے یہ سارا بوجھ بھی اپنے سرلے لیا ہے۔ ایسی نوازشات سے ہی نجکاری کے عمل میں شفافیت کے فقدان کی قیاس آرائیاں ہو نے لگی ہیں ،جب حکومت کا ملکی اخراجات کے لیے قرضوں پر انحصار ہے اِس کے باوجود ایسی دریا دلی اور سخاوت دکھاناسمجھ سے بالاتر ہے۔
خسارے میں جانے کے باوجود پی آئی اے کی ساکھ ،اثاثے ،روٹ اور طیاروں کی اِتنی مالیت ہے جو کسی بھی سرمایہ کارکے لیے کشش کاباعث ہو سکتی ہے۔ اگراندرونِ ملک پروازوں کی بجائے صرف بیرونی 64روٹس پرہی ہفتہ وار پروازیں شروع کردی جائیں تو بھاری منافع ممکن ہے لیکن طیارے ہونے کے باوجود سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیرس،بارسلونا ،مال پینساکوپن ہیگن اور اوسلو کی پروازیں بند کردی گئیں ہیں ،مقصدصرف یہ ثابت کرناہے کہ یہ اِدارہ مکمل طوپرتباہ ہو چکا ہے۔ لہٰذا جتنی جلدی ممکن ہو سکے گلوخلاصی بہتر ہے ۔پی آئی اے کی نجکاری کو اپنا کارنامہ ثابت کرنے کی کوششیں دراصل حکمرانوں کی ناکامی کا اعتراف ہے۔ اگرحکمران باصلاحیت ہوتے توملک کی شناخت اِدارہ بیچ کر قوم کو مبارکباددینے کے بجائے اِس کی بحالی پر توجہ دیتے۔ ارے بھئی قوم نے آپ کوووٹ دیے ہیںتبھی حکومت میں آئے ہو لیکن ایسا کرنے کے بجائے اِدارہ ہی اِس شرط پر بیچ دیا کہ ایک برس تک کسی ملازم کو نکالا نہیںجائے گا۔
پی آئی اے کے بوجھ سے قوم کو آزادی کی نوید سُنانے والے حکمران حساب کتاب میں بھی اناڑی لگتے ہیں۔ تبھی فروخت کے 135 ارب وصول کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں خودصرف دس ارب لے کر خوش ہیں۔البتہ مشیر نجکاری محمد علی 55 ارب وصولی کا دعویٰ کرتے پھر تے ہیں جبکہ بقیہ 125ارب پی آئی اے کی بحالی کے لیے خریدار کودیدیے ہیں ۔حالانکہ پی آئی اے اب بھی چالیس کے قریب طیاروں کی مالک ہے جن میں سے 19 آپریشنل ہیں۔ سالانہ لاکھوں مسافروں کو سفری سہولت فراہم کرنے والی اِس ائیر لائن کے پاس بوئنگ طیارے بھی ہیں جن میں سے صرف ایک جہاز 777کی مالیت400ملین ڈالر ہے مگرپورے اِدارے کی لگائی جانے والی کُل بولی ایک جہازکی قیمت سے بھی کم لگائی گئی ہے ۔یہ اِدارہ اب بھی بیس جہازوں کا مالک ہے جبکہ مزید13 جہاز لیز پربھی ہیں۔ علاوہ ازیں 2010 سے پہلے کے 24طیارے الگ ہیں ۔ اگرتمام جہازوں کو کچرے میں بھی فروخت کیا جائے تو لگائی جانے والی کُل بولی سے زیادہ وصولی ممکن ہے۔ اسی بناپر لوگ حیران ہیں کہ ہمارے باصلاحیت اور مقبول ترین وزیرِ اعظم نے تو عوامی مسائل حل کرنے کے لیے اپنے کپڑے بیچنے کی بات کی تھی لیکن پوری پی آئی اے کو ہی کچھ حاصل کیے بغیر بیچ دیا ہے۔ بظاہر عارف حبیب کنسورشیم سب سے زیادہ بولی دے کر پی آئی اے کوخرید چکا ہے لیکن حکومت نے نوازشات کی حد کرتے ہوئے انھیں بقیہ 25فیصد حصص خریدنے کا اختیار بھی تفویض کردیا ہے کہ ادائیگی کے بعد سوفیصد حصص کے ما لک بن جائیں ،فروخت کرتے ہی یہ اختیار دیناسوالوں کوجنم دیتا ہے۔ اِس عنایت کو غنیمت جان کرفوجی فرٹیلائزرپہلے بولی سے الگ ہوئی ،اب نئے مالکان سے شراکت داری بھی کر لی ہے اور ایسا کرنے کی حکومت نے اجازت بھی دے دی ہے۔ قوم تو بس اِتنا جاننا چاہتی ہے جب وصولی سے حکومت کو کوئی دلچسپی ہی نہیں توٹی وی پر ڈرامے نہ کرے ۔رفقا و اقربا کوملکی اِدارے تحفے میں دے کر خوشحال بنادے، کون سا کوئی سوال کرنے کی جرأت کر سکتا ہے۔ لوگ تو یہ سوچ کر حیران ہیں کہ ایک گھڑی بیچنے سے تو جوہری ملک ڈوبنے کاخدشہ ہے لیکن ایک مکمل اِدارہ ختم کرنے سے کیسے تیرنے لگے گا ؟
٭٭٭