... loading ...
بے نقاب/ ایم آر ملک
سوچ ایک منہ زور چشمہ ہے ،جو اُبلتا ہے تو سوچ کی گہرائیوں تک پہنچ کر ان کی حقیقت پالیتا ہے۔
اور وقت ریت کی طرح ہوتا ہے ہاتھ سے نکل جائے تو گنوائے جانے کا احساس تک چھن جاتا ہے ۔عمران کے انتخاب سہیل آفریدی نے تخت ِ لاہور کے مضبوط قلعے میں شگاف ڈال کر یہ ثابت کیا ہے کہ اب سر اٹھانے کا وقت ہے، سر جھکانے کا نہیں ، مریم نواز شریف کیلئے یہ ایک سنہری موقع تھا کہ وہ پنجاب کو بڑا بھائی ثابت کرنے کے موقع سے بھر پور فائدہ اُٹھاتیں مگر ایسا نہ ہوسکا۔
بادشاہوں اور مطلق العنان حکمرانوں کی نفسیات ہمیشہ ایک طرح کی ہوتی ہے ،خواہ وہ پتھر کے زمانے میں مسند نشین تھے یا عصر حاضر کے ترقی یافتہ دور میں اقتدار پر مسلط ہوں ۔ان کیلئے دنیا کا ہر نقصان قابل برداشت ہے مگر یہ گوارا نہیں کہ کوئی ان کے جعلی اقتدار کو چیلنج کرے ، وہ ہر ایک سے ہاں سننے کے عادی ہوتے ہیں ،اس لئے ان کے آگے پیچھے جی حضوریوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں ،ہیر امنڈی کی پیداوار صحافیوں نے جس طرح کے پلانٹڈ سوالات زندہ دلان لاہور کے مہمانوں سے کئے اس سے پنجاب کے سر شرم سے جھک گئے ،مگر سہیل آفریدی نے ”ریڈی میڈ” تجزیہ نگاروں کی پوری کھیپ کے تمام تجزیات اورلے پالک دانشوروں کے تمام تناظر غلط ثابت کر دیے ،جس طرح تخت لاہور کے مفلوک الحال ،بھوک زدہ اور مسلط نظام کی چکی میں پستے ،ہانپتے کانپتے لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے نکلے اس نے تمام خیالات کو بدل کر رکھ دیا ۔
پنجاب کے عوام کے اس انبوہ اور جذبے نے ایک نئی تحریک کو جنم دیا ،جس میں اپنے گرد بندھی تمام زنجیروں کو توڑنے کا عزم نظر آیا ، سسٹم کے باہمی تعلق کی خواہش کو اس جذبے نے ایک بار پھر ”ناقابل مصالحت ”ثابت کیا ،بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے پنجاب میں ممبران اسمبلی نے عمران کے نظریات کا قتل کیا ،انہوں نے مقتدر حلقوں کی مدد اور وسائل سے ”میڈیائی اُبھار ”اور پروپیگنڈے کے ساتھ کھڑے ہونے کو ترجیح دی ، ان ممبران اسمبلی نے ان ورکروں کے اندر بھی ”طاقت کے استعمال ”کا خوف پیدا کیا ،وہ ایک درست دلیل کو اپنے مذموم مقاصد ،لوٹا ازم اور موقع پرستی کیلئے استعمال کرتے رہے ،ان کی دلیل میں لفظ ”نظریات ”کی اہمیت دم توڑ گئی ،لفظ نظریات ان کی نام نہاد اصطلاحوں کی تذلیل کی سیریل کا حصہ بنے ،کیا ایسا نہیں کہ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے مفاد پرست ٹولہ نے حقیقی آزادی ،انقلاب ،تبدیلی اور ترقی کے لفظوں کی جس طرح بے حرمتی کی اس کیلئے لمحہ فکریہ کا کمزور لفظ استعما ل کیا جاسکتا ہے ،یہ سارے ممبران اسمبلی اس نظام کی غلاظتوں پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں ،ان میں بہت سے ممبران اسمبلی آج بھی ایسے ہیں جن کا ماضی قریب میں اقتدار میں رہتے ہوئے کردار پارٹیان بدلنے کی غلاظت سے لتھڑا ہوا ہے ،جب نظریات سے ناطہ توڑ لیا جائے تو ”سیفٹی والو ” ختم ہوجاتا ہے جو پارٹیوں کے کارکنوں اور رہنمائوں کو لائن کے ایک طرف رکھنے کا کام دیتا ہے ،ان ممبران اسمبلی نے پاکستان تحریک انصاف کے طبقاتی تشخص کو تبدیل کرنے کی لاشعوری کوشش کی ،مگر لاہوریوں نے ثابت کیا کہ زمین کی حقیقی طاقت اور اس کی فتح یابی اس طلسماتی اور کرشمہ ساز شخصیت کی وجہ سے ہے جس نے انکار کی تکرار کو جنم دیا ،تاریخ میں” ہاں” کہنے والوں کی تعداد اس لیے زیادہ رہی کہ ”ہاں ”کہنا آسان بھی ہے اور دنیاوی فوائد و ثمرات کا موجب بھی ،”ہاں ”سمجھوتا ہے اور ”نہیں ” چیلنج ۔”ہاں ”میں آرام و آسائش ہے لیکن نہیں میں انقلاب کی چنگاریاں۔
یہ عجیب بات ہے کہ قدرت نے ”نہیں ” کہنے والوں کو تاریخ میں امر کردیا اور ”ہاں ” کی رٹ لگانے والے فنا کے گھاٹ اُتر گئے ،فرعون کے عہد میں کتنے ہوں گے جو دل سے اس کی خدائی کو پسند نہیں کرتے ہوں گے مگر تاریخ کی پیشانی پر صرف حضرت موسیٰ کا نام تابندہ ہے ، واقعہ کربلا کا سبب بھی یہی لفظ ”نہیں ”تھا ،جس نے قیامت تک کفر و منافقت کے پردے چاک کردیے ،پاکستان تحریک انصاف کی صفوں میں ان بے ضمیر اور ”کرائے کے ٹٹوئوں” نے ورکرز کی جدوجہد پر پانی پھیرا جنہوں نے عمران کا ساتھ محض اس لئے نہیں چھوڑا کہ ووٹ بینک عمران خان کی شخصیت کے گرد گھومتا ہے ورنہ ان اڑن پنچھیوں کی پرواز کب کی اقتدار کے ایوانوں میں ہوتی ،یہی وجہ ہے کہ ان ضمیر فروشوں کیلئے نظریاتی کارکن خود کو کسی آزمائش میں ڈالنے کیلئے آمادہ نہیں ،پاکستان تحریک انصاف پر ایک طویل عرصہ پر محیط حالات کے جبر کا جمود نہ ٹوٹنے کا ایک پس منظر مقامی لیڈر شپ کی دانستہ بے اعتنائی ہے، جس سے نظریاتی طور پر پہچان کھودینے پر کارکن مایوس اور بے چینی کے کرب سے گزرا ،اب سیکنڈ لائن لیڈر شپ کی ضرورت کو ایک ورکر علیمہ خانم کی شکل میں محسوس کررہا ہے۔ یہاں میں اپنے مربی ملک احمد نواز اعوان (جو سوئٹزرلیند میں مقیم ہیں )کے الفاظ کو دُہرانا چاہوں گا جو انہوں نے محترمہ علیمہ خانم کے بارے میں کہے کہ ”میں واقعی عمران خان کی بہنوں کی ثابت قدم جدوجہد سے متاثر ہوں جو ہمت ،عزم وفاداری کی علامت بن چکی ہیں، غیر انسانی جبر اورناقابل تسخیر مشکلات کے خلاف ان کی مزاحمت مثالی ہے ،علیمہ خانم کا طرز عمل اور بات چیت کی مہارتیں خاص طور پر بہترین اور حیرت انگیز ہیں ، وہ ہر وقت پرسکون رہتی ہیں اور بدترین حالات میں کمپوز رہتی ہیں ”۔
لاہور میں وہ لوگ نکلے آٹھ فروری کو جنہیں زبردستی ان کے انتخاب سے لاتعلق کیا گیا ،نظام کی ظلمت سے انہیں بے گانگی کا شکار کیا گیا ، الیکشن میں جن کو رائے دینے کے عمل سے نکال دیا گیا ،اس وقت پارٹی قیادت کو باڈی لینگویج کے بجائے عمل کے ذریعے اس منزل کا تعین کرنا ہوگا جس کی خبر عمران خان نے دی تھی ،عمران خان طبقات سے پاک پاکستانی سماج کی تعمیر لیکر عازم سفر ہے۔
٭٭٭