... loading ...
حمیداللہ بھٹی
سفر نت نئی ملاقاتوں کاوسیلہ بنتے ہیں ۔مختلف رہن سہن اور معاشرت جاننے کے ساتھ ہر روز ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔ اب توذرائع آمدورفت اورتیزتر مواصلاتی رابطوں نے دنیاکو گلوبل ویلیج بنا دیاہے۔ اب ہر ایک کے لیے موبائل اور انٹرنیٹ کی بدولت دنیا کے حالات جاننابہت آسان ہے مگر جولطف سیاحت میں ہے ۔وہ ریکارڈ شدہ مواد دیکھ کرنہیں آتا۔ حالاتِ حاضرہ سے آگاہی رکھنے والوں کی طرح دنیا میں ایسی تعداد بھی کافی ہے جو ملک ملک اور نگر نگرگھوم پھر کر قدرت کی تخلیقات دیکھنے کے متمنی ہیں۔ اِس مقصدکے لیے لاکھوں کی تعدادمیں سیاح ذوقِ جمال کی تسکین کے لیے دنیاکے ہرخطے میں سرگرداںہیں حالانکہ درجنوں ممالک میں جاچکاہوں مگر کچھ علاقے یا شہر ایسے ہیں جہاں جاکر بندہ کھو سا جاتا ہے پولینڈ کے دارلحکومت وارسا میں گھومنے کے بعد میرے کچھ ایسے ہی احساسات ہیں ۔
کوپن ہیگن ائیر پورٹ پر اُترنے کے بعد ہمارامختصر سا قافلہ جائے قیام مالموکی طرف روانہ ہوا۔مذکورہ دونوں شہروں کے درمیان آبنائے اوریسنڈ ہے جس پر بنایا گیاتاریخی پُل ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن اور سویڈن کے شہر مالمو کوآپس میں جوڑتا ہے 7845میٹر طویل یہ یورپ کا سب سے طویل پُل ہے ۔سڑک ،سرنگ اور ریل کی وجہ سے اِسے سہ قِسمی کہہ سکتے ہیں۔ 1995 میں شروع ہوکر یہ پُل 14 اگست 1999میں مکمل ہو گیا۔ جولائی 2001میں میں ڈنمارک کی ملکہ مارگریٹ ثانی اور سویڈش ہم منصب کارل گسٹاف نے افتتاح کرتے ہوئے اِسے عام آمدورفت کے لیے کھول دیا ۔دونوں ممالک کویقین ہے کہ اِس کی مکمل لاگت 2035 تک وصول کرلیں گے اِس پُل سے روازنہ ہزاروں لوگ گزرتے ہیں ۔یہ دونوں ممالک میں ایسی سفری سہولتوںکا باعث ہے جس سے کام کاج کے سلسلے میں ایک ملک سے دوسرے ملک جانے میں شہریوں کوسہولت ہوئی ہے۔ وہ کام کاج کے بعد شب بسری کے مقام پر باآسانی آسکتے ہیں ۔آبادی کے لحاظ سے سویڈن کا تیسرا بڑا شہر مالمو ایک پُر امن اور خوبصورت شہرہے جو قدیم وجدید کا حسین امتزاج ہے ۔اِس کی جہاز سازی کی شہرت کے باعث ہی ہم نے طے کیا کہ مالمو سے وارسا جانے کے لیے جتناممکن ہو بحری جہاز سے سفر کیاجائے۔
چلیے جناب ملک پولینڈ کی طرف ،نصف شب سے قبل میزبان ارشاد ناظر کی ہمرکابی میں مالمو سے کوچِ سفرکیا شہرکی بندرگاہ پر موجودایک کثیر منزلہ بحری جہاز پر سوار ہونے کے لیے ٹکٹ دکھاکر اجازت حاصل کرنے جیسے مراحل طے ہوگئے تواپنے کمرے کا رُخ کیا سامان قرینے سے رکھااورسفری زریعے کاجائزہ لینے نکل کھڑے ہوئے یہ جہاز ایک چلتا پھرتا شہر تھا ،گاڑیوں و بسوں کی وسیع پارکنگ کے علاوہ خریداری کے لیے دکانیں اور بکثرت تفریحی لوازمات تھے۔ میرایہ پہلا طویل سمندری سفر تھا۔ اِس لیے مختلف جہاز ڈوبنے کی کہانیاں زہن میں تھیں لیکن سپیدہ سحر سے قبل جہاز نے بحفاظت پولینڈ کی سرزمین پر پہنچا دیا تو ہم نے پولینڈکے دارلحکومت وارسا کی راہ لی۔ وسطی یورپ کایہ ملک زرعی اجناس کے لیے یورپ میں اہم مقام کاحامل ہے ۔یہ دنیامیں سرسوں کی پیدوار میں دوسرے اور سیب کی پیدوارمیں تیسرے نمبرپرہے۔ آلو،گندم،چینی،تمباکو بھی اہم پیداوار ہیں جرمنی ،روس،بیلا روس ،یوکرین ،چیک اور سلواکیہ میں گھراچار کروڑ نفوس پر مشتمل یہ ملک آبادی کے حوالہ سے یورپی یونین کاپانچواں بڑاملک ہے ۔گاڑی سڑک پر فراٹے بھرتی جارہی تھی اور اطراف میں میلوں طویل سرسوں کے کھیت تھے ۔یوں لگتا تھا جیسے کسی نے پیلا رنگ کر دیا ہے فطرت کے یہ رنگ فرحت بخشی کے ایسے احساس اورلطف کوجنم دے رہے تھے جسے الفاظ کاپیراہن پہنانابھی پُرلطف ہے ۔
پولینڈجانے کی دیگر جوہات کے ساتھ ایک مقصد یہ بھی تھا کہ روس و یوکرین جنگ کے یہاں کیا اثرات ہیں؟ آیالوگ پریشان ہیں یا بے نیازی سے روزمرہ کے کاموں میں مشغول ہیں ؟نیز روسی جارحیت نے پولینڈ کو کِس حدتک متاثر کیاہے؟وارسا پہنچے توروسی جارحیت کے اثرات بہت محسوس ہوئے اور یہاں کئی طرح کی تبدیلیوں کا احساس ہوا ۔ وارسا شہرکو1955میں اُس وقت عالمگیر شہرت حاصل ہوئی جب وسطی اور مشرقی یورپ کی اشتراکی ریاستوں نے چودہ مئی 1955کو ایک ایسے معاہدے پر دستخط کیے جس کی رو سے کسی ایک ملک کو بیرونی جارحیت کا سامنا ہواتو معاہدے میں شامل تمام ممالک ملکر دفاع کریں گے جسے وارسا معاہدہ کہا جاتا ہے۔
وارسا شہرکے بارے میں سستا ہونے کی کافی کہانیاں سُن رکھی تھیں جوپہنچنے پر محض زیبِ داستان اور افسانہ معلوم ہوئیں یورپی یونین کا حصہ ہونے کی بناکر یورومیں خریدوفروخت کی جا سکتی ہے مگرمقامی کرنسی زلوٹی کی بھی اہمیت ہے کیونکہ اگر آپ نے کوئی سرکاری ادائیگی کرنی ہے تو لازم ہے آپ کے پاس مقامی کرنسی ہو وگرنہ مشکل پیش آسکتی ہے۔ مزید خاص بات یہ کہ اِس حوالے سے مقامی لوگ مددگار نہیں ہوتے۔ یہاں چند ایک مصروفیات تھیں جن سے فراغت ہوئی تو دوپہرکے کھانے کاوقت ہوچکا تھاجس کی میزبانی خوش اخلاق چوہدری شمریز نے کی جن کاگجرات کے گائوں ساکہ سندوعہ سے تعلق ہے۔ ذاتی تجربے کی روشنی میں کہوں گاکہ دنیا کے ہر ملک میں گجرات کے شہری موجود ہیں جس ملک بھی گیاہوں میرے حصے گجراتیوں کی محبت اوراحترام والی مہمان نوازی آئی گجرات کے لوگ مہمان نوازہونے کے ساتھ ملنساربھی ہوتے ہیں۔ ہماراکھانا وارسا کے وسط میں لاہور ریسٹورنٹ پر رکھاگیاتھا۔ ایک یورپی ملک میں لاہورسے محبت دیکھ کردل سے آواز آئی کہ واقعی لاہور لاہو رہے اور اِس کا کوئی ثانی نہیں۔ لاہور ریسٹورنٹ پر ایشیائی کے ساتھ یورپی کھانے بھی ہیں اِس بڑی ضیافت میں دوران طعام تبادلہ خیال بھی ہوتا رہا۔
پولینڈ کوئی امیر ملک نہیں اسی لیے یہاں تارکینِ وطن زیادہ کشش محسوس نہیں کرتے ملازمت کے مواقع کم ہیں اور جوہیں وہ بھی اِس بناپر زیادہ اہم نہیں سمجھتے جاتے کہ تنخواہیں قلیل ہیں اسی لیے تارکین ِ وطن کی پولینڈکے بعد اگلی منزل یورپ کے دیگر امیر ممالک فرانس ، جرمنی، بیلجئم ، سوئس اور اسکنڈے نیوین ہوتی ہے جہاں پُرکشش تنخواہیں ملتی ہیں ۔اِس کے باوجود پاکستانیوں ،بھارتیوں ،بنگلہ دیشیوں کی تعدادمحتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ اِس کی شاید بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے تعلیمی اِدارے غیر ملکی طلباکوداخلے دیتے وقت نہ صرف فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ سفارتخانے بھی ویزہ دیتے وقت غیر ضروری اعتراضات نہیں لگاتے۔ دورانِ تعلیم اور بعد میں یہ ملک رہنے اور ملازمت دینے میں کافی نرمی اور رحمدلی سے کام لیتا ہے۔ اِسی بناپرتوپولینڈ کو تارکینِ وطن یورپ میں داخلے کے لیے گیٹ وے کہتے ہیں۔