وجود

... loading ...

وجود

مہنگائی کی آگ اور غریب کا بجھتا ہوا چولہا

جمعه 05 دسمبر 2025 مہنگائی کی آگ اور غریب کا بجھتا ہوا چولہا

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

مہنگائی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ غریب آدمی کے لیے گھریلو چولہا جلانا بھی ایک مشکل ترین امتحان بن گیا ہے ۔ بجلی اور گیس کی مسلسل
لوڈشیڈنگ نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے ، اور جب یہ دونوں دستیاب نہیں ہوتیں تو عوام ایل پی جی پر گزارا کرتے ہیں۔ مگر حالیہ
اضافہ نے محروم طبقے کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔ روزگار نہ ہونے ، آمدن کم ہونے اور ضروریاتِ زندگی کی قیمتیں مسلسل
بڑھنے سے غریب گھرانے شدید متاثر ہو رہے ہیں، اور ہر روز زندگی کا بوجھ پہلے سے زیادہ بھاری ہو رہا ہے ۔مہنگائی صرف بڑھتی قیمتوں کا
نام نہیں، یہ انسان کے خوابوں، اس کے عزم، اور اس کی سانس تک پر قبضہ کر لینے والی ایک تشدد زدہ حقیقت ہے جو ہر روز گھر کی دہلیز پر نیا
زخم پہنچاتی ہے ۔
آج پاکستان میں غریب خاندان اسی دَور سے گزر رہے ہیں۔ بجلی کی مسلسل لوڈشیڈنگ، گیس کی بندش، اور مائع پٹرولیم گیس (ایل پی
جی) کی قیمت میں ناقابل برداشت اضافہ، ایک سیاہ منظرنامہ تشکیل دے چکا ہے ۔ ان حالات میں، غریب کی چیخ زندہ ہے ، اور اس چیخ کو
خاموشی میں دبانا ظلم ہے ۔حالیہ نوٹیفکیشن کے مطابق، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (OGRA) نے دسمبر 2025 کے لیے ایل پی
جی کی قیمت میں 7۔39 روپیہ فی کلوگرام اضافہ کیا ہے ۔ اسی اضافے کے بعد 11۔8 کلوگرام کے گھریلو سلنڈر کی قیمت نومبر کی 2,378۔89 روپیہ سے بڑھ کر 2,466۔10 روپیہ ہو گئی ہے ، اور فی کلو گرام قیمت نومبر کی 201۔60 روپیہ سے بڑھ کر دسمبر کے
لیے 208۔99 روپیہ ہو گئی ہے ۔ یہ صرف اعدادوشمار نہیں، بلکہ ہر غریب گھرانے کی زندگی پر کاری ضرب ہے ۔ یہ قیمتوں کا بڑھنا ایک
علیحدہ مسئلہ نہیں یہ نظامِ زندگی کی تباہی کی نوید ہے ۔ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور لوڈشیڈنگ نے غریب خاندانوں کو چولہے ، ہیٹر، اور
بنیادی سہولیات سے محروم کردیا ہے ۔ پہلے بجلی کی گھنٹوں بندش، پھر گیس کی غیر اعلانیہ بندش اور اب ایل پی جی کی بھاری قیمت نے ان
لوگوں کا گھر تباہ کر دیا ہے جن کی جیبیں پہلے ہی خالی تھیں۔ وہ لوگ جو کبھی صبح کی روٹی کے لیے پریشان نہ تھے ، آج ایک سلنڈر گیس کو خدا کی
رحمت جان کر سمیٹ رہے ہیں۔صبح کے اوقات میں گیس کی غیر اعلانیہ بندش اور مہنگی ایل پی جی کی وجہ سے معصوم بچے اور روزگار کی تلاش
میں جانے والے افراد بغیر ناشتے بھوکے ہی چلے جاتے ہیں۔ غریبوں کے مسائل میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔اِن سب مسائل کا سب
سے زیادہ برا اثر اُن پر ہوا ہے جن کی ماہانہ آمدن چھوٹے کاروبار یا یومیہ مزدوری سے ہوتی ہے ۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی بے روزگاری
خصوصاً دیہی یا نچلے متوسط طبقے میں غریب خاندانوں کو معاشی بحران کے دہانے پر لا کھڑا کرتی ہے ۔ ایسے گھرانے جن کے پاس بجلی اور گیس
کی سہولت تھی، آج اُس کا سہارا بھی چھن گیا۔ مزدور دن بھر محنت تو کرتا ہے مگر واپس آ کر اسے معلوم ہوتا ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان کی
بنیادی ضرورتیں اب خواب بن چکی ہیں۔
مہنگائی کا اثر صرف ایندھن یا توانائی پر نہیں رہا۔ بقیہ اشیائِ زندگی خوراک، ادویات، تعلیم، نقل و حمل سب نے اپنی قیمتیں بڑھا لی ہیں۔
ایک عام غریب خاندان کے لیے گوشت یا مرغی پہلے ہی ایک اعزاز تھا؛ آج وہ سبزی، دال، چینی کی قیمتوں میں اضافہ برداشت نہ کر سکے تو
گوشت تو دور کی بات ہے ۔ دودھ، انڈے ، چاول، آٹا، تیل ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے ۔ انسانی زندگی کا سب سے بنیادی حق خوراک اب ایک
عیاشی بن چکی ہے ۔ بچے بھوکے پیٹ سو رہے ہیں، مائیں روزِ اولاد کے خواب دیکھ کر روتی ہیں، اور باپ لب کشائی سے پہلے ہی ٹوٹ چکے
ہیں۔مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ معیارِ زندگی کے اس زوال نے خاندانوں کے روحانی و سماجی ڈھانچے کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ پہلے
جہاں پڑھے لکھے والدین بچوں کو اسکول بھیجتے تھے ، اب وہ بچوں کو اسکول سے نکال کر مزدوری کے چکر میں لگا دیتے ہیں۔ اس سے بچوں کی
تعلیم ناتمام رہ جاتی ہے ، اور خاندان نسل در نسل غربت کی زنجیروں میں پھنس جاتا ہے ۔ صحت مند غذا نہ ملنے کی وجہ سے بچوں میں کمزوری،
بیماری، اور انکھ مچکنے جیسے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ ماں باپ اس حقیقت سے ڈرتے ہیں کہ آیا کل ان کا گھر انتہائی محتاج اور فاقہ زدہ نہ ہو جائے !
حکومت اور متعلقہ اداروں کی ناقص پالیسیوں نے اس بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے ۔ لوڈشیڈنگ کے خلاف عوامی شکایتیں، مطالبات، اور
احتجاجات معمول بن چکے ہیں مگر تبدیلی صرف لفاظی تک محدود رہی۔ توانائی کے نرخ بڑھائے جاتے ہیں مگر غربت زدہ طبقے کے لیے کوئی
ایسا حفاظتی نیٹ ورک موجود نہیں جو حقیقی معنوں میں ان کی معاونت کرے ۔ کوئی ایسا منصوبہ نہیں جس سے غریب خاندان بجلی اور گیس کے
بحران میں کفایت شعاری اختیار کر سکیں یا متبادل وسائل اختیار کر سکیں۔
بے روزگاری اور مہنگائی نے معاشرتی انتشار کو بھی بھڑکایا ہے ۔ لوگ احساس کمتری، شرمندگی، اور بے بسی کی کیفیت کا شکار ہیں۔ معاشرتی اقدار ٹوٹ رہی ہیں اور انسانیت کی عصمت تار تار ہو رہی ہے ۔ وہ انسان جو کبھی اپنے گھر کا سایہ تھا، آج خود محافظ کا طلب گار
ہے۔ ایک اور پہلو قابل غور ہے : مہنگائی نے عوامی شعور کو زنگ لگا دیا ہے ۔ روٹی کے حصول کی دوڑ میں لوگ اپنے بنیادی حقوق بھول جاتے
ہیں۔ احتجاج، تنظیم سازی، اور آواز اٹھانے کی جرات رنگ فراموشی کھا چکی ہے ۔ لوگ اب صرف یہ سوچ رہے ہیں کہ کل کیسے گزارا ہوگا؟
بچوں کو کیسے پالیں گے ؟ گھریلو اخراجات کو کیسے پورا کریں گے ؟ بلاواسطہ حقوق کی بات چھوڑ کر، ہر شخص اپنی بقا کی تلاش میں خود غرضی کی راہ
پر چل پڑا ہے ۔لیکن یہ سیاہ تصویر مکمل مایوسی کی نہیں۔ ہمارا ملک وسائل کی دولت سے خالی نہیں لیکن پالیسی سازی، شفافیت، اور عوامی مفاد کی
سوچ کی فقدان نے اس دولت کو خاک میں دفنا دیا ہے ۔ اگر حکومت واقعی عوام کی فلاح چاہتی ہے تو اسے فوری اقدامات کرنے ہوں گے
تاکہ غربت کی دلدل سے نکلنے کا راستہ کھلے ۔سب سے پہلے ، توانائی کے بڑھتے ہوئے نرخوں کا بوجھ غریب اور کمزور طبقات پر منتقل نہ کیا
جائے ۔ ضروری ہے کہ گیس اور بجلی کے بلوں پر سبسڈی دی جائے یا کم از کم ان کی قیمتوں کو معاشی استطاعت کے مطابق رکھا جائے ۔ ایل
پی جی جیسی بنیادی ضرورتوں کی قیمتوں میں اضافہ کرنے سے پہلے معاشی سروے کیا جائے تاکہ معلوم ہو سکے کہ ایک اوسط غریب گھرانہ کس
حد تک اسے برداشت کر سکتا ہے ۔ایک دیرپا حل یہ ہے کہ بجلی اور گیس کے متبادل صاف اور سستی ذرائع پر سرمایہ کاری کی جائے جیسے شمسی
توانائی، پاکیزہ گیس انفرااسٹرکچر، اور مقامی سطح پر ریفائنری وغیرہ۔ اس سے نہ صرف توانائی کا بحران حل ہوگا بلکہ بے روزگاری بھی کم ہوگی
اور مقامی صنعتیں ترقی کریں گی۔مزید یہ کہ حکومت کو عوامی تحفظ کے لیے ایک مضبوط سماجی نیٹ ورک تشکیل دینا چاہیے ایک ایسا نظام جو بے
روزگار، یومیہ مزدور، اور کم آمدن والے خاندانوں کو مالی امداد، مفت طبی سہولت، اور بچوں کی تعلیم کی غرض سے وظائف فراہم کرے ۔ اس
طرح کا سماجی تحفظ غربت کے گڑھے سے نکالنے کی پہلی سیڑھی ثابت ہو سکتا ہے ۔عوامی شعور کو بھی جگانا پڑے گا غربت اور مہنگائی کی لپیٹ
میں گھرے انسانوں کو چاہیے کہ اشتراکیت، ہمدردی اور اجتماعی تعاون کا راستہ اختیار کریں۔ یونینیں بنائیں، مقامی سطح پر رفاعی ادارے قائم کریں، اور ایک دوسرے کی مدد کریں۔ اس طرح نہ صرف ذاتی بوجھ ہلکا ہوگا بلکہ اجتماعی طاقت پیدا ہوگی، جو نظامی تبدیلی کے لیے ضروری ہے ۔
اگر یہ اقدامات بروقت اور ایمانداری سے نافذ کئے جائیں، ایسے اقدامات کیے جائیں کہ جب غریب بھی عزت کے ساتھ کھانا پکائیں، بچے تعلیم حاصل کریں، اور مائیں گھروں کو روشنی سے سجائیں۔ مگر اگر ہم چپ رہے ، لاپرواہی کی نیند سو گئے ، اور نیک نیتی کو خیرات سمجھ کر رد کر دیا، تو آج کی یہ چیخ کل کی نسلوں کے لیے صدا بن جائے گی۔آئیے ، اپنے ٹوٹے ہوئے معاشرے کی دوبارہ تعمیر کی طرف قدم بڑھائیں۔ اس ظلم کی اندھیری رات کو روشنی میں بدلنے کے لیے ہمیں صرف انصاف، شفاف پالیسی، اور عوامی شعور کی ضرورت ہے ورنہ یہ مہنگائی کا طوفان ہمیشہ ہمارے گھروں کو گرا دے گا، اور خاک نشین انسان اپنی عزت و وقار کے ساتھ مرجھا جائیں گے ۔آج کا انسان قدیم غاروں کی دنیا میں لوٹ رہا ہے ۔تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے ۔خدارا حکومت گیس کی فراہمی کو یقینی بنائے کیونکہ گیس ہماری اپنی ملکی معدنیات ہے ۔ہمیں بچپن میں معاشرتی علوم اور مطالعہ پاکستان میں پڑھایا جاتا تھا۔وطن کی مٹی گواہ رہنا۔
٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
مہنگائی کی آگ اور غریب کا بجھتا ہوا چولہا وجود جمعه 05 دسمبر 2025
مہنگائی کی آگ اور غریب کا بجھتا ہوا چولہا

پاکستان میں عدلیہ :کامیابیوں اور ناکامیوں کا ملا جلا سفر وجود جمعه 05 دسمبر 2025
پاکستان میں عدلیہ :کامیابیوں اور ناکامیوں کا ملا جلا سفر

آسام میں نیلی کا قتل عام اور کشمیر کی سیاست وجود جمعه 05 دسمبر 2025
آسام میں نیلی کا قتل عام اور کشمیر کی سیاست

صرف رجسٹرڈ وی پی اینز کا استعمال کریں! وجود جمعه 05 دسمبر 2025
صرف رجسٹرڈ وی پی اینز کا استعمال کریں!

خیالات کو قید نہیں کیا جا سکتا وجود جمعرات 04 دسمبر 2025
خیالات کو قید نہیں کیا جا سکتا

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر