... loading ...
ریاض احمدچودھری
آئی ٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر رجسٹرڈ مفت وی پی این دراصل آپ کا ڈیٹا چرا رہے ہیں۔ زیادہ تر مفت وی پی این محفوظ نہیں ہوتے، وہ آپ کو ہی پروڈکٹ بنا کر بیچتے ہیں۔ بہت سے غیر رجسٹرڈ وی پی این ہیکرز، غیر ملکی اداروں اور جرائم پیشہ نیٹ ورکس کے کنٹرول میں ہوتے ہیں، آپ کے یوزرنیم، پاس ورڈ، بینک کی تفصیلات اور ذاتی معلومات لاگ کی جا رہی ہیں، یہ مفت سروس دراصل آپ کی پرائیویسی کی قیمت پر چلتی ہے۔غیر رجسٹرڈ وی پی این خاموش چور ہیں جو آپ کی شناخت چرا رہے ہیں، ہمیشہ منظور شدہ اور لائسنس یافتہ وی پی این استعمال کریں۔
سرکاری حکام نے غیر رجسٹرڈ وی پی این کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے عوام سے کہا ہے کہ وہ ہرگز غیر رجسٹرڈ وی پی این استعمال نہ کریں۔ دہشت گرد، غیر ملکی ایجنٹ، جرائم پیشہ افراد اور شدت پسند اپنے وجود کو چھپانے کے لیے غیر قانونی وی پی این استعمال کر رہے ہیں۔ ان غیر رجسٹرڈ وی پی این کے ذریعے حملوں کی منصوبہ بندی، افواہیں، پروپیگنڈا اور غیر قانونی سرگرمیاں چلائی جا رہی ہیں۔ ایسی سرگرمیوں سے پاکستان کا ہر شہری غیر محفوظ ہو جاتا ہے۔ اپنے ملک اور اپنی حفاظت کے لیے غیر رجسٹرڈ وی پی این کا استعمال ہرگز نہ کریں، صرف پی ٹی اے سے منظور شدہ اور رجسٹرڈ وی پی این استعمال کریں۔
غیر قانونی وی پی این پورے ملک کے لیے مالی نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ وی پی این کے ذریعے قانونی گیٹ ویز بائی پاس ہو رہے ہیں۔ اربوں روپے کے ٹیکس اور فیس بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں، قومی خزانے کو شدید نقصان، عوامی سہولتوں کے لیے پیسہ کم پڑ رہا ہے۔غیر قانونی وی پی این سے انٹرنیٹ پر بوجھ بڑھ رہا ہے، انٹرنیٹ کی رفتار سست، گھریلو صارف اور کاروبار دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ تیز چلنے کے لیے وی پی این لگاتے ہیں، پورا ملک سست ہو جاتا ہے، غیر رجسٹرڈ وی پی این نہ صرف آپ کے لیے خطرہ ہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی، قانونی وی پی این استعمال کریں، محفوظ رہیں اور ملک کو محفوظ بنائیں۔اپڈیٹ کے نتیجے میں واضح ہوا ہے کہ افغانستان، فتنہ الہندوستان اور پشتون تحفظ موومنٹ سے منسلک متعدد اکاؤنٹس غیر ملکی ایجنڈے پر سرگرم تھے۔ پاکستان کے خلاف نفرت، انتشار اور غلط بیانی پھیلانے والے بھارتی اکاؤنٹس بھی سامنے آ گئے ہیں۔ پاکستان میں دہشتگردی کے بیانیے کو ہوا دینے کیلیے بھارت سمیت کئی ممالک سے اکاؤنٹس آپریٹ کیے جا رہے تھے، جن میں اپنی اصل لوکیشن چھپانے کیلیے VPN کا استعمال بھی عام تھا۔مزید انکشافات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے دہشتگردوں سے منسلک متعدد اکاؤنٹس بھی بھارت اور دیگر ممالک سے چل رہے تھے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں جعلی انسانی حقوق کا ڈھونگ رچانے والے کئی اکاؤنٹس دراصل غیر ملکی نیٹ ورکس نکلے، جن کے روابط بھارت سے ملتے ہیں۔پاکستان دشمنی میں سرگرم ان بیرونِ ملک پروپیگنڈا فیکٹریوں کا پورا نیٹ ورک اب دنیا کے سامنے آشکار ہو چکا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کے چیئرمین علامہ ڈاکٹر راغب نعیمی نے ورچوئل پرائیویٹ نیٹورک (وی پی این) کا استعمال غیر شرعی دئے جانے کے اعلامیے پر وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں وی پی این کا ”مثبت استعمال” بہت کم ہے کیونکہ یہ زیادہ تر گمنام طور پر ”غیر اخلاقی مواد” تک رسائی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ انہوں نے صارفین پر زور دیا کہ وہ اپنے وی پی اینز کو رجسٹر کرائیں تاکہ ٹریس ایبلٹی کو یقینی بنایا جا سکے اور ذمہ دارانہ استعمال کو فروغ دیا جا سکے۔وی پی اینز کا استعمال دنیا بھر میں ایسے مواد تک رسائی کے لیے کیا جاتا ہے جو ان کے آبائی ملک میں انٹرنیٹ صارفین کے لیے ناقابل رسائی یا مسدود ہوتے ہیں۔ پاکستان میں وی پی اینز ایکس چلانے کیلئے استعمال کئے جا رہے ہیں۔
پارلیمنٹ کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ قانون سازی کرنے کا مشورہ دینے والی اسلامی نظریاتی کونسل نے ”غیر اخلاقی یا غیر قانونی مواد” تک رسائی کے لیے وی پی این کا استعمال شریعت کے خلاف قرار دیا تھا۔کونسل کے چیئرمین علامہ ڈاکٹر راغب نعیمی نے کہا تھا کہ اسلامی قوانین حکومت کو ایسے اقدامات کو روکنے کی اجازت دیتے ہیں جو ”برائی کے پھیلاؤ” کا باعث بنتے ہیں۔ متنازع، توہین آمیز یا ملکی سالمیت کے خلاف مواد پوسٹ کرنے کے لیے استعمال ہونے والے کسی بھی پلیٹ فارم کو ‘فوری طور پر روک دیا جانا چاہیے’۔اس کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کو ملک بھر میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ وی پی این کا استعمال مبینہ طور پر ”غیر اخلاقی مواد” جیسا کہ گستاخانہ مواد یا فحش مواد تک رسائی حاصل کرنے والے صارفین کو ٹریس کرنا مشکل بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ وی پی این صارفین کو غیر اخلاقی مواد تک آن لائن رسائی کی اجازت دیتے ہیں، وی پی این کی اکثریت غیر رجسٹرڈ ہے اور یہ صارفین کو ناقابل شناخت بناتی ہے۔
رجسٹرڈ وی پی اینز اب بھی استعمال کے لیے دستیاب ہوں گے۔ وی پی اینز کا اندراج یقینی بنائے گا کہ سرگرمی کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ مثبت مقاصد کے لیے وی پی اینز کا استعمال بہت کم ہے۔ یہ غیر اخلاقی مواد تک رسائی کے لیے استعمال ہوتے ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔ ان کے استعمال کا پورا نقطہ گمنامی ہے۔کونسل نے 2023 میں ایک مشاورتی اجلاس منعقد کیا تھا۔ اس وقت کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ان خدشات کو آگے بڑھایا اور انہیں پی ٹی اے تک پہنچایااور سفارش کی ہے کہ ان وی پی اینز کو بند کردیں جو غیر اخلاقی مواد تک رسائی کو قابل بناتے ہیں۔
٭٭٭