... loading ...
منظر نامہ
۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
بھارت اپنی شناخت کھو چکا ہے ہر وقت پاکستان کے نام کی مالا جپنا ہی اس کا وتیرہ بن چکاہے۔ ہر معاملے میں پاکستان کو ذمہ دار ٹہرانا اور بغیر تحقیق کے حقائق کو مسخ کر کے جھوٹے بیانیہ پیش کرنا اب وہاں ایک محبوب مشغلہ ہے۔پاکستان کا نام بھارت میں اب محض ایک ہمسایہ ریاست کا حوالہ نہیں رہا بلکہ ایک باقاعدہ تجارتی برانڈ بن چکا ہے ، جسے فلمی اسکرین سے لے کر ٹی وی مباحثوں، انتخابی جلسوں اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز تک مسلسل بیچا جا رہا ہے ۔ خوف، نفرت اور جعلی قومی جوش کے اس کاروبار نے ایسی منڈی قائم کر لی ہے جہاں دلیل، تحقیق اور حقیقت کی جگہ سنسنی، مبالغہ اور الزام تراشی نے لے لی ہے ۔ اس منڈی میں فلم ساز، اینکر، مبصر اور سیاستدان سب شریک ہیں، اور سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ پاکستان ہے ، جسے بار بار دہرا کر نہ صرف ریٹنگز بڑھائی جا رہی ہے اور فلموں کی ٹکٹیں فروخت ہوتی ہیں بلکہ عوامی توجہ کو اندرونی مسائل سے ہٹانے کی منظم کوشش بھی جاری ہے ۔بھارتی میڈیا اور فلمی صنعت کی تاریخ میں یہ پہلی بار نہیں کہ کسی بیرونی دشمن کا تصور گھڑا گیا ہو، مگر موجودہ دور میں اس رجحان کی شدت اور تسلسل غیر معمولی ہے ۔ ماضی میں فلمی کہانیاں سماجی تضادات، طبقاتی کشمکش، محبت، بغاوت اور انسانی نفسیات کے گرد گھومتی تھیں، مگر اب اس تخلیقی ذخیرے میں واضح کمی محسوس کی جا رہی ہے ۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے پاکستان کو بطور تیار شدہ ولن پیش کیا جا رہا ہے ، جس کے لیے نہ گہری تحقیق درکار ہے اور نہ ہی پیچیدہ اسکرپٹ۔ سرحد پار دشمن کی سادہ سی تصویر بنا کر اسے ہر ناکامی، ہر خوف اور ہر سیاسی ضرورت سے جوڑ دینا زیادہ آسان اور منافع بخش ثابت ہو رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان مخالف فلموں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ، اور حد یہ ہے کہ ان فلموں کے سیکوئلز اور پارٹ ٹو بھی بنائے جا رہے ہیں۔ فلمی صنعت جسے تخلیقی جرات اور نئے موضوعات کا مظہر ہونا چاہیے تھا، اب ایک خاص بیانیے کی فیکٹری بن چکی ہے جہاں ایک ہی طرح کے مناظر، مکالمے اور کردار دہرائے جاتے ہیں۔ باکس آفس کی کامیابی کو قومی فخر کے ساتھ جوڑ کر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اس طرح کی فلمیں دراصل حب الوطنی کی خدمت ہیں، حالانکہ حقیقت میں یہ خوف اور نفرت کی فروخت ہے جس سے مخصوص حلقے مالی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
اس پروپیگنڈے کا تعلق صرف فلموں تک محدود نہیں بلکہ بھارتی الیکٹرانک میڈیا اس کا سب سے طاقتور ہتھیار ہے ۔ پرائم ٹائم شوز میں پاکستان کو ہر مسئلے کی جڑ قرار دینا ایک معمول بن چکا ہے ۔ اینکرز کی زبان، لہجہ اور اسکرین پر چلنے والی سرخیاں اس قدر اشتعال انگیز ہوتی
ہیں کہ خبر اور رائے کے درمیان فرق مٹ جاتا ہے ۔ تحقیق کے بجائے چیخ پکار ، تصدیق کے بجائے الزام اور مکالمے کے بجائے تضحیک کو صحافت کا معیار بنا لیا گیا ہے ۔ اس ماحول میں ناظرین کو بار بار یہی پیغام دیا جاتا ہے کہ ملک کے اندر موجود تمام معاشی، سماجی اور سیاسی مسائل کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ بھارت اس وقت کئی سنگین داخلی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے ۔ مہنگائی میں مسلسل اضافہ عوام کی روزمرہ زندگی کو متاثر کر رہا ہے ، بیروزگاری نوجوانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے ، اور آبادی میں بے ہنگم اضافہ وسائل پر دباؤ بڑھا رہا ہے ۔ سرکاری اعدادوشمار اور آزاد معاشی تجزیے بتاتے ہیں کہ 2024 اور 2025 کے دوران عام شہری کی قوتِ خرید میں کمی اور روزگار کے مواقع میں جمود ایک تلخ حقیقت ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ سفارتی محاذ پر بھی بھارت کو کئی مواقع پر مشکلات کا سامنا رہا ہے ، مگر ان حقائق پر سنجیدہ گفتگو کے بجائے عوام کو جذباتی نعروں اور بیرونی دشمن کے قصوں میں الجھائے رکھنا زیادہ آسان سمجھا جا رہا ہے ۔
سیاسی قیادت اس بیانیے کو نہ صرف قبول کرتی ہے بلکہ اسے فعال طور پر فروغ دیتی ہے ۔ انتخابی جلسوں میں پاکستان مخالف جملے تالیاں سمیٹنے کا آزمودہ نسخہ بن چکے ہیں۔ نریندر مودی سمیت متعدد رہنما اپنی تقاریر میں قومی سلامتی کو داخلی سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حقیقی پالیسی مباحث پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ اسی بیانیے کی بازگشت بعض اوقات عسکری حلقوں کے بیانات میں بھی سنائی دیتی ہے ، جس سے عوام کے ذہن میں یہ تاثر مزید مضبوط ہوتا ہے کہ مسلسل کشیدگی ایک فطری اور ناگزیر حالت ہے ۔حیران کن پہلو یہ ہے کہ اس مسلسل پروپیگنڈے کے باوجود یا شاید اسی کے باعث، بھارتی عوام کی ایک بڑی تعداد اس بیانیے کو بلا سوال قبول کر لیتی ہے ۔ نفسیات کے ماہرین کے مطابق جب کسی معاشرے کو طویل عرصے تک ایک ہی پیغام مختلف ذرائع سے دیا جائے تو وہ آہستہ آہستہ اجتماعی یقین میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ فلم، ٹی وی، سوشل میڈیا اور سیاسی خطابات جب ایک ہی کہانی سنائیں تو اختلافی آوازیں کمزور پڑ جاتی ہیں، اور عوام کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جا رہی ہے ۔
پاکستان مخالف فلموں اور میڈیا مہمات کا ایک اور نقصان یہ ہے کہ یہ خطے میں امن کے امکانات کو کمزور کرتی ہیں۔ جنوبی ایشیا پہلے ہی غربت، ماحولیاتی تبدیلی اور سماجی عدم مساوات جیسے مشترکہ مسائل سے دوچار ہے ، جن کا حل تعاون اور مکالمے کے بغیر ممکن نہیں۔ مگر جب نفرت کو قومی شناخت کا حصہ بنا دیا جائے تو بات چیت کے دروازے بند ہونے لگتے ہیں۔ اس صورتحال کا فائدہ نہ بھارت کو ہوتا ہے اور نہ پاکستان کو، بلکہ نقصان پورے خطے کے عوام اٹھاتے ہیں۔اس تناظر میں ضروری ہے کہ اس رجحان کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے ۔ فلمی ناقدین، صحافیوں اور دانشوروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تخلیق اور پروپیگنڈے کے فرق کو واضح کریں، اور عوام کو یہ سمجھائیں کہ ہر بلند آواز حب الوطنی نہیں ہوتی۔ میڈیا کے لیے لازم ہے کہ وہ تصدیق شدہ معلومات، سیاق و سباق اور متوازن تجزیہ پیش کرے ، جبکہ فلمی صنعت کو چاہیے کہ وہ آسان دشمن تراشی کے بجائے سماج کے حقیقی مسائل اور انسانی کہانیوں کی طرف لوٹے ۔ عوامی سطح پر میڈیا لٹریسی کو فروغ دینا، تعلیمی نصاب میں مثبت سوچ کو شامل کرنا اور علاقائی امن کے بیانیے کو مضبوط کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ، کیونکہ جب تک سوال پوچھنے کی عادت زندہ رہے گی، پروپیگنڈے کا کاروبار اپنی پوری قیمت وصول نہیں کر سکے گا۔
٭٭٭